کیا خدا کے بغیر اخلاقی طور پر اچھا ہونا ممکن ہے؟
اعلیٰ اخلاق اورحسن خْلق انسانیت کا زیور ہے۔ جس مذہب میں اخلاقیات نہیں وہ مذہب بے سود ہے اور جس انسان میں عمدہ اخلاق مفقود ہوں وہ انسانیت کے اعلیٰ درجہ سے محروم رہتا ہے۔ اسلام نے اخلاقیات کے قیام پر اس قدر زور دیا ہے کہ بانیٔ اسلامؐ کو حسن اخلاق کی عظمت کے مینار پر قائم فرمادیا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یہ اعلان فرمایا کہوَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ۔ (القلم:۵) اور یقیناً تو بہت بڑے خُلق پر فائز ہے۔ بانیٔ اسلامؐ کو خلق عظیم پر فائز کرکے اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ اخلاق فاضلہ کے بغیر حقیقی مسلمان اور سچا عاشق رسول ﷺ نہیں بنا جاسکتااور نہ ہی قرآن و سنت کی پیروی کے حق کو ادا کیا جاسکتا ہے۔ یعنی عشق مصطفیٰ ﷺ کا راستہ حسن اخلاق سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور عشق الٰہی کا راستہ محبت مصطفیٰﷺ کے وسیلہ سے ممکن ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔ (آل عمران:۲۳) (اے محمدﷺ!) تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ آنحضرتﷺ کے بارے میں حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول بھی اخلاق کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے کہ كَانَ خُلُقُهٗ الْقُرْآن، یعنی آنحضرت ﷺ کے اخلاق قرآن کریم کی عملی تصویر تھے۔
سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب منہاج الطالبین میں اس مضمون کو نہایت ہی جامع اور عمدہ طریق پر بیان فرمایا ہے۔ اس معرکہ آراکتاب سے استفادہ کرتے ہوئے خاکسار نے مقامی مالٹی اخبار میں ایک مضمون لکھا۔ اخلاق حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر لکھا جانے والا یہ مضمون مکرم ایڈیٹر صاحب کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اسے مختلف وقتوں میں تین بار شائع کیا ۔
آج کل ایک سوال پہلے کی نسبت بہت کثرت سے کیا جاتا ہے، اور خاص طور پر ایسے نوجوانوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جن کی صحیح راہنمائی نہیں ہوتی یا جو مادیت کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں یا جو مذہب پر عمل نہیں کرتے، کہ سیکولر یا دنیاوی تعلیم انسان کو اچھے اخلاق کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور اخلاقیات کی تعلیم سکولوں میں باقاعدگی سے دی جاتی ہےتو اس صورتحال میں مذہب کا مقصد اور ضرورت کیا ہے؟ جب ہمیں سکول میں اور مختلف ذرائع سے اخلاقیات کا درس ملتا رہتا ہے تو پھر مذہب پر ایمان لانے کا کیا مقصد ہے؟ مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اخلاقیات کے لیے کسی مذہب کی ضرورت نہیں اور اعلیٰ اخلاق بغیر کسی مذہبی تعلیم کے بھی سیکھے جاسکتے ہیں۔ درحقیقت وہ یہ بھی کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو لوگ مذہب کی پیروی نہیں کرتے ان کے اخلاق مذہبی لوگوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ملحد یا دہریہ عقائد رکھنے والے لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمیں مہذب اور اخلاقی زندگی گزارنے کے لیے خدا کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ حقیقت میں، ایک بار جب خدا کو تصویر سے ہٹا دیا جاتا ہے، تو اخلاقیات کا تصور اور بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اخلاقی کمپس (compass) کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے اور اخلاقیات کی تعریف کرنے کی کوئی بھی کوشش بالکل بے معنی اور بے سود مشق بن جاتی ہے۔
