متفرق مضامین

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تعارف اور عہد خلافت

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

حضرت ابوبکرؓ  کا نام عبد اللہ اور والد کا نام عثمان بن عامر تھا۔ آپ ۵۷۳ عیسوی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تمیم بن مرہ سے تھا۔آپؓ کا شجرہ نسب آٹھویں پشت میں مرّہ پر جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔

مرّہ۔کلاب۔قصیٰ۔عبدمناف۔ہاشم۔عبدالمطلب۔

عبداللہ۔محمدرسول اللہﷺ

مرّہ۔تمیم۔ سعد۔ کعب۔ کعب۔ عمرو۔ عامر۔ عثمان ابوقحافہ۔ابوبکر صدیقؓ۔(محمد حسین ہیکل: حضرت ابوبکر صدیقؓ۔ مترجم: شیخ محمد احمد پانی پتی۔ صفحہ ۳۹۔ اسلامی کتب خانہ)

حضرت ابوبکرؓ کے والد جن کی کنیت ابوقحافہ تھی اور آپ کی والدہ اُم الخیر دونوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق و سعادت نصیب ہوئی بعض روایات کے مطابق حضرت ابو بکر کا لقب عتیق تھا کیونکہ آپ کو یہ لقب بہت پہلے سے بھلائی کی طرف پیش رفت کرنے کی وجہ سے دیا گیا۔(علامہ حجر عسقلانی۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد ۳ مترجم مولانا محمد عامر شہزاد۔ مکتبہ رحمانیہ لاہور۔ صفحہ ۳۰۲)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص دوزخ سے عتیق (آزاد) ہونے والے کو دیکھنا چاہے وہ ابو بکرؓ) کو دیکھ لے۔‘‘(علامہ ابن حجر عسقلانی۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد ۳ صفحہ ۳۰۲مترجم مولانا محمد عامر شہزاد۔ مکتبہ رحمانیہ لاہور۔)ان کے علاوہ بھی لقب عتیق کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ ’’آپ کے نسب میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی وجہ سے اس پر عیب لگایا جاتا۔‘‘(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد ۳ صفحہ ۹۶۳عبد الله بن ابی قحافہ بیروت )

اس کے علاوہ آپ کے دیگر لقب اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ، امیرالشاکرین،صدیق اور ثانی اثنین بیان کیے جاتے ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ کو خلیفۃ الرسول کا لقب ملا۔(عمدة القاری کتاب بدء الخلق باب مناقب المهاجرين وفضلھم جلد ۱۶ صفحہ ۲۶۰، دار احیاء التراث العربی بیروت۲۰۰۳ء)

حلیہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓ گورے رنگ کے دبلے پتلےشخص تھے۔ رخساروں پر گوشت کم تھا۔ کمر خمیده ذرا جھکی ہوئی چہرہ کم گوشت والا تھا۔ آنکھیں اندر کی طرف اور پیشانی بلند تھی۔(الطبقات الکبریٰ جلد ٣ صفحہ ۱۴۰ دار الکتب العلمیہ بیروت)

اسلام سے قبل کے بعض حالات

حضرت ابو بکرؓ اپنی قوم میں مقبول اور محبوب تھے۔ آپ کے اچھے اخلاق کی وجہ سے لوگ آپ سے محبت رکھتے تھے۔ (تاریخ طبری جلد ۱ صفحہ۵۴۰۔۵۴۱ دارالکتب العلمیہ بیروت)

آپ علم الانساب کے ماہر تھے،آپ علم الرئویا کا زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ آپ قریش کی قوم کی طرح تجارت پیشہ تھے۔ آپ کپڑے کی تجارت کرتے تھے اور مکہ کے کامیاب تاجروں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ (محمد حسین ہیکل: حضرت ابوبکر صدیقؓ : ترجمہ شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ۴۱، علم و عرفان پبلشرز لاہور ۲۰۰۴ء)آپؓ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ بعثت کے وقت آپؓ کے راس المال چالیس ہزار درہم تھے۔آپؓ اس سے غلاموں کو آزاد کرواتے۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد۴صفحہ۱۴۸)

آپؓ حلف الفضول میں بھی شامل ہوئے جو آنحضرتﷺ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک پر بعض قبائل قریش کے نمائندگان نے عبداللہ بن جرعان کے مکان پر جمع ہو کر کیا اور سب نے باہم قسم کھائی کہ ہم ہمیشہ ظلم کو روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔ (سیرت خاتم النبیین صفحہ۱۰۴۔۱۰۵)

زمانہ جاہلیت میں بھی آپ نے کبھی شراب نہیں پی تھی۔(کنزالعمال جلد۱۲ صفحہ۴۹۰) اس کے علاوہ آپ کو شرک سے نفرت تھی آپؓ کبھی بتوں کے پا س نہیں گئے۔ (سیرۃ الحلبیہ جلداول صفحہ ۳۸۴۔۳۸۵)اپنی اس پاک فطرت کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ بعثت سے قبل بھی آنحضرتﷺ کے ساتھی تھے۔ (البدایۃ والنہایہ جلد۲صفحہ۲۹۔۳۲)

قبول اسلام

رسول کریمﷺ نے جب دعویٰ نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت ابوبکرؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ جب آپؓ واپس تشریف لائے توآپؓ کی ایک لونڈی نے آپؓ سے کہا کہ آپ کا دوست تو عجیب عجیب باتیں کرتا ہے، کہتا ہے کہ محمدؐ پر آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اسی وقت اُٹھے اور رسول کریم ﷺ کے مکان پر پہنچ کرآپؐ سے عرض کی ’’کیا آپؐ نے یہ فرمایا ہے کہ خدا کے فرشتے مجھ پر نازل ہوتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں؟‘‘

