خلافت احمدیہ دائمی ہے (قسط دوم۔ آخری)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں خلافت کے دائمی ہونے کا تذکرہ
’’خلافت عارضی ہے یا مستقل‘‘ اس عنوان کے تحت حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اعلان روزنامہ الفضل لاہور کے ۳؍اپریل ۱۹۵۲ء کے شمارہ میں اس طرح شائع ہوا:’’عزیزم مرزا منصور احمد[ہمارےموجودہ اِمام ہُمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے والد گرامی۔ ناقل] نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی۔ جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے۔ میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا۔ اس خط کی بناء پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارے میں پیش نہیں کی گئی۔
مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا بلکہ رسول کریم ﷺ کے بعد کے حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے۔ اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے۔ سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی۔ یہ امر کہ رسول کریمﷺ کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مُستبدّہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہو گیا۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا۔ قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے۔ پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسے ملتا رہے گا۔ پس جہاں تک مسئلہ اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے۔ لیکن اس اصل سے ہر گز یہ بات نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیحؑ کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیحؑ کی امت نہیں۔ پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰؑ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی اسی طرح گو رسول کریم ﷺ کے بعد خلافت محمدیہ تواتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عرصہ تک چلتی چلی جائے گی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کہ تکمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے جن سے بعض ابتلا ملے ہوتے ہیں ان میں علاقۂ محمدیت علاقہ موسویت پر غالب ا ٓجاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکا یا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی۔ خلافت چونکہ ایک انعام ہے ابتلا نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیحؑ اول کی امت کو ملیں کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں۔
پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بےکار ہے بلکہ خطر ناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کر دیں۔ وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصے تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جا سکتا اور اگر خدا نخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہو گا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہو گا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرونِ اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا۔ وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں تھا۔‘‘(الفضل، ۳۔اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۳، جلد ۶/۴۰، نمبر ۸۱)
حضرت مصلح موعودؓ سورۃ النور میں آیتِ استخلاف کی تفسیر کرتے ہوئے بیا ن فرماتے ہیں:’’محمد رسول اللہ ﷺکے تیرہ سو سال کے بعدا للہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور اس طرح اُس تابع نبوت کا جو رسول کریم ﷺ کی شان کے مناسب حال امتی نبوت ہے دروازہ کھو ل دیا۔اور آپ کے ذریعہ اُس نے پھر آپ کے ماننے والوں میں خلافت کو بھی زندہ کر دیا۔چنانچہ یہ سلسلۂ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد شروع ہوا اور خلافتِ ثانیہ تک ممتد رہا۔اور اگر جماعت احمدیہ میں ایمان بالخلافت قائم رہا اور وہ اس کو قائم رکھنے کے لئے صحیح رنگ میں جدوجہد کرتی رہی تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ وعدہ لمبا ہوتا چلا جائے گا مگر جماعت احمدیہ کو ایک اشارہ جو اس آیت میں کیا گیا ہے کبھی نہیں بھولنا چاہیے اور وہ اشارہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔جس طرح ہم نے پہلوں کو خلیفہ بنایا اُسی طرح تمہیں خلیفہ بنائیں گے یعنی خلافت کو ممتد کرنے کے لئے پہلوں کے طریق انتخاب کو مدنظر رکھو۔اور پہلی قوموں میں سے یہودیوں کے علاوہ ایک عیسائی قوم بھی تھی جس میں خلافت بادشاہت کے ذریعہ سے نہیں آئی بلکہ اُن کے اندر خالص دینی خلافت تھی۔