اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (جلسہ سالانہ کینیڈا ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ سیز دہم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
ایک پُر شفقت لمحہ
اس میٹنگ کے اختتام پر حضورِانور میٹنگ روم سے باہر تشریف لاکر اپنی گاڑی کی طرف رواں دواں تھے جب آپ مین ہال سے گزرے تو آپ نے امجد خان صاحب کو کھڑےدیکھا جو جماعت احمدیہ امریکہ کے نیشنل سیکرٹری امور خارجہ ہیں۔ امجد صاحب اپنی ٹیم کے دیگر ممبران کے ساتھ امریکہ سے آئے تھے تاکہ وہ جمعہ کی نماز اور پِیس سمپوزیم میں شمولیت کر سکیں۔
حضورِانور نے از راہ شفقت امجد صاحب سے ملاقات فرمائی جنہوں نے حضورِانور کی خدمت میں امریکہ کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے دعا کی درخواست کی۔ حضورِانور کے ساتھ ان لمحات کے بارے میں انہوںنے بتایا کہ کیلگری میں ریسیپشن ہال سے تشریف لے جاتے ہوئے حضورِانور نے خاکسار کو چند لمحوں کے لیے ملاقات کی سعادت بخشی۔ چند دن قبل ڈونلڈ ٹرمپ بطور امریکی صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے میں نے حضورِانور سے عرض کی کہ بہت سے امریکن لوگوں کے دلوں میں ان نتائج سے تشویش پیدا ہوئی ہے اور یوں میں نے امریکہ میں امور خارجہ کے کام کے حوالے سے درخو استِ دعا کی، خاص طور پر حالیہ سیاسی حالات کے تناظر میں۔
امجد صاحب نے مزید بتایا کہ جواب میں حضورِانور نے مجھے فرمایا کہ ذرہ بھر بھی فکر نہ کرو۔ احمدیت کا مشن ہر شخص، پارٹی یا الیکشن سے بالا ہے۔ہمیں پوری توجہ اسلام کے خوبصورت پیغام کو پھیلانے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ حضورِانور نے یہ بھی فرمایا کہ آپ نہایت پُر اعتماد ہیں کہ امریکہ اپنے مہاجرین کی آبادی کو برقرار رکھے گا۔ یہ چند الفاظ میرے دل کی گہرائی میں اتر گئے حتی کہ میری جملہ پریشانیاں دورہو گئیں۔ ان مختصرلمحات میں حضورِانور کی حکمت اور معرفت نے ہم سب کو سحر زدہ کر دیا۔
حضور انور سے ایک پُرعزم چھوٹی بچی کی ملاقات
۱۲؍ نومبر ۲۰۱۶ء کی صبح حضور انورنے فیملی ملاقاتیں فرمائیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران میں نے ایک چھوٹی بچی کو دیکھا جس کی عمر آٹھ یا نو سال ہوگی جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔ ایسا شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ دفتر میں کوئی بچہ اپنے والدین یا بڑوں کے بغیر بیٹھا ہو۔ اس لیے میں نےسیکیورٹی گارڈز میں سے ایک سے پوچھا کہ وہ بچی کون ہے؟مجھے بتایا گیا کہ چھوٹی بچی کا نام آنیہ ہے اور وہ کیلگری سے دس گھنٹے کی مسافت پر واقع جماعت Fort McMurrayکی مقامی صدر صاحبہ لجنہ کی بیٹی ہے۔
میں نے پہلے بھیFort McMurray کے بارے میں سن رکھا تھا کیونکہ اس کے بارے میں کچھ ماہ قبل خبر آ ئی تھی کہ اس قصبہ کا کافی سارا علاقہ جنگل کی آگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ بہرحال کیلگری پہنچنے پر اس بچی کی فیملی کو بتایا گیا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے انہیں حضورِانور سے ذاتی ملاقات کا موقع نہیں مل سکے گا۔ وہ اس حوالے سے اکیلے نہ تھے اور وقت کی کمی کی وجہ سے کئی فیملیز حضورِانور سے ملاقات کی سعادت سے محروم رہی تھیں۔ یہ سننے پر یہ چھوٹی بچی رونے لگی اور اس کی طبیعت پر ناخوشگوار اثر پڑا اور آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ بار بار یہی بات دہراتی رہی کہ میں حضورِانور کو ملنا چاہتی ہوں۔