رسول کریم ﷺ نے اس خیال سے کہ کہیں اُ ن کو ٹھوکر نہ لگ جائے تشریح کرنا چاہی۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے کہا ’’آپؐ تشریح نہ کریں اور مجھے صرف یہ بتائیں کہ آپؐ نے یہ بات کہی ہے ؟‘‘

اس پرآپؐ نے فرمایا ہاں میں نے یہ بات کہی ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی کہ’’میں آپؐ پر ایمان لاتا ہوں‘‘ اور پھر اُنہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے دلائل بیان کرنے سے صرف اس لیے روکا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ میرا ایمان مشاہدہ پر ہو دلائل پر اس کی بنیاد نہ ہو کیونکہ آپؐ کو صادق اور راست باز تسلیم کرنے کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی‘‘(تفسیر کبیر جلد۲ صفحہ۲۵۲،۲۵۱)

حضرت ابوبکرؓ  کب ایمان لائے؟

حضرت خدیجہؓ کے بعد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مؤرخین میں اختلا ف ہے۔ بعض حضرت ابوبکر ؓکا نام لیتے ہیں اور بعض حضرت علیؓ  کا، یا زید بن  حارثہؓ  کا نام لیتے ہیں۔ لیکن بقول حضرت مرزا بشیر احمد صابؓ حضرت علی اور زید بن حارثہؓ  تو آنحضرت ﷺ کے گھر کے آدمی تھےاور آپؐ کے بچوں کی طرح آپؐ کے ساتھ رہتے تھے۔آنحضرتﷺ کا فرمانا تھااور ان کا ایمان لانا تھا…ان دونوں بچوں کو نکال دو تو حضرت ابوبکرؓ  مسلمہ طور پر مقدم اور سابق الایمان تھے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے درباری شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ حضرت ابوبکرؓ کے متعلق کہتے ہیں:وَ اوَّلَ النَّاسِ مِنْھُمْ صَدَّقَ الرُّسُلا۔(سیرت خاتم النبیین صفحہ ۱۲۱۔۱۲۲)ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں نے جس کو اسلام کی طرف بلایا کچھ نہ کچھ لغزش اور تردد اسے ضرور ہوا سوائے ابوبکرؓ کے۔میں نے جس وقت ان سے ذکر کیا انہیں کچھ تردد نہیں ہوا۔‘‘(عزالدین بن الاثیر ابی الحسن علی بن محمد الجزری۔حصہ پنجم۔ ترجمہ محمد عبدالشکور فاروقی لکھنوی، المیزان لاہور صفحہ ۳۰۲)

آپ کی کنیت ابوبکرؓ کے بارے میں ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ بکر کا ایک معنی جلدی کرنا بھی ہے، پہل کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور بعض کے بقول یہ کنیت اس لیے ہوئی کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے اِنَّہٗ بَکَّرَ اِلیٰ الاسلام قَبلَ غَیرہٗ (عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد البدر پبلیکیشنرز ۲۰۰۰ء صفحہ۴۱)

حضرت ابوبکرؓ پیشہ کے اعتبار سے تاجر تھے

’’ایک تاجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں سے گہرے دوستانہ تعلقات رکھے اور ان باتوں کے اظہار سے احتراز کرے جو عوام کے مروجہ عقائد و اعمال کے خلاف ہوں، مبادا اس کی تجارت پر برا اثر پڑے۔ دُنیا میں اس قسم کے مظاہر عام طور پر نظر آتے ہیں کہ اکثر لوگ عام الناس کے عقائد و خیالات پراعتقاد نہ رکھنے کے باوجود نہ صرف اپنے فائدے، مصلحت یا عاقبت کی خاطر منہ میں گھنگھیاں ڈالے خاموش بیٹھے رہتے ہیں بلکہ بسا اوقات اپنے ذاتی خیالات کے برعکس عوام کی اُنہی باتوں کی تائید کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جنہیں وہ اپنے دل میں غلط، فضول اور لایعنی سوچتے ہیں۔(محمد حسین ہیکل: حضرت ابوبکر صدیق مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی اسلامی کتب خانہ لاہور صفحہ ۴۵)

حضرت ابوبکرؓ کے قبول اسلام نے حضرت عثمان  بن  عفانؓ، حضرت زبیربن عوامؓ، حضرت عبد الرحمٰن بن  عوفؓ اور سعدبن ابی وقاصؓ اورطلحہ بن عبید اللہ ؓکو بھی متاثر کیا اور وہ بھی آپ کی تبلیغ کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (سیرت ابن ہشام جلداول صفحہ ۱۶۶ دارالکتب بیروت ۲۰۰۸ء)یہ پانچوں اصحاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ دارالکتب العربی بیروت ۲۰۰۸ء)آ پؓ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت چالیس ہزار درہم تھے چنانچہ وہ ان سے (مسلم) غلام آزاد کرواتے، مسلمانوں کو قوت پہنچاتےیہاں تک کہ وہ پانچ ہزار درہم مدینہ لائے۔ پھر ان میں وہی کرتے رہےجو مکہ میں کرتے تھے۔(طبقات ابن سعد، مترجم علامہ عبداللہ العاوی جلدسوم نفیس اکیڈمی صفحہ ۱۷)

