خلیفہ وقت کی مجلس میں بیٹھنے کے چند ضروری آداب (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۱؍اپریل۱۹۳۳ء ) (قسط سوم۔آخری)
(گذشتہ سے پیوستہ )پس یہ ایک مرض پیدا ہو رہا ہے جس کی طرف میں توجہ دلاتا ہوں لوگ میری وجہ سے یہ تو دوسرے کو نہیں کہہ سکتے کہ چُپ کرو اور میں بھی حیا کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے اشاروں میں انہیں بات کی جاتی ہے جو گرے ہوئے اخلاق پر دلالت کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ بجائے اس کے کہ اپنی گفتگو سنائیں جو وہ پوچھنا چاہتے ہوں پوچھیں۔ پچھلے ایام میں مَیں ایک جگہ گیا وہاں بہت سے دوست میرے ملنے کے لئے جمع ہو گئے۔ مگر دو گھنٹہ تک ایک شخص مجھے اپنا مباحثہ ہی سناتا رہا اور آخر رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اُس کی گفتگو ختم ہوئی۔ مگر اُس وقت اتنا وقت گزر چکا تھا کہ میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور دوست بھی جو میری باتیں سننے کے لئے آئے تھے چلے گئے۔ وہ اِس سارے عرصہ میں یہی سناتے رہے کہ اس نے یوں کہا میں نے یوں جواب دیا پھر اس نے یہ کہا میں نے یہ کہا۔ حالانکہ مباحثات کی تفصیل کی مجھے ضرورت نہیں ہوتی اور گو دوسروں کو ضرورت ہو بھی مگر وہ محبت اور اخلاص کی وجہ سے میری باتیں سننے کے مشتاق ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے باتیں سننے کے لئے کافی اوقات ہیں۔
پس گفتگوایسے رنگ میں ہونی چاہیے کہ دوستوں کا اصل مقصد یعنی یہ کہ وہ میری باتیں سننے کے لئے آتے ہیں کسی طرح فوت نہ ہو جائے اور وقت ضائع نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ لمبی چوڑی فلسفیانہ تقریریں اس پر وہ اثر پیدا نہیں کرتیں جو اخلاص سے کہی ہوئی ایک چھوٹی سی بات کر جاتی ہے۔ گھروں میں روزانہ دیکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات بچہ ضِدّ میں آکر ایک بات نہیں مانتا، ہزاروں دلائل دو وہ کچھ نہیں سنتا لیکن جب ماں کہے بیٹا یوں کرنا اچھا نہیں ہوتا تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے۔ اس پر غیر کی زبردست دلیلیں اثر نہیں کرتیں مگر ماں کا یہ فقرہ کہ ایسا کرنا اچھا نہیں ہوتا فوراً اثر کر جاتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کے سامنے اخلاص ہوتا ہے وہ دوسروں کی فلسفیانہ تقریریں سننا پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے امام کے منہ سے چند سادہ کلمات سننا چاہتے ہیں اور یہ محبت کے کرشمے ہیں۔جب تک اور جس سے اخلاص اور محبت ہوگی اس کی سادہ بات بہ نسبت دوسروں کی لمبی فلسفیانہ تقریر کے بڑا اثر کرے گی۔ پس مجلس کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
پھر یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ میری مجلس میں جیسا کہ میں بتاچکا ہوں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں۔ عالم بھی آتے ہیں اور جاہل بھی اور بعض دفعہ پاگل بھی آتے ہیں۔ چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک پاگل شخص آیا ہے اور اس نے مجھے اپنی باتیں سنانی شروع کردیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ خاموشی سے وقت گزار دیا جائے۔ مگر دوسرے لوگ چونکہ اس امر کو نہیں سمجھتے اس لئے بعض دفعہ وہ بیچ میں آکُودتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ یہ دماغی خلل والے کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں اور اس قسم کے سوال کرتے ہیں جن کے متعلق وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ معقول ہیں مگر مَیں ان کی دماغی حالت کو جانتا ہوں۔ پس میں مختصر جواب دے دیتا ہوں یا خاموش رہتا ہوں اور جب وہ تکرار کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں میں نے سن لیا، اس پر غور کروں گا۔ مگر ناواقف آدمی دخل دے دیتا ہے اور اس طرح بات کوخراب کر دیتا ہے۔
