جماعت احمدیہ کے بارے میں قومی انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ
جماعت احمدیہ کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور واقعات کی نوعیت اور سنگینی نے کمیشن کو مجبور کیا کہ وہ جماعت کی موجودہ صورتحال پر اپنی رپورٹ جاری کرے
٭…کمیشن نے جماعت احمدیہ کی جانب سے دیے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اعداد و شمارکا جائزہ لیا ، جن کی وجہ سے
حیرت انگیز طور پر جماعت احمدیہ کو بڑے پیمانے پر قانونی مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
٭…کمیشن نے احمدیوں سے متعلق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
٭…آئین اور قانون واضح طور پر ہر پاکستانی شہری کو حقوق فراہم کرتا ہے ، جس میں اپنے مذہب پر عمل بھی ہے ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ممکنہ کارروائی عمل میں لائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر مذہبی اقلیت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔
٭…قومی انسانی حقوق کمیشن مسلسل وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اس بات کا مطالبہ کر رہا ہے کہ احمدیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں
٭…احمدیوں کے حوالے سے کمیشن کی جانب سے حکومت پاکستان کو پیش کردوہ چودہ تجاویز
جماعت احمدیہ کے حوالے سے ایک رپورٹ
قومی انسانی حقوق کمیشن ایک آزاد خودمختار ادارہ ہے۔ جس کا قیام قومی انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے ایکٹ ۲۰۱۲ء کے تحت عمل میں آیا۔ اس کمیشن کو آئین پاکستان اورایسی متفرق بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے متعین انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کا کام تفویض کیا گیا ہے جن کا پاکستان بھی حصہ ہے۔ متفرق قانونی امور کے ساتھ اس کمیشن کا کام شہریوں اور پاکستان میں وقتی طور پر موجود ہر شخص کے انسانی حقوق کے تحفظ پر نظر رکھنا ہے جن کا آئینِ پاکستان ضامن ہے۔ کسی بھی ایسی نظر ثانی کی بنیاد پریہ کمیشن حکومت پاکستان کو کسی بھی مؤثر قانون سازی یا ان حفاظتی اصلاحات کو لاگو کرنے کی سفارش کرسکتا ہے۔ ان قانونی امور کی انجام دہی کے لیے یہ کمیشن میڈیا رپورٹس اور جماعت احمدیہ کے ممبران کی جانب سے موصول ہونے والی انفرادی شکایت کو دیکھتا رہا ہے۔ کمیشن کو جماعت احمدیہ کی جانب سے احمدیوں کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ان کی مساجد پر ہونے والے حملوں کے متعلق مکمل اعدادوشمار کی معلومات تحریری طور پر فراہم کی گئی ہیں۔ ایسے واقعات بہت سے انسانی حقوق کے مبصرین کو اس بات کی یقین دہانی کرواتے ہیں کہ جماعت احمدیہ اس پاکستان میں سب سے زیادہ ظلم وستم کا نشانہ بننے والی جماعت ہے۔ ان واقعات کی نوعیت اور سنگینی نے کمیشن کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ جماعت کی موجودہ صورتحال پر ایک رپورٹ جاری کرے۔
پس منظر
۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کو حکومت پاکستان نے آرڈیننسXX کو آئین کا حصہ بنا دیا جس کے بعد کچھ خاص مذہبی کاموں کو احمدیوں کے لیے مجرمانہ قرار دے دیا گیا۔ اس قانونی ڈھانچے نے احمدیوں کے لیے خود کو مسلمان کہنا ایک جرم بنا دیا اور اس کی سزا توہین کی دفعات کے ساتھ منسلک کر دی گئی۔ تاہم تب سے ہی باوجود حکومت کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کو آئینی تحفظ کی ضمانت کے احمدیوں کو مسلسل ہراسانی اور ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح ایسی بہت سی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جو احمدیوں کے خلاف پرتشدد ماحول کی موجودگی اور ہجوم کی جانب سے پرتشدد کارروائیاں، قانون کو ہاتھ میں لینے اور اس جماعت کے خلاف جھوٹے توہین کے الزامات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ایسی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں کہ مسلسل جماعت احمدیہ کی مساجد کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح جماعت کے لوگوں کی طرف سے یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ انہیں مقامی قبرستانوں میں اپنے متوفین کی تدفین سے روکا جا رہا ہے جس کے باعث انہیں دور دراز مقامات پر تدفین کے لیے جانا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح پولیس کے احکامات پر احمدی مدفون لوگوں کی قبر کشائی کی رپورٹس بھی مل رہی ہیں اور الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین غیر مناسب عمل ہونے کی وجہ سے یہ کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ ۶؍دسمبر ۲۰۱۲ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں ۱۵؍مسلح افراد نے ۱۲۰؍احمدیوں کی قبروں کو نقصان پہنچایا۔ بہت سے احمدیوں کو کھلے عام واجب القتل قرار دے کے قتل کیا گیا اور احمدیہ جماعت کی کردارکشی نے ایک خوف کی فضا قائم کر دی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بہت سارے احمدی مذہب کی بنیاد پر ہونے والے ظلم و ستم کے باعث بیرون ممالک پناہ حاصل کرتے ہیں۔
قومی انسانی حقوق کمیشن کا ربوہ کا دورہ
جماعت احمدیہ کی جانب سے انتہائی امتیازی سلوک اور ظلم و ستم برداشت کیے جانے کی ان رپورٹس کے موصول ہونے پر کارروائی کرتے ہوئے قومی انسانی حقوق کمیشن نے سچائی کی تلاش کے لیے ۱۷ اور ۱۸؍ستمبر ۲۰۲۳ء کو ربوہ (چناب نگر) پنجاب کا دورہ کیا۔ اس وفد کا بنیادی مقصد تدفین سے روکنے اور عبادت گاہوں پر حملوں کی بھاری تعداد میں موصول ہونے والی رپورٹس کی تحقیق کرنا تھا۔ اس دورے کا دوسرا مقصد ایک ایسی پالیسی بنانا تھا جو کہ جماعت کو درپیش خطرات کو جامع طور پر سمجھنے میں مدد دے۔ قومی انسانی حقوق کمیشن کا مقصد تمام شہریوں اور ان کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر روشنی ڈالنا ہے۔
۱۷؍ستمبر ۲۰۲۳ء کو کمیشن نے صدر انجمن احمدیہ میں جماعت احمدیہ کے بعض عہداداروں سے گفتگو کی۔ اس نشست کے دوران جماعت احمدیہ کے عہداداروں نے ان تمام مسائل پر روشنی ڈالی جن کا انہیں سامنا ہے۔ ان مسائل میں انتخابی عمل میں الگ ووٹر فہرستوں، ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں احمدی طلبہ کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک، پولیس کی جانب سے عدم تعاون کے رویے، نوکریوں اور کام کی جگہوں پر ہونے والے امتیازی سلوک اور قبرستانوں اور مساجد کی بے حرمتی شامل ہیں۔
کمیشن کو جماعت احمدیہ کو موصول ہونے والی دھمکیوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اس میں ڈسکہ میں جماعت احمدیہ کی تاریخی عبادت گاہ کے مینارے مسمار کرنے کی دھمکی کا بھی ذکر تھا۔ یہ تاریخی جگہ تقسیم ِپاکستان سے قبل تحریک پاکستان کی نمایاں شخصیت اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان صاحب نے تعمیر کروائی تھی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے حال ہی میں ایک فیصلہ دیا ہے کہ ۱۹۸۴ء سے قبل تعمیر شدہ احمدیہ مساجد پر بنے مینارے نہ تو ہٹائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ اس واضح عدالتی حکم کے باوجود گذشتہ کچھ عرصے میں بہت سی تاریخی احمدیہ مساجد پر حملے کیے گئے ہیں اور ان کو سنگین نقصان پہنچایا گیا ہے۔
گفتگو کے دوران جماعت احمدیہ کے نمائندوں نے بتایا کہ اس سارے فساد کی اصل جڑ ۱۹۷۴ء میں دوسری آئینی ترمیم ہے جس نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ مزید براں انہوں نے سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی اور مذہبی جذبات کو انگیخت کرنے اور خاص طور پر احمدی نوجواں کو نشانہ بنانے ذکر کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کیسے احمدی نوجوان ہر وقت جذباتی اور نفسیاتی شکست و ریخت کا شکار رہتے ہیں۔