خدا تعالیٰ ہی تمام تر اخلاقیات کا منبع ہے
اسلام میں اخلاقیات خدا کی طرف سے آتی ہیں۔ خدا تعالیٰ ہی تمام اخلاقی خوبیوں کا حتمی منبع اور ذریعہ ہے۔ ہم مہربان ہونا سیکھتے ہیں کیونکہ خُدا مہربان ہے، رحمٰن ہے۔ہم رحم دل ہونا سیکھتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ رحیم ہے۔ اور ہم اپنے دائرے میں اور اپنی سطح پر خدا کی رحمت پر عمل کرکے رحم دل بننا سیکھتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں جو اعلیٰ اخلاق اپناتے ہیں وہ سب خوبصورت اخلاقی اصول ہم خُدا تعالیٰ اور اُس کی تعلیمات سے ہی سیکھتے ہیں۔
میں ایمان محکم اور یقین کامل سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اخلاق حسنہ واقعی اور یقیناً خداتعالیٰ کی طرف سے ہی آتے ہیں اور انسان یہ طاقت اور قوت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے بل بوتے پر اخلاقی اقدار متعین یا ایجاد کرسکے۔کیونکہ اگر استاد نہ ہو، راہنما نہ ہو تو ہم کیسے پہچان سکتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا نہیں۔ وہ قوت جو ہمیں اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی سمجھ دیتی ہے وہ خدا کی تعلیم ہے۔ اور وہ اخلاقی راہنمائی اور اخلاقی ہدایت خدائے ذوالجلال کی طرف سے آتی ہے جو تمام اخلاقیات اور تہذیب کا استاداور مربی و معلم ہے۔
جنگ سراسر گھاٹے اور تکلیف کی راہ ہے اور امن کامیابی اور خوشحالی کی راہ ہے۔ انسان جس نتیجے پر سینکڑوں اور ہزاروں جنگوں اور دو بڑی عالمی جنگوں میں لاکھوں معصوم انسانوں کا خون بہا کر پہنچا ہے، خداتعالیٰ نے اپنی تعلیم اور اپنے انبیاء کے ذریعہ وہ بات ہزاروں سال سے واضح فرمادی ہوئی ہے۔ اسی لیے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’مُبارک ہیں وہ جو صُلح کراتے ہیں‘‘(متی ۵:۹)۔ قرآن کریم فرماتا ہے وَالصُّلۡحُ خَیۡرٌ یعنی صلح (سب سے) بہتر ہے، (النساء:۱۲۹)۔ سورہ آل عمران، آیت ۵۸ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اُن کو اُن نیک اعمال کے بھرپور اَجر دے گا۔ اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘یعنی امن و سلامتی کی راہ ہی فلاح و بہبود کی ضمانت ہے اور جنگ گھاٹے اور نقصان کے سوا کچھ نہیں۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے اور اپنے لیے روزی کے سامان کرتا ہے۔ ایک چور بھی بڑی محنت اور پلاننگ کے ساتھ بہت تگ و دو کرکے چوری کرتا ہے اور اپنی گزر بسر کا بندوبست کرتا ہے۔ دونوں معاملات ہی محنت، مشقت اور پلاننگ کو چاہتے ہیں۔ مگر محنت مزدوری سے کمایا جانے والا مال رزق حلال اور کمانے والا اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہِ کہلاتا ہے۔ اور چوری کے ذریعے کمایا جانے والا مال رزق حرام کہلاتاہےاور چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹنے کی سزا رکھی گئی ہے۔ آخر یہ فرق کس تہذیب نے سکھایا ہے؟ یہ رزق حلال و حرام کا تصور کس انسان کا ایجاد کردہ ہے؟ جنگ کے مقابلہ میں امن و آشتی اور صلح کی تعلیم کس نے دی ہے؟ نیکی و بدی میں فرق کس سائنسدان کی تھیوری ہے؟ یہ سب خدائے علیم وخبیر کی طرف سے بذریعہ الٰہی کلام اور بذریعہ انبیاء و رسل انسان کو سکھایا گیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ اور مذہب کو چھوڑ کر انسان اخلاقیات کو سیکھ سکتا ہے یہ محض ایک وہم اور ایسا خیال ہے کہ جو حقیقت سے بہت دُور ہے۔
اخلاقیات اور روحانیت
اسلامی تعلیمات کے مطابق دینی زندگی کے دو حصے ہیں، اخلاقیات اور روحانیت۔