اسی طرح میں سمجھتا ہوں ایک مصافحوں والا معاملہ بھی ہے۔ باہر سے آنے والے دوست جن کو یہاں آنے کا بار بار موقع نہیں ملتا یا جمعہ کے موقع پر جبکہ مقامی لوگوں میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ہفتہ بھر ملنے کا اور کوئی موقع نہیں ملا ہوتا، مجھ سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کے لئے مصافحہ کی معقولیت میری سمجھ میں آسکتی ہے۔ کیونکہ
مصافحہ قلوب میں وابستگی اور پیوستگی پیدا کرتا ہے اور یہ معمولی چیز نہیں۔ بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ عیدین وغیرہ مواقع پر صحابہؓ خصوصیت سے رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کے ساتھ مصافحہ کیا کرتےتھے۔
مگر مجھے شبہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر نماز کے وقت مصافحہ کرنا دینی ضرورتوں میں سے کوئی ضرورت ہے۔ بعض لوگ محبت میں گداز ہوتے ہیں میں ان کو الگ کرتا ہوں کیونکہ ان پر کوئی قانون جاری نہیں ہو سکتا۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں سارا سارا دن اس کھڑکی کے سامنے بیٹھے رہتے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باہر آیا کرتے تھے۔ اور جب باہر آتے تو وہ آپ سے مصافحہ کرتے یا آپ کے کپڑوں کو ہی چُھو لیتے۔ ایسے لوگ محبت کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں۔ مگر مجھے شبہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہر وقت مصافحہ کرنا ضروری ہے۔ مصافحہ کا اصل وقت تو وہ ہوتا ہے جب کوئی شخص باہر جارہا ہو یا باہر سے آیا ہو۔ یا ساتویں آٹھویں دن اس لئے مصافحہ کرے کہ تا دعاؤں میں اسے یاد رکھا جائے اور اس کا تعارف قائم رہے یا کسی بیمار نے بیماری سے شفا پائی ہو تو وہ یہ بتانے کے لئے مصافحہ کرے کہ اب وہ اچھا ہو گیا ہے یہ اور چیز ہے۔ مگر بالالتزام بغیر اس کے کہ نفس اس مقام پر پہنچا ہوا ہو کہ انسان مصافحہ کرنے پر مجبور ہو جائے دوسروں کو دیکھ کر یہ کام کرنا کوئی پسندیدہ امر نہیں۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں قاضی سید امیر حسین صاحب مرحوم کہ جو میرے استاد بھی تھے بوجہ اس کے کہ وہ اہلحدیث میں سے آئے تھے بعض مسائل میں اختلاف تھا۔ ایک دفعہ یہ سوال زیر بحث تھا کہ مجلس میں کسی بڑے آدمی کے آنے پر کھڑا ہونا جائز ہے یا نہیں۔ قاضی سید امیر حسین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ شرک ہے۔ اور رسول کریم صلى الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ آخر یہ جھگڑا اتنا طُول پکڑ گیا کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا۔ اُس وقت یہ سوال ایک رقعہ پر لکھا گیا اور میں رقعہ لے کر اندر گیا۔ اسوقت اگرچہ میں طالب علم تھا مگر چونکہ مذہبی باتوں سے مجھے بچپن سے ہی دلچسپی رہی ہے اس لئے میں ہی وہ رُقعہ اندر لے گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں زبانی کہا یا تحریر کیا مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ خیال یہی آتا ہے کہ آپ نے تحریر فرمایا کہ دیکھو وفات کے موقع پر کوئی ایسی حرکت کرنا جیسے دو ہتڑ مارنا شریعت نے سخت ناجائز قرار دیا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے خیال ہے روایت تو صحیح یاد نہیں۔ آپ نے غالباً حضرت عائشہؓ کا ذکر کیا کہ رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر انہوں نے بے اختیار اپنے سینہ پر ہاتھ مارا۔(طبقات ابن سعد جلد ۲ صفحہ۲۶۲۔ دار صادر بیروت)
یہ روایت لکھ کر آپ نے تحریر فرمایا کہ ایک چیز ہوتی ہے تکّلف اور بناوٹ۔ اور ایک چیز ہوتی ہے جذبۂ بےاختیاری۔ جو امر جذبۂ بے اختیاری کے ماتحت ہو اور ایسا نہ ہو جو نصِّ صریح سے ممنوع ہو بعض حالتوں میں وہ جائز ہوتا ہے اور وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ فعل کرنے والے نے کس رنگ میں کیا۔ سجدہ تو بہر حال منع ہے خواہ کسی جذبہ کے ماتحت ہو مگر بعض افعال ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بعض صورتوں میں تکّلف اور بعض صورتوں میں جذبۂ بے اختیاری کے ماتحت صادر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے تحریر فرمایا کہ
