خلافت اور اطاعت (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍مئی ۲۰۱۹ء)
خلیفۂ وقت کی اطاعت تو عام امیر کی اطاعت سے بہت بڑھ کر ضروری ہے۔ دلی خوشی کے ساتھ کامل اطاعت کے نمونے ہمیں صحابہ کی زندگیوں میں کس طرح نظر آتے ہیں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک جنگ میں جنگ کی کمان حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کی گئی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی وجہ سے ان کو بدل دیا اور عین جنگ کی حالت میں ان کو بدلا گیا۔ تو بہرحال اس حالت میں خلیفۂ وقت کا حکم آیا کہ اب کمان حضرت ابو عبیدہ کریں گے، ان کو دے دی جائے۔ تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی عمدگی سے کمان کر رہے ہیں ان سے چارج نہیں لیا لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ آپ فوری طور پر مجھ سے چارج لیں کیونکہ یہ خلیفۂ وقت کا حکم ہے اور میں بغیر کسی شکوے کے یا دل میں کسی قسم کا خیال لائے بغیر کامل اطاعت کے ساتھ آپ کے نیچے کام کروں گا جس طرح آپ کہیں گے۔ (ماخوذ از تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 356-357 سنہ 13ھ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
تو یہ اطاعت کا معیار ہے جو ایک مومن کا ہونا چاہیے نہ یہ کہ اگر کوئی فیصلہ خلاف ہو جائے تو شکوہ شروع کر دیں۔ کسی عہدے دارکو ہٹا کر دوسرے کو مقرر کر دیا جائے تو کام کرنا چھوڑ دیں۔ جو ایسا کرتا ہے نہ تو اس میں اطاعت ہے نہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے نہ تقویٰ ہے۔
اب مجھے پتا لگا ہے کہ بعض صدران ایسے ہیں جنہوں نے نئے قاعدے کے مطابق، جون میں اپنی ٹرم ختم ہونے سے پہلے اس لیے کام چھوڑ دیا ہے کہ اب ہم کیوں کام کریں۔ کیا یہ صرف اس لیے کام کر رہے تھے کہ ہم نے اب مستقل عہدے دار رہنا ہے؟ انہوں نے جو ذمہ داریاں مئی جون کے مہینے میں نبھانی ہوتی ہیں اس پر توجہ نہیں دے رہے۔ ایک تو ایسی سوچ اپنے دینی کام میں خیانت ہے۔ دوسرے یہ باغیانہ سوچ ہے اور اپنے آپ کو خلافت کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکالنے والی بات ہے کیونکہ اب خلیفۂ وقت نے اس قاعدے کو منظور کر لیا ہے کہ صدر کی ٹرم چھ سال ہو گی اس لیے ہم بھی اب پوری طرح دل جمعی سے کام نہیں کریں گے۔ پس ایسے لوگوں کو تقویٰ سے کام لینا چاہیے اور خوفِ خدا کرنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر بیعت اس نکتے پر لی تھی کہ سنیں گے اور اطاعت کریں گے خواہ ہمیں پسند ہو یا ناپسند۔ (صحیح البخاری کتاب الاحکام باب کیف یبایع الامام الناس حدیث 7199)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہو گی نہ کوئی عذر ہو گا اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امامِ وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الامر بلزوم الجماعۃ …… حدیث 1851)
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے امامِ وقت کی بیعت کی اور ان جاہلوں میں شامل نہیں ہوئے جو امامِ وقت کے انکاری ہیں۔ لیکن اگر ہمارے عمل اس قبول کرنے کے بعد بھی جہالت والے رہے تو اپنے آپ کو عملاً اس بیعت سے باہر نکالنے والی بات ہو گی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے بھی باہر نکل رہے ہوں گے۔
پس بیعت کے بعد اپنی سوچوں کو درست سمت میں رکھنا اور کامل اطاعت کے نمونے دکھانا انتہائی ضروری ہے۔ زمانے کے امام نے اپنی بیعت میں آنے والوں کے معیار کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔ ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے۔ لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا۔ وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے۔ محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔‘‘ یعنی عملی حالت اگر اس تعلیم کے مطابق نہیں تو صرف نام لکھوا کر جماعت میں شامل ہونے والی بات ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ اصل میں میری نظر میں تو وہ جماعت میں نہیں ہے۔ آپ فرماتے ہیں ’’……اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 4صفحہ 439، ایڈیشن 1984ء)
