چودھری محمد یعقوب صاحب سابق خوش نویس روزنامہ الفضل
تقسیم ہند سےقبل ہمارا خاندان قادیان کے نزدیک واقع گاؤں’’ننگل باغباناں ‘‘میں آباد تھاجو کہ اب تقریباً قادیان کا ہی ایک حصہ بن چکاہے۔
خاکسار کے دادا جان چودھری محمدیعقوب صاحب ١٩٠٨ء میں ننگل باغباناں میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد چودھری رحیم بخش صاحب تھے، جنہوں نے ١٩١٨ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے احمدیت جیسی عظیم الشان نعمت پائی۔اس لحاظ سے آپ خدا کے فضل سے پیدائشی احمدی تھے اور اپنے بہن بھائیوں میںسب سے بڑے تھے۔آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کتابت کا پیشہ اختیارکیا۔قادیان میں حضرت منشی عبدالحق صاحب مرحوم جو کہ محترم مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کے والدمحترم تھے،سے کتابت کا فن سیکھا اور خوبصورت کتابت کرنے والے بن گئے۔ اورپھر قادیان میں روزنامہ الفضل سے وابستہ ہوگئے۔پارٹیشن کے بعد ربوہ میں ١٩٦٢ء تک روزنامہ الفضل کے خوشنویس رہے۔ اس کی سب سے بڑی برکت خاندان کو یہ حاصل ہوئی کہ قادیان اور پھر ربوہ کےدینی ماحول میں زیادہ وقت گزارنے کے مواقع ملے۔ حضرت خلیفۃالمسیح کی اقتدامیں نمازیں ادا کرنے،دعائیں کرنے اور بزرگوں کی صحبت سے فیض یاب ہونے کی توفیق ملتی رہی۔ اسی طرح روزنامہ الفضل کی کتابت کی بدولت دینی معلومات میںبھی اضافہ ہوتاگیا۔
داداجان کو بچپن ہی سے باقاعدگی سے پنجگانہ نمازوں کے ساتھ نماز تہجدبھی ادا کرنے اور دعائیں کرنے کی تڑپ ہوتی تھی۔آپ کو قرآن کریم سے عشق اوردرثمین سے محبت تھی۔ خدا نےآپ کو بڑی اچھی آواز سے نوازاتھا۔آپ روزانہ نماز فجر کے بعد خوش الحانی سےتلاوت کلام پاک کرتے اوردرثمین کے اشعار،بالخصوص جن میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکرہےپڑھتےاور اپنے بچوں کو بھی نظمیں پڑھنے کی مشق کرواتے۔محض خد اکے فضل سے آپ کے تقریباًتمام بچےخوش آواز ہیں۔ آپ اپنے بچوں سے مختلف نظمیں سن کر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کے لیے بہت دعائیں کرتے۔ اِنہی دعاؤں اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ بچے جماعتی جلسوں اور دیگر پروگراموں میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کےنظم خوانی کرتے آرہے ہیں۔آپ چلتے پھرتے بھی قرآن و احادیث کی مسنون دعاؤں کے علاوہ دعائیہ اشعار میں بھی دعائیں مانگتے رہتے۔خلیفۂ وقت سے وابستگی ان کی روح کی غذا تھی۔ کوشش کرتے کہ بچوں کوساتھ لے جاکر حضور کے پیچھے نمازباجماعت اداکی جائے۔مالی قربانی میں بھی پیش پیش ہوتے اور بچوں سے بھی تاکید کرکے چندہ جات کی ادائیگی کرواتے۔
ہندوستان سے پاکستان ہجرت
قادیان سے ہجرت سے قبل مرکز نے تحریک کی کہ وہ دوست نام پیش کریں جو قادیان میں بطور درویش رہنے کے لیے تیار ہیں۔اس قربانی کےلیے خاکسارکے داداجان ان کےتینوں بھائیوں چودھری جلال الدین صاحب،چودھری محمد طفیل صاحب،چودھری محمد صادق صاحب اور تایا جان مولوی محمد صدیق صاحب ننگلی سب نے نام پیش کردیے۔