حالیہ واقعات میں جماعت احمدیہ کو بڑے پیمانے پر ملک بھر میں عید الاضحی کے موقع پر سخت ایذارسانی کا نشانہ بنایا گیا۔ نیز نمائندوں نے خاص طور پر احمدیوں کی معاشرے سے بےدخلی،احمدیوں کو ہدف بنانے اوراحمدی خواتین کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کا ذکر کیا۔ یہ امتیازی سلوک ان کی زندگی کے ہر پہلو میں داخل ہے۔ اس میں تعلیمی اداروں میں داخلہ، نوکری حاصل کرنے کے مواقع، مذہبی رسومات کی پیروی سے ممانعت، ہراسانی، تشدد اور فیصلہ سازی کے ایوانوں میں عدم نمائندگی شامل ہیں۔
مزید براں نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح احمدیوں پر حملے کر کے انہیں شہر بدر اور بعض اوقات ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تشدد اور ظلم و ستم کے شکار احمدی اپنے گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر زیادہ محفوظ مقامات چلے جاتے ہیں۔ ایسی مشکل صورتحال پھر احمدی مالکان کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی املاک عمومی قیمت سے کم پر بیچیں۔ اسی طرح کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک کی وجہ سے احمدی طلبہ اور اساتذہ کو درمیان میں ہی اپنی تعلیم اور نوکریاں چھوڑ دیں اور یہ بات انہیں مسلسل نقل مکانی اور احساس محرومی کا شکار بناتی ہے۔
کمیشن سے ملاقات کرنے والے جماعت احمدیہ کے نمائندوں میں ایک طارق نامی شخص بھی تھے۔ موصوف جان کی حفاظت کےنکتہ نظر سے ننکانہ سے ربوہ منتقل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کیسے نماز ادا کرنے کے لیے جاتے ہوئے اور حال ہی میں بیرون ملک سے ڈاکٹری کی پڑھائی ختم کرکے واپس آنے والے بیٹے پر حملہ کیا گیا اور ان پر گولیاں برسائی گئیں جس کے نتیجے میں ان کے بیٹے طاہر کی وفات ہو گئی اور وہ شدید زخمی ہو گئے۔ عدالت نے حملہ آور کو حملے کی سنگینی کے باعث عمر قید کی سزا سنادی۔
موصوف نے کمیشن سے انتہائی درمندانہ اپیل کی کہ حکومت انتظامی طور پر مداخلت کرے اور ان کے اور ان کے بیٹے کو پیش آنے والے جیسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنائے۔ ان کی دردمندانہ اپیل اس بات کی غماض ہے کہ فوری طوری پر ایسے حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے جن کے باعث کوئی بھی نفرت کی بھینٹ چڑھ کے اپنی جان سے نہ جائے۔
اسی طرح ماریہ نامی ایک خاتون نے بھی اپنی آپ بیتی سنائی کہ کیسے ایک شدت پسند تحریک کسے تعلق رکھنے والے ایک متشدد نے ان کے والد کو قتل کر دیا۔ اس متشدد نے ۸؍اگست ۲۰۲۲ء کو ان کے والد کو چھریوں کے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور موصوفہ اس بات پر سخت مایوس ہیں کہ عدالت ناجائز طور پر مقدمے کی سماعت میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اور ان کے خاندان کو انصاف کی فراہمی تاخیر کا شکارہو رہی ہے۔
اعداد وشمار پر ایک نظر
کمیشن نے جماعت احمدیہ کی جانب سے دیے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا۔ ان اعدادو شمار کے مطابق حیرت انگیز طور پر جماعت احمدیہ کو بڑے پیمانے پر قانونی مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان میں کلمہ آویزاں کرنے یا لکھنے کے ۷۶۵؍مقدمات، اذان دینے پر ۴۷؍مقدمات، تبلیغ کرنے پر ۸۶۱؍مقدمات، اور کئی دیگر مقدمات شامل ہیں۔ اسی طرح کچھ صد سالہ تقریبات پر بھی انہیں قانونی چارہ جوئیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ باتیں احمدیوں کی مذہبی آزادی پر قدغن کی نوعیت بیان کرتی ہیں۔
