نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لیے آتا ہے
مجھے کوئی ایک ہی حدیث ایسی دکھلاؤ کہ جو صحیح ہو اور جو مسیح کا خاکی جسم کے ساتھ زندہ اٹھایا جانا اور اب تک آسمان پر زندہ ہونا ثابت کرتی ہو اور تواتر کی حد تک پہنچی ہو اور اس مقدار ثبوت تک پہنچ گئی ہو جوعند العقل مفید یقین قطعی ہو جاوے اور صرف شک کی حد تک محدود نہ رہے۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۸۸)
طبرانی اور حاکم حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت کرتے ہیں کہ (عیسیٰ علیہ السلام) ایک سو بیس برس تک زندہ رہا۔ اسی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ عیسیٰ سے میری عمر آدھی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فوت نہیں ہوئے تو غالباً ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اب تک زندہ ہی ہوں گے۔
(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۹۱۔۳۹۲)
اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں۔ صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ کسی حدیث مرفوع متّصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد شہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اُترے ہیں اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اُترا ہے۔ اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا کوئی وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤگے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے۔ اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور توبہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہوگا۔ جس طرح چاہیں تسلی کر لیں۔
(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۲۵ تا ۲۲۶،حاشیہ)