پس کَمَا اَسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ میں پہلوں کے طریق انتخاب کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔آپ کا الہام ہے ’’کلیسیا کی طاقت کا نسخہ‘‘(تذکرہ صفحہ ۶۰۷) یعنی کلیسیا کی طاقت کی ایک خاص وجہ ہے اس کو یاد رکھو۔گویا قرآن کریم نے کَمَا اَسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کے الفاظ میں جس نسخہ کا ذکر کر دیا تھا۔الہام میں اس کی طرف اشارہ کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ جس طرح وہ لوگ اپنا خلیفہ منتخب کرتے ہیں اسی طرح یا اس کے قریب قریب تم بھی اپنے لئے خلافت کے انتخاب کا طریقہ ایجاد کرو۔چنانچہ اس طریق سے قریبًا انیس سو سال سے عیسائیوں کی خلافت محفوظ چلی آتی ہے۔عیسائیت کے خراب ہونے کی وجہ سے بےشک انہیں وہ نور حاصل نہیں ہوتا جو پہلے زمانوں میں حاصل ہوا کرتا تھا مگر جماعت احمدیہ اسلامی تعلیم کے مطابق اس قانون کو ڈھال کر اپنی خلافت کو سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک کے لئے محفوظ کر سکتی ہے۔چنانچہ اسی کے مطابق میں نے آئندہ انتخاب خلافت کے متعلق ایک قانون بنا دیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمدیہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جدوجہد کرتی رہی تو خداتعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ خلافت قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکے گا۔‘‘(تفسیر کبیر، جلد۶ صفحہ ۳۹۰ ایڈیشن۲۰۰۴ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد خلافت کے دائمی ہونے کی بابت
مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے ا یوان محمود ربوہ میں محترم صاحبزادہ مرزاطاہر احمد صاحب (جو تین سال تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت میں گراں قدر خدمات انجام دینے کے بعد انصار اللہ میں شامل ہو رہے تھے۔ ان) کے اعزاز میں۱۹۶۹ء کو ایک الوداعی دعوت دی گئی۔اس بابرکت تقریب میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی شمولیت فرمائی۔ اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے تقریر کا آغاز یوں فرمایا:’’ حضرت مسیح موعودعلیہ ا لصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو ایک عظیم وعدہ یہ بھی دیا ہے کہ حضور علیہ ا لسلام کے وصال کے بعد جماعت احمدیہ اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی قیامت تک اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رسالہ الوصیت میں اسے قدرت ثانیہ یعنی خلافت حقہ قرار دیا ہے۔ چونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک مجسم قدرت ہوں۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آ پ بہرحال انسان ہیں۔ ایک وقت میں آپ نے اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے۔ کیا آپ کی وفات کے بعد جماعت اس مجسم قدرت سے محروم ہوجائے گی۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ نہیں جماعت اس سے محروم نہیں ہوگی۔آپ نے اس خوف کو دور کرنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت سنائی کہ میرے بعد بھی جماعت میں اللہ تعالیٰ کی قدرتیں اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی رہیں گی اور یہ سلسلہ جب تک کہ جماعت احمدیہ پر قیامت نہیں آجاتی اور روحانی طور پر یہ جماعت مردہ نہیں بن جاتی(والعیاذباللہ) اس وقت تک یہ جماعت خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتی رہے گی۔ ‘‘ (مشعل راہ جلد دوم صفحہ۲۱۰)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
انتخابِ خلافت کے بعد ۱۸؍ جون ۱۹۸۲ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں اپنے دوسرے خطبہ جمعہ کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خلافت کے حوالہ سے خوشخبری دیتے ہوئے بیان فرمایا:’’ اب حمد کا وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کریں آپس میں، اور حمد کے گیت گائیں۔اور میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ وہ آخری بڑے سے بڑاا بتلا ممکن ہو سکتا تھا جو آیا اور جماعت بڑی کامیابی کے ساتھ اس امتحان سے گزر گئی، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے۔ اب آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔ جماعت بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں۔ اور کوئی دشمن آنکھ، کوئی دشمن دل، کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمدیہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی شان کے ساتھ نشوونما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی۔
