میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے
صبح کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع خدام سیر کرنے کے واسطے باہر نکلے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ کی قبر پر تشریف لے گئے جہاں آپؑ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی ۔ بعد دُعا کے ایک شخص نے چند سوال کئے جو درج کرنے کے لائق ہیں۔
سوال۔ قبر پر کھڑے ہو کر کیا پڑھنا چاہئے؟
جواب۔ میّت کے واسطے دُعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گُناہوں کو بخشے جو اُس نے اس دنیا میں کئے تھے اور اس کے پس ماندگان کے واسطے بھی دُعا کرنی چاہئے ۔
سوال۔ دُعا میں کونسی آیت پڑھنی چاہئے؟
جواب۔ یہ تکلفات ہیں۔ تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہو اور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتاہے میت کے واسطے دُعا کرو۔
سوال ۔ کیا میّت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے ؟
جواب ۔ میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتاہے ۔ لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کی بجائے دعا ہے جو میّت کے حق میں کرنی چاہئے۔ میّت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے۔ لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتاہے۔
(ملفوظات جلد۸ صفحہ۴۰۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ایک شخص نے سوال کیا کہ میت کے ساتھ جو لوگ روٹیاں پکا کر یا اَور کوئی شئے لے کر باہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
فرمایا سب باتیں نیت پر موقوف ہیں۔ اگر یہ نیّت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتاہے ۔ ادھر وہ دفن ہو ادھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تاکہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے ۔ تویہ ایک عمدہ بات ہے۔ لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لیے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے۔
(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)