تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۵۰): کتاب الحج (مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ )
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےان صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی حضورعلیہ السلام کے منشاء کے مطابق اور حضور ؑہی کی مقدس اغراض میں مدد دینے کے لیے خرچ کی۔ زیر نظر کتاب کے متعلق ۱۰؍نومبر ۱۹۵۰ء کوالہ دین بلڈنگ سکندر آباد، حیدر آباد دکن میں لکھے گئےعرض حال میں آپؓ بتاتے ہیں کہ’’مئی ۱۹۰۷ میں، میں نے حقیقت نماز کے نام سے نماز کی فلاسفی پر ایک کتاب شائع کی جو بحمدللہ بہت مقبول ہوئی اور بعد میں مختلف احباب نے اسے مختلف صورتوں میں شائع کر کے فائدہ اٹھایا۔ الحمدللہ
میں ارکان اسلام پر ایک سلسلہ لکھنا چاہتا تھا لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے ملتوی ہوتا آیا۔ پورے ۴۳ سال بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ کتاب الصیام یعنی روزے کی حقیقت اور فلاسفی شائع کروں جو اس سال مئی ۱۹۵۰ء میں شائع ہوئی اور اب اسی سلسلہ میں کتاب الحج شائع کرنے کی توفیق پاتا ہوں والحمدللہ علی ذالک
ارادہ یہ تھا کہ کتاب الحج اور کتاب الزکوٰۃ ایک ہی جلد میں شائع کروں مگر ایسا بوجوہات نہ ہو سکا۔ اس لیے کتاب الزکوٰۃ بھی جلد شائع ہونے کے لیے دعا کرتا ہوں۔ احباب بھی میرے لیے دعا کریں اور ان کتابوں کی اشاعت میں حصہ لے کر میرے ساتھ تعاون کریں۔ فقط‘‘
تین سو صفحات پر مشتمل اس تفصیلی کتاب کے پہلے ایڈیشن کے ۵۰۰ نسخے شائع ہوئے، تب اس کی فی نسخہ قیمت محض تین روپیہ (انگریزی سکہ)مقرر ہوئی۔
حج اور اس کی حقیقت پر قابل قدر مواد کی حامل اس کتاب میں خانہ کعبہ کے مقام و مرتبہ کے ساتھ ساتھ مناسک حج کا تعارف اور فلسفہ قرآن کریم کی روشنی میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
کتاب کے صفحہ تین سے چھبیس تک تاسیس کعبہ اور اس کے مقاصد پر قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں مواد پیش کیا گیا ہے۔
صفحہ ۲۷ سے مکہ معظمہ کے متعلق پیش گوئیوں کی وضاحت کا باب شروع ہوتا ہے۔ اسی ضمن میں صفحہ ۳۳ پر لکھا ہےکہ ’’الحمدللہ خاکسار عرفانی کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس سعادت سے نوازا۔میں جب ۱۹۲۷ء میں یورپ سے واپس ہوتے ہوئے حج کے لئے گیا تو ان تمام شعائر اللہ اور آیات کا بچشم خود مشاہدہ کیا۔‘‘
اس کے بعد آگے بڑھتےہوئے حج اور اس کے مقاصد کا بیان ہے۔ اس باب میں بتایا کہ یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے حج کے سفر کو ایک عام جسمانی شغل کی بجائے روحانیت کا ذریعہ بنادیا ہے اور حج کے حقیقی مقصد کو نمایاں کرکے بیان کیا ہے۔ کتاب کے صفحہ ۴۹ پر بتایا کہ حج کے اصلاحی نظام کا سلسلہ ۹ ہجری میں شروع ہوا۔ اور اس کے پس منظر میں ۶ ہجری کی صلح حدیبیہ اور اس کے واقعات و اثرات کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔
مصنف نے ثابت کیا ہے کہ یہ اسلام ہی ہے جس نے قومی مفاخر کو ذکر اللہ سے بدلا ہے۔ طواف کی برہنگی کو دُور کیا۔ قیام عرفات کے احکام کا اجرا کیا۔ حج میں اخلاقی معیاروں کو بلندی عطا کی، وغیرہ
کتاب کے صفحہ ۶۵ سے حج کی اصطلاحات اور مقامات کی تشریح کا بیان شروع ہوتا ہے۔ جس میں حج کا مفہوم سمجھانےکے بعد قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں اقسام حج (اَفراد، قِران اور تمتع) پر روشنی ڈالی۔ ایام حج کا بتایا ہے۔حج کے مقامات کا ذکر کیا ہے ۔اگلے باب میں حج اور اس کے ارکان کی تشریح اور فلسفے کا بیان ہے۔ جس میں احرام کی حقیقت اور طریق، احرام کے احکام، تلبیہ، یوم عرفہ، یوم نحرپر تفصیلی تشریحی نوٹ درج ہیں۔
کتاب کے صفحہ ۱۲۲ پر حج کے حوالے سے مختلف مواقع اور مقاما ت پر کی جانے والی تسبیح و تحمید، اذکار و اوراد کے ساتھ ساتھ مشہور دعاؤں کا بھی بیان ہے ۔آگے چل کر فلسفہ ارکان کے ضمن میں حج ا ور عمرہ کا فرق لکھا ہے۔ مثلاً لکھا کہ ’’میں جب مسئلہ طواف پر غور کرتاتھااور اس آیت پر سوچتا تھا تو میری سمجھ میں آیا کہ حقیقی رنگ میں طواف کرنے والا صف ملائکہ میں داخل ہوجاتا ہے جس طرح پر حضور ﷺ پر اخلاص و صدق سے درود پڑھنے والا صف ملائکہ میں آجاتا ہے بلکہ وہ اس سے بھی اوپر ترقی کرتا ہے اور تجلیات ربانی کے سایہ میں آجا تا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی حضور ﷺ پر درود پڑھتے ہیں۔ ‘‘
کتاب کے صفحہ ۱۴۷ پر طواف کے سات چکروں کی حقیقت لکھی ہے۔
صفحہ ۱۹۴ پر خلاصة الکلام و توضیح المرام کے عنوان کے تحت ضروری امور کی اجمالی بحث درج کی ہے تاکہ یکجائی طو رپر مقاصد حج سمجھ میں آجائیں۔ جس میں بتایا کہ حج تمام عبادتوں کا جامع ہے۔کتاب کے صفحہ ۲۱۰ سے’’حجة الوداع اور تکمیل دین اور اتمام نعمت‘‘کے باب کا آغاز ہے۔
اس کے بعد اگلا باب ’’میرے ایام حج کے مشاہدات و تاثرات‘‘پر مشتمل ہے۔ لیکن اس کے آغاز میں بتایا کہ انہوں نے اس سفر حج کی ایک مخصوص ڈائری لکھی تھی لیکن جب ۱۹۴۷ء کے ہنگاموں میں مصنف کی ذاتی اور قیمتی لائبریری کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا گیا تو یہ ڈائری بھی ضائع ہوگئی۔
لیکن مصنف نے چوتھائی صدی گزرنے کے باوجود اپنی یادداشت کی بنا پر لندن سے روانہ ہوکر قسطنطنیہ، اسکندریہ سے ہوتے ہوئے ارض حرم پہنچنے کا تفصیلی احوال لکھا ہے جو ایمان افروز بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