لجنہ اماء اللہ کی ملاقات ٹیم نے انہیں تفصیل بتائی لیکن اس بچی کا مزاج سخت اداس ہی رہا۔ اس لیے انہوں نے اس امید پر اس کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بھجوا دیا کہ وہ اس بچی کو بہتر طور پر سمجھا سکیں گے۔ اس بچی کو دیکھنے پر مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے اس کو حضورِانور کے دفتر کے باہر کھڑے ہونے کا کہا تاکہ وہ حضورِانور کو اپنے پاس سے گزرتا ہوا دیکھ سکے۔
جب چار گھنٹوں پر محیط ملاقاتوں کا سلسلہ ختم ہوا تو پرائیویٹ سیکرٹری مکرم منیر جاوید صاحب دفتر کے اندر گئے اور حضورِانور کو بتایا کہ وہ بچی باہر کھڑی ہےتو بجائے صرف گزرتے ہوئے اس بچی کو ملنے کےحضورِانور نے خاص طور پر اس کو اپنے دفتر کے اندر بلایا اور اس بچی سے ذاتی ملاقات فرمائی جو ایک منٹ تک جاری رہی۔ حضورِانور نے اس بچی کو چاکلیٹ عنایت فرمائی اور بےحد شفقت کا سلوک فرمایا۔
جب دروازہ کھلا اور وہ بچی باہر آئی تو اس چھوٹی بچی آنیہ کا چہرہ اس کو ملنے والی خوشی کی عکاسی کر رہا تھا۔ جہاں قبل ازیں وہ رو رہی تھی اب خوشی اور مسرت اس کے چہرے سے خوب عیاں تھی۔
ایک منفرد بورڈنگ پاس
اس دورے کے اگلے مرحلے میں حضورِانور براہ راست ٹورانٹو سے Saskatoonتشریف لے جا رہے تھے، جو مغربی کینیڈا میں واقع ہے۔جب ہم Toronto Pearson International ایئرپورٹ پر پہنچے تو مجھے ایک سپیشل ایئرکینیڈا بورڈنگ پاس پکڑایا گیا جس پر لکھا تھا کینیڈا میں خوش آمدید، آنجناب (His Holiness) حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس،امام جماعت احمدیہ عالمگیر۔
اس بورڈنگ پاس کے ایک طرف انگریزی میں ’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘ تحریر تھا، جس کے ساتھ جماعت احمدیہ کینیڈا کی پچاس سالہ تقریبات کا logoبھی آویزاں تھا۔
احمدیوں کے جذبات
حضورِانور نے فیملی ملاقاتوں کا آغاز فرمایا جس دوران آپ نے درجنوں فیملیز سے ملاقات فرمائی۔ ایک دوست جو حضورِانور کو ملے وہ مکرم احمد صاحب (بعمر پچاس سال) تھے، جنہوں نے حضورِانور کے اس دورے کے دوران اپنی فیملی پر نازل ہونے والی برکات کا یوں ذکر کیا کہ میرے دادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے لیکن میرے والد صاحب کے علاوہ ان کی فیملی کے دوسرے افراد نے بعد ازاں احمدیت سے روگردانی اختیار کر لی۔ اسی طرح میرے دادا کے بھائی بھی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے لیکن ان کے بچوں نے بھی احمدیت چھوڑ دی۔ تاہم حضورِانور کے حالیہ دورے کے دوران ان کی پوتی نے بیعت کرکے احمدیت قبول کی ہے۔ یوں حضورِانور کی بابرکت موجودگی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کی فیملی میں احمدیت پھر سےلوٹ آئی ہےجو کئی دہائیوں سے روحانیت کو کھو چکے تھے۔
