جماعت احمدیہ کی ایک امتیازی خصوصیت وقارِ عمل
جماعت احمدیہ مسلمہ کا ہر قول و فعل اسلام اور بانی اسلام حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی دی ہوئی تعلیمات کی عکاسی کرتا ہے۔ انہی تعلیمات میں سے ایک تعلیم قرآن کریم میں یوں بیان ہے کہ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ (الاعراف:٣٢)اے آدم کے بیٹو! ہر مسجد کے قریب زینت (کے سامان) اختیار کرلیا کرو۔یعنی مسجد جانے سے پہلے ہی اپنے دلوں کو پاک کرلیا کرو۔ کپڑوں اور بدن کی ظاہری صفائی بھی کرلیا کرو۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اے آدم کے بیٹو !کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے یٰبَنِیْٓ مُسْلِمِیْنَ کہہ کر مخاطب نہیں کیاکہ رُوئے زمین پرموجود سب انسان آدم کے بیٹے ہی ہیں۔ چنانچہ حکم دیا ہے کہ ہر مسجد کے قریب زینت (کے سامان) اختیار کرلیا کرو۔ مسجد کے معنی سجدہ کرنے کی جگہ کے ہیں۔جہاں عبادت کی جائے۔ پس چاہے وہ مسلمان ہے، عیسائی ہے، یہودی ہے یا کسی مذہب کا پیروکار ہے اسے یہ حکم آدم کے بیٹو کہہ کر دیا گیا ہے کہ زینت وپاکیزگی کے سامان اختیار کیا کرو۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمدمصطفیٰﷺ کو جہاں بہت سی خصوصیات سے نوازا گیا وہاں ایک خاصیت کا ذکر خود آپﷺنے ان الفاظ میں فرمایا کہ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طُھُوْرًا۔کہ تمام زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک بنایا گیا ہے۔(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب قول النبیؐ جعلت لی الارض مسجدًا و طہورًا)
اسی طرح حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کو یہ حکم دیا کہوَعَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیْمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَالۡعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ۔(البقرۃ:۱۲۶) اور ہم نے ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑکو تاکیدی حکم دیا تھا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک (اور صاف) رکھو۔ گویا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ بات نہایت پسندیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے مخلصین کے لیے مساجد کو پاک اور مصفیٰ رکھا جائے۔
اسی مضمون کو ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے الطُّہُوْرُشَطْرُ الْاِیْمَانِ یعنی طہارت، پاکیزگی اور صاف ستھرا رہنا ایمان کا ایک حصہ ہےکے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔(مسلم کتاب الطہارة باب فضل الوضوء) اور اس پر پورا اترنے کی توفیق پانے کے لیے آپﷺنے یہ دعا بھی سکھلائی کہ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کہ اے اللہ! مجھے(روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے) بہت زیادہ توبہ کرنے والا بنادے اور(ظاہری صفائی رکھنے کے لیے) پاک صاف رہنے والا بنا دے۔ آمین