تو دعائیں کریں، حمد کے گیت گائیں اور اپنے عہدوں کی پھر تجدید کریں اور بار بار اپنے دلوں کے خیالات کو الٹتے پلٹتے رہیں کہ اگر یہ سلسلہ بند ہوجائے نگرانی کا تو کئی قسم کے کیڑے راہ پا جاتے ہیں، کئی قسم کی خرابیاں بیچ میں داخل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے کوئی مقام بھی آخری طور پر اطمینان کا مقام نہیں ہے، یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آخری سانس تک ہم پر راضی ہو، راضی رہے اور جب ہم مریں تو وہ محبت کی نگاہ ہم پر ڈال رہا ہو، نفرت اور غضب کی نگاہ نہ ڈال رہا ہو۔ آمین‘‘(خطبات طاہر، جلد اول، صفحہ ۱۷-۱۸ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍جون ۱۹۸۲ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں خلافت کے دائمی ہونے کا تذکرہ
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍مئی ۲۰۰۵ء میں بیان فرمایا:’’آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت میں شامل لوگوں کی،آپؑ کی وفات کے بعد،خوف کی حالت کو امن میں بدلا اور اپنے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ کو تمکنت عطا فرمائی یعنی اس شان اور مضبوطی کو قائم رکھا جو پہلے تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے یہ ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعودد علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور نبی تھے اور آپ وہی خلیفۃاللہ تھے جس نے چودہویں صدی میں آنحضرت ﷺ پر اتری ہوئی شریعت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا اور آپؑ کے بعد پھر آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کا سلسلۂ خلافت تا قیامت جاری رہنا تھا۔‘‘ (خطبات مسرور، جلد۳، صفحہ ۳۰۷-۳۰۸، خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷ مئی ۲۰۰۵ء)
اسی خطبہ جمعہ میں ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ خلافت احمدیت کے بارے میں مزید بیان فرماتے ہیں: ’’آنحضرت ﷺ نے تو حضرت مسیح موعودؑ کے بعد سلسلۂ خلافت کو ہمیشہ کے لئے قرار دیا ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے۔اب میں اس طرف آتا ہوں،وہ تو ضمنی باتیں تھیں،کہ خلافت جماعت احمدیہ میں ہمیشہ قائم رہنی ہے۔
حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔پھر وہ اس کواٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔پھراس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی۔ جب یہ دورختم ہوگا تواس سے بھی بڑھ کرجابر بادشاہت قائم ہوگی جب تک اللہ چاہے گا۔پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا۔اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہوگی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہوگئے۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الرقاق باب التحذیر من الفتن، الفصل الثالث)
اوریہ جو دوبارہ قائم ہونی تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہونی تھی۔ پس یہ خاموش ہونا بتاتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو سلسلۂ خلافت شروع ہونا ہے یا ہونا تھا،یہ دائمی ہے اور یہ الٰہی تقدیر ہے اور الٰہی تقدیر کو بدلنے پرکوئی فتنہ پرداز بلکہ کوئی شخص بھی قدرت نہیں رکھتا۔
یہ قدرت ثانیہ یاخلافت کا نظام اب انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے اور اس کا آنحضرتﷺ کے خلفاء کے زمانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ تیس سال تھی اور وہ تیس سالہ دور آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق تھا اور یہ دائمی دور بھی آپؐ ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ قیامت کے وقت تک کیا ہونا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن یہ بتا دوں کہ یہ دورِ خلافت آپ کی نسل در نسل در نسل اور بے شمار نسلوں تک چلے جانا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ، بشرطیکہ آپ میں نیکی اور تقویٰ قائم رہے۔ اسی لئے اس پر قائم رکھنے کے لئے میں پہلے دن سے ہی مسلسل تربیتی مضامین پر اپنے خطبات وغیرہ دے رہا ہوں۔