انسانی اعمال میں سے وہ اعمال جو انسانوں سے تعلق رکھتے ہیں یعنی انسانی کردار اور صفات جو ہیں وہ اخلاق کہلاتے ہیں۔ وہی اعمال جب ان کا تعلق خداتعالیٰ سے ہو تو وہ روحانیت کہلاتے ہیں اور انسان کی روحانی زندگی کا حصہ بنتے ہیں۔ اور متقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دونوں باتوں کا خیال رکھے یعنی اخلاقیات کا بھی اور روحانیت کا بھی۔ اور چاہیے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے بھی تعلق مضبوط ہو اور بنی نوع انسان سے بھی تعلق عمدہ ہو۔ لہٰذا اخلاقی اور روحانی حالتیں ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ہم انہیں الگ نہیں کرسکتے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں ان میں سے نصف اس کے کردار اور اس کی ذات سے منہا ہوگئی ہیں، ختم ہو گئی ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’انسان کے اعمال کا وہ حصہ جو بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے اخلاق کہلاتا ہے۔ اور وہی معاملہ جب خداتعالیٰ سے کیا جائے تو اسے روحانیت کہتے ہیں۔ اگر کوئی انسان بندوں سے جھوٹ بولتا ہے تو وہ بداخلاق ہے اور اگر خدا سے جھوٹ بولتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کی روحانیت مردہ ہوگئی ہے۔ اور جب کسی کے دونوں پہلو درست ہوں تب ہی وہ دیندار اور متقی کہلاسکتا ہے۔‘‘(منہاج الطالبین، انوارالعلوم جلد ۹ صفحہ ۱۷۶)
اچھا، دیندار اور متقی کون ہے؟
اچھے آدمی کی تعریف کیا ہے؟ قرآن کریم کے مطابق جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے وہ نیک ہے اور اس کے مقدر میں خوشی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس کے (اعمال کے) پلڑے بھاری ہوں گے۔ تو وہ ضرور ایک پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔ اور جس کے (اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے۔اس کا ٹھکانا ہاویہ (یعنی جہنّم) ہوگا۔(القارعة:٧-١٠) یعنی جس کے اچھے اعمال اور عمدہ اخلاق زیادہ ہیں وہ یقیناً اچھا، نیک، متقی، باکردار اور بااخلاق آدمی ہے۔ اور جس کے برے اعمال زیادہ ہوں وہ بدکار اور بد اخلاق کہلاتا ہے۔ یعنی نیک وہ ہے جو اخلاقی اور روحانی دونوں اقدار اپنے اندر رکھتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر کوئی طالب علم دس میں سے نو سوالوں کے صحیح جواب دیتا ہے لیکن دسویں سوال کا جواب غلط ہےتو وہ ایک غلطی کی وجہ سے سزاوار نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی ڈاکٹر یا طبیب سے مریض کے علاج میں کوئی کوتاہی ہوجائے مگر عام طور پر مریضوں کو اس طبیب کےذریعے سے شفایابی ہوتی ہوتو وہ اچھا طبیب ہی کہلائے گا۔ مختصر یہ کہ اچھا، نیک اور بااخلاق انسان وہ ہے جس کی خوبیاں اس کی کمزوریوں سے بہت زیادہ ہوں۔ اسی طرح فاسق وہ ہے جس کی برائیاں اس کی خوبیوں پر غالب ہوں۔ یعنی اگر فطرت صحیحہ فطرت سیئہ پر غالب رہے تو یہ اخلاق حسنہ ہے۔
کیا اخلاق سکھائے جاسکتے ہیں اور کیا اخلاق کی اصلاح ممکن ہے؟
ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا آپ اخلاقیات سیکھ سکتےیا سکھا سکتے ہیں؟کیا اخلاق سیکھے جاسکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے کہ کیوں نہیں؟ اخلاقیات کا علم سے گہرا تعلق ہے۔ جیسے جیسے انسان کا شعور اور عرفان بڑھتا ہے ویسے ویسے اس کے اخلاق میں نکھار آتا چلا جاتا ہے اور بالآخر انسان بااخلاق انسان کہلاتا ہے۔ قرآن پاک اس معاملے میں بالکل واضح ہے۔ قرآن کریم کے مطابق اخلاقی زندگی بہتری کی صلاحیت رکھتی ہے اور اخلاق کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ سورۃ الاعلیٰ میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ پس نصیحت کرتے رہو۔ نصیحت بہرحال فائدہ دیتی ہے۔ جو (خدا سے) ڈرتا ہے وہ یقیناً نصیحت حاصل کرے گایعنی خبردار کرتے رہنا چاہیے کیونکہ انتباہ ہمیشہ مدد کرتا ہے۔
