اسلام کی عفو کی تعلیم اپنے اندر گہری حکمت رکھتی ہے
جہاں تک کسی کے لیے استغفار کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں بھی قرآن و سنت نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے کہ ایسے مشرکین اور منافقین جن کے متعلق یہ واضح ہو جائے کہ وہ خدا کے دشمن اور یقیناً جہنمی ہیں ان کے لیے استغفار نہ کیا جائے(سورۃ التوبہ:۱۱۳)۔اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ان کے والد کے عدو اللہ ہونے کی خبر دی تو آپ اس کے لیے استغفارکرنے سے دست بردار ہو گئے۔ (سورۃ التوبہ:۱۱۴)
….در اصل اسلام کی عفو کی تعلیم اپنے اندر ایک ایسی گہری حکمت رکھتی ہے جس سے پہلے مذاہب کی تعلیمات عاری تھیں۔لہٰذا اسلام اپنے ہر دشمن کے لیے جب تک کہ اس کے اصلاح پانے کی امید باقی ہو، ہدایت کی دعا کرنے اور اس کی تربیت کے لیے کوشش کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ جنگ احد میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا اورحضورﷺ بھی زخمی ہو گئے تو کسی نے حضورﷺ کی خدمت میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعا کرنے کی درخواست کی تو آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس نے مجھے خدا کا پیغام دینے والا اور رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اللہ کے حضور یہ دعا کی کہ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دےدے کیونکہ وہ (میرے مقام اور اسلام کی) حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی فصل في حدب النبي صلى اللّٰه عليه وسلم على أمته ورأفته بهم۔ حدیث نمبر ۱۴۲۸)
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے اللہ کے حضور یہ التجا کی کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ(اسلام اور میرے مقام کی) لاعلمی کی وجہ سے اسلام کی مخالفت کر رہی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الغار۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر ۵۵۶۲ )
پس اسلام اپنے متبعین کو تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے لیے بلا امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل رحم کے جذبات سے پُر ہوں، ان کی ہدایت اورروحانی ترقی کے لیے ہر دم کوشش کرتے رہیں اور دنیاوی معاملات میں بھی ان سے ہمدردی کو اپنے پیش نظر رکھیں۔ اور سوائے ان مشرکوں، منافقوں اور خدا کے دشمنوں کے جن کے جہنمی ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مہر ثبت فرما دی ہو، باقی لوگوں کے لیے استغفار کرنے والے ہوں۔
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۶۶ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍دسمبر ۲۰۲۳ء)