یہ وعدہ یا خبر جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو دی تھی اس کی تجدید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خبر دے کر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’غرض (خداتعالیٰ) دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے (یعنی اَن پڑھ، جاہل، گاؤں کے رہنے والے)اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اُس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ (النور: ۵۶)۔ یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جب کہ حضرت موسٰیؑ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اِس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا… سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعامیں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی۔ اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں۔(اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک وقت میں بہت سارے ہوں گے اس کا مطلب ہے کہ مختلف وقتوں میں آتے رہیں گے)
خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔ اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۴ تا ۳۰۷)
تو دیکھیں کہ کتنا واضح ہے کہ خداتعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں تیرے ماننے والے ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ یہ غلبہ توحید کے قیام اور ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں کسی خاص خاندان میں سے یا کسی خاص ملک میں سے ایسے لوگ کھڑے کروں گا جو دین کے استحکام کے لیے کوشش کریں گے بلکہ فرمایا کہ صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعاؤں میں لگے رہو۔
پس بجائے ہوشیاریاں، چالاکیاں دکھانے کے صالح بنو اور دعاؤں میں لگے رہو تاکہ یہ خلافت کا انعام تم میں ہمیشہ جاری رہے۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ اعزاز قائم رکھنے کے لئے، اگر یہ گزشتہ ۹۷ سال سے کسی خاص ملک کے لوگوں کے حصہ میں آ رہا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے حصہ میں آ رہا ہے تو اس کو قائم رکھنے کے لئے دعاؤں اور نیک اعمال کی ضرورت ہے۔ ورنہ کوئی قوم بھی جو اخلاص اور وفا اور تقویٰ میں بڑھنے والی ہو گی اس عَلم کو بلند کرنے والی ہو گی۔ کیونکہ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ قدرت دائمی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن دائمی قدرت کے ساتھ شرائط ہیں، اعمال صالحہ۔ …
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں کہ جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارے میں بہت سی بھری پڑی ہیں۔ لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولتِ عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرونِ اولیٰ تک محدود رکھا جاوے۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن، جلد ۶، صفحہ ۳۵۵)
پس اس کے بعد کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ہم ان بحثوں میں پڑیں کہ خلافت کب تک رہنی ہے اور کب ملوکیت میں بدل جانی ہے۔ انشاء اللہ نیک اعمال کرنے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور خلافت کا سلسلہ ہمیشہ چلتا رہے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بداندیشی نہیں کہ اسلام کو مردہ مذہب خیال کیا جاوے اور برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جائے۔ شروع سالوں تک جو اسلام کے ابتدائی سال تھے ان تک محدود رکھا جائے۔ اسی طرح یہ بھی بداندیشی ہے کہ یہ کہا جائے کہ پہلی چار خلافتوں کے مقابل پر چار خلافتیں آ گئیں اور بس۔ اللہ تعالیٰ میں صرف اتنی قدرت تھی کہ پہلی خلافت راشدہ کو تقریباً تین گنا کر کے خلافت کے انعام سے نوازے اور اس کے بعد اس کی طاقتیں ختم ہو گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ۔ اور جیسا کہ میں حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے دکھا آیا ہوں کہ اگر کسی کی ایسی سوچ ہے تو غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔ ہاں تم میں سے ہر ایک اپنے عملوں کی فکر کرے۔‘‘(خطبات مسرور، جلد ۳، صفحہ ۳۱۸ تا ۳۲۳،خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍مئی ۲۰۰۵ء)