یہ سب کچھ حضرت ابوبکرؓ نے اللہ کی رضا کے لیے کیا جب آپؓ کے والد نے آپؓ کو بجائے کمزور لوگوں کے طاقت ور لوگوں کو آزاد کروانے کی ترغیب دی تاکہ آپؓ کی حفاظت کا سامان پیدا ہوجائے تو آپؓ نے اپنے والد سے کہا: ’’میں تو محض اللہ عزوجل کی رضا چاہتا ہوں۔‘‘(سیرۃ النبویہ لابن ہشام۔ دارلکتب العلمیہ بیروت ۲۰۰۱،صفحہ ۲۳۶)آپؓ کو آنحضرتﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ آپؐ کے لیے اپنی جان نچھاور کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ چند دشمنوں نے آپﷺ کو تنہا پکڑ لیا اور آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اسے مروڑنا شروع کر دیا قریب تھا کہ آپؐ کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابوبکرؓ وہاں آنکلے اور اُنہوں نے مشکل سے چھڑایا۔ اس پر ابوبکرؓ کو اس قدر پیٹا گیا کہ وہ بیہوش ہوکر زمین پر گر گئے۔‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۲۵۷۔۲۵۸)حضرت ابو بکرؓ نے مشکل ترین حالات میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم،بنو ہاشم اور بنو  مطلب، شعب ابی طالب میں جو ایک پہاڑی درے کی صورت تھا محصور ہو گئے کیونکہ قریش نے باہم مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ اگر بنو ہاشم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت سے دست بردار نہ ہوں تو ان کو ایک جگہ محصور کر کے تباہ کردیا جائے۔ شعب  ابی طالب بنو ہاشم کا خاندانی دره تھا۔ تو حضرت ابو بکرؓ اس تنگی کے زمانے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شریکِ حال تھے۔ اس موقع پر ابو طالب نےیہ شعر کہا :

هم رجعوا سهل ابن بيضاء راضيا

فسر أبوبكر بها و محمد

اُنہوں نے اس دستاویز کو بلند آواز سے بار بار پڑھا۔ سہل بن بیضا ءکے سامنے خوش ہوکر۔ تو اس راز کے ساتھ مطلع کر دیے گئے ابوبکرؓ اور محمدؐ۔ ( اِزالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء مترجمہ مولانا اشتیاق احمد دیوبندی جلد سوم کراچی صفحہ۴۰)حضرت صدیقؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے (مکہ میں ) مسجد بنائی اور اپنے اسلام کاکُھل کر اظہار کیا۔ کفار ِقریش ایذا کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ یہ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہونے لگے تو ابن دغنہ ان کے اور مشرکین کے درمیان میں آگئےاور انہوں نے ان کے بارے میں تعرض نہ کرنے کامشرکین سے عہد لیا۔ (اورحضرت ابو بکرؓ سے یہ کہا کہ آپ قرآن آواز سے نہ پڑھیں) یہاں تک کہ دوسرا غلبہ آپ کے قلب پر وارد ہوا (یعنی اللہ پر توکل کا) ور آپ نے ابن دغنہ کے امن کو رد کر دیا۔ فرمایا کہ میں تمہارے امن کو تمہاری طرف واپس کرتا ہوں اور اللہ کے امن پر راضی ہوں۔(حضرت شاہ ولی الله إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء قدیمی کتب خانہ – کراچی – ترجمہ مولانا اشتیاق احمد داوندی، جلد سوم صفحہ۴۰)

جب قرآن پاک کی آیات: الٓـمّٓ۔غُلِبَتِ الرُّوۡمُ۔فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ۔نازل ہوئیں تو آپؓ نے ابو جہل سے شرط لگائی کہ اہل روم اہل فارس پر غالب آجائیں گے۔آپؐ پیشگوئی کی صورت کو دیکھ کر فی الفور دُور اندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لیے ابو بکر صدیقؓ  کو حکم فرمایا اور فرمایا کہ بضع سنین کالفظ مجمل ہے اور اکثر نوبرس تک اطلاق پاتا ہے۔ ( ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۳۱۰۔۳۱۱)چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی ’’ایرانی لشکر ا یسا بھاگا کہ ایران کی سرحدوں سے ورے اس کا قدم کہیں بھی نہ ٹھہرا۔ اور پھر دوبارہ رومی حکومت کے افریقی اور ایشیائی مفتوحہ ممالک اس کے قبضہ میں آگئے۔(دیباچہ تفسیر القرآن۔انوارالعلوم جلد۲۰ صفحہ ۴۴۵)

انبیاء بہت رقیق القلب ہوتے ہیں لیکن جب حجت پوری ہوچکتی ہے تو پھر وہ بڑے سخت ہوجاتے ہیں۔(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ۳۴۸)حجت پوری ہو جانے کے بعد سے تنگ آکر حضرت نوح ؑنے اپنی قوم کے حق میں بددعا کی وَقَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا(نوح:۲۷) اسی طرح حضرت موسیٰ نے دعا کی حَتّٰی یَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ۔(یونس:۸۹)حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت نوح کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر و حوصلہ رحم اور ہمدردی بہت بڑھی ہوئی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ آخر ساری قوم عرب ہدایت یافتہ ہوگئی۔ (ضمیمہ اخبار بدرقادیان ۱۸؍جنوری ۱۹۱۲ء)

آنحضرت ﷺکا صبر اور دعائیں رنگ لاتی ہیں اور ابتدا میں چھ اہلِ یثرب اسلام قبول کرتے ہیں۔ اور امید کی ایک کرن پیدا ہوتی ہیں اور بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر یہ تعداد بارہ تک پہنچ جاتی ہے اور یثرب کے ہر گھر میں اسلام کا چرچا ہو تا ہے اور بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر ۷۰ کے قریب انصار اسلام قبول کرتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے ستم رسیده صحابہ ؓکو مدینہ کی طرف ہجرت کا ارشاد فرماتے ہیں اور بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد ہجرت میں تیزی آجاتی ہے۔ لیکن با وجود ان مشکلات کے آپؐ نے صحابہ کو ہجرت کا حکم دے دیا مگر خود ان دکھوں اور تکلیفوں کے باوجود مکہ سے ہجرت نہ کی کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی اذن نہ ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت  ابوبکرؓ نے جب پوچھا کہ میں ہجرت کر جائوں تو آپؐ نے جواب دیا عَلَى رِسْلِكَ؛ فإنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِيآپ ابھی ٹھہریں امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے۔( سیرت النبیﷺ انوار العلوم جلداول صفحہ ۴۸۹)تب حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان کیا آپؐ بھی ہجرت کی امید رکھتے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ تب حضرت ابو بکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر رک گئے کہ آپ کے ساتھ ہی جائیں گے۔اور حضرت ابوبکرؓ نے دو اونٹنیوں کو جو ان کے پاس تھیں، چار مہینے تک ببول کے پتے کھلائےتا کہ وہ ہجرت کے سفر کے لیےتیار ہو جائیں۔(صحیح البخاري محمد اسماعيل ترجمه و شرح سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد چہارم صفحہ۲۷۹)