۳۳۴ احمدیوں کو ۲۹۵ سی کے تحت فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔ جماعت احمدیہ کے موجودہ سے پہلے سربراہ جو لندن میں تھے ان پر ۱۶ مقدمات ان کی غیر موجودگی میں قائم کیے گئے تھے۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کے موجودہ سربراہ پر بھی دو مقدمات قائم ہیں۔ ربوہ کی تمام تر آبادی اور اسی طرح کوٹلی میں موجود تمام احمدی آبادی کو اجتماعی طور پر قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جو نظام کی گہرائی میں موجود امتیازی سلوک کی غماز ہے۔ ۱۹۸۴ء سے لےکر ۲۰۲۳ء تک کے اعدادو شمار کے مطابق ۲۸۰؍احمدی متشددانہ کارروائیوں میں اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ اسی طرح باقی ۴۱۵؍احمدیوں کو بھی ان کے مذہب کی وجہ سے حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ احمدیوں کی مذہبی شناخت پر حملہ ۵۱؍احمدیہ مساجدکے مسمار کیے جانے اور ۴۶؍عبادت گاہوں کو سیل کرنے سے عیاں ہے۔ علاوہ ازیں ۳۹؍عبادت گاہوں کو آگ لگائی گئی یا اسی طرح سے نقصان پہنچایا گیا۔ ۱۸؍پر قبضہ کیا گیا۔ یہ عمل منظم طور پر جماعت کی مساجدکو مٹانے کی کوشش ہے۔ اسی طرح انتظامیہ نے ۶۲؍احمدی عبادت گاہوں کی تعمیر کو روک کر منظم امتیازی سلوک کیے جانے کا ثبوت دیا۔ یہ بےحرمتی وفات شدگان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ۳۹؍وفات شدگان کی قبروں کو اکھیڑ کر نعشوں کو باہر نکالا گیا۔ اور ۹۶؍متوفین کی تدفین کے عمل کو روکا گیا۔ افسوسناک طور پر ۹۹؍احمدیوں کی قبروں کی صرف اسی سال میں بے حرمتی کی گئی۔ ۶۴؍احمدیوں کے گھروں اور ۱۱۵؍عبادت گاہوں سے کلمہ کو ہٹایا جانا روزمرہ زندگی میں احمدیوں کے خلاف گہرے امتیاز کو عیاں کرتا ہے۔ یہ اعدادوشمار احمدیوں کے خلاف ہونے والی منظم اور سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ محدود تعداد میں احمدی توہین کے مقدمات میں جیلوں میں قید ہیں اور ان کے مقدمات کو درست طریق پر نہیں چلایا جا رہا۔ یہ بھی اس بات کا غماز ہے کہ یہ احمدی قانون کو ہاتھ میں لینے والے متشدد گروہوں کا نشانہ بنے ہیں نہ کہ حقیقی قانونی کارروائی کا۔
ماخوذ نتائج
کمیشن احمدیوں سے متعلق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ آئین اور قانون واضح طورپرہر پاکستانی شہری اور وقتی طور پر پاکستان میں موجود شہری کو حقوق فراہم کرتا ہے جس میں اپنے مذہب پر عمل بھی ہے۔ لیکن صرف حقوق موجود ہونا ہی کافی نہیں ہے جب تک وہ حقوق حقیقی طور پر ہر شہری کو میسر نہ ہوں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ممکنہ کارروائی عمل میں لائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر مذہبی اقلیت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔ جماعت احمدیہ کے ساتھ مذہب کی بنا پر امتیازی سلوک اور جان و مال کو نقصان پہنچائے جانے کی دھمکیاں ایک ایسا معاملہ ہے جسے فوری طور دیکھنا چاہیے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں اس معاملے کے حل کے لیے فوری کارروائی کرے۔ کمیشن نے وزارت انسانی حقوق، انتظامیہ اور پولیس کو بھی ان تحفظات سے آگاہ کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔
کچھ معاملات میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے تعلیمی اداروں سےمذہب کی بنیاد پر نکالے گئے طلبہ کے داخلے بھی کروائے ہیں۔ اور مساجد پر حملوں کو روکنے کےلیے سیکشن ۲۲۷؍لگائے جانے کا مطالبہ بھی کیا ہے تا کہ کسی گروہ کے لیے مقدس جگہ پر غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی کوششوں کو روکا جا سکے۔
قومی انسانی حقوق کمیشن مسلسل وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اس بات کا مطالبہ کر رہا ہے کہ احمدیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ کمیشن مطالبہ کرتا ہے کہ انسانی حقوق کو قائم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کیا جائے۔