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ۲۹؍ جون ۲۰۱۲ء میں بیان فرمایا:’’جب ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ مسیح موعودکے بعد دائمی خلافت کا سلسلہ بھی قائم رہنا ہے تو ہمیں اس سے فیض اُٹھانے کے لئے خیرالقرون کے زمانے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کرتے چلے جانا چاہئے۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں وہ روح پھونکنی ہو گی اور پھونکتے رہنا چاہئے کہ ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اگر یہ نہیں ہو گا پھر ہم اُس عمدہ زمانے کی خواہش رکھنے والے نہیں ہوں گے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہے، بلکہ اندھیرے دور میں پھر ڈوبتے چلے جائیں گے۔ پس اس کے لئے کوشش کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔‘‘(خطبات مسرور، جلد۱۰ صفحہ ۳۹۹، خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹۔جون۲۰۱۲ء)ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ مئی ۲۰۱۵ء میں خلافت کے حوالہ سے فرمایا:’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی اس وقت تک جب تک اللہ تعالیٰ چاہے۔ پھر اس کے بعد خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ وہ خلافت قائم ہو گی جو نبی کے طریق پر چلنے والی ہو گی۔ اس کے ذاتی مفادات نہیں ہوں گے۔ وہ نبی کے کام کو آگے بڑھانے والی ہو گی۔ لیکن ایک عرصے کے بعد یہ خلافت جو راشد خلافت ہے ختم ہو جائے گی۔ یہ نعمت تم سے چھینی جائے گی۔ پھر ایسی بادشاہت قائم ہو جائے گی جس سے لوگ تنگی محسوس کریں گے۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت ہو گی۔پھر اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔(مسند احمد بن حنبل، جلد ۶، صفحہ ۲۸۵، مسند النعمان بن بشیر، حدیث: ۱۸۵۹۶، عالم الکتب، بیروت، ۱۹۹۸ء)
ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اسلام کی تاریخ میں مختلف ادوار میں آنے والے مسلمان سربراہان حکومت اپنے آپ کو خلفاء کہلاتے رہے۔ یہ بتاتے رہے کہ ان کا مقام خلیفہ کا مقام ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے جو پہلے چار خلفاء ہیں ان کو ہی خلفائے راشدین کا مقام دیتی ہے۔ انہی کا دور خلافت راشدہ کا دَور کہلاتا ہے۔ یعنی وہ دَور جو ہدایت یافتہ اور ہدایت پھیلانے والا دَور تھا جو اپنے نظام کو اس طرح چلاتے رہے جس طرح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چلاتے دیکھا۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق اس نظام کو چلایا۔ خاندانی بادشاہت نہیں رہی بلکہ مومنین کی جماعت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کی رداء انہیں پہنائی۔ لیکن ان کے علاوہ باقی خلفاء خاندانی بادشاہت کو ہی قائم رکھتے رہے اور حرف بہ حرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ جب پہلی دو باتوں میں یہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی تو جو آخری بات آپ نے بیان فرمائی اس میں بھی ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول نے ہی پورا ہونا تھا کہ اس دنیا داری اور مسلمانوں کے بگڑے ہوئے حالات کو دیکھ کر وہ خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تاقیامت قائم رہنے والی شریعت کے ساتھ بھیجا تھا اس کا رحم جوش مارتا اور خلافت علی منہاج نبوت کو دنیا میں دوبارہ قائم فرماتا۔ اور ہم احمدی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے وعدے کے مطابق اپنے رحم کو جوش دلایا۔
اس کا رحم جو ش میں آیا اور ہمارے آقا و مولیٰ کی بات کو پورا فرماتے ہوئے مسیح موعود اور مہدی معہود کے ذریعہ خلافت علی منہاج نبوت کو قائم فرمایا۔ آپ کو جہاں امّتی نبی ہونے کا مقام عطا فرمایا وہاں خاتم الخلفاء کے مقام سے بھی نوازا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلۂ خلافت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق اور خاتم الخلفاء کے ذریعہ سے ہی جاری ہونا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوشخبری سے حصہ پانے والوں میں شامل ہیں جو آپ نے خلافت علیٰ منہاج نبوت کے قیام کی ہمیں عطا فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ جمعہ کی آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ:۴) کی وضاحت میں جن بعد میں آنے و الوں کو پہلوں سے ملایا تھا ان میں ہم شامل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جس پیارے کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ ایمان ثریّا سے زمین پر لے کر آئے گا۔(صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ باب قولہ وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ۴۸۹۷) ہمیں اس کے ماننے والوں میں شامل فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسیح و مہدی کو اپنا سلام پہنچانے کے لئے کہا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۳صفحہ۱۸۲ مسند ابی ہریرۃ حدیث:۷۹۵۷ عالم الکتب بیروت ۱۹۹۸ء) ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ یہ فرض ادا کرنے والوں میں شامل ہوں اور پھر جماعت احمدیہ مبائعین پر یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آپ کے بعد جاری سلسلۂ خلافت کی بیعت میں بھی شامل فرمایا۔
