انسان کو ضروری ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کرے
نجات اس کو ملتی ہے جس نے اپنا سارا وجوداللہ کی راہ میں سونپ دیا۔یعنی اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا اور اس کی راہ میں لگا دیا۔اور وہ بعد وقف کر نے اپنی زندگی کے نیک کاموں میں مشغول ہو گیا اور ہر ایک قسم کے اعمال حسنہ بجا لانے لگا پس وہی شخص ہے جس کو اس کا اجر اس کے رب کے پاس سے ملے گااور ایسے لوگوں پر نہ کچھ ڈر ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے یعنی وہ پورے اور کامل طور پر نجات پا جائیں گے۔
(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۱۴۳-۱۴۴)
انسان کو ضروری ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کر ے۔میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کےلئے وقف کر دی اور فلا ں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی ہے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے۔ رسول اللہﷺ کے مبارک زمانہ پر نظر کرکے دیکھیں، تو اُن کو معلوم ہوکہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں۔ یاد رکھو کہ خسارہ کا سودا نہیں ہے بلکہ بے قیاس نفع کا سودا ہے۔
(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۱۰۰،۹۹،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
بات یہی ہے کہ لوگ اس حقیقت سے نا آشنا اور اس لذت سے جو اس وقف کے بعد ملتی ہے نا واقف محض ہیں۔ ورنہ اگر ایک شمہ بھی اس لذت اور سرور سے ان کومل جاوے تو بے انتہا تمناؤں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں۔ میں خود جو اس راہ کا پورا تجر بہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے۔ یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔ پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دکھ ہوگا ۔تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا ،اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچا دوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سُنے یا نہ سُنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی،میری موت،میری قربانیاں،میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیمؑ کی طرح اس کی روح بول اٹھے۔ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ(بقرہ:۱۳۲)جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا ،خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا۔ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں۔پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز سمجھتے ہیں۔
(ملفوظات جلد ۲ صفحہ۱۰۰-۱۰۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)