جب ہم خدا تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اچھے اخلاق اور روحانیت کی طرف اپنی قوم کی راہنمائی کی ہے اور وہ اپنی قوم کو اچھی نصیحت کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتے تھے۔ اچھی نصیحت کبھی بے فائدہ نہیں ہوتی کیونکہ تسلسل سے قطرہ قطرہ گرنے والا پانی بھی پتھر میں جگہ بنا لیتا ہے۔ اس لیے جب تسلسل کے ساتھ نصیحت کی جاتی رہے تو وہ دلوں کو موم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح جب تسلسل کے ساتھ اخلاق حسنہ سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی رہے تو وہ انسان کو بااخلاق اور باکردار انسان بنادیتے ہیں۔
بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون کی بہت خوبصورتی سے وضاحت فرمائی ہے کہ اخلاق سیکھے اور سکھائے جاسکتے ہیں۔ اصلاح ممکن ہے۔ غیر اخلاقی سرگرمیوں سے اخلاق حسنہ تک کا سفر نہ صرف ممکن ہے بلکہ قابل عمل اور عین فطرت ہے۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ خیال نہ کرو کہ ہم گنہگار ہیں ہماری دعا کیونکر قبول ہوگی۔ انسان خطا کرتا ہے مگر دعا کے ساتھ آخر نفس پر غالب آجاتا ہے اور نفس کو پامال کردیتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے انسان کے اند ر یہ قوت بھی فطرتاََ رکھ دی ہے کہ وہ نفس پر غالب آجائے۔ دیکھو پانی کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ آگ کو بجھادے۔ پس پانی کو کیسا ہی گرم کرو اور آگ کی طرح کردو پھر بھی جب وہ آگ پر پڑے گا تو ضرور ہے کہ آگ کو بجھادے جیسا کہ پانی کی فطرت میں برودت ہے ایسا ہی انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے۔ ہر ایک شخص میں خداتعالیٰ نے پاکیزگی کا مادہ رکھ دیا ہؤا ہے۔ اس سے مت گھبراؤ کہ ہم گناہ میں ملوّث ہیں۔ گناہ اْس مَیل کی طرح ہے جو کپڑے پر ہوتی ہے اور دْور کی جاسکتی ہے۔ تمہارے طبائع کیسے ہی جذبات نفسانی کے ماتحت ہوں خداتعالیٰ سے رو رو کر دْعا کرتے رہو تو وہ ضائع نہ کرے گا۔ وہ حلیم ہے، وہ غَفُورٌ رَحیمٌ ہے۔‘‘(بدر ۱۷؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵، ۱۶، منقولہ از منہاج الطالبین، انوار العلوم جلد ۹، صفحہ ۱۹۰)
یہ پیغام نہایت امید افزا ہے۔ خداتعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کی امید سے بھرا ہوا ہے۔ یہ قرآن پاک کا پیغام ہے۔ یہ روز روشن کی طرح بالکل واضح اور عیاں ہے کہ انسانی فطرت میں نیکی اور پاکیزگی ہے، روحانیت اور اخلاق حسنہ کی رغبت ہے۔ مگر اس فطرت کو روشنی اور جلاء بخشنے کے لیے مذہب اور خداتعالیٰ کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی ذات کی نفی کردی جائے تو اخلاقیات کی عمارت منہدم ہوجاتی ہے۔ اخلاق حسنہ کا خالق خداتعالیٰ ہے، پس خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرکے نہ اخلاقیات زندہ رہ سکتی ہیں اور نہ ہی روحانیت۔ اخلاق کی اصلاح اور روحانیت میں ترقی کے لیے خداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیے بغیر کوئی فرد نہ روحانی ہوسکتا ہے اور نہ بااخلاق ہوسکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ موجود نہیں تو پھر روحانیت بھی نہیں اور اخلاقیات بھی نہیں۔