اگر کوئی شخص اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ ایک بڑے آدمی کے آنے پر چونکہ باقی لوگ کھڑے ہیں اس لئے میں بھی کھڑا ہو جاؤں تو وہ گنہگار ہو گا۔ مگر وہ جو بے قرار ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے جیسے معشوق جب عاشق کے سامنے آئے تو وہ اس کے لئے کھڑا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس پر گرفت نہیں۔
قاضی سیدامیرحسین صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص احمدی تھے۔ میں نے ان سے بہت عرصہ پڑھا ہے وہ احمدیت کے متعلق اپنے اندر عشق کا جذبہ رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے میری خلافت کے ایام میں ایک دفعہ جب میں مسجد میں آیا تو قاضی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے میں نے کہا قاضی صاحب! آپ تو کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا شرک قرار دیا کرتے تھے کہنے لگے۔ ’’کی کراں میں سمجھدا تے ایہی ہاں پر دیکھدے ہی کچھ ہو جاندا ہے رہیا جاندا ہی نہیں۔‘‘یعنی کیا کروں میں سمجھتا تو یہی ہوں۔ لیکن آپ کو دیکھ کر ایسا جذبہ طاری ہوتا ہے کہ میں بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ تو حالات کے مختلف ہونے اور جذبات کی بے اختیاری کی وجہ سے حکم بدلتے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں مصافحہ بھی اسی رنگ کی چیز ہے جب مصافحہ رسم و رواج کے ماتحت ہو یا دکھاوے کے طور پر یا اس لئے ہو کہ شاید یہ شرعی احکام میں سے ہے یا اخلاص کے اظہار کا یہ بھی کوئی ذریعہ ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن جب کوئی دیر سے ملتا ہے اور چاہتا ہے کہ بتلائے کہ میں آگیا ہوں یا بیمار چاہتا ہے کہ میں بتاؤں مجھے صحت ہو گئی ہے۔ یا کوئی اس لئے مصافحہ کرتا ہے کہ تا دعاؤں میں وہ یاد رہ سکے تو ایسے موقعوں پر مصافحہ ایک نہایت ہی مفید مقصد کو پورا کر رہا ہوتا ہے۔ مگر دوسرے اوقات میں وہ بعض دفعہ وقت کوضائع کرنے والا بھی ہو جاتا ہے۔
یہ چند باتیں ہیں جو میں نے کہی ہیں اور کچھ باتیں اِس وقت بھول بھی گئی ہیں اور بعض ممکن ہے ابھی اور بھی بیان کرنے والی ہوں، انہیں پھر بیان کردوں گا۔ لیکن یہ تمام باتیں اپنی اپنی جگہ بہت سے مفید مقاصد رکھتی ہیں جماعت کو چاہیے کہ انہیں مد نظر رکھے۔ مجالس کو کُھلا رکھنا چاہیے، قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری ادب ہے اور اس کے بہت سے فائدے ہیں یہی فائدہ نہیں کہ دوسروں کو جگہ مل جائے گی اور صحت پر اس کا خوشگوار اثر پڑے گا بلکہ اور بھی باریک روحانی مطالب پر مشتمل فوائد ہیں اور یہ مختصر خطبہ ان کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح کھڑکیوں کو کُھلا رکھنا چاہیے جسم اور گھروں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔
اور مجلس میں خوشبو لگا کر آنا چاہیے۔ بدبودار چیزیں کھا کر اجتماع کے موقعوں پر نہیں آنا چاہیے اور بدبودار چیزیں ہی نہیں اگر کسی کو کوئی بغل گند وغیرہ کی بیماری ہو تو اچھی طرح صفائی کرکے آئے۔
مجلس کو مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مشکل مسائل درپیش ہوں تو ان کے متعلق سوال کرنا چاہیے۔ جب گفتگو ہو رہی ہو تو اس وقت دخل نہیں دینا چاہیے اور کسی کی غلطی معلوم کر کے اس پر ہنسنا نہیں چاہیے۔ ان باتوں پر عمل کرنے سے مجلس میں برکت ہوتی،تعلقات مضبوط ہوتے اور فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ باتیں نہ ہوں تو صحت کے خراب ہونے کے خیال سے یا وقت کے ضائع ہونے کے خطرہ سے طبیعت میں اس امر پر بشاشت پیدا نہیں ہوتی کہ مجلس میں بیٹھا جائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست آئندہ مجالس میں ان امور کو مد نظر رکھیں گے۔
(الفضل ۲۷؍ اپریل ۱۹۳۳ء)