قربانی کی حکمت اور فلسفہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قربانی کے فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ۔(الحج :۳۸) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جائو۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد٢٣صفحہ٩٩حاشیہ)
دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے
’’دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے۔ گوشت اور خون سچی قربانی نہیں۔ جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔ مگر خدا نے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں تا معلوم ہو کہ ان کی قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے۔‘‘ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ٢٣صفحہ ٤٨٢)
نیز فرمایا:’’قربانیاں وہی سواریاں ہیں کہ جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور خطاؤں کو محو کرتی ہیں اور بلاؤں کو دور کرتی ہیں یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچیں جو سب مخلوق سے بہتر ہیں ان پر خدا تعالیٰ کا سلام اور برکتیں ہوں۔‘‘(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد١٦صفحہ٤٥)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ قربانی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’قربانی جو عید الاضحی کے دن کی جاتی ہے۔ اس میں بھی ایک پاک تعلیم ہے۔ اگر اس میں مدّنظر وہی امر رہے جو جناب الٰہی نے قرآن شریف میں فرمایا: لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمُ ۔قربانی کیا ہے ؟ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل عالم پڑھ سکتے ہیں! خدا کسی کے خون اور گوشت کا بھوکا نہیں۔ وہ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ (الانعام:۱۵) ہے۔ ایسا پاک اور عظیم الشان بادشاہ نہ تو کھانوں کا محتاج ہے، نہ گوشت کے چڑھاوے اور لُہوکا! بلکہ وہ تمہیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور اسی طرح قربان ہو جاؤ اور ادنی اعلیٰ کے لئے قربان ہوتا ہے۔‘‘( حقائق الفرقان جلد۳ صفحہ۱۵۲)
سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس عید کا نام عید الاضحیہ رکھ کر بتایا کہ آپؐ کی امت کو خدا تعالیٰ اس قدر بڑھائے گا کہ اگر ان میں سے اس موقع پر بہت کم قربانی کرنے والے لوگ ہوں تب بھی ان کی قربانیاں ایک بہت بڑا مجموعہ ہو جائیں گی۔ پس یہ عید بڑی شاندار عید ہے جس کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔ اس موقعہ پر لوگ بکروں اور دُنبوں کی قربانیاں کرتے ہیں لیکن قرآن کریم فرماتا ہے: لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ۔اللہ تعالیٰ کو ان قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ قربانی کرنے والوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔ پس اصل قربانی وہ ہے جو انسان اپنی اور اپنے اہل وعیال کی پیش کرے اور یہی وہ سبق ہے جو عید الاضحیہ ہمیں سکھاتی ہے۔‘‘( خطبہ عیدالاضحیه فرموده ۱۹؍ جولائی ۱۹۵۶ء)
سید ناحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ عیدالاضحیہ کی حکمت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اس عید میں جو ہم آج منارہے ہیں اپنی تمام زندگی خدا کے حضور پیش کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کچھ وقت کے لئے کسی جذباتی قربانی کا معاملہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت میں اس طرح ثابت قدم رہنا کہ اپنا کچھ بھی باقی نہ رہنا، ہر چیز کا مالک خدا کو قرار دے کر اس کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا، یہ ہے وہ پیغام جو یہ عید ہمیں دیتی ہے۔‘‘( خطبہ عید الاضحیہ ۲۸/ستمبر ۱۹۸۲ء از خطبات عیدین صفحہ ۳۶۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قربانی کی روح اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یه گوشت اور خون جو تم نے جانور کو ذبح کر کے حاصل کیا ہے اور بہایا ہے اگر یہ تقویٰ سے خالی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے مقصد سے خالی ہے، تو اللہ تعالیٰ کو تو ان مادی چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ ظاہری قربانی کرکے قربانی کی روح تم میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جب تم جانوروں کو ذبح کرو تو تمہیں یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک حکم پورا کر وانے کے لئے اس جانور کو میرے قبضہ میں کیا ہے۔ اور میں نے اس کی گردن پر چھری پھیری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کی، اس جانور کو ذبح کیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں اس کے حکم پر عمل کرنے والا ہوا، اس قابل ہوا کہ اس پر عمل کر سکوں۔ اس نے مجھے توفیق دی کہ میں اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں شامل ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس نیت سے قربانی کر رہے ہو گے، تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے قربانی کرو گے تو یہ قربانی مجھ تک پہنچے گی۔ تو جیسا کہ میں نے کہا یہ روح ہے جس کے ساتھ اللہ کے حضور قربانیاں پیش ہونی چاہئیں۔(خطبہ عیدالاضحیہ ٢١؍جنوری ٢٠٠٥ء از الفضل انٹر نیشنل ٤؍فروری ٢٠٠٥ء)
قربانی ردّبلا کا موجب قربانی کا اجر
سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وَمَنْ ضَحّٰی مَعَ عِلْمِ حَقِیْقَۃِ ضَحِیَّتِہٖ۔وَصِدْقِ طَوِیَّتِہٖ۔وَخُلُوْصِ نِیَّتِہٖ۔ فَقَدْ ضَحّٰی بِنَفْسِہٖ وَمُھْجَتِہٖ۔ وَاَبْنَاءِہٖ وَحَفَدَتِہٖ۔ وَلَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔جس نے اپنی قربانی کی حقیقت کو معلوم کر کے قربانی ادا کی اور صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ ادا کی پس یہ تحقیق اس نے اپنی جان اور اپنے بیٹوں اور اپنے پوتوں کی قربانی کر دی اور اس کے لئے اجر بزرگ ہے جیسا کہ ابراہیم کے لئے اس کے رب کے نزدیک اجر تھا۔‘‘ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن ۱۶ جلد صفحہ ۴۴)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئرِاللّٰہِ۔ اور تُو اُن کو بتادے کہ قربانیوں کو ہم نے شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ یعنی وہ انسان کو خدا تک پہنچاتی ہیں اور اُن کے ذریعہ سے دینی اور دنیوی بھلائی ملتی ہے۔‘‘( تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۵۳ ایڈیشن۲۰۰۴ء)
قربانی میں دیگرمذاہب پر اسلام کی فضیلت
عیدالاضحی کا خطبہ دیتے ہوئے(جو خطبہ الہامیہ کے نام سے معروف ہے) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
(عربی عبارت سےاردو ترجمہ) میرا گمان ہے کہ یہ قربانیاں جو ہماری اس روشن شریعت میں ہوتی ہیں احاطہ شمار سے باہر ہیں۔ اور ان کو اُن قربانیوں پر سبقت ہے کہ جو نبیوں کی پہلی امتوں کے لوگ کیاکرتے تھے اورقربانیوں کی کثرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے خونوں سے زمین کا منہ چھپ گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُن کے خون جمع کئے جائیں اور اُن کے جاری کرنے کا ارادہ کیا جائے تو البتہ ان سے نہریں جاری ہو جائیں اور دریا بہ نکلیں اور زمین کے تمام نشیبوں اور وادیوں میں خون رواں ہونے لگے۔ اور یہ کام ہمارے دین میں ان کاموں میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہیں۔‘‘ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد۱۶صفحہ۳۲۔۳۳)
قربانی صرف صاحبِ استطاعت پر واجب ہے
ایک شخص کا خط حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی خدمت میں پیش ہوا جس میں ایک شخص نے عرض کی کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی۔ مگر اُن لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کردیاہے۔کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہوجائے گی؟ حضرت اقدسؑ نے فرمایا:’’قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہوسکتی، اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکراقربانی کرو، اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیںتو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں۔‘‘ (بدر ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۸)