تجاویز
۱۔حکومت آئین کے آرٹیکل ۲۰ کا اطلاق کرے اور مذہب پر عمل اور تبلیغ کی آزادی کو یقینی بنائے۔
۲۔حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام اقلیتیں بشمول احمدی ہر بنیادی حق سے مستفید ہوں جس طرح دوسرے شہری مستفید ہورہے ہیں۔ احمدیوں کی حفاظت کے لیے خاص اور منظم نظام وضع کرے۔ یہ منظم نظام انتظامیہ اور دوسرے حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون سے کام کرے۔
۳۔احمدیوں کے لیے الگ انتخابی فہرست بنانا اور ان کے نام اور گھروں کے پتے درج کرنا ان کو عدم تحفظ کا شکار بناتا ہے۔ اسی طرح عوامی طور پر ایسی فہرستوں کو آویزاں کرنا بحیثیت جماعت ان کو خطرے سے دوچار کرتا ہے۔ ساتھ ہی فہرست واضح امتیازی سلوک کی غماز ہے جبکہ باقی اقلیتوں کے نام عمومی انتخابی فہرست میں سب کے ساتھ شامل ہیں۔
۴۔حکومت کو تمام اقلیتوں کو نوکریوں کے یکساں مواقع فراہم کرنے چاہییں۔
۵۔حکومت کو اپنے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اور بین الاقوامی عمرانی اور سیاسی حقوق کی فراہمی کے معاہدے کی شقوں پر عملدرآمد اور ان کے حقیقی اطلاق کو یقینی بنانا چاہیے۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ہر شخص کو مذہب کے امتیاز کے بغیر یکساں طور پر تحفظ ملے۔
۶۔حکومت کو ایسے شدت پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے جو احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم میں شامل ہیں۔
۷۔حکومت کو ایسا مؤثر نظام وضع کرنا اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے جس سے تعلیمی اداروں میں نفرت اور شدت پسندی کے رحجان کو قابو کیا جائے۔
۸۔وفاقی اور صوبائی تعلیم کی وزارتوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تعلیمی اداروں اور ہسٹلوں میں احمدی طلبہ کے خلاف امتیاز ختم ہو۔
۹۔پاکستان میں وسیع پیمانے پر تعلیمی اصلاحات کرنی چاہییں اور تعلیمی نصاب میں رواداری کی تعلیم کو فروغ دینا چاہیے۔ چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے سے ایک بہتر اورسب کو ساتھ لے کر چلنے والے معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
۱۰۔احمدیوں کے خلاف تشدد اور دھمکیوں میں ملوث افراد کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے۔ مسلسل نگرانی اور قانونی کارروائیوں سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ایسے لوگ جو کسی ایسے جرم میں ملوث ہونے کی سوچ رکھتے ہیں ان کو ان جرائم کے ارتکاب سے روکا جا سکے۔ اور قانون کی بالادستی قائم کی جا سکے۔ حکومت کو احمدیوں کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر حملے کرنے والوں کے خلاف بھی مؤثر کارروائی کرنی چاہیے۔
۱۱۔اقلیتوں کےساتھ معاملات کو دیکھنے کے لیے پولیس کی استعدادوں کو بڑھایا جائے۔
۱۲۔سپریم کورت کے جج جسٹس جیلانی کے فیصلے کے مطابق پیشہ ور عسکری دستوں کی تشکیل عمل میں لائی جائے جو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنے میں ماہر ہوں۔ ان دستوں کو خاص طور پر یہ کام سونپا جائے کہ وہ احمدیہ عبادت گاہوں کی حفاظت کریں اور ساتھی انہیں یہ سکھایا جائے کہ کیسے اقلیتوں کے ساتھ چلنا اور ان کو درپیش مسائل سے نپٹنا ہے۔
۱۳۔ایسی ملک گیر مہم چلائی جائے جس میں دوسرے مذاہب کے لیے برداشت اور عزت و تکریم کو فروغ دیا جائے۔ ان مہموں میں ساتھ مل کر زندگی گزارنے اور جماعت کے خلاف فرسودہ خیالات کا قلع قمع کیا جائے جن کے باعث انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
۱۴۔حکومت سوشل میڈیا اور دوسری نشریات میں اس بات کو یقینی بنائے کہ احمدیوں کے خلاف کوئی نفرت انگیزی نہ کی جائے۔
(مترجم: مہر محمد داؤد)