قریش کے سر بر آوردہ لوگوں کا اجتماع

قریش نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے شہر کے علاوہ دوسرے شہر سے بھی ایک جماعت فراہم ہو گئی ہے اور آپؐ کے صحابہ ہجرت کر کے اُن لوگوں سے جا کر مل رہے ہیں تو انہیں اپنے متعلق خطرہ محسوس ہوا تو وہ سب کے سب دارالندوہ میں آپؐ کے متعلق مشورہ کرنےکے لیے جمع ہوئے۔ ابن اسحاق کے مطابق اس دن کو یوم الزحمۃکا نام دیا گیا اور ابلیس بھی ایک بوڑھے (شیخ نجدی کی شکل میں ) مشورہ میں شامل ہوگیا۔ چنانچہ جب ابوجہل نے یہ مشورہ دیا کہ ’’ہر قبیلے میں سےایک جوان مردلے لیں اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک تلوار دے دیں اور یہ سب اس کے پاس پہنچیں اور اس کو ان تلواروں سے اس طرح ا(ایک ساتھ) ماریں گویا ایک شخص کا وار ہے تب ہم اس سے (بے فکر ہو جائیں گےاور) چین پا سکیں گے کیونکہ اس کا خون تمام قبیلوں پر بٹ جائے گا اور بنی عبد مناف اپنی قوم کے تمام افراد سے جنگ نہ کر سکیں گے۔ اور ہم سے خون بہا پر راضی ہو جائیں گے اور ہم خون بہا دے دیں گے…

تو شیخ نجدی نے کہا کہ ’’بات تو بس یہ ہے جو اس شخص نے کہی‘‘ اس کے بعد سب لوگ اسی پر اتفاق کر کے اِدھر اُدھر چلے گئے۔ (سیرت ابن ہشام۔ تالیف محمد اسحاق جلد دوم ترجمہ مولانانصب الدین اسلامی کتب خانہ لاہور صفحہ ۹۵)

کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک نبی کو اس بد ارادہ کی خبر دے دی۔ اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا۔(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۴)چنانچہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے خبرپا کر دوپہر کے وقت حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا :’’کیا آپؓ کو معلوم ہے کہ مجھے مکہ سے چلے جانے کا حکم ہو چکا ہے؟‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’یارسول اللہ ﷺ میں بھی آپؐ کے ساتھ ہی چلوں گا؟‘‘فرمایا: ’’ہاں۔ آپؓ کو بھی ساتھ چلنا ہوگا‘‘حضرت ابوبکرؓ نے کہا: ’’یا رسول اللہ ﷺ ! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں۔ میں نے ان دونوں کو اسی سفر کے لیے تیار کیا ہے۔آپؐ ان میں سے ایک لے لیں۔ ‘‘آپؐ نے فرمایا: ’’میں نے قیمتاً اسے لے لیا ہے۔‘‘(صحیح البخاری۔ ترجمہ و شرح سید زین العابدین ولی اللہ شاہ۔ جلد ۴ صفحہ ۱۱۴)

چنانچہ ہجرت کے منصوبے کے مطابق یہ طے کیا گیا کہ پہلی منزل غارِ ثور ہوگی اور ایک ماہر شخص عبداللہ بن اُریقظ کا انتخاب کیا گیا جو کہ مختلف صحرا کے راستوں سے واقف تھا اور تین اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی گئیں۔ دوسری طرف کفا رنے منصوبے کے مطابق ’’آنحضرت ﷺ کا دروازہ و مکان گھیر لیا۔ اللہ جل شانہ نے بذریعہ وحی آنحضرت ﷺ کو مطلع فرمادیا چنانچہ آنحضرتؐ حسبِ حکم باری تعالیٰ حضرت علی بن ابی طالبؓ  کو بستر پہ سلا کر خود مکان کے باہر آئے۔ اللہ جل شانہ نے دشمن کی آنکھوں پر اس وقت پردے ڈال دیے، آنحضرتﷺ نے ایک مشت خاک پر سورہ یٰسین کی اول آیات فَہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ تک پڑھ کر ان کے سروں پر ڈال دی۔(تاریخ ابن خلدون۔ جلد ۲ نفیس اکیڈمی اردو بازار لاہور کراچی۔ صفحہ ۵۶)

اس واقعہ کے بارےمیں قرآن پاک میں اس طرح ذکر ہے۔ ’’اور اے پیغمبر! وہ وقت یاد کر جب کافر لوگ تجھ پر داؤ چلانا چاہتے تھے تا کہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا تجھے مار ڈالیں اور یا تجھے جلا وطن کردیں اور حال یہ تھا کہ کافر تو قتل کے لیے اپنا داؤ کر رہے تھے اور خدا ان کو مغلوب کرنے کے لیے اپنا داؤ کر رہا تھا اور خدا سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے جن کے داؤ میں سراسر مخلوق کی بھلائی ہے‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳۔ صفحہ۲۳۴۔۲۳۵)