یہ فضیلت اسلام کو حاصل ہےکہ اس نے صفائی کےاعلیٰ معیار قائم کرنے کی ہر موقع پر تعلیم دی ہے۔اسلام میں وقار عمل کو بھی خاص اہمیت دی گئی ہے۔اس بات کا اندازہ آنحضرتﷺ کےاس عمل سے لگایا جاسکتاہے کہ اگر سڑک پر جھاڑیاں،پتھریاکوئی اور گندی چیز پڑی ہوتی تو آپ اُسے خود اٹھا کر ایک طرف کر دیتے اور فرماتے کہ جو شخص سڑکوں کی صفائی کا خیال رکھتا ہے خدا اس پر خوش ہوتا ہے اور اسے ثواب عطا کر تا ہے۔(مسلم کتاب البر والصلة) پھر ایک اور جگہ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کر تا ہے۔(مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانه)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اِس ارشاد میں وقارِعمل کی روح نظر آتی ہے۔آپؑ نےآیت وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ۔(المدثر:٦-٥)کی تفسیر میں فرمایا:’’اپنے کپڑے صاف رکھو۔ بدن کو اور گھر کو اور کوچہ کو اور ہر ایک جگہ کو جہاں تمہاری نشست ہو پلیدی اور میل کچیل اور کثافت سے بچاؤ یعنی غسل کرتے رہو اور گھروں کو صاف رکھنے کی عادت پکڑو‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد١٠صفحہ ٣٣٧)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعت احمدیہ کی خصوصی طور پر اور انسانیت کی عمومی طور پر دینی اور دنیوی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے جن عظیم الشان اصلاحات اور تحریکات کو جاری فرمایا ان میں سے وقارعمل کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہے۔دنیا آج کل جس اقتصادی اور بیروزگاری کے بحران میں جکڑی ہوئی ہے اس کا حل وقارعمل کی روح کو زندہ کرنے اور زندہ رکھنے میں ہے۔ وقار عمل ہی قومی اور انفرادی وقار اور عظمت کا حامل ہے۔
لفظ وقارِعمل (diginity of work)کے معنی ہاتھ سے کام کرنے کے ہیں۔ایسا کام کرنا جس سے انسانی اور قومی وقار بلند ہو۔ یعنی ہم جو کام بھی کر یں اس میں صحیح دینداری، وقار، مسلسل جدو جہد اور محنت اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ پائی جائے۔قوموں کی ترقی اور عروج کے لیے محنت کا پایا جانا بے حد ضروری اور لازمی ہے۔وہ اقوام جواپنی اجتماعی اورانفرادی بقا کی متمنی ہوتی ہیں ان میں علاوہ دیگر اوصاف کے ایک بہت بڑا وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو عار نہیں سمجھا کرتیں۔ بلکہ ہاتھ سے کام کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں اورا سے کامیابی کا ایک بہت بڑا گر تصور کرتی ہیں۔لفظ وقارِعمل تحقیر اور غلامانہ سوچ کی بھی نفی کرتاہے۔جب سب مل کر ایک جگہ کام کر رہے ہیں تو خود بخود ذہن میں یکسانیت آجاتی ہے کہ سب بحیثیت انسان برابر ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ ہستیاں اوروہ و جود جن کے نام تاریخ کے صفحات میں ابدی نقش ہو کر رہ گئے اور جو دنیا کی ہدایت وراہنمائی کے لیے منتخب کیے گئے وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو عار نہ سمجھتےتھے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔اس سلسلہ میں سب سے پہلے انبیائے کرام کا ذکر ہے۔ کیونکہ وقارعمل یعنی ہاتھ سے کام کرنا انبیاء علیہم السلام کا شعار اور میراث ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانیؒ اپنی کتاب فتح الباری میں مستدرک حاکم کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں جو یہ ہےوَوَقَعَ فِي الْمُسْتَدْرَكِ عَنِ ابْنَ عَبَّاسٍ بِسَنَدٍ كَانَ دَاوُدُ زَرَّادًا، وَكَانَ اٰدَمُ حَرَّاثًا، وَكَانَ نُوْحٌ نَجَّارًا، وَكَانَ اِدْرِيْسُ خَيَّاطًا، وَكَانَ مُوْسٰى رَاعِيًا کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت داؤدؑزرہ بانی کرتے تھے اورحضرت آدم ہل چلاتے تھےاور حضرت نوح ؑنجار تھےاور حضرت ادریسؑ درزی تھے اور حضرت موسیٰؑ بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے۔( فتح الباری شرح صحیح بخاری بَابُ كسب ا لرجل وعمله بيده۔)
آنحضرتﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپؐ ہمیشہ و قارعمل کوا پنا شعار بناتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نےنبی کریمﷺکے بارے میں بتایا کہ آپﷺبھی بنی نوع انسان کی طرح ایک انسان تھے۔اپنے کپڑے بھی سی لیا کرتے تھے۔اپنے کپڑے صاف بھی کرلیاکرتے تھے۔ بکری کا دودھ بھی دوہ لیا کرتے تھے۔ جوتا بھی مرمت کر لیتے تھے۔ڈول وغیرہ کو پیوند بھی لگا لیتے تھے۔(ڈول عموماً چمڑے کے ہوتے تھے)
اسی پر بس نہیں رسول مقبولﷺنے جنگِ احزاب کے موقع پر جب خندق کھودنے کے لیے صحابہ کی ڈیوٹی لگائی تو آپﷺنے خود بھی اپنے دست مبارک سے خندق کھودنے میں حصہ لیا اور یہ اُس شان کا وقار عمل تھا کہ روئے زمین پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ ذکر آتا ہے کہ خندق میں جب صحابہؓ سے ایک پتھر ٹوٹ نہ سکا تو حضورﷺنے خوداس کوتوڑا اوراللہ تعالیٰ سے قیصر و کسریٰ کی چابیاں پانے کی بشارت صحابہ کوسنائی۔
دوسری جنگوں میں بھی جب لشکر کا پڑاؤ ہوتا تو حضورﷺ جہاں مختلف کاموں کو صحابہؓ میں تقسیم فرما دیتے تھے وہاں خود بھی کوئی نہ کوئی کام اپنے ذمہ لیتے۔ ہجرت کے بعد مد ینہ پہنچ کر سب سے پہلا کام جو آپﷺنے کیا وہ اپنے ہاتھ سے مسجد نبوی کی تعمیر تھی۔ خانہ کعبہ کے بعد یہ پہلی مسجد تھی جو وقار عمل کے ذریعہ سے مکمل ہوئی۔
ایک عیسائی مہمان نے رات کو آپؐ کے ہاں قیام کیا اور پیٹ کی خرابی کی وجہ سے بستر گندہ کر دیا۔ شرم کی وجہ سے صبح سویرے وہ خاموشی سے نکل گیا۔ لیکن بھولی ہوئی چیز لینے کے لیے اسے واپس آنا پڑا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آنحضرتﷺ خود اُس کے گندے کیے ہوئے بستر کی صفائی کررہے تھے۔ صحابہ نے عرض بھی کیا کہ ہم حاضر ہیں لیکن آپؐ نے فرمایا کہ نہیں مَیں یہ کام خود کروں گا وہ میرا مہمان تھا۔
صحا بہؓ باوجود اس کے کہ حضورﷺپر اپنی جان چھڑ کتے تھے اور آپ کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کے لیے ہردم تیار رہتے تھے پھر بھی آپﷺنے اپنے ہاتھ سے کام کر کے دکھایا اور صحابہ اور مسلمانوں کو اس کی ترغیب دی۔اور اس کو باعث ہتک اور خلافِ شوکت و مرتبت قرار نہیں دیا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ غلام کی موجودگی میں آپ نے خودا ٹھ کر چراغ جلایا۔اس پر غلام گھبرایا اوراس نے عرض کی کہ میں موجود تھا آپ نے کیوں تکلیف کی۔ آپ نے نہایت لطیف اور پر حکمت جواب دیا کہ جب میں چراغ جلانے کے لیے اُٹھا تھا اُس وقت بھی عمر تھا اور اَب بھی عمر ہوں۔
پس ہاتھ سے کام کرنا ائمہ اور صالحین کی علامت ہے اورائمہ اور صالحین تو خدا کی نظر میں معز ز ہوتے ہیں۔آسمانی عزت کے مقابلہ میں زمینی عزت اور یہ دنیا کی واہ واہ کیا وُقعت رکھتی ہے۔ قرآن کریم میں بار با راس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مومن کے اعمال جھوٹی عزت کے جذبے سے بے نیا ز ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ایک شعر ہے :
کام کیا عزت سے ہم کو شہرتوں سے کیا غرض
گر وہ ذلّت سے ہو راضی اس پہ سو عزّت نثار
انسان اُس وقت تک اپنی زندگی کے مقصد کو نہیں پاسکتا جب تک جھوٹی عزت کے جذ بہ کو کچل کر ختم نہ کر دے۔
اسی مضمون کوبیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓنے خدام الاحمدیہ کو کیا ہی ایمان افروز پیغام دیا ہے۔
بادشاہی کی تمنا نہ کرو ہرگز تم
کوچۂ یارِ یگانہ کے گدا ہوجاؤ