دادا جان چونکہ الفضل کے خوش نویس تھے اس لیےالفضل میں ضرورت کے پیش نظر اُن کو خاندان کی عورتوں اوربچوں کو قافلہ کے ساتھ پاکستان لانے کے لیےداداجان کےبھائی چودھری محمد طفیل صاحب کواور مدرسہ کا طالب علم ہونے کی وجہ سے تایاجان مولوی محمد صدیق صاحب کو پاکستان بھجوا دیا گیا۔ البتہ دادا جان کے دو بھائیوں چودھری جلال الدین صاحب اورچودھری محمد صادق صاحب کو بطور درویش رکھ لیا گیا۔کئی سالوں کے بعدچودھری جلال الدین صاحب اپنے بیوی بچوں کے پاکستان میں ہونے کی وجہ سے پاکستان آگئے لیکن چودھری محمد صادق صاحب تا دم وفات وہیں پر رہے اور بطور درویش سلسلہ کی خدمت کی سعادت پاتے رہے۔
وہ ہے خوش اموال پر، یہ طالب دیدار ہے
بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدائے قادیاں
قادیان میں داداجان کی گرفتاری و معجزانہ رہائی
دادا جان کے سب سے بڑے بیٹے مولوی محمد صدیق صاحب ننگلی مبلغ ومربی سلسلہ (خاکسار کےتایا جان )نے ایک واقعہ لکھاہے کہ ’’پارٹیشن کے وقت ہمارا گاؤں خالی ہورہاتھا۔گاؤں کے لوگ اکٹھے ہوکر روزانہ کھیتوں سےچارہ کاٹ کر لاتےتھے۔ایک دن ہم بیس کے قریب احمدی کھیتوں میں تھےکہ ایک فوجی دستہ آیا اور ہم سب کوگھیرے میں لے لیا اور کھیتوں میں اسلحہ تلاش کرتے ہوئے ایک معمولی شکار کی ایئرگن (Air Gun) دکھا کر الزام لگایا کہ تم غیر مسلموں کو قتل کرنے کے لیے نکلے ہو۔فوجی افسر نے شدید غصہ کا اظہار کیا۔اوراس نے ارادہ کرلیا کہ سب کو ہلاک کردیا جائے،مگر خدا نے ایک دم میں اس کے دل میں نہ معلوم کیا ڈالا کہ وہ فائر کا حکم دیتے ہوئے رک گیا۔بعد میں اس نے خود بتایا کہ پتا نہیں مجھے کسی غیبی طاقت نے فائرنگ کا حکم دینے سے روک دیا۔’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔ افسر نے باقی سب کو چھوڑ دیا لیکن میرے ابا جان کوجو اُن دنوں جماعت احمدیہ ننگل کے پریذیڈنٹ تھے گرفتارکرکے لے گیااور الزام لگایا کہ یہ بندوق تمہاری ہے۔قید کردیا اور دن رات سخت اذیت دینے لگے۔مارتے پیٹتے اور اقرارکرنے پر زوردیتے کہ یہ بندوق تمہاری ہے،لیکن آپ سچ پر قائم رہے اور گریہ و زاری سے دعائیں کرتے رہے۔ مارپیٹ کو برداشت کرتے رہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اورمحترم مولوی عبدالرحمان جٹ صاحب بڑی ہمدردی،دعاؤں اور توجہ سے رہائی کےلیے کوششوں میں لگے رہے۔ایک طرف یہ ابتلا تھا۔دوسری طرف آناًفاناً ہم سب لوگ ننگل باغباناں کو خالی کرکے قادیان میں آگئے۔میرے چچا جان جلال الدین صاحب اور میرے ایک تایا اللہ دتہ صاحب مرحوم رات دن پریشانی میں باربار ابّا جان کو دیکھنے جاتے اور دور سے ان کو دیکھ کر آجاتے۔ ابّا جان ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کرتے کہ دعائیں کرتے رہو۔خدا نے سب کی کوششوں اور عاجزانہ دعاؤں کو سنا اور بالآخر فوج نے ابّا جان کو ہزارہ سنگھ کے حوالےکردیا۔اُس کے بارے میں مشہورتھا کہ بڑا ظالم شخص ہے۔مگر اس کے دل میں مرکز کااحترام تھا اس لیے بزرگوں کے کہنے پراس نے ابّا جان کو چھوڑدیا۔اس طرح خدا نے موت کے منہ سے معجزانہ طور پر بچا لیااور بفضل اللہ تعالیٰ اس کے بعد ابّا جان تیس سال زندہ رہےاورالفضل کے خوشنویس رہے‘‘ الحمدللہ
