نظام خلافت اور اس کے استحکام کے حوالے سےاحبابِ جماعت سے توقعات (ازافاضات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) (قسط دوم۔آخری)
احمدیوں کو اپنے جائزے لینے کی تلقین
حضور انور ایدہ اللہ افرادِ جماعت کو اپنے جائزے لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ساتھ وابستہ انعامات کے حصول کے لئے جن باتوں اور جن کاموں کے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے اس کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے معیار کیا ہیں؟ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری عبادتیں کیسی ہیں؟ ہماری نمازوں کے قیام کیسے ہیں؟ ہمارا ہر قول و عمل شرک سے پاک ہے یا نہیں؟ ہماری مالی قربانیوں کے معیار کیا ہیں؟ ہماری اطاعت کے معیار کس درجہ کے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح چاہتے ہیں ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہیں یا نہیں؟ اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس معیار پر اپنے سلسلہ کے ماننے والوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہم اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟(خطبہ جمعہ ۲۵؍ مئی ۲۰۱۸ء)پھر فرمایا:پس ہر احمدی کا ہر لمحہ جہاں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں گزرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے وہاں اپنے جائزے لیتے ہوئے بھی گزرنا چاہیے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کر رہے ہیں؟ اور جب اس سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور پھر اپنے عملوں کو بھی اس کے مطابق کریں گے اور خلافت کے قائم رہنے کے لیے دعائیں بھی کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بھی بنتے چلے جائیں گے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو تسلی بھی دی کہ خلافت کا نظام جاری رہے گا اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو جو خوشخبریاں دی ہیں وہ ضرور پوری ہوں گی اگر ہم ان شرائط کو پورا کرنے والے ہیں۔(خطبہ جمعہ ۲۸؍ مئی ۲۰۲۱ء)
خلیفہ ٔوقت سے تعلق تائید الٰہی کی فعلی شہادت ہے
نظامِ خلافت کے قیام کے لیے خلیفہ وقت اور افرادِ جماعت کے باہم ارادت اور مودّت کو اہم جزو قرار دیتے ہوئے حضور انور فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے مطابق آپؑ کی وفات کے بعد خلافت کا نظام جاری ہوا اور صرف نظام کا جاری ہونا ہی کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک خلیفۂ وقت اور افرادِ جماعت کے درمیان اخلاص و وفا اور ارادت و مودّت کا تعلق نہ ہو اور یہ تعلق اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرسکتا ہے۔ کوئی انسان یا انسانی کوشش اس تعلق کو نہ پیدا کر سکتی ہے نہ قائم رکھ سکتی ہے اور جماعت کی اکائی اور وحدت اور ترقی کی ضمانت یہی تعلق ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت اور سلسلہ احمدیہ کے سچے ہونے کی دلیل ہے۔ خلافت کے ساتھ افرادِ جماعت کا جو تعلق ہے جس میں پرانے احمدی بھی شامل ہیں اور نئے آنے والے بھی، نوجوان بھی اور بچے بھی، مرد بھی اور عورتیں بھی، دور دراز رہنے والے احمدی بھی جنہوں نے کبھی خلیفۂ وقت کو دیکھا بھی نہیں ہے سب شامل ہیں لیکن یہ سب لوگ جو ہیں اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ہیں اور بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خلیفۂ وقت کا پیغام پہنچے تو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت اور تعلق کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے کی فعلی شہادت ہیں اور جماعت کی ترقی بھی اس تعلق سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا جو جماعت کو خلافت سے تعلق ہے اور خلیفۂ وقت کو جماعت سے ہے یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کا ثبوت ہے اور یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ایسے واقعات ہیں جہاں افرادِ جماعت اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ان واقعات کو جمع کیا جائے تو بے شمار ضخیم جلدیں اس کی بن جائیں گی۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۹؍ مئی ۲۰۲۰ء)