ایک اور فیملی جن کی حضورِانور سے ملاقات ہوئی وہ عزیزSalifa صاحب اور ان کی اہلیہ اور بچے تھے۔ عزیز صاحب کا تعلق گھاناسے ہےلیکن گذشتہ گیارہ سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ حضورِانور سے پہلی مرتبہ ملاقات کی سعادت پانے پر موصوف نے بتایا کہ حضورِانور سے ملنے کی سعادت حاصل کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا بہت خاص لمحہ تھا۔ چونکہ ہم گھانا سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ہم حضورِانور سے ایک خاص تعلق محسوس کرتے ہیں اور آج بھی ایسا ہی محسوس ہوا۔ مثال کے طور پر حضورِانور گھانامیں ہمارے گاؤں کا نام جانتے تھے۔حضورِانور کی شخصیت کو محبت کے لفظ سے بیان کیا جا سکتا ہے اور یوں مَیں اور میرے بچے اس محبت کو کبھی نہیں بھولیں گے جس کا برتاؤ آپ نے آج ہمارے ساتھ فرمایا ہے۔
بظاہر ہلکا لیکن گرم کوٹ
ملاقاتوں کے اختتام پر حضورِانور نے خاکسار کو چندمنٹ کے لیے اپنے دفتر میں طلب فرمایا۔ Saskatoonمیں ہماری پہلی شام بہت ٹھنڈی گزری اور مجھے یہ فکر تھی کہ حضورِانور کو ٹھنڈ لگ رہی ہوگی جیسا کہ آپ کا کوٹ نسبتا ًہلکا معلوم ہوتا تھا تاہم میں نے جسارت کر کے یہ بات حضورِانور کی خدمت میں پیش کردی نیز اپنا کوٹ بھی پیش کرنے کی پیشکش کی۔ اگرچہ میرا قد حضورِانور سے چھوٹا ہے تاہم میرا اوور کوٹ کافی لمبا اور کھلا تھا۔ اس لیے میرا خیال تھا کہ حضورِانور اسے زیب تن فرما سکیں گے۔
اس پر حضورِانور نے مجھے فرمایا کہ اگرچہ میرا کوٹ بظاہر ہلکا لگتا ہے مگر وہ بہت زیادہ گرم ہے۔ اس میں ایک inner liningہے جو ٹھنڈ سے بچاتی ہے اور گرم رکھتی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ گرمیوں میں آپ وہ inner lining اتار دیتے ہیں اور یوں وہ کوٹ اکثر موسموں کے لیے یکساں مفید ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ آپ اپنے والد محترم حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا اوور کوٹ زیب تن فرماتے تھےتاہم کچھ عرصہ کے بعد وہ کچھ گھس گیا اور اس کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا۔ نیز فرمایا کہ اس کے متبادل کے طور پر آپ کی خواہش تھی کہ اپنے والد محترم کے کوٹ سے ملتا جلتا ایک کوٹ حاصل کریں اس لیے آپ نے اپنے داماد محترم فاتح ڈاہری صاحب کو بھیجا کہ وہ کوشش کر کے ویسا ہی کوٹ ڈھونڈیں۔
آپ نے فرمایا کہ اس کوٹ کے حصول کے لیے بہت تگ و دَو کرنی پڑی تاہم بالآخر آپ کو اپنے والد محترم کے کوٹ جیسا ایک کوٹ مل گیا۔
پھر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس کوٹ کو ڈھونڈنے میں اس قدر کوشش اور محنت کی ہے جو میرے ذوق کے مطابق ہے اور اب تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ اچھا نہیں ہے۔
بہرحال میں شکر گزار تھا کہ حضورِانور نے میری (اپنا ذاتی کوٹ پیش کرنے کی) درخواست پر برا نہیں منایا۔ دراصل حضور انور نہایت شفقت سے پیش آئے اور مجھے میرا کوٹ اتارنے کا ارشاد فرمایا جس کے بعد آپ نے ازراہ شفقت اس کو اچھی طرح ملاحظہ فرمایا۔ میرے لیے یہ حقیقت بھی جذباتی کر دینے والی تھی کہ حضورِانور نے اپنے والد محترم کا کوٹ زیب تن فرمانا پسند کیا اور جب وہ پہننے کے قابل نہ رہا تو اس سے ملتا جلتا کوٹ ڈھونڈ کر حاصل کیا۔ اس سے حضورِانور کی اپنے والد محترم سے محبت اور عقیدت کا خوب اظہار ہوتا ہے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت:مظفرہ ثروت)