محترم دادا جان کو اپنے بچوں کی تربیت کی بہت فکر رہتی تھی آپ کے ایک بیٹے حکیم محمد امین خالدصاحب نے بتایا کہ ’’میں نے ۱۹۶۳ء میں میڑک کاامتحان پاس کیا تو ساتھ ہی واپڈا میں سٹورکیپرکی نوکری مل گئی۔والد صاحب بھی اسی سال الفضل نویسی سے ریٹائرہوئے تھے اورانہوں نےاپنے بیٹے محمد سلیم کے ساتھ کھیتی باڑی کاکام شروع کردیا۔خاکسار کو لائن سپرٹنڈنٹ نے کہا کہ جب بھی سٹورمیں سےسیمنٹ اٹھانے کے لیے میں پرچی دوں تو تم نے وصول کنندہ کو لکھی ہوئی تعداد سے پانچ بوریاں کم دینی ہیں۔ پھرجو بوریاں بچیں گی، بعد میں ہم ان کی رقم آپس میں برابر بانٹ لیا کریں گے۔ اس کام کے نتیجہ میں کچھ ہی دنوں میں خاکسار کے پاس تقریباً ڈیڑھ سو روپے آگئے جو اُس وقت کے حساب سے کافی زیادہ رقم تھی۔ میں نے گھر آکر اپنی طرف سے ابّاجان کوخوشخبری سنائی۔ابّاجان سن کر خاموش رہےاور کہانماز کی تیاری کریں۔ نماز کے بعدآپ نے اشکبار آنکھوں کےساتھ بہت ہی عمدہ اندازمیں حرام مال سےبچنے کی نصیحت کی۔اوراسی وقت نہ صرف وہ پیسے واپس کرنے کےلیے بھیجا بلکہ اس نوکری کوفوراً ترک کردینے کی بھی تلقین کی۔‘‘
آپ اس طرح ہروقت اپنے بچوں کی تربیت کی فکرمیں رہتے تھے حالانکہ غربت کے حالات تھے اس کے باوجود حرام کی کمائی سے بچوں کو منع کیےرکھا۔
اسی طرح چچا جان امین صاحب نے ایک اور واقعہ سنایا کہ’’ابا جان بہت دعا گو انسان تھے۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے بچپنے میں کہہ دیاکہ آپ کی دعاؤں کا کیا فائدہ،ہمارے حالات تو بدلتے نہیں (یعنی غربت ختم نہیں ہوتی) اس پر ابّاجان نے کہا:’’ایک دن ضرور آئے گا جب آپ ان دعاؤ ں کے اثمار دیکھو گے۔ ‘‘بلاشبہ حقیقت یہی ہے کہ آج ہمارا سارا خاندان ان کی دعاؤں کے پھل کھانے کا گواہ ہے۔
شادی و اولاد
محترم دادا جان کی شادی محترمہ حسین بی بی صاحبہ (دادی جان)سے ہوئی تھی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو پانچ بیٹوں:مولوی محمد صدیق ننگلی مرحوم،محمد سلیم مرحوم،حکیم محمد امین خالد، محمدیٰسین اختر اورمحمد رفیق شاکر جبکہ چھ بیٹیوں :حنیفہ بی بی مرحومہ زوجہ بشیر احمدمرحوم،نصرت بیگم مرحومہ زوجہ فیض احمد مرحوم،اقبال احمد زوجہ نذیراحمد،صفیہ بیگم زوجہ قاسم علی مرحوم،رضیہ بیگم مرحومہ زوجہ چودھری محمد اظہرمرحوم اور نسیم بیگم زوجہ میاں ممتاز احمدمرحوم سے نوازاتھا۔
دادا جان کی نیک تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کے بڑے بیٹے مولوی محمد صدیق صاحب ننگلی نے خود اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کیا۔
۱۹۴۵ءمیں جب حضرت مصلح موعودؓ نے وقفِ زندگی کی تحریک پر نوجوانوں کو پرانے علماء کی جگہ خدمتِ دین کے لیے آگے آنے کی تحریک فرمائی توآپ کے سب سے بڑے بیٹے، جو اُس وقت کارخانہ میں ملازم تھے اور اچھی خاصی تنخواہ لے رہے تھے، نےاپنے والدِمحترم کی خدمت میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں زندگی وقف کرکے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونا چاہتاہوں۔ اس پر دادا جان بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے:’’تم زندگی وقف کروتو ہمیں بھی حضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسماعیل ؑکے اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی۔‘‘
وقف کرنا جاں کا ہے کسبِ کمال
