اس آیت میں وجود صانع عالم پر دلیل بیان فرمائی ہے
اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ(البقرۃ:۲۵۶) اب بنظر انصاف دیکھنا چاہئے کہ کس بلاغت اور لطافت اور متانت اور حکمت سے اس آیت میں وجود صانع عالم پر دلیل بیان فرمائی ہے اور کس قدر تھوڑے لفظوں میں معانی کثیرہ اور لطائف حکمیہ کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے اور مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ کے لئے ایسی محکم دلیل سے وجود ایک خالق کامل الصفات کا ثابت کر دکھایا ہے جس کے کامل اور محیط بیان کے برابر کسی حکیم نے آج تک کوئی تقریر بیان نہیں کی بلکہ حکماء ناقص الفہم نے ارواح اور اجسام کو حادث بھی نہیں سمجھا اور اس رازِ دقیق سے بے خبر رہے کہ حیات حقیقی اور ہستی حقیقی اور قیام حقیقی صرف خدا ہی کے لئے مسلم ہے یہ عمیق معرفت اسی آیت سے انسان کو حاصل ہوتی ہے جس میں خدا نے فرمایا کہ حقیقی طور پر زندگی اور بقاء زندگی صرف اللہ کے لئے حاصل ہے جو جامع صفات کاملہ ہے اس کے بغیر کسی دوسری چیز کو وجود حقیقی اور قیام حقیقی حاصل نہیں اور اسی بات کو صانع عالم کی ضرورت کے لئے دلیل ٹھہرایا اور فرمایا لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ (البقرۃ:۲۵۶) یعنی جبکہ عالم کے لئے نہ حیات حقیقی حاصل ہے نہ قیام حقیقی تو بالضرور اس کو ایک علّتِ موجبہ کی حاجت ہے جس کے ذریعہ سے اس کو حیات اور قیام حاصل ہوا۔ اور ضرور ہے کہ ایسی علّتِ موجبہ جامع صفات کاملہ اور مدبرّبالارادہ اور حکیم اور عالم الغیب ہو۔ سو وہی اللہ ہے۔ کیونکہ اللہ بموجب اصطلاح قرآن شریف کے اس ذات کا نام ہے جو مستجمع کمالات تامہ ہے اسی وجہ سے قرآن شریف میں اللہ کے اسم کو جمیع صفاتِ کاملہ کا موصوف ٹھہرایا ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ اللہ وہ ہے جو کہ رب العالمین ہے، رحمان ہے، رحیم ہے، مدبّر بالارادہ ہے، حکیم ہے، عالم الغیب ہے، قادر مطلق ہے، ازلی ابدی ہے وغیرہ وغیرہ۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۴۱۸،۴۱۷۔حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳)
اس آیت کے لفظی معنے یہ ہیں کہ زندہ وہی خدا ہے اور قائم بالذات وہی خدا ہے۔ پس جب کہ وہی ایک زندہ ہے اور وہی ایک قائم بالذات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص جو اس کے سوا زندہ نظر آتا ہے وہ اُسی کی زندگی سے زندہ ہے اور ہر ایک جو زمین یا آسمان میں قائم ہے وہ اسی کی ذات سے قائم ہے۔
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۱۲۰)