ہجرت کا واقعہ جس میں ایسے نشانات نظر آئے جو بجز تائید الٰہی کے ممکن نہیں تھے بقول مصنف بردہ شریف :

وِقايةُ اللّٰهِ أغنَت عَن مُضاعَفَةٍ

مِنَ الدروعِ وَعَن عالٍ مِنَ الأُطُمِ

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی پناہ نے آپﷺ کو دہری زرہوں اور بلند قلعوں کی حفاظت سے بے نیاز کردیا۔(علامہ احمد بن محمد قسطلانی المواہب اللدنیہ اردو ترجمہ: فرید بک سٹال لاہور۔ صفحہ ۱۸۸۔۱۸۹)حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اسی طرح سے خدا تعالیٰ کے نشان بھی سخت تکلیف کی حالت میں اترا کرتے ہیں۔‘‘ (البدرجلد ۱، نمبر ۲، مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۱)یہ صورت حال اس قدر پُر خطر تھی کہ ایک روایت کے مطابق آنحضرتﷺ اور حضرت ابوبکرؓ دونوں حضرت ابوبکرؓ کے مکان کی عقبی سمت میں واقع ایک کھڑکی سے نکل کر غار کی طرف تشریف لے گئے۔ (علامہ احمد بن محمد قسطلانی المواھب الدنیہ اردوترجمہ فرید بک سٹال لاہور ص ۱۸۶ الجز الاول)جب یہ دونوں ہستیاں روانہ ہوئیں تو خطرہ اس قدر تھا کہ بقول حضرت عمرؓ  حضرت ابوبکرؓ کبھی آپﷺ کے سامنے چلتے اور کبھی پیچھے چلنا شروع کر دیتے۔آخر نبی ﷺ نے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ڈر ہوتاہے کہ پیچھے سے کوئی آنہ رہا ہو تو میں آپﷺ کے پیچھے چلتا ہوں پھر خطرہ ہوتا ہے کہ سامنے سے کوئی نہ آن دھمکے چنانچہ آپﷺ کے آگے آگے چلنے لگتا ہوں‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوبکرؓ اگر کوئی (تکلیف) آئے تو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میرے بجائے تم اس سے دوچار ہو؟ ‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’بے شک قسم ہے اس کی جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔‘‘(علامہ حافظ ابن قیم: زاد المعاد جلد دوم ترجمہ رئیس احمد جعفری نفیس اکیڈمی کراچی صفحہ ۷۰۶) حضرت ابوبکرؓ کی یہ وہ فدائیت تھی کہ جب آپﷺ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو قریش کھوجیوں کی مدد سے غار ثور کے عین سر پر پہنچ گئے تو حضرت ابوبکر غمگین ہو گئے اورایک روایت کے مطابق آپؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کی ’’اگر میں قتل ہوا تو ایک شخص کا قتل ہوگا اور آپﷺ کو قتل کر دیا گیا تو پوری اُمت ہلاک ہو جائے گی۔‘‘(علامہ احمد بن محمد قسطلانی : المواہب اللدنیہ۔ اردو ترجمہ مولانا محمد صدیق: اردو بازار لاہور۲۰۱۱ء۔ صفحہ ۱۹۰)

اُس وقت آپؐ نے فرمایا. لا تَحْزَنْ إِنَّ اللٰهَ مَعَنَا۔ کچھ غم نہ کھاؤ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔(تفسیر بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد چہار م صفحہ ۳۰۶)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صرف یہ کہا کہ إِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِمیرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ یقیناً مجھے کا میابی کا راستہ دکھائے گا۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے إِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا فرما کر حضرت ابوبکرؓ  کو بھی اپنے وجود میں مدغم کر لیا اور فرمایا کہ جس طرح مجھے خدا کی معیت حاصل ہے اسی طرح تمہیں بھی خدا کی معیت حاصل ہے۔(تفسیر کبیر جلد ہفتم نظارت اشاعت قادیان ایڈیشن ۲۰۲۴ء– صفحہ۱۴۷)

گویاحضرت ابوبکر صدیقؓ  کی فدائیت اللہ کے حضور قبول ہوئی اور آپؓ کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وجود میں مدغم کر لیا اور آپؓ کو بھی خدا کی معیت حاصل ہوگئی۔ یہ وہ کامیابی کی کلید تھی جو ہر حال میں آپ کے ساتھ رہی۔

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اور قوت قدسی کے نتیجےمیں بھی مشاہدہ ایمان و معرفت حضرت ابوبکرؓ  کا سرمایہ حیات بن گیا۔ وہ ماسوا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کے ہر چیز سے بیگانہ ہو گئے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے جاری ہوئے کامل یقین ہو گیا۔ جو سننے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے تھے۔

غار ثور میں تین راتیں قیام کے بعد عبد اللّٰہ بن اریقظ دونوں سواریاں لے کر حاضر ہو گیا اور سفر شروع ہو گیا۔(علامہ حافظ ابن قیم زاد المعاد : حصہ دوم :نفیس اکیڈی کراچی صفحہ۷۰۷)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد ساحلی بستیوں میں قریشی کافروں کے قاصد آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صدیق اکبرؓ  کو قتل کرنے یا گرفتار کرنے والوں کے لیے انعاموں کا اعلان کرنےلگے۔ سراقہ اپنی قوم بنی مدلج کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے خبردی کہ کچھ لوگوں کو اس نے ساحل کےقریب جاتے ہوئے دیکھا ہے اور اس کے خیال کے مطابق وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیقؓ تھے۔ سراقہ سمجھ گیا کہ وہ آنحضرت ﷺ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہوں گے۔ چنانچہ وہ شخص کی توجہ ہٹا کر انعام کے لالچ میں نکل کھڑا ہوا۔(صحیح البخاری جلد ۷ – صفحہ۳۹۷)(علامہ علی ابن برہان الدین حلبی : سيرة حلبیہ : جلد دوم النصف. اول مترجم محمد اسلم قاسمی دارالاشاعت کراچی۲۰۰۹ء صفحہ ۱۱۷)

