عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (حصہ دوم۔ آخری)
آج ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو مسیح الزماںؑ کی جماعت میں شامل ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جا نشین ہیں۔ آپؑ کی پوری زندگی خدائے کریم اور اس کے نبیؐ کی تعلیمات کے عین مطابق گزری۔آپؑ اپنی کتاب کشتی نوح میں بیوی سے حسن سلوک کے متعلق فرماتے ہیں:’’جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔… ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘( کشتی نوح صفحہ ۱۹)
ایک اَورجگہ پر حضورؑ بیویوں سے حسن سلوک کے متعلق فرماتے ہیں : اس سے یہ مت سمجھو کہ پھرعورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے۔ نہیں نہیں۔ ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلا ئی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زد و کوب کرے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنیٰ سی بات پر ناراض ہو کر اُس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مر گئی ہے۔ اس لئے اُن کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْ فِ (النساء:۲۰) ہاں اگر وہ بےجا کام کرے، تو تنبیہ ضروری چیز ہے۔ (ماخوذ از لباس صفحہ ۵۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’پھر عورت کا یہ حق مقرر کیا ہے کہ خاوند عورت کو بلا کسی کھلی بدی کے سزا نہیں دے سکتا۔اگر سزا دینی ہو تو اُس کے لئے پہلے ضروری ہوگا کہ محلّہ کے چار واقف مردوں کو گواہ بناکر اُن سے شہادت لے کہ عورت واقعہ میں خلاف اخلاق افعال کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس صورت میں بے شک سزا دے سکتا ہے۔ مگر وہ سزا تدریجی ہو گی… پہلے وعظ۔ اگر وہ اس سے متاثر نہ ہو تو کچھ عرصہ کے لئے اُس سے علیحدہ دوسرے کمرے میں سونا۔ اگر اس کا اثر بھی عورت پر نہ ہو تو گواہوں کی گواہی کے بعد بدنی سزا کا دینا جس کے لئے شرط ہے کہ ہڈی پر چوٹ نہ لگے اور نہ اس مار کا نشان پڑے۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ یہ سزا صرف فحش کی وجہ سے دی جاتی ہے نہ کہ گھر کے کام و غیرہ کے نقص کی وجہ سے۔‘‘(احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انوارالعلوم جلد ۸صفحہ ۲۷۲)
یہ خدا کا فضل اوراحسان ہے کہ جس نے ہمیں ایک ایسی جماعت عطا کی ہے جس کے بانی اور خلفاء نے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ہمارے ذ ہنوں کو منور کر دیا ہے۔ تو آج اگر ہم ان دینی تعلیمات کی روشنی میں زندگیاں گزاریں تو ایک پُرامن معاشرے کوجنم دے سکتے ہیں۔ جہاں بانی جماعت حضرت مسیح موعودؑ نے حُسن معاشرت کوقرآنی تعلیمات کی اصل روح سےروشناس کیا ہے وہاں ہمارے خلفائے کرام نے بھی حُسن معاشرت کے ذریعےگھروں میں امن و سکون قائم کرنے اورمعاشرے کا اہم فرض ادا کرنے کی طرف با ر بار توجہ دلائی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں: ’’بیویو ں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آؤ۔ بیوی، بچوں کے جننے اور پالنے میں سخت تکلیف اُ ٹھا تی ہے۔ مرد کو اُس کا ہزارواں حصّہ بھی اس بارے میں تکلیف نہیں۔ اُن کے حقوق کی نگہداشت کرو۔ وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ (البقرۃ :۲۲۹) ان کے قصوروں سے چشم پوشی کرو۔ اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا۔‘‘(لباس،میاں بیوی کے حقوق و فرائض صفحہ۵۶)
نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ (البقرہ:۲۲۴) ترجمہ: تمہاری بیویاں تمہارے لیے بطور کھیتی کےہیں۔ تم جس طرح چاہو اُن میں آؤ۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اس آیت کی بہت پیاری اور لطیف تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’عورتوں سے اس قدر تعلق رکھو کہ نہ اُن کی طاقت ضا ئع ہو اور نہ تمہاری۔ اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے تو بیج خراب ہو جا تا ہے اور اگر کھیتی سے پے بہ پے کام لیا جا ئے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے۔ پس اس میں یہ بتایا کہ یہ کام حد بندی کے اندر ہونا چاہئے۔ جس طرح عقل مند کسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے اور دیکھتا ہےکہ کس حد تک اس میں بیج ڈالنا چاہئے۔ اور کس حد تک کھیت سے فصل لینی چاہئے۔اسی طرح تمہیں کرنا چاہئے۔ اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہر حالت میں اولاد پیدا کرنا ہی ضروری ہے،کسی صورت میں بھی برتھ کنٹرول جائز نہیں وہ غلط کہتے ہیں۔ ‘‘(لباس،میا ں بیوی کے حقوق و فرائض صفحہ۵۷تا۵۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نکاح کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ازدواجی تعلق کے متعلق اسلام نے نہایت حسین تعلیم پیش کی ہے۔خاوند کے لئے بھی اور بیوی کے لئے بھی۔ اسلام نے خاوند کو کہا کہ تمہاری بیوی ہو سکتا ہے کہ کئی ایسی باتوں کا اظہار کرے جو تمہیں نا پسند ہوں گی اور کئی ایسی باتوں کا اظہار کرے جو تمہیں پسند ہوں گی۔جو تمہارے نزدیک ناپسندیدہ ہوں انہیں نظر انداز کر دینا اور جو پسند ہوں انہیں اپنانا۔ اس میں اشارہ فرمایا کہ تمہاری بھی بعض باتیں بیوی کو ناپسند ہوں گی اور بعض باتیں پسند ہوں گی۔ پس اسے بھی ہدایت کی کہ تم نا پسند کو نظر انداز کر دینا اور جو پسند ہوں انہیں قبول کر لینا۔تو ہر دو میاں اور بیوی کو تعلیم دی کہ ہر دو کو ایک دوسرے کے لئے کچھ چھوڑنا پڑے گا۔اس میں قربانی اور ایثار کی بڑی حکیمانہ تعلیم دی گئی ہے۔جس سے آپس کے تعلقات محبت بڑھتے اور مضبوط ہوتے ہیں۔‘‘( خطبات ناصر جلد دہم صفحہ۳۲۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے عید الفطر ۱۹۹۲ء کے موقع پر احباب جماعت کو پُر زور نصیحت فرمائی: ’’اپنی بیو یوں سے حسن سلوک کیا کرو۔ایسی بیو یاں جو خا وند کے ظلموں تلے زندگی بسر کرتی ہیں وہ بے بس اور بے اختیار ہو تی ہیں۔ خاوند بدخلق ہو تو چھو ٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا تو درکنار،بدزبانی سے کام لے،طعنے دے کر غریب کے ماں باپ کو بھی تکلیف دے اور دل آزار با تیں کرکے ان کے دلوں کو چھلنی کرے،ایسا خاوند اپنی بیوی کے لئے مسلسل عذاب کا موجب بنا رہتا ہے… اس عید کے وقت اگر کوئی سچا احمدی ہے اور میری بات سن رہا ہے، اس کے دل میں میری اس بات کا اثر ہو سکتا ہے تو میں اسے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی میں ایک انقلاب برپا کرےپھر اسے سچی عید نصیب ہو گی۔ایک مظلوم لڑکی نازوں میں پلی کسی کی بیٹی آپ کے گھر جا کر آپ کے رحم و کرم پرہوتی ہے اُسے جب ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے۔کو ئی معمولی گناہ نہیں۔ ایسا شخص اگر باز نہیں آئے گا تو اُسے عذاب الیم کی خبر دیتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ مرنے کے بعد اس کی زندگی درد ناک عذاب میں مبتلا ہو گی۔‘‘(لباس،میاں بیوی کے حقوق و فرائض صفحہ ۶۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الخا مس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مستورات سے اپنے ایک خطاب میں مردوں کو اُن کی معاشرتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔آپ نے فرمایا: ’’کسی بھی معا شرے کی تر قی کا زیادہ تر دارومداراس قوم کی عورتوں کے اعلیٰ معیارمیں ہے۔ اس لئے اسلام نےعورت کوایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔بیوی کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے اور ماں کی حیثیت سے بھی ایک مقام ہے۔مرد کو عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْ فِ (النساء:۲۰) کہہ کر یہ ہدایت فرما دی کہ عورت کا ایک مقام ہے۔ بلاوجہ بہانے بنا بنا کر اسے تنگ کرنے کی کوشش نہ کرو۔یہ عورت ہی ہے جس کی وجہ سے تمہاری نسل چل رہی ہے اور کیونکہ ہر انسان کو بعض حا لات کا علم نہیں ہوتا اور مرد اس کم علمی کی وجہ سے عورتوں پر بعض دفعہ زیادتی کر جاتے ہیں اس لئے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ اپنی اس کم علمی اور بات کی گہرا ئی تک نہ پہنچنے کی وجہ سے تم ان عورتوں سے نا پسندیدگی کا اظہار کرو،انہیں پسند نہ کرو لیکن یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ جس کو ہر چیز کا علم ہے، جو ہر چیز کا علم رکھنے ولا ہے،اس نے اس میں تمہارے لئے بہتری کا سامان رکھ دیا ہے۔ اس لئے عورت کے بارے میں کسی بھی فیصلے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔‘‘(عائلی مسا ئل اور ان کا حل صفحہ ۱۹۴تا ۱۹۵)
یہ ہے وہ تعلیم جس کا ہمیں اللہ تعا لیٰ نے حکم دیا ہے۔ آج ہم سب جو مسیح وقت کی جماعت میں شامل ہیں ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ان تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ بس آخر میں اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اسلام کی پا کیزہ اور پُرحکمت تعلیم کو سمجھنے اور حضرت مسیح موعودؑ اورخلفائے احمدیت کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض ادا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گھروں کو پیار،امن و سلا متی کا گہوارہ بنا دے۔ آمین ثم آمین