یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق (قسط۳۳): حضرت مصلح موعودؓ کے دستر خوان پر سروجنی نائیڈو (۱۹۲۷ء)
حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تحفظ ناموس رسالت اور مسلمانوں کے ملکی و قومی حقوق کی نگہداشت کے لیے ہمیشہ جد و جہد فرما تے رہے۔اس سلسلے میں ایک موقع پر اپنے اس اہم کام کو مزید نتیجہ خیز بنانے کے لیے شملہ تشریف لے گئے جو برصغیر پر انگریزی حکومت کے عرصہ میں دہلی شہر میں شدید گرمی پڑنے کی وجہ سے سرکاری طور پرگرمائی دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ ہندوستان کے مشہور مسلم و غیر مسلم زعماء سے تبادلہ خیالات کرنے کے علاوہ حکومت کے حلقوں سے رابطہ پیدا کرنے کے لیے حضور رضی اللہ عنہ قریباً ڈیڑھ ماہ تک دن رات مصروف رہے۔١٣؍اگست ١٩٢٧ء کو شملہ پہنچے اور٢؍اکتوبر ١٩٢٧ء کو دارالامان میں واپس تشریف لائے۔ اس مبارک سفر میں جو اول سے آخر تک دینی، قومی اور ملکی سرگرمیوں کے لیے وقف تھا آپؓ کی مصروفیات عروج تک پہنچیں۔ چونکہ جماعت احمدیہ کا سارا نظام، نظامِ خلافت کے گرد گھومتا ہے۔اس طرح جہاں خلیفة المسیح کی موجودگی ہوتی ہے، وہی جگہ جماعت احمدیہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ مورخہ ٣٠؍اگست ١٩٢٧ء کے الفضل قادیان میں شائع شدہ مکرم یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کے مرسلہ اعلان کے مطابق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ شملہ میں کنگزلے (Kingsley) میں رہائش پذیر تھے اور بتایا گیا کہ لوگوں کی سہولت اور رابطہ کے لیے ٹیلی فون نمبر ٢٥٨٥ ہوگا۔ مذکورہ بالا سفرشملہ کے دوران حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جن مسلم وغیر مسلم سیاسی لیڈران اور حکومتی شخصیات کو حسب موقع چائے یا کھانے پر مدعو کیا، اس مہمان نوازی کا مختصر ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔ اس اہم اور تاریخی سفر کے موقع پر حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ ایڈیٹر الحکم نے بطور نامہ نگار سفر کیا تھا۔ فاضل نامہ نگار نے اخبار الفضل قادیان کے مورخہ ٧؍اکتوبر ١٩٢٧ء کے شمارے کے صفحہ ٥ کے کالم تین میں ’’سروجنی نائیڈو حضرت کے دستر خوان پر‘‘کی سرخی کے نیچے لکھا کہ ’’سروجنی نائیڈو ہندوستان کی مشہور سیاسی رہنما عورت ہے۔ جس نے اپنی زندگی کو اہل ملک کی سیاسی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ہندوستان کی مشہور سیاسی مجلس کانگریس کی صدارت بھی کرچکی ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح نے انہیں دعوت لنچ پر مدعو کیا۔اور وہ نہایت اخلاص اور ارادت سے تشریف لائیں۔ انہوں نے اسلام کے متعلق جو تقریریں وقتاًفوقتاًکی ہیں۔ ان سے ان کی وسعت معلومات اور غیر متعصبانہ روح کا پتہ ملتا ہے۔ میز پر ہندو مسلمان اتحاد کے لیے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتی رہیں…سروجنی دیوی بنگالی نژاد اور ایک فصیح البیان خاتون ہیں۔ اس تقریب دعوت پر وہ ملکی حالت کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کرتی رہیں۔ اور مختلف سیاسی لیڈروں کے ان خیالات کا بھی انہوں نےذکر کیا جو حضرت خلیفة المسیحؓ کے متعلق وہ اپنی مجلسوں میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک موقع پر مسٹر جناح نے نہایت محبت سے اعتراف کے طور پر کہا کہ کام کرنا تو حضرت خلیفةالمسیح کی جماعت جانتی ہے۔ جو نہایت مستعدی سے کسی موقعہ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اسی سلسلہ میں وہ جماعت کے نظام اور اس کی عملی قوت کے متعلق اپنے خیالات کا اور دوسرے لیڈروں کے خیالات کا اظہار کرتی رہیں۔ جماعت کے نظام کے متعلق ایک عام اعتراف پایا جاتا ہے۔ سروجنی دیوی قریباً دو گھنٹے تک رہیں۔ اور روانگی کے وقت انہوں نے کسی موقع پر قادیان آنے کا بھی وعدہ کیا…‘‘اس معزز نامہ نگار نے مورخہ ٧؍اکتوبر ١٩٢٧ءکے الفضل میں شائع شدہ اپنی رپورٹ میں تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا کہ ’’حضرت خلیفة المسیح کے شملہ میں قیام کا آخری ہفتہ دعوتوں اور ملاقاتوں کا ہفتہ کہلا سکتا ہے۔ اگر چہ آپ جب سے تشریف لائے ہیں۔ ملاقاتوں اور دعوتوں کا سلسلہ برابر جاری رہا ہے۔ کبھی آپ کے ہاں بعض لیڈران ملک اور دوسرے معززین مدعو تھے اور کبھی آپ۔ مگر یہ ہفتہ خصوصیت سے ایسی ہی مصروفیتوں کا رہا۔ میں ان میں سے بعض کا ذکر محض اس لیے کر دیتا ہوں کہ وہ تاریخ سلسلہ کا ایک جزو ہیں اور ا ن شاء اللہ العزیز عظیم الشان نتائج کی یہ اساس ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح کی صحت کی حالت تو بدستور ہے۔ اور آپ کی مصروفیتوں میں روز افزوں اضافہ ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ آپ کو ایک بجے رات سے پہلے بستر پر جانے کا موقع ملا ہو۔ بلکہ بعض اوقات اس سے زیادہ دیر کرکے سونا پڑا۔ اس قسم کی متواتر بے خوابیوں اور محنت کا اثر آپ کے چہرہ پر نمایاں ہے۔ میں کہوں گا کہ صحت کے لحاظ سے شملہ کے سفر نے حضرت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ ہاں سلسلہ کی عظمت اور شوکت کا سکہ بیٹھ گیا۔ اور یہ حضرت خلیفة المسیح کی ذاتی قربانی کا نتیجہ ہے۔ لوگ شملہ آتے ہیں کہ آرام کریں۔ لطف زندگی اٹھائیں۔ مگر اسلام اور اہل اسلام کا حقیقی خادم غمِ ملت سے نڈھال اپنے وقت، آرام اور مال کو قربان کرکے چاہتا ہے کہ اپنی قوم اور مذہب کو غیروں کے حملوں سے بچائے‘‘اپنی رپورٹ میں کچھ آگے چل کر مہاراجہ الور سے جماعتی نمائندہ کی ملاقات کا احوال درج کرکے ’’دیوان عبدالحمید صاحب، پرائم منسٹر کپورتھلہ کی دعوت ‘‘کے عنوان کے تحت لکھاکہ ’’دیوان عبدالحمید صاحب پرائم منسٹر کپورتھلہ اسلام کے ان چند نامور فرزندوں میں سے ایک ہیں جو دینی قابلیت ا ور حسن انتظام کا عملی نمونہ دکھا رہے ہیں۔ ریاست کپورتھلہ میں سر ی مہاراجہ صاحب کے حضر و سفر کی حالت میں ریاست کی انتظام عنان کو جس بیدار مغزی سے سنبھالے رکھتے ہیں وہ ہر طرح قابل تحسین ہے۔ آپ ایک بے تعصب مسلمان ہیں۔ حضرت خلیفةالمسیح کی دعوت چاء میں شریک ہوئے اور خود حضرت کو اپنے ہاں دعوت طعام پر مدعو کیا۔ دیوان صاحب احمدی نہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے اسلامی اخلاق سے ظاہر کیا ہے کہ محض اختلافِ رائے اور عقیدہ ہم کو ایک دوسرے سے سوشل تعلقات کو بڑھانے سے مانع نہیں ہونا چاہئے۔ ریاست کپورتھلہ سے سلسلہ احمدیہ کے تعلقات بہت دیرینہ ہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی ملاقات کا احوال درج کرکے نامہ نگار نے بتایا کہ ٢٥؍ستمبر ١٩٢٧ کو’’کنگزلے‘‘کے بالائی صحن میں دردمندمسلمانان شملہ کا ایک اجلاس ہوا، حضرت خلیفة المسیح اس اجلاس کے صدر تھے۔ احمدی اور غیر احمدی مسلمانوں کا یہ مشترکہ اجلاس جمعیة الاخوان کی تاسیس کے لیے ہوا تھا۔ جس میں حضور رضی اللہ عنہ نے تقریر فرمائی اور جلسہ کے اختتام پر حاضرین کی تواضع چائے سے کی گئی جو جماعت احمدیہ شملہ نے پیش کی۔ آنریبل سردار جوگندر سنگھ صاحب وزیر زراعت پنجاب کی دعوت طعام منعقدہ مورخہ ٢٨؍ستمبر ١٩٢٧ء کا ذکرکرکے نامہ نگار ’’حضرت خلیفة المسیح کی طرف سے دعوت چاء‘‘کا عنوان بنا کر بتاتے ہیں کہ ’’حضرت خلیفة المسیح نے ٢٩؍ستمبر ١٩٢٧ء کو ساڑھے چار بجے ہوٹل سیسل میں یورپین اور دیسی شرفاء کو چاء کی دعوت دی…اس قسم کی دعوت میں باہمی ملاقات اور تبادلہ خیالات سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں۔ اور ملک میں امن کو قائم رکھنے اور ملک کی اخلاقی اور اقتصادی حالت کی اصلاح اور بھلائی کے جدید راستے پیدا ہوجاتے ہیں…‘‘(حضوررضی اللہ عنہ کے قیام شملہ کی رپورٹ مرسلہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب،بابت مورخہ ٢٨؍اگست مطبوعہ الفضل ٢؍ستمبر ١٩٢٧ء صفحہ اول ) کے مطابق گذشتہ روز ایک جرمن سیاح جو ترکی۔ مصر۔ بغداد۔ پرشیا وغیرہ کا سفر کرکے آیا تھا۔ وہ حضور رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے لیے آیا۔ اور مختلف حالات سلسلہ کا ذکر سنتا رہا۔ اس کے چلے جانےکے بعد خان محمد نواز خان صاحب رئیس اعظم کیمل پور، ممبر اسمبلی۔ جناب محسن مرزا صاحب پرنسپل گورنمنٹ کالج کیمل پور۔ ہیڈماسٹر صاحب چیفس کالج لاہور۔ اور خان بہادرعبدالاحد ریٹائرڈ انجینئر نے حضرت صاحب سے ملاقات کی سعادت پائی۔ اور دیر تک سلسلہ گفتگو جاری رہا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کی مرتبہ رپورٹ شائع شدہ الفضل قادیان مورخہ ٩؍ستمبر ١٩٢٧ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی شملہ میں قیام کی مصروفیات میں لکھا ہے کہ ’’مہاراشٹر پارٹی کے مشہور و معروف لیڈر مسٹر کلکر اور مسٹر پہلوی نے حضرت امام جماعت احمدیہ سے ان کی فرودگاہ پر تشریف لاکر تبادلہ خیال کیا… اسی طرح مسلمانوں کےمشہور لیڈر مسٹر محمد علی جناح اور مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریزیڈنٹ اسمبلی۔صاحبزادہ سر عبدالقیوم صاحب۔ اور خان محمد نواز خان صاحب۔ مولانامحمد شفیع صاحب داؤدی۔ اور بعض دوسرے اصحاب مثل مولانا محمد عرفان صاحب وقتاًفوقتاً تشریف لائے…گھنٹوں بیٹھ کر تبادلہ خیالات اور حضرت امام کے مسودہ کی سپرٹ کی نہ صرف تعریف کی بلکہ تائید فرمائی۔ مورخہ تین ستمبر ١٩٢٧ء کی مصروفیات میں مذکور ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری وائسرائے ہند مسٹر ایجرٹن کو حضرت نے چائے کی دعوت دی اور ایک گھنٹہ تک مختلف امو ر پر گفتگو رہی۔ خان ذوالفقارعلی خان صاحب کی مرسلہ اسی رپورٹ کے مطابق یکم ستمبر کو ہز ایکسی لینسی وائسرائے ہند نے وائسریگل لاج میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے قریباً نصف گھنٹہ ملاقات کی تھی جس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بطور ترجمان شریک ہوئے تھے۔ (الفضل ١٣؍ستمبر ١٩٢٧ء صفحہ اول) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب اپنی رپورٹ میں حضرت خلیفةالمسیح کے قیام شملہ کے دوران وائسرائے ہند اور گورنر پنجاب سے ملاقاتوں کو اہم قرار دیتے ہوئے اپنا نقطہ نظر یوں لکھتے ہیں : ’’میں اس قسم کی ملاقاتوں کی اہمیت ان کے اغراض کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔ لوگ حکام سے ملتے ہیں۔ ان کی غرض اپنی ذاتی ضروریات اور مقاصد دنیوی پر بالعموم مشتمل ہوتی ہے۔ میں اسے بھی عیب نہیں سمجھتا۔ لیکن حضرت خلیفة المسیح کی ملاقات کی غرض محض ملک و قوم کی بہبودی ہوتی ہے۔ وائسرائے ہند سے ملاقات کے دوران میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ملک میں قیام امن اور ہندومسلم اتحاد تھا۔ گورنر پنجاب نے حضرت خلیفة المسیح سے ایک دوستانہ خط کے ذریعہ ملاقات کی خواہش کی۔ حضرت خلیفة المسیح کو پہلے ہی سے خیال تھا اور آپ موقع کے منتظر تھے۔ چنانچہ آپ نے ١٧؍ستمبر ١٩٢٧ء کو گورنر صاحب سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا موضوع بھی ملک میں ہندو مسلم فسادات کا انسداد تھا۔ سرمیلکم ہیلی نے اس ملاقات میں جس دوستانہ اور بے تکلفانہ سپرٹ کا اظہار کیا وہ قابل عزت ہے۔ یہی ایک طریق ہے جس سے ذمہ دار حاکم براہ راست ملک کے صحیح حالات اور صحیح جذبات سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔ قریباً ایک گھنٹہ تک تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہا‘‘ قیام شملہ کے ضمن میں’’سر عبداللہ ہارون جعفر کی تشریف آوری‘‘کے عنوان کے تحت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں: ’’سر عبداللہ ہارون جعفر جو پونا کے ایک معزز اور سَربَرآوُرْدہ مسلم لیڈر اور اسمبلی کے ممبر ہیں، حضرت کی خدمت میں تشریف لائے۔ سر جعفر مہاراشٹر کے مسلمانوں کی تعلیمی تنظیم میں بےحد دلچسپی لے رہے ہیں۔ اور متواتر چودہ سال سے وہاں ہر سال ایک تعلیمی کانفرنس سالانہ منعقد کرتے ہیں۔ اس سال کے اجلاس میں جو اکتوبر کے دوسرے ہفتہ میں ہوگا۔ انہوں نے حضرت سے لیکچرار بھیجنے کی استدعا کی۔ جس کو حضرت نے منظور فرمایا۔ امید کی جاتی ہے کہ کانفرنس میں احمدی سپیکروں کی تقریریں خدا کے فضل سے ایک خاص اثر اور رنگ پیدا کریں گی‘‘قیام شملہ کے دوران صرف متعدد قومی لیڈران ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے فیضیاب نہیں ہورہے تھے بلکہ مسلم و غیر مسلم خواتین کے لیے بھی مسیح موعودؑ کے وسیع دسترخوان کے نظارے ملتے ہیں۔ اس منفرد تقریب کے متعلق حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ’’ایک پردہ پارٹی‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:’’حرم حضرت خلیفة المسیح یہاں کی متعدد پارٹیوں میں مدعو ہوچکی ہیں۔ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ طبقہ کی وطنی اور یورپین بیگمات اور خواتین سے مراسم پیدا ہوگئے ہیں۔ اسی سلسلہ میں خود حرم حضرت اقدس نے ایک پردہ پارٹی دی۔ جس میں انگریز، ہندو، پارسی، سکھ اور مسلم خواتین کثیر تعداد میں شریک ہوئیں۔ ہمارے لاہور کے کمشنر صاحب مسٹر مایلز ارونگ کی خاتون بھی شریک پارٹی تھیں۔ سروجنی نائیڈو۔ کپورتھلہ کےشاہی خاندان کی خواتین۔ آنریبل مسٹر جناح کی بیگم صاحبہ او ربہت سی معزز اور سر برآوردہ بیگمات اس موقع پر موجود تھیں۔ اور قریباً اڑھائی گھنٹہ تک یہ جلسہ شملہ کی مشہور فرم ’’ڈیوی کو‘‘کے ہال میں رہا۔ جہاں پردہ کا پورا اہتمام تھا۔ اور نفیس ماکولات و مشروبات کا انتظام تھا۔ اس پارٹی میں حضرت ام المومنینؓ کا وجود باوجود بھی موجود تھا۔ اور پارٹی کو معزز میزبان کی طرف سے کامیاب بنانے میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے جس دلچسپی اور قابلیت کا اظہار فرمایا وہ ہر طرح سے شکریہ کے قابل ہے میں ان واقعات کو سرسری نظر سے نہیں دیکھ رہا ہوں۔ یہ واقعات ایک تخم ریزی ہیں آئندہ سلسلہ کی شاندار ترقیات کی۔‘‘
٭…٭…٭