حضرت ابو بکرصدیقؓ فرماتے ہیں: ’’ہم وہاں سے چل پڑے اور لوگ ہماری تلاش کر رہے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی ہم کو نہ پایا سو ائے سراقہ بن مالک جعثم کے جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ : یہ ڈھونڈنے والے ہم سے آملے ‘‘آپ نے فرمایا : لَا تَحْزَنْ إنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (صحیح البخاری : مؤلفه امام محمد بن اسماعیل ترجمه و شرح سید زین العابدین ولی الله شاه بخاری جلد۷ صفحہ۱۴۸)

اُسی وقت اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ سراقہ مجبور ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے امان کا خواست گار ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امان دی۔ حضرت عامر بن فہیرہؓ نے حسبِ اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو امان نامہ لکھ کر دے دیا۔ (صحیح البخاری جلد ۷ صفحہ۳۹۹ حدیث نمبر۳۹۰۶) 

آنحضرت ﷺ کی معیت میں حضرت ابو بکر صدیق  ؓنے تائید ِحق کے نظارے دیکھے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی کے نتیجے میں آپؓ بھی اُن کے وجود میں مدغم ہو گئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں پر بھی یقین کامل ہو گیا جو سننے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کی موجودگی میں فرمایا : ’’سراقہ اگر تجھے کسریٰ کے کنگن مل جائیں تو تو خوش ہو گا یا نہیں؟ ‘‘کہا گیا کسریٰ بن ہرمز؟آپ ﷺ نے فرمایا:’’ہاں‘‘(علامہ ابن الاثیر الجرزی تاریخ کامل جلد ششم – ترجمہ مولوی محمد عبد الغفور مطبع مفید عام آگره ۱۴۰۱ صفحہ۱۷۴)

گویا یہ مشاہدہ ایمان ومعرفت آپ کا سرمایہ حیات بن گیا آپ سوائے خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت کے ہر چیز سے بے نیا ز ہو گئے۔ آپؓ اس طرح فنافی الرسولؐ ہوئے کہ غزوۂ  بدر کے دن جب صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھپر بنا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ کے ساتھ یہاں کون شخص رہے گا تاکہ مشرکوں میں سے کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب نہ آسکے۔ تو حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ’’ہم میں سے ابوبکرؓ ہی آگے بڑھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر اپنی تلوار کا سایہ کر کے کہنے لگے جو شخص بھی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی طرف آنے کی جرأت کرے گا اسے پہلے اس سے یعنی ان کی تلوار سے نمٹنا پڑے گا۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو سب سے بہادر شخص قرار دیا۔‘‘(علی بن برہان الدین حلبی: سیرۃ الحلبیہ ترجمہ مولانا محمد اسلم قاسمی جلد دوم نصف اول دار الاشاعت: کراچی۲۰۰۹ءصفحہ ۳۹۷)

حضرت ابوبکر صدیقؓ ماسویٰ اللہ کے ہر شئے سے بیگانہ ہو گئے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے۔ آپؓ کو اپنے بیٹے حضرت عبد الرحمٰن جو کہ اُس وقت کفار کی طرف سے لڑائی میں شریک تھے یہ بتاتے ہیں کہ میں چاہتا تو آپ کو ہلاک کرسکتاتھا کیوں کہ آپؓ میرے نشانے پر تھے لیکن میں نے کہا اپنے باپ کو کیا مارنا تو آپؓ نے جواب دیا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لیے تو بچ گیا ورنہ خدا کی قسم اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا!(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۵۸۸)

غزوہ تبوک کے موقع پر آنحضرتﷺ مالدار صحابہ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور سواری مہیا کرنے کی تحریک فرماتے ہیں۔حضرت ابوبکرؓ سب سے پہلے اپنے گھر کا سارا سامان و دولت لے کر آئے۔انہوں نے اپنی ساری دولت لاکر رسول اللہ ﷺ کی نذر کر دی جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی۔ آنحضرتﷺ نے ان سے دریافت فرمایا۔’’کیا تم نے اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ بچایا یا نہیں؟‘‘

صدیق اکبرؓ نے عرض کیا: ’’میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو بچا لیا ہے۔‘‘(علامہ علی ابن برہان الدین حلبی۔ سیرۃ الحلبیہ۔ جلد دوم نصف اردو ترجمہ مولانا محمد اسلم قاسمی۔دارالاشاعت کراچی ۲۰۰۹ء جلد سوئم نصف اول صفحہ۳۹۷)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں: ’’متقی کو عجیب در عجیب حواس ملتے ہیں۔اور ذاتِ حق سے اس کے خاص تعلقات ہوتے ہیں۔‘‘(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ ۳۴)

چنانچہ متقی اپنے درجے کے مطابق ان حقائق کا ادراک کرتا ہے جو دوسروں کی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ ابو  سعید خدری رضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اللہ نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ دنیاکو پسند کرے یا اس نعمت کو پسند کرے جو اللہ کے پاس ہے تو اس بندے نے وہ نعمت پسند کی جو اللہ کے پاس ہے (ابوسعیدؓ) کہتے تھے یہ سن کر حضرت ابوبکرصدیقؓ رو پڑے اور ہم نے ان کے رونے پر تعجب کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توایسے بندے کا ذکر فرمارہے ہیں جس کو اختیار دیا گیا (اور حضرت ابو بکرؓ سن کر رو پڑے) در حقیقت اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھےجن کو اختیار دیا گیا اور حضرت ابوبکرؓ ہم ( صحابہ ) میں سے سب سے زیادہ اس بات کا علم رکھنے والےتھے، اس لیے رو پڑے۔(صحیح البخاری جلد ۷ امام محمد بن اسماعیل بخاری ترجمہ و شرح سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صفحہ ۱۵۰)

چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے باریک در باریک حواس کی وجہ سے جو متقی کو ذات پاک سے ملتے ہیں اس پیغام کو سمجھ گئے جو دوسرے نہ سمجھ سکے۔ وہ اس فقرے کو سمجھ کر رو اُٹھے اور عرض کیا ’’یا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کا اپنی جانوں اور بچوں سے فدیہ دیتے ہیں، آپؐ نے فرمایا خاموش رہو۔‘‘(علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون تاریخ ابن خلدون، حصہ اول نفیس اکیڈی کراچی ۲۰۰۳ء: صفحہ۱۶۷) حضرت ابوبکر صدیقؓ  کا یہ جذبہ فدائیت تھا جسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر میں نے کسی کو اپنے رب کے سواجانی دوست بنانا ہوتا تو میں ابوبکرؓ  کو بناتا۔ البتہ اسلام کی اخوّت اور اس کی محبت ان سے ہے۔ مسجد میں آنے کے لیے کسی کا دروازہ کھلا نہ رہے، سارے بند کر دیے جائیں مگر ابو بکرؓ  کا دروازہ کھلا رہے گا۔‘‘(امام محمد بن اسماعیل بخاری : صحیح البخاری جلد ۷ ترجمہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ سید زین العابدین ولی الله شاہ : پاکستان ربوہ صفحہ۱۵۰)

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ آپ آدھی رات کے وقت ابومویہبہ کے ساتھ بقیع تشریف لے گئے اور مدفونین کے لیے دعا کی۔ نیز مویہبہ کی طرف متوجہ ہونے اور فرمایا ’’اے مویہبہ مجھے دنیاکے خزانوں اور دنیا میں ہمیشہ اپنے اور ہر جنت کی چابیاں دی گئی ہیں اور مجھے اس کے درمیان اور اپنے رب کی ملاقات اور جنت کے درمیان اختیار دیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، دنیا کے خزانوں اور اس میں ہمیشہ رہنے اور جنت کی چابیاں لے لیں!‘‘آپ نے فرمایا اے ابو مویہبہ بخدا میں نہیں لونگا۔میں نے اپنے رب کی ملاقات اور جنت کو پسند کر لیا ہے۔‘‘(علامہ ابن کثیر۔ البدایہ والنہایہ۔ حصہ پنجم نفیس اکیڈی، اردو بازار کراچی۱۹۸۹ء)

یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں درد شروع ہوچکا تھا یہ اُسی درد کی ابتدا تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔(علامہ علی ابن برہان الدین حلبی : سیرۃ حلبیہ۔ترجمہ مولانا محمد اسلم قاسمی جلد سوئم نصف آخر دارالاشاعت کراچی۲۰۰۹۔صفحہ۴۸۵)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعرات کے روز اپنی وفات سے پانچ روز قبل ایک عظیم خطبہ دیا جس میں دیگر صحابہؓ کے مقابلہ میں حضرت ابو بکرؓ کی فضیلت کو واضح کیا۔ (ابن کثیر دشتی تاریخ ابن کثیر البدایہ و النہایہ : مترجم مولانا اختر فتح پور ر نفیس اکیڈی کراچی)

حضرت ابوبکر صدیقؓ  کو امامت کا حکم

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ (امام محمد بن اسماعیل بخاری : صحیح البخاری ترجمه سید زین العابدین شاه۔ جلد دوم۔ حدیث ۶۷۹،صفحہ۷۶)

حضرت ابوبکرؓ صحابہ کرامؓ کو نماز پڑھاتے رہے۔ آخر جب پیر کا دن ہوا صحابہ کرام صف بستہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کاپردہ اُٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو دیکھنے لگے۔ حضرت انس بن مالک انصاریؓ بیان کرتے ہیں گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ قرآن مجید کا ورق تھا حضرت ابو بکرؓ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے تا وہ صف میں مل جائیں وہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائیں گے۔مگر نبی ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کرو اور پردہ گرا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن فوت ہوئے۔ (امام محمد بن اسماعیل بخاری: صحیح البخاری ترجمه سید زین العابدین شاه : جلد دوم صفحہ۷۷)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فوت ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ اس وقت سنح میں تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبرسن کر حضرت عمرؓ  کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ’’اللہ کی قسم ! رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ اتنے میں حضرت ابو بکرؓ  آگئے اور اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور آپ کو بوسہ دیا اور کہا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ زندگی میں بھی اور موت کے وقت بھی پاک وصاف ہیں۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اللہ آپؐ کو کبھی دو موتیں نہیں دکھائے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ باہر آئے۔ حضرت عمرؓ سے کہا قسم کھانے والے ٹھہر جا۔(امام محمد بن اسماعیل بخاری صحیح البخاری۔ ترجمہ سید زین العابدین جلد ۷صفحہ۱۵۹)

حضرت عمرؓ  کو اپنے کسی خیال کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی پر بہت غلو ہو گیا تھا۔(تحفہ غزنیہ، روحانی خزائن جلد ۱۵، صفحہ۵۸۱)

حضرت عمرؓ آیت اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ (الزمر:۳۱) کی تاویل اس آیت سے کرتے تھے وَکَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا(البقرہ:۱۴۴) اور گمان کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں رہیں گے یہاں تک کہ اپنی امت کے آخری عمل پہ گواہی دیں گے۔(امام جلال الدین سیوطی: تغییر در منشور اردو ترجمہ ضیا المصنفین جلد ۲ صفحہ ۲۲۳)

حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے باریک در باریک حو اس کی وجہ سے پہلے ہی اس راز سے آگاہ ہوچکے تھے جو دوسروں کی نظر سے پوشیدہ تھا۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق ؓتقریر کے لیے کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حمدو ثنا بیان کی اور کہا دیکھو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا سن لے کہ محمدؐ تو یقیناً فوت ہو گئے ہیں۔ اور جو اللہ کو پو جتا تھا تو اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی:اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ پھر اُنہوں نے یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَمَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَسَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ(آل عمران :۱۴۵) (امام محمد بن اسماعیل بخاری صحیح البخاری : ترجمه سید زین العابدین ولی الله شاہ جلد۷ : صفحہ۱۵۸)

حضرت عمر فاروق ؓنے یہ سن کر کہا کیا یہ آیت قران کریم میں ہے؟ ایک روایت میں یہ لفظ ہیںکہ ایسا لگتا ہے گویا اب سے پہلے قران کریم کی یہ آیت میں نے سنی ہی نہیں تھی جب سے قرآن پاک نازل ہو کر ہم میں آیا ہے۔(علامہ علی ابن برہان الدین حلبی۔ سیرۃ حلبیہ۔ مترجم، مولانا محمد اسلم قاسمی، کراچی، جلد سوئم۲۰۰۹ء صفحہ۵۱۳)

صحابہ کرامؓ یہ سن کر اتنا روئے کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے تھے اللہ کی قسم ! ایسا معلوم ہوا کہ گویا لوگ اس وقت تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے وہ آیت پڑھی جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل کی تھی۔ گویا تمام لوگوں نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ اور لوگوں میں جس آدمی کو بھی سنا، یہی آیت پڑھتا رہتا تھا۔ حضرت عمرؓنے کہا اللہ کی قسم ! جونہی کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ  کویہ آیت پڑھتے سنا، میں اس قدر گھبرایا کہ دہشت کے مارے میرے پاؤں مجھے سنبھال نہ سکے اور میں زمین پر گر گیا … میں نے جان لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔(امام محمد بن اسماعیل بخاری صحیح البخاری، ترجمه سید زین العابدین جلد ۹۔ صفحہ۳۴۴)

اوریہ گھڑی مسلمانوں کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ ابوبکرؓنے نہ صرف ایسے سخت وقت میں اپنے اوسان بحال رکھے بلکہ بعد میں بھی جب کبھی مسلمانوں پر کوئی برا وقت پڑا تو اسی قوت ارادی اور الوالعزمی سے کام لے کر تمام خطرات کو دُور کر دیا۔ یہی قوت ارادی تھی جسے بروئے کار لا کر حضرت ابوبکرؓ نے مسلمانوں اور اسلام کو ایک ایسے فتنے سے بچا لیا جو اگر خدانخواستہ شدت اختیار کر لیتا تو نہ معلوم اسلام کا کیا حشر ہوتا۔(محمد حسین ہیکل: حضرت ابوبکر صدیقؓ مترجم شیخ احمد پانی پتی۔اسلامی کتب خانہ لاہور : صفحہ ۷۲)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت یوں لگتا تھا کہ جیسے امت مسلمہ طوفانوں کے رحم و کرم پر تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اور ایک کے بعد ایک مسئلہ کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ اب ایک اور سوال کھڑا ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون ان کی خلافت کا حقدار ہوگا؟ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سعد بن عبادہ کو سربراہ مقرر کریں گے۔(عثمان بن محمد الناصری آل خمیس: آئینہ ایام تاریخ: ترجمہ : ابومسعود عبد الجبار سلفی: مکتبہ اہل بیت العالمی صفحہ۴۵)

اس کی اطلاع ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہوئی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ جن کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ اور ابو عبیدہ رضی اللہ تھے انصار کے پاس آئے اور ان سے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے۔ انصار نے کہا اچھا ہم میں سے ایک امیر ہو اور ایک تم میں سے۔ ابوبکرصدیقؓ نے کہا نہیں بلکہ ہم امیر ہوں اور تم وزیر ہو۔ (علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری تاریخ طبری جلد دوم ترجمه سید محمد ابراہیم نفیس اکیڈمی کراچی)

حضرت عمرؓ  کے مطابق حضرت ابو بکرؓ نے تقریر کی اور ایسی تقریر کی جو بلاغت میں تمام لوگوں کی تقریروں سے بڑھ کر تھی۔ (امام محمد بن اسماعیل بخاری صحیح البخاری، ترجمه و شرح سید زین العابدین۔ جلد ۷ صفحہ۱۶۹)

لیکن ’’حباب بن منذرنے یہ سن کر کہا: ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم ! ہرگز نہیں۔ بخدا ہم ایسا نہیں کریں گے … حضرت ابوبکرؓ نے کہا، نہیں بلکہ امیر ہم ہیں اور تم وزیر ہو کیونکہ یہ قریشی لوگ (بلحاظ نسب) تمام عربوں سے اعلیٰ ہیں اور بلحاظ حسب وہ قدیمی عرب ہیں۔ اس لیے عمرؓ یا ابو عبیدہ ؓان کی بیعت کرو۔ حضرت عمرؓنے کہا ’’نہیں بلکہ ہم تو آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپؓ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم میں سے زیادہ پیارے ہیں۔ یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ  کا ہاتھ پکڑا اور اُن سے بیعت کی اور لوگوں نے بھی ان سے بیعت کی۔(امام محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح بخاری۔ ترجمہ و تشریح سید زین العابدین ولی الله شاه جلد۷، صفحہ۸۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button