اسلام کی خوبصورت تعلیم (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍ جنوری ۲۰۱۶ء)
خدا اس شخص سے راضی ہوتا ہے جس کی نیت نیک ہے اور اس کے فعل اور کام کا مقصد اصلاح ہے۔ دیوث شخص کے معاف کرنے سے خدا راضی نہیں ہو گا۔ نہ اس سے راضی ہوتا ہے جو انتقام کی نیت رکھتا ہو۔ یہ دونوں چیزیں سامنے ہونی چاہئیں۔ نہ اتنی نرمی ہو کہ بالکل بے غیرت ہو جائے، اس سے بھی اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اور نہ انتقام کی نیت ہو۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتی ہے۔ پس ہر دو حدود کو سامنے رکھتے ہوئے معافی اور سزا کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس بارے میں جماعتی عہدیداروں اور نظام کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ عموماً تو خیال رکھا جاتا ہے لیکن بعض کے خلاف جو فیصلے ہوتے ہیں یا سفارش مجھے آتی ہے تو مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ انتقام کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن یہ ضرور بعض دفعہ ہوتا ہے کہ سفارش کرنے والے کا طبعاً رجحان سختی کی طرف ہوتا ہے اور بعض ضرورت سے زیادہ نرمی اور معافی کا رجحان رکھتے ہیں جس سے پھر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس نہ سزا دینا پسندیدہ ہے، نہ معاف کرنا قابل تعریف ہے۔ اصل چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اور یہ اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب اصلاح مقصد ہو اور اس کے لئے متعلقہ محکموں کو چاہئے کہ وہ کوشش کریں چاہے وہ امور عامہ ہے یا قضا ہے کہ بڑی گہرائی میں جا کر سفارش اور فیصلے کرنے چاہئیں تا کہ وہ حقیقی نظام اور حالات ہم اپنے میں اور جماعت میں پیدا کر سکیں جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا اور مدد مانگنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب بھی کوئی فیصلہ ہو دعا کے ساتھ ہو اور پھر خلیفۂ وقت کے پاس سفارش ہونی چاہئے تا کہ ہر قسم کے بداثرات سے وہ شخص بھی محفوظ رہے جس کے خلاف شکایت کی جا رہی ہے اور نظام جماعت بھی محفوظ رہے اور وہ فیصلہ جماعت میں کسی بھی قسم کی بے چینی کا باعث نہ بنے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ اپنی کتاب ’نسیم دعوت‘ میں اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے کہ اسلام کے معترضین اور غیر مسلموں کو اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا علم ہونا چاہئے۔ آپ نے یہ بڑا کھول کے بتایا کہ یہ ایسی خوبصورت تعلیم ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’اگر کوئی تمہیں دکھ پہنچاوے مثلاً دانت توڑ دے یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی لیکن اگر تم ایسی صورت میں گناہ معاف کردو کہ اس معافی کا کوئی نیک نتیجہ پیداہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے۔ یعنی مثلاً مجرم آئندہ اس عادت سے باز آجائے‘‘ (اصلاح ہو جائے، مجرم آئندہ باز آ جائے) ’’تو اِس صورت میں معاف کرنا ہی بہتر ہے اور اس معاف کرنے کا خدا سے اجر ملے گا۔
اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلوؤں کی رعایت رکھی گئی ہے۔ اور عفو اور انتقام کو مصلحت وقت سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔‘‘ (مصلحت وقت یہ ہے کہ موقع اور محل کے مطابق کام ہو) ’’سو یہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے۔ رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا یہی عقلمندی ہے۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے بلکہ حسب موقع گرم اور سرد غذائیں بدلتے رہتے ہیں‘‘ (گرمیوں میں خوراک کے لئے ہماری اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ سردیوں میں اَور ہوتی ہیں۔ بیلنسڈ ڈائٹ (Balanced Diet) کی باتیں کی جاتی ہیں تو فرمایا کہ یہ جو ہر جگہ قدرت کا اصول ہے یہاں بھی کام آنا چاہئے) فرمایا ’’اور جاڑے اور گرمی کے وقتوں میں کپڑے بھی مناسب حال بدلتے رہتے ہیں۔ پس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے‘‘۔ (جس طرح قدرت کا قانون یہ ہے کہ ہماری خوراک بھی ادلتی بدلتی رہے۔ اور خوراک موسموں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے پیدا بھی فرمائی ہے۔ اسی طرح گرمی سردی کے موسم میں کپڑوں کا ادلنا بدلنا ہے یہ ساری چیزیں بھی قانون قدرت کے مطابق ہیں۔ فرمایا اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے۔)
لباس کے بارے میں ضمناً مَیں یہ بھی بتا دوں کہ گرمیوں میں یہاں تو عورتوں کا خاص طور پہ بالکل ننگا لباس ہو جاتا ہے اور سردیوں میں سکارف سے سر بالکل لپیٹا ہوتا ہے، کوٹ پہنا ہوتا ہے اور بڑا مناسب لباس ہوتا ہے۔ لیکن یہی لباس اگر مسلمان عورتیں، حجاب لینے والی عورتیں سردیوں کا لباس تو نہیں لیکن سر ڈھانکنے کی حد تک گرمیوں میں سر ڈھانک لیں تو ان کے خلاف یہ حد لگ جاتی ہے کہ یہ عورتوں کے حقوق ختم کئے جا رہے ہیں۔ بلکہ اب اس میں یہاں تک حکومت نے دخل اندازی شروع کر دی ہے اور یہ بھی ایک دوسری طرح کی دخل اندازی ہے جس کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ ناانصافی ہے۔ پچھلے دنوں میں وزیر اعظم صاحب کا بیان تھا کہ ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر عورتیں یا کام کرنے والی عورتیں جو کسی بھی پیشہ کی ہیں پبلک جگہوں پر حجاب لے کر آئیں گی تو ان کو کام سے نکال دیا جائے گا۔ تو یہ جو چیزیں اور دنیاوی قانون ہیں یہ ایک دوسری طرف چلے گئے ہیں، ایک دوسری extreme پر چلے گئے ہیں جس سے پھر فساد پیدا ہوتا ہے، بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ ایسے قانون نہ بناؤ، ایسے فیصلے نہ کرو جن سے بے چینیاں پیدا ہوں بلکہ وہ فیصلے کرو جو بہتر ہوں، معاشرے کے لئے بہتر ہوں، اس شخص کے لئے بہتر ہوں۔ اور ایسے فیصلے جو ہوں گے پھر اس سے خدا تعالیٰ بھی راضی ہو گا۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے۔ ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے۔ وہاں نرمی اور درگزر سے کام بگڑتا ہے۔ اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ پن سمجھا جاتا ہے۔ غرض ہر ایک وقت اور ہر ایک مقام ایک بات کو چاہتا ہے۔ پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا وہ حیوان ہے۔ نہ انسان۔ اور وحشی ہے، نہ مہذب۔‘‘ (نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 437۔ 438)
موقع اور محل اور وقت کی مصلحت کے مطابق کام کرنے کے لئے آپ نے قانون قدرت کے مطابق مثال دی ہے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا۔ غذاؤں میں توازن بھی ضروری ہے اور ایک ہی قسم کی غذائیں انسان استعمال نہیں کرتا۔ آجکل کے بھی جو نیوٹریشن (Nutrition) کے ماہر ہیں اپنے مریضوں کو بڑے بڑے چارٹ بنا کر دیتے ہیں کہ اس کے مطابق غذا کھاؤ اور اس سے ہی، یعنی غذا سے ہی علاج ہوتے ہیں۔ اسی طرح موسمی حالات کے مطابق ہمارے کپڑے ہیں۔ تو بہرحال آپ نے فرمایا کہ یہ قانون قدرت اخلاقی حالت پہ بھی حاوی ہے۔ فرمایا کہیں تو نرمی اور درگذر سے کام بگڑتا ہے۔ کہیں رعب دکھانے سے، سختی کرنے سے کام بگڑتا ہے۔ پس انسان کی اس فطرت کو ہر جگہ لاگو کرنے کی ضرورت ہے کہ جو تبدیلیاں ہیں اس کی طبیعت کے مطابق ہوں۔ اصلاح کے لئے جو تجویز کیا گیا ہو وہ کسی بھی انسان کی طبیعت کے مطابق ہو اور یہی انسان اور حیوان میں فرق ہے۔