دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی
وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اورکیفیت رکھتی ہے۔ وہ فناکرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے وہ رحمت کوکھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہرایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہےاور ہرایک زہر آخر اس سے تریاق ہوجاتاہے۔
مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔
مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور ازخود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۲۲-۲۲۳)
دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی۔ یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے۔ اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے۔ لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۴٩٢، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
دعا کے لئے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں۔یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کو جنترمنتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے۔اتباع سنت ضروری ہے۔ مگر تلاش رقّت بھی اتباع سنت ہے۔اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو دعا کروتا کہ دعا میں جوش پیدا ہو۔الفاظ پرست مخذول ہوتا ہے۔حقیقت پرست بننا چاہیے۔مسنون دعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہیے،مگر حقیقت کو پاؤ۔ہاں جس کو زبان عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے۔
(ملفوظات جلد ۲صفحہ ۳۳۸، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
اَے قادر و توانا آفات سے بچانا
ہم تیرے دَر پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا
غیروں سے دِل غنی ہے جب سے کہ تجھ کو جانا
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
( محمود کی آمین، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ۳۲۰)