سیرت حضرت مسیح موعودؑ: حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍ جنوری ۲۰۱۶ء)
حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز باجماعت کی پابندی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نماز اتنی پیاری تھی کہ جب کبھی بیماری وغیرہ کی وجہ سے آپ تشریف نہ لا سکتے اور گھر میں ہی نماز ادا کرنی پڑتی تھی تو والدہ صاحبہ یا گھر کے بچوں کو ساتھ ملا کر نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 13 صفحہ 538)۔صرف نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ باجماعت نماز پڑھتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ایک موقع پر نماز باجماعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفس واحد کی طرح بنا دے۔ اس کا نام وحدت جمہوری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مذہب سے بھی یہی منشاء ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدت جمہوری کے ایک دھاگے میں سب پروئے جائیں۔ مذہب وہی ہے جو سب کو اکٹھا کر دے، ایک بنا دے۔ فرمایا کہ یہ نمازیں باجماعت جو ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اس وحدت کے لئے ہی ہیں تا کہ کُل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لئے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اسے قوت دیوے۔ یعنی نمازی ایک دوسرے سے قوت حاصل کریں۔ فرمایا اس وحدت جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اوّل یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلّے کی مسجد میں ادا کریں تا کہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو اور انوار مل کر کمزوری کو دور کریں اور آپس میں تعارف ہو کر اُنس پیدا ہو جاوے۔ فرمایا کہ تعارف بہت عمدہ شئے ہے کیونکہ اس سے اُنس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے۔
پس باجماعت نماز کا جہاں انسان کو ذاتی فائدہ ہوتا ہے، وہاں جماعتی فائدہ بھی ہے اور جو نمازوں پر مسجد میں نہیں آتے یا بعض ایسے بھی ہیں کہ آکر آپس میں رنجشوں کو دُور کر کے اُنس اور تعلق پیدا نہیں کرتے انہیں نمازیں پھر کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ کیونکہ ایک نماز کا عبادت کے علاوہ جو مقصد ہے ایک وحدت پیدا ہونا آپس میں اُنس اور محبت پیدا ہونا وہ حاصل نہیں ہوتا۔
پس اس سوچ کے ساتھ ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت بھی کرنی چاہئے اور اس سوچ کے ساتھ مسجد میں آنا چاہئے تاکہ ہم ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول نمازیں ادا کرنے والے بنیں اور اس کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔ نمازوں کے ضائع ہونے کا ایک واقعہ حضرت امیر معاویہؓ کا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کی صبح کے وقت آنکھ نہ کھلی اور کھلی تو دیکھا کہ نماز کا وقت گزر گیا ہے۔ اس پر وہ سارا دن روتے رہے۔ دوسرے دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز کے لئے اٹھاتا ہے۔ انہوں نے پوچھا تُو کون ہے؟ اس نے کہا شیطان ہوں جو تمہیں نماز کے لئے اٹھانے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا تجھے نماز کے لئے اٹھانے سے کیا تعلق؟ یہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا کہ کل جو میں نے تمہیں سوتے رہنے کی تحریک کی اور تم سوتے رہے اور نماز نہ پڑھ سکے اس پر تم سارا دن روتے رہے، فکر کرتے رہے۔ خدا نے کہا کہ اسے نماز باجماعت پڑھنے سے کئی گنا بڑھ کر ثواب دے دو۔ (یعنی اس رونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو کئی گنا ثواب دینے کا حکم دیا) تو مجھے اس بات کا بڑا صدمہ ہوا۔ (شیطان کہتا ہے کہ مجھے اس بات کا بڑا صدمہ ہوا) کہ نماز سے محروم رکھنے پر تمہیں اور زیادہ ثواب مل گیا۔ آج میں اس لئے جگانے آیا ہوں کہ آج بھی کہیں تم زیادہ ثواب نہ حاصل کر لو۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ شیطان تب پیچھا چھوڑتا ہے جب کہ انسان اس کی بات کا توڑ کرتا ہے، اس سے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ (ماخوذ از ملائکۃاللہ۔ انوارالعلوم۔ جلد 5صفحہ 552)پس ہمیں چاہئے کہ ہم بھی ہر موقع پر شیطان کو مایوس کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں اور اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش کریں۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور وقت پر ادا کرنے کی کوشش کیا کریں۔
بعض دفعہ بعض لوگ جلدبازی سے کام لیتے ہوئے کسی بات کی گہرائی میں جائے بغیر اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھر بعض کمزور طبائع اس وجہ سے ٹھوکر بھی کھا جاتی ہیں۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دعوت میں مَیں نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے پانی پینے سے روکا۔ (بائیں ہاتھ سے پانی پی رہاتھا۔ میں نے اسے کہا کہ اگر کوئی جائز عذر نہیں ہے تو دائیں ہاتھ سے پانی پیو۔)تو اس نے کہا کہ حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بھی بائیں ہاتھ سے پانی پیا کرتے تھے۔ حالانکہ حضرت صاحب کے ایسا کرنے کی ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ آپ بچپن میں گر گئے تھے جس سے ہاتھ میں چوٹ آئی تھی اور ہاتھ اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ اس سے گلاس تو اٹھا سکتے تھے مگر منہ تک نہیں لے جاسکتے تھے۔ مگر (یہ نہیں کہ سنّت کی پابندی نہیں کرتے تھے) سنّت کی پابندی کے لئے آپ گو بائیں ہاتھ سے گلاس اٹھاتے تھے مگر نیچے دائیں ہاتھ کا سہارا بھی دے لیا کرتے تھے۔‘‘(ماخوذ از الفضل 17؍اگست 1922ء۔ صفحہ 3 جلد 10 نمبر 13)
…تو دشمن کو جہاں جلد بازی بدظنی کروا رہی ہے اور وہاں اپنے جو ہیں ان کی نا سمجھی اور جلد بازی کی سوچ اس بات پر حاوی ہو گئی ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنّت کے خلاف یہ حرکت کر رہے ہیں حالانکہ ان کو وجہ معلوم کرنی چاہئے تھی اور جب حضرت مصلح موعودنے روکا تو رُک جانا چاہئے تھا اور پوچھنا چاہئے تھا اس کی کیا وجہ تھی؟ بہرحال یہ جلدبازیاں ہی ہیں جو پھر غلط قسم کی بدعات بھی پیدا کر دیتی ہیں۔ غلط قسم کی خود ہی تفسیریں کر کے انسان خود غلط نتائج اخذ کر لیتا ہے۔