اس میں یہ پیغام مضمر ہے کہ ہاتھ سے کام کرنا غلامی کی عادت کو دور کرتا ہے۔ قرون اُولیٰ کے مسلمانوں نے جوعدیم المثال ترقی کی اس کی کیا وجہ تھی؟ یہی کہ اس وقت کے مسلمان اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو برا خیال نہ کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ترقی کی اعلیٰ منازل پر پہنچ کر مسلمان اپنی ترقی کی رفتار برقرار نہ رکھ سکے۔ کیونکہ اُن میں آہستہ آہستہ آرام طلبی کے اثرات سرایت کر گئے اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا جذبہ ختم ہو کر رہ گیا۔ جس کے نتیجہ کے طور پر ان کی ترقی کی رفتار برقرار نہ رہ سکی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان کی ترقی تنزلی میں تبدیل ہوگئی اوران کی حاکمیت محکومیت میں بدل کر رہ گئی۔
اِس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام اور آپ کے جانشینوں کی زندگی میں بھی ہمیں یہ خُلق نمایاں نظر آتا ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑضرورت کے موقع پر نہایت معمولی معمولی کام اپنے ہاتھ سے کر لیتے تھے اور کسی کام میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ مثلاً چار پائی یا بکس وغیرہ اٹھا کر اِدھر اُدھر رکھ دینا یا بستر بچھانا یا لپیٹنا… بعض اوقات نالیوں میں خود اپنے ہاتھ سے پانی بہا کر فینائل وغیرہ ڈالتے تھے۔ (سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ ٢١۱-٢١۲)
حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان دارالامان میں بنفسِ نفیس وقارعمل کی تحریک میں حصہ لیا۔اپنے دست مبارک سے مٹی کھودی، ٹوکری اٹھائی اور پاکیزہ نمونہ سے خدام میں وہ جوش اور ولولہ بھر دیا جو بعد میں ان کےلیےسرمایہ حیات ثابت ہوا۔ایسے پاکیزہ ماحول میں تربیت یافتہ نوجوانوں نے اکناف عالم میں جا کر عز م واستقلال،ایثارو قربانی کے وہ کارہائے نمایاں دکھائے کہ احمدیت کی جڑ یں دنیا کی سنگلاخ زمین میں مضبوطی سے قائم ہوگئیں۔
وقارِعمل کی تحریک انسان کے اندر جفاکشی، خوداعتمادی، جذبہ مساوات اور اپنے ہاتھوں کی کمائی کھانے کی عادت پیدا کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تکبر کا خاتمہ ہوتا ہے۔انسان دوسرے کامحتاج نہیں رہتا۔ بلکہ اپنا کام خود کر کے اپناوقت بھی بچا تا ہے او را پناروپیہ بھی بچاتا ہے۔ بعض ایسے قومی یا جماعتی کام جن کی تکمیل کے لیے ہزاروں روپیہ کے اخراجات درکار ہوتے ہیں۔وقارِعمل کے ذریعے بہت جلد اورمفت میں مکمل ہو جاتے ہیں۔پس یہ ہماری بڑی بد قسمتی ہوگی اگر ہم تحریک وقارِ عمل کی قدر نہ کریں۔اس کی قدر و منزلت کو نہ سمجھیں۔
آج اکثر لوگوں کی زندگی نوکروں اور خادموں کی دست نگر بن چکی ہے۔اگر کمرے کی صفائی کرنی ہے تو نوکر حاضر ہو۔ اگر کپڑے دھونے ہیں تو دھوبی کے بغیر گزارہ نہیں۔ کھانے پکانےکے لیے نوکر چاہیے، بوٹ پہننے اور کھولنے کے لیے نوکر کی حاجت۔ باوجودیکہ سرورِ دو جہاں محبوب خداﷺ جن کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر اٹھالیا۔جنگ احزاب میں خندق کھودنا،مٹی کے ٹوکرے بھر بھر کرسر پر اٹھانا۔یہ سب مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ آپﷺ اپنے متبعین کی زندگیوں کو کس رنگ میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ایک مومن کا جذبہ ا پنی ذات کے لیے ہو یا قوم و ملک کے لیے ہو یا پوری انسانیت کے لیے ہو۔اس کی روح رضائےالٰہی کا حصول ہے۔