اور وہ تعلیم یہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’فتنہ کی بات نہ کرو۔ شر نہ کرو۔ گالی پر صبر کرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو۔‘‘ یعنی لغو اور بیہودہ باتوں میں مقابلہ نہ کرو۔ ان باتوں میں مقابلہ نہ کرو کہ اب فلاں عہدے دار بن گیا تو مَیں نے اطاعت نہیں کرنی یا مجھے ہٹایا گیا تو میں نے اطاعت نہیں کرنی۔ فرمایا اور ’’جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ۔‘‘عام معاملات میں بھی، روزمرہ معاملات میں بھی، لڑائی جھگڑوں میں بھی، اگر فضولیات پہ، لغویات پہ کوئی مقابلہ ہوتا بھی ہے، تب بھی صَرف ِنظر کرو بلکہ نہ صرف صَرفِ نظر کرو بلکہ نیکی سے پیش آؤ۔ فرمایا کہ ’’شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ۔‘‘ خوش اخلاقی سے بات کرو۔ نرم زبان استعمال کرو۔ اس کا اچھا نمونہ دکھاؤ۔ ’’سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہیے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 413، ایڈیشن 1984ء)
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ بڑی پکّی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تُو حکم دے تو ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے۔ جب حکم دو تو اس پر پورے نہیں اترتے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم زیادہ قسمیں نہ کھاؤ۔ بڑے بڑے وعدے نہ کرو۔ اگر معروف اطاعت کر لو، ایسی اطاعت جو عرفِ عام میں اطاعت سمجھی جاتی ہے تو ہم سمجھیں گے کہ تم نے حکم مان لیا ورنہ صرف منہ کے دعوے ہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے بھی باخبر ہے اور تمہارے دلوں کی حالت سے بھی باخبر ہے۔ پس عام اطاعت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرو۔ اس کی عبادت بھی سنوار کر کرو۔ آج کل رمضان میں جو توجہ پیدا ہوئی ہے اس کو جاری رکھو اور قائم رکھو۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اس کے بندوں کے حق بھی ادا کرو اور جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ہر قسم کے فتنے سے بچو۔ ہر قسم کے شر اور لڑائی اور جھگڑے سے بچو۔ اپنے اخلاق عمدہ کرو۔ ایسے اعلیٰ اخلاق ہوں کہ احمدی اور غیر احمدی میں فرق صاف نظر آنے لگ جائے۔ سچائی پر ہمیشہ قائم رہو۔ غرض کہ تمام قسم کی نیکیاں کرنا ضروری ہے اور یہی معروف اطاعت ہے۔ اسی کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اسی بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اپنی جماعت کے افراد کے لیے حکم دیا ہے۔ اور خلافتِ احمدیہ بھی ان باتوں کے کرنے کی طرف ہی توجہ دلاتی رہتی ہے۔ گذشتہ 111 سال ہو گئے خلافت کی طرف سے انہی باتوں کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے اور اسی طرح یہ بھی ہے کہ انتظامی معاملات میں بھی کامل اطاعت کا نمونہ دکھاؤ۔ صرف دینی یا روحانی معاملات میں نہیں۔ جیسا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے دکھایا تھا اور اس جھگڑے میں نہ پڑو کہ یہ بات معروف کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کے خلاف کوئی بات ہے تو وہ یقیناً غیر معروف ہے۔ پس یہ جو ہم عہد میں دوہراتے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا اس سے ہر ایک اپنی خود ساختہ تشریح معروف فیصلہ کی نہ نکالنے لگ جائے کہ یہ فیصلہ معروف ہے اور یہ نہیں ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہ نہیں کہا تھا کہ عین جنگ کے درمیان جب فوجیں آمنے سامنے ہیں اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی حکمت عملی بھی بہت اچھی تھی اور مسلمانوں کو فائدہ بھی ہو رہا تھا اس وقت حضرت عمرؓ کا حکم جو آیا وہ غیر معروف تھا۔ نہیں بلکہ انہوں نے کامل اطاعت کے ساتھ ابو عبیدہؓ کے زیرِکمان ایک عام کمانڈر کی حیثیت سے، فوجی کی حیثیت سے لڑنے کو ہی برکت سمجھا۔