خلافت احمدیہ سےمنسلک ہونا ایک احمدی پر کیا ذمہ داری عائد کرتا ہے؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیت استخلاف کے حوالے سے احبابِ جماعت کے نظامِ خلافت سے منسلک ہونے کی اہمیت و برکات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خلافتِ احمدیہ سے منسلک ہونا ہر احمدی پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اگر ہم اس ذمہ داری کو ادا کریں گے تو تبھی ہم اس احسان کا حق ادا کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہم پرکیا۔ یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں اس میں جہاں اللہ تعالیٰ نے تمکنت عطا فرمانے، خوف کی حالت سے امن میں آنے کا وعدہ کیا ہے وہاں یہ وعدہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ مضبوط ایمان والے ہو، نیک اعمال بجا لانے والے بنو، عبادت کا حق ادا کرنے والے ہو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والے نہ ہو، کسی بھی قسم کا شرک کا پہلو تمہارے اندر نہ ہو اور ان چیزوں کے حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز بہت ضروری ہے۔ نماز جو اللہ تعالیٰ نے عبادت کا طریقہ بتایا ہے، ان نمازوں کی ادائیگی کرنے والے بنو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بہت ضروری ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے بنو اور رسولؐ کی اطاعت انتہائی ضروری ہے۔ ان کے ہر حکم کو ماننے والے بنو۔
پس یہ باتیں جب ہم یاد رکھیں گے اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے، اپنا عہد جو ہم نے کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اس پر حقیقی روح کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہی ہم اللہ تعالیٰ کے ان انعاموں سے حصہ لینے والے ہوں گے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور تبھی ہم خلافت کے انعام سے حقیقی فیض پانے والے ہوں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۸؍ مئی ۲۰۲۱ء)
خلافت خامسہ میں ترقیٔ احمدیت کے نظارے
احمدیت کی ترویج و اشاعت خدائی وعدوں کا نتیجہ ہے اور خود خدا لوگوں کی راہنمائی فرماتا ہے۔ یہ بھی خلافت کے ساتھ ایک تائید الٰہی کا ثبوت ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ خلافتِ خامسہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات و نصرت کے نظارے دکھائے۔ ایم ٹی اے میں ہی اسلام کا پیغام پہنچانے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے نئے نئے راستے کھلنے کا انتظام ہوا۔ ایک کے بجائے ایم ٹی اے کے سات آٹھ چینل مختلف زبانوں میں جاری ہوئے۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں مختلف پروگراموں کے ترجمے ہونے شروع ہو گئے۔ دنیا کے ہر کونے تک جہاں پہلے ایم ٹی اے نہیں جا رہا تھا وہاں بھی ایم ٹی اے پہنچ گیا اور وہاں کی اپنی زبان میں ان لوگوں، ان ملکوں اور ان علاقوں کے رہنے والوں کو احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچنے لگ گیا جس سے لاکھوں سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے اور ریڈیو پروگراموں کے علاوہ خود بھی لوگوں کی راہنمائی فرمائی اور لوگوں کو خوابوں کے ذریعہ اور مختلف لٹریچر کے ذریعہ احمدیت کے پیغام کو قبول کرنے کی توفیق دی۔ ہم جب احمدیت کی تاریخ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کو ماننے کی طرف آپ کے زمانے میں بھی راہنمائی فرماتا تھا۔ پھر یہی سلسلہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے زمانے میں بھی جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ خود راہنمائی فرماتا رہا۔ پھر اَور سعید روحیں جو تھیں وہ جماعت میں شامل ہوتی رہیں۔ پھر خلافتِ ثانیہ میں بھی بہت سے ایسے واقعات ہیں۔ پرانے خاندانوں میں، ان کے گھروں میں یہ روایات چل رہی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے بڑوں کو حق قبول کرنے کی توفیق دی۔ پھر خلافتِ ثالثہ میں بھی یہ سلسلہ نظر آتا ہے۔ خلافتِ رابعہ میں بھی سعید روحوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے احمدیت کے قبول کرنے کی طرف راہنمائی ہوئی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام سے وعدوں کا نتیجہ تھا۔ اس طرح ہر خلافت کے دور میں جماعت بڑھتی رہی۔ خلافت خامسہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے یہی سلوک ہیں۔ اللہ تعالیٰ تبلیغ کے نئے نئے راستے بھی کھولتا جا رہا ہے اور لوگوں کے دلوں کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو جو اسلام کا حقیقی پیغام ہے سننے اور قبول کرنے کی طرف مائل کرتا چلا جارہا ہے۔ ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو خالص تائیدِ الٰہی کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں ورنہ صرف انسانی کوششوں سے کبھی اس طرح لوگ قبول نہ کریں۔(خطبہ جمعہ ۲۷؍ مئی ۲۰۲۲ء)
جماعت ترقی کے دن دیکھے گی