پس اللہ تعالیٰ کے یہ تمام فضل ہر احمدی سے تقاضا کرتے ہیں کہ اس کا شکر گزار بنتے ہوئے اپنی حالتوں میں وہ تبدیلی لائیں جو اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ کے ماننے والوں کا فرض ہے۔ تبھی اس بیعت کا حق ادا کر سکیں گے۔ مسیح موعود اور مہدی معہود نے ایمان کو ثریا سے زمین پر لانا تھا اور اپنے ماننے والوں کے دلوں کو اس سے بھرنا تھا اور ہر احمدی یقیناً اس بات کا گواہ ہے کہ آپ نے یہ کام کر کے دکھایا۔ لیکن اس ایمان کا قائم کرنا صرف آپ کی زندگی تک محدود نہیں تھا یا چند دہائیوں تک محدود نہیں تھا بلکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت علیٰ منہاج نبوت کی خوشخبری دے کر خاموشی اختیار کی تو پھر اس کا مطلب تھا کہ اس ایمان کو تاقیامت زمین پر اپنی شان و شوکت سے قائم رہنا ہے اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شمار کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ اس ایمان کو اپنے دلوں میں بٹھا کر اس پر ہمیشہ قائم رہے۔ یہ ان ماننے والوں کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے طریق پر چلنے والے نظام خلافت کے ساتھ جُڑ کر اس ایمان کے مظہر بنتے ہوئے اسے دنیا کے کونے کونے میں پھیلائیں اور توحید کو دنیا میں قائم کریں۔ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اور اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے غلامِ صادق کو بھیجا ہے۔ اور اسی کام کی سرانجام دہی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے تاقیامت رہنے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو اپنے اس دنیا سے جانے کی غمناک خبر کے ساتھ یہ خوشخبری بھی دی تھی اور فرمایا تھا کہ’’ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اب ممکن نہیں کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے‘‘۔ فرمایا ’’کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا‘‘۔(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ۳۰۵)
پس ایمان کو زمین پر قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اس دوسری قدرت کو جاری فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ مخالفینِ دین خوش ہوں کہ دین دوبارہ دنیا سے ختم ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ شیطان دندناتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی جھوٹی خوشیوں کو پامال کرنا ہے۔ اس لئے اس نے ایمان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت کی مدد کرتے ہوئے دنیا میں قائم رکھنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا بھی فرض قرار دیا ہے جو اس نظام سے جڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ایمان کو دنیا میں قائم رکھنے کے لئے خلافت کے مددگار بنیں اور اپنے عہد بیعت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مصمّم ارادہ کریں کہ ہم نے اپنے ایمان کی بھی حفاظت کرنی ہے اور دوسروں کو بھی ایمان کی روشنی سے آشکار کرنا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنّت ہے کہ وہ دو قدرتیں دکھلاتا ہے اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دوسری قدرت نظام خلافت ہے۔ پس نظام خلافت کا دینی ترقی کے ساتھ ایک اہم تعلق ہے اور شریعت اسلامیہ کا یہ ایک اہم حصہ ہے۔ دینی ترقی بغیر خلافت کے ہو ہی نہیں سکتی۔ جماعت کی وحدت خلافت کے بغیر قائم رہ ہی نہیں سکتی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے ہر ایک جو خلافت سے وابستہ ہے اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ خلافت کا جماعت میں جاری رہنا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد ۱۳ صفحہ ۳۲۹تا ۳۳۲ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍مئی ۲۰۱۵ء)
ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍مئی ۲۰۱۸ء میں بیان فرمایا:’’قرآن کریم سے بھی ہمیں واضح ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ احادیث سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ دائمی خلافت ہے۔ اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بڑی کھول کر وضاحت فرمائی کہ میرے بعد خلافت ہو گی اور ہمیشہ رہے گی۔ لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمانوں کو یہ بھی واضح فرما دیا کہ خلافت کے وعدہ سے فیض اٹھانے کے لئے، اس کے انعام سے حصہ لینے کے لئے اپنی حالتوں کو بدلنا ہو گا۔ صرف مسلمان کہلانا، صرف ظاہری ایمان کا اظہار کرنا خلافت کے ایمان کا حقدار نہیں بنا دے گا۔ پس اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ نصیحت فرماتا ہے کہ عبادت کا حق ادا کرنے کے لئے، شرک سے بچنے کے لئے نمازوں کو قائم کرو۔ زکوٰۃ ادا کرو، رسول کی اطاعت کرو تبھی تم اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کر سکتے ہو۔‘‘ (خطبات مسرور جلد ۱۶ صفحہ ۲۳۵ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍مئی ۲۰۱۸ء)
خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍مئی ۲۰۲۲ء میں ہمارے پیارے اِمام ہمام بیان فرماتے ہیں:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم و ستم کے دَور کو ختم کرنے کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ ان لوگوں کے لیے تھی جو خاتم الخلفاء مسیح موعود اور مہدی معہود کی بیعت میں آئیں گے اور اس کی تعلیم کے مطابق اس پر عمل کریں گے۔اللہ تعالیٰ نے تو انتظام فرما دیاہے۔ اگر لوگ اس انتظام کے تحت نہ آئیں، اپنی ضد پر قائم رہیں تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے اور نکلا ہے جو آج کل مسلمان دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی عقل اور سمجھ دے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی پہچان کرنے والے ہوں نہ کہ انکار کر کے مسیح موعود کی جماعت پر ظلم اور تعدی میں بڑھنے والے ہوں۔ بہرحال یہ بھی واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنے کے بعد پھر خاموش ہونا کہ تم میں خلافت علیٰ منہاجِ نبوت آخری زمانے میں قائم ہو گی اس بات کا اظہار ہے کہ یہ ایک لمبا عرصہ چلنے والا نظام ہے۔
یہ جو بعض لوگ بعض باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ باتیں کرتے ہیں کہ اس خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ یہ نظام بھی جلد ختم ہو جائے گا یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو نظام خلافت ہے۔ یہ سب لوگ غلطی خوردہ ہیں۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ یہ نظام جاری رہنے والا نظام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں وہ پورے ہونے والے ہیں اور زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن خدائی وعدوں کو پورا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بہرحال اس بات کی وضاحت کہ یہ نظامِ خلافت جاری رہنے والا نظام ہےاس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو‘‘ یعنی اپنی وفات کی خبر جو دی۔ ’’اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دےگا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ۳۰۵)
پس آپ کے یہ الفاظ کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور وہ دوسری قدرت یعنی خلافت تم میں قیامت تک قائم رہے گی۔ ایسے لوگ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے جو خلافتِ احمدیہ کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ لوگ جو خلافت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہیں اور بد قسمت ہیں وہ جو خلافت احمدیہ کو کسی دَور تک محدود کرنا چاہتے ہیں یا یہ سوچ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ کی طرح ناکامی اور نامرادی دیکھیں گے۔جیساکہ جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷۔مئی ۲۰۲۲ء)
پس خلافتِ احمدیہ نے تو تاقیامت جاری و ساری رہنا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی اس نعمتِ عظمیٰ سے اپنے پیاروں کو نوازتا چلا جائے گا لیکن ہماری سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ہم خلافتِ احمدیہ کے دست و بازو بنیں۔ ہم اس کے سلطانِ نصیر بنیں۔ ہم اس کے تمام تقاضوں کو ادا کرنے والے ہوں۔ اور ہم میں، ہاں ہم میں ایسے خوش قسمت مقدادؓ پیدا ہوں جو ہر دور میں اپنے امام کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ اے ہمارے جان سے پیارے آقا! دشمن آپ پر آگے سے حملہ آور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو۔ دشمن آپ پر پیچھے سے حملہ آور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو۔ دشمن آپ پر دائیں جانب سے حملہ آور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو۔ دشمن آپ پر بائیں جانب سے حملہ آور نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہم پر حملہ آور نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت کا جاںنثار سپاہی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اس دائمی خلافت کے ساتھ چمٹے رہنے والوں میں شمار ہوں۔ آمین ثم آمین