جماعت احمدیہ کا دنیا کو ششدر کرنے والا ایک امتیازی نشان یہ ہے کہ ہزاروں ہزار مرد، عورتیں اور بچے ہمہ وقت اور ہمہ تن جماعت کی خدمت پر مامور ہیں۔ کسی دنیوی اجرت کا خیال تک نہیں، صرف اپنے محبوب کی رضا و خوشنودی کی تمنا ہے۔آج ایک احمدی کے سامنے غلبہ اسلام اور قیام توحید کے لیے ذمہ داریوں کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ حصول مقصد کے لیے اسے کہیں اپنی ذات کے لیے وقارعمل کرنے پڑیں گے اور بعض وقارِعمل اسے پوری انسانیت کے لیے کرنے پڑیں گے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سب سے پہلے اہل قادیان پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ وہ محلوں اور گلیوں کو درست کرکے ثواب حاصل کریں۔ اس مقصد کے پیش نظر قادیان میں اجتماعی وقار عمل کے اہم سلسلہ کا آغاز ہوا جو تقسیم ہند تک جاری رہا۔ اس ضمن میں سب سے پہلا اجتماعی وقار عمل جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بنفس نفیس شمولیت فرمائی ۲۸؍مارچ ۱۹۳۶ءکو ہوا۔…ایک کافی گہرا اور خاصہ لمبا چوڑا گڑھا تھا جس میں قریباً سارا سال پانی بھرا رہتا تھا۔ اور فضا سخت متعفن ہو جاتی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ آخر وقت تک ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک گشت کرکے نہ صرف زیادہ سرگرمی اور زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کرنے کی ہدایات دیتے رہے بلکہ حضورؓ نے متعدد بار خود کدال لے کر مٹی کھودی۔ ٹوکریوں میں بھری اور پھر مٹی کی بھری ہوئی ٹوکری کافی فاصلہ سے اٹھا کر گڑھے میں ڈالی۔اگرچہ کام کے لیے وقت بہت تھوڑا اور سامان ناکافی تھا۔ لیکن حضورؓ کی موجودگی اور پھر کام میں خدام کے ساتھ شمولیت نے بڑوں ہی میں نہیں چھوٹے بچوں میں بھی خاص ہمت اور جوش پیدا کردیا۔ اور وہ اپنی جھولیوں میں مٹی ڈال کر لیے جاتے رہے۔ مٹی ڈھونے کا طریق یہ تھا کہ کام کرنے والوں کو گڑھے سے لے کر جوہڑ تک تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر دو قطاروں میں کھڑا کیا گیا۔ ایک قطار بھری ہوئی ٹوکریاں ہاتھوں ہاتھ گڑھے تک پہنچاتی اور دوسری قطار خالی ٹوکریاں اسی طرح واپس پھیر دیتی جنہیں فوراً بھر کر پھر روانہ کر دیا جاتا۔ اس پہلے وقار عمل کے بعد جس نے عہد صحابہ کی سادہ زندگی اور سادہ معاشرت کی یاد تازہ کردی۔ اس اجتماعی مظاہرہ کا ایک سلسلہ جاری کردیا گیا۔ ابتدا میں یہ کام صدر انجمن احمدیہ کی لوکل انجمن کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں اسے مجلس خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ جوش و خروش اور دلچسپی پیدا ہوگئی اور کام میں نظم و ضبط اور باقاعدگی کا ایک خاص رنگ پیدا ہوگیا۔(تاریخ احمدیت جلد٧صفحہ٣٠۵-٣٠۶۔ایڈیشن٢٠٠٧ء)
مساجد کی تعمیر کا معاملہ ہو،مشن ہاؤسز کی تزئین کا کام ہو، جلسہ سالانہ کی خدمت ہو، ہر جگہ ہمیں خدام اور جماعت کے مخلصین کا اخلاص وقارِعمل کے رنگ میں نظر آتا ہے۔وقار عمل خاموش تبلیغ کابھی ذریعہ بنتا ہے۔الحمد للہ ہر سال اَن گنت تعداد میں وقار عمل کی وجہ سے لوگ جماعت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مختلف پوسٹ پر commentsپڑھنے سے لوگ تحقیقات کرتے ہیں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں کہ نبی کریمﷺاورآپ کےصحابہ کی مثالیں اس زمانے میں زندہ کیے ہوئے ہیں۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں ان راہوں کی تلاش کر یں جو ہمارے نبی کریمﷺنے ہمیں سکھائی ہیں۔ زمانے کو اپنے نقش قدم پر چلائیں نہ کہ زمانے کے پیچھے چلیں۔ اور یہ کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ دوسروں میں اس کی ترویج کر یں اور یہ وہم دل سے نکال دیں کہ ہاتھ سے کام کرنا خلاف عظمت و شوکت اور منافی وقار ہے۔