جو ہو صادق وقف میں ہے بے مثال
دادی جان کوجب علم ہوا توانہوں نے کہا کہ مجھے بھی اِس سے خوشی ہے لیکن بہتر ہوگا کہ بڑے بیٹےمحمد صدیق کی بجائے چھوٹے بیٹے محمدسلیم کو وقف کر دیا جائے۔ کیونکہ محمدصدیق اب کچھ کمانے لگاہےجس سے مالی معاونت ہورہی ہے۔داداجان نےکہا کہ ’’جب محمدسلیم بڑا ہوگا تو اس کا دیکھا جائے گاابھی تو محمد صدیق کے دل میں وقف کرنے کا جوش ہے جوکہ خداتعالیٰ نے خود پیدافرمایاہے۔ ‘‘
دادی جان کی خواہش کو بھی خدا تعالیٰ نے دوسرے رنگ میں یوں پورا فرمایا کہ ان کے بیٹے مکرم محمدسلیم صاحب جن کے وقف کی انہوں نے تجویز دی تھی،کو توفیق ملی کہ وہ اپنے ایک بیٹے (خاکسار )کو وقف کریں۔خاکسارمحض خدا کے فضل سے مربی بننے کے بعد اس وقت جامعہ احمدیہ یوکے میں پڑھانے کی توفیق پارہا ہے۔الحمد للہ
خد اکے فضل سے اب تو خاندان کے کئی اور بچوں اور بچیوں نے وقف نو کی مبارک تحریک میں شمولیت کی سعادت حاصل کی ہے۔خدا کرے ہماری نسلوں میں وقف زندگی کایہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے۔آمین
وفات و تدفین
دادا جان نے ستمبر۱۹۸۳ءمیں کھرڑیانوالہ میں وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ خدا کے فضل سے موصی تھے اس لیے آپ کا جسد خاکی کھرڑیانوالہ سے ربوہ لے جایا گیا۔ وہاں پر نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
اے خدا بر تربت او ابر رحمت ہا ببار
داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم
دا داجان اوردادی جان کی طرف سے مسجدومربی ہاؤس کی تعمیرکی سعادت
دادا جان کے بڑے بیٹے مولوی محمد صدیق صاحب ننگلی نے اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے ایک تجویز رکھی کہ اپنی ذاتی زمین میں سے ایک قطعہ جماعت کے لیے وقف کرکے اس پر اپنے ابا جان اور امی جان کے نام کی مسجد تعمیر کی جائے۔ اِس پر سب بھائیوں نے لبیک کہا اور باہمی رضامندی کے ساتھ ۲۰ مرلہ کا ایک مشترکہ پلاٹ نہ صرف وقف کیا بلکہ اس پر محض خدا کے فضل کے ساتھ ایک شانداراور وسیع وعریض مسجد اور مربی ہاؤس تعمیر کر کے سلسلہ کے نام لگوانے کی توفیق پائی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
مزید برآں آپ کے دوبیٹوں مکرم حکیم محمد امین صاحب خالد اور مکرم محمدرفیق صاحب شاکر اور ان کے بیٹے برادرم عابد احمد شاکرصاحب کو اس مسجد کی تزئین وآرائش (Renovation) کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ بلکہ اس سے ملحقہ تقریباً گیارہ مرلے کا مزید ایک پلاٹ بھی دونوں نے خرید کر مسجد کو دیا ہے۔
دادا جان کے سب بچوں، بچیوں اورپھر آگے ان کی اولادوں کومحض خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی نہ کسی رنگ میں خدمت دین اور مالی قربانی کی توفیق ملتی آ رہی ہے۔اورہمارے خاندان کو یہ سعادتیں محض قبولِ احمدیت کی وجہ سے نصیب ہوئیں اور ہورہی ہیں۔جبکہ ہمارے خاندان کا وہ حصہ(دادی جان کی ایک بہن اوران کا خاندان) جو احمدیت کا مخالف رہا ہر قسم کی برکتوں سے محروم ہے۔لیکن ہمارے خاندان کو اسلام کے غلبہ کے لیے مختلف رنگ میں خدمات کی توفیق مل رہی ہے اور سب ان کا پھل کھا رہے ہیں۔اللّٰھم زد فزد۔خدا کے فضل سے ہم حق پہ ہیں باطل سے کیا نسبت