استغفار کے حقیقی معنے
استغفار کے حقیقی معنے یہ ہیں کہ ہر ایک لغزش اور قصور جو بوجہ ضعفِ بشریت انسان سے صادر ہو سکتی ہے اس امکانی کمزوری کو دُور کرنے کے لئے خدا سے مدد مانگی جائے تا خدا کے فضل سے وہ کمزوری ظہور میں نہ آوے اور مستور و مخفی رہے۔ پھر بعد اس کے استغفار کے معنے عام لوگوں کے لئے وسیع کئے گئے اور یہ امر بھی استغفار میں داخل ہوا کہ جو کچھ لغزش اور قصور صادر ہو چکا خدا تعالیٰ اس کے بدنتائج اور زہریلی تاثیروں سے دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے۔ پس نجات حقیقی کا سرچشمہ محبت ذاتی خدائے عزّوجلّ کی ہے جو عجزو نیاز اور دائمی استغفار کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۷۹۔۳۸۰)
ہر ایک نبی کی یہ مراد تھی کہ تمام کفار ان کے زمانہ کے جو ان کی مخالفت پر کھڑے تھے مسلمان ہو جائیں۔ مگر یہ مراد ان کی پوری نہ ہوئی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبیﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ۔(الشعراء:۴)یعنی ’’کیا تو اس غم سے اپنے تئیں ہلاک کر دےگا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانکاہی اور سوزوگداز سے دعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرتﷺ اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لاپروا ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اور ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی (علیہ السلام)! جس قدر تُو عقد ہمت اور کامل توجہ اور سوزوگداز اور اپنی روح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہے تیری دعاؤں کے پُر تاثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے لیکن شرط قبولیت دعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لاپروا اور گندی فطرت کا انسان نہ ہو ورنہ دعا قبول نہیں ہو گی۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۲۶)