ایک بار پھر حضور انور ایدہ اللہ دشمن کے پہلے ناکام ہونے کی مثال دیتے ہوئے اس کے آئندہ بھی ناکام رہنے کے بارےمیں پر یقین نظر آتے ہیں۔ اور خلافتِ احمدیہ کی کامیابی پر پر یقین ہیں اور افرادِ جماعت کو یقین دلاتےہیں۔ فرماتے ہیں کہ’’پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ لوگ جو خلافت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہیں اور بد قسمت ہیں وہ جو خلافت احمدیہ کو کسی دَور تک محدود کرنا چاہتے ہیں یا یہ سوچ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ کی طرح ناکامی اور نامرادی دیکھیں گے۔ جیساکہ جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔ جو مخالفین تھے انہوں نے خلافتِ اولیٰ یا خلافتِ ثانیہ کے انتخاب کے وقت ناکامیاں دیکھیں… پس اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ اور ترقی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کیے ہوئے ہیں، جن باتوں کے پورا ہونے کا اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بتایا ہوا ہے وہ ان شاءاللہ تعالیٰ ضرور پوری ہوں گی، وہ وعدے ضرور پورے ہوں گے۔ اسلام کے غلبہ کے دن جماعت ان شاء اللہ دیکھے گی۔ جماعت کی ترقی کے دن جماعت دیکھے گی۔ ان شاء اللہ۔ جو لوگ خلافت سے جڑے رہیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۷؍ مئی ۲۰۲۲ء)
اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت خلافت احمدیہ کے ساتھ ہے
پھر حضور انور ایدہ اللہ خلافت خامسہ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ’’حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابعؒ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے چوتھے خلیفہ کے مقام پر فائز فرمایا اور پھر آپؒ کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مقام پر متمکن فرمایا اور … حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق جماعت کو ترقی کی راہوں پر گامزن رکھا۔اس عرصے میں دشمن نے جماعت میں تفرقہ ڈالنے، اسے ختم کرنے، خوفزدہ کرنے کی بےشمار کوششیں کیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیوں کو شہید کیا گیا، دنیاوی لالچ دیے گئے لیکن اللہ تعالیٰ احمدیوں کو خلافت سے تعلق اور ایمان اوریقین میں بڑھاتا چلا گیا۔ چاہے وہ ایشیا کے احمدی ہیں یا یورپ و امریکہ کے یا افریقہ کے، ہر ایک کا خلافت سے جو تعلق ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پیدا فرما سکتا ہے۔ کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایسی محبت اور اخلاص کا تعلق پیدا کرے جو افراد جماعت کو خلافت سے ہے اور خلیفۂ وقت کو جماعت سے ہے۔ میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں وہاں یہ نظارے دیکھنے میں نظر آتے ہیں اور یہ صرف کہنے کی باتیں نہیں ہیں بلکہ آج کل تو کیمرے کی آنکھ ان کو محفوظ کر لیتی ہے۔ ایم ٹی اے یہ نظارے دکھاتا رہتا ہے اور ان کو دیکھ کر مخالف بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے۔
اور پھر ہزاروں خطوط ہیں جو ہر مہینے مجھے آتے ہیں۔ اس بات کے اظہار کے لیے کہ لکھنے والوں کا کس قدر جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ خود لوگوں کو کس طرح خلافت کے ساتھ جوڑتا ہے اور کس طرح ان کے دلوں میں خلافت سے محبت اور تعلق پیدا کر دیتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ ۲۶؍ مئی ۲۰۲۳ء)
خلافت کے علی منہاج النبوة کا یقین
گذشتہ سال کے یومِ خلافت پر حضور انور ایدہ اللہ نے ایک بار پھر بڑی تحدی سے اس بات کا اعلان کیا کہ خلافتِ احمدیہ تاقیامت چلے گی اور کسی دشمن کی میلی آنکھ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ حضور انور فرماتے ہیں کہ’’خلافت کے ساتھ برکات کے جاری رہنے کا جو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے وعدہ ہے وہ ایسے عجیب عجیب رنگ میں پورا ہو رہا ہے کہ انسانی سوچ اس کا احاطہ بھی نہیں کر سکتی۔ اپنوں اور غیروں کے یہ واقعات اور اللہ تعالیٰ کے نشانات خلافت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آکر دنیا کو امت واحدہ بنانا تھا اس کی سچائی کا ثبوت نہیں ہے تو اَور کیا ہے! یہ صرف جماعت احمدیہ ہے جو خلافت کے نظام کے تحت آج ساری دنیا میں اسلام کی ترقی اور تبلیغ کا کام کر رہی ہے اور جو ترقیات ہم نامساعد حالات کے باوجود دیکھ رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کا ثبوت ہی تو ہیں۔ اگر نہیں تو اَور کیا ہے! لیکن جس کی آنکھیں اندھی ہیں اس کو نظر نہیں آتا اور نہ آ سکتا ہے۔
ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے شروع ہو گی اور تا قیامت چلے گی۔ ہمیشہ قائم رہے گی اور کوئی دشمن اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے ایمانوں میں مزید جلا پیدا کریں اور خلافت احمدیہ سے اپنے آپ کو جوڑے رکھیں اور اس کے قائم رکھنے کے لیے کسی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۲۶؍ مئی ۲۰۲۳ء)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس امانت کی حفاظت کرنے والا بنائے اور حضور انور ایدہ اللہ کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین