انسان کی سوچ اور لطیف جذبات کی صفائی بہت ضروری ہے
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ یہ مضمون بیان فرما رہے تھے کہ انسان کے لئے دو چیزوں کی صفائی بہت ضروری ہے جن میں سے ایک سوچ اور فکر ہے اور دوسری لطیف جذبات، نیکی کے جذبات ہیں اور انسان کے گہرے جذبات یعنی جذبات کی حس نہ کہ عارضی جذبے جو قلوب کی صفائی سے پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی مستقل رہنے والے نیک اور پاکیزہ جذبے اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل مکمل طور پر صاف ہو۔ اور افکار کی صفائی، یعنی خیال، سوچ اور غور کا ہمیشہ صاف رہنا جسے عربی میں تنویر کہتے ہیں، دماغ کی صفائی سے حاصل ہوتی ہے۔ تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسان کے اندر ایسا نور پیدا ہو جائے کہ ہمیشہ صحیح خیال پیدا ہو۔ تنویر کوشش کر کے پاک خیال پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ایسا ملکہ پیدا ہو جائے کہ ہمیشہ صحیح خیالات پیدا ہوتے رہیں۔ کبھی کوئی غلط قسم کے خیالات آئیں ہی نہ۔ اور ظاہر ہے یہ باتیں مسلسل کوشش اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ بہرحال اس بارے میں آپؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے خود سنا ہے۔ بعض دفعہ جب آپ سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھا جاتا تو چونکہ یہ مسائل زیادہ تر انہی لوگوں کو یاد ہوتے ہیں جو ہر وقت اسی کام میں لگے رہتے ہیں۔ بسا اوقات آپؑ فرمایا کرتے کہ جاؤ مولوی نور الدین صاحب سے پوچھ لو یا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا نام لیتے کہ ان سے پوچھ لو یا مولوی سید احسن صاحب کا نام لے کر فرماتے کہ ان سے پوچھ لو یا کسی اور مولوی کا نام لے لیتے۔ اور بعض دفعہ جب آپ دیکھتے کہ اس مسئلے کا حل کسی ایسے امر سے متعلق ہے جہاں بحیثیت مامور آپ کے لئے دنیا کی رہنمائی کرنا ضروری ہے تو آپ خود وہ مسئلہ بتا دیتے۔ مگر جب کسی مسئلے کا جدید اصلاحات سے تعلق نہ ہوتا تو آپ فرما دیتے کہ فلاں مولوی صاحب سے پوچھ لیں۔ اور اگر وہ مولوی صاحب مجلس میں ہی بیٹھے ہوئے ہوتے تو ان سے فرماتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ کس طرح ہے۔ مگر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ جب آپ کہتے کہ فلاں مولوی صاحب سے یہ مسئلہ دریافت کر لو تو ساتھ ہی آپ یہ بھی فرماتے کہ ہماری فطرت یہ کہتی ہے کہ یہ مسئلہ یوں ہونا چاہئے۔ اور پھر فرماتے کہ ہم نے تجربہ کیا ہے کہ باوجود اس کے کوئی مسئلہ ہمیں معلوم نہ ہو تو اس کے متعلق جو آواز ہماری فطرت سے اٹھے بعد میں وہ مسئلہ اسی رنگ میں حدیث اور سنّت سے ثابت ہوتا ہے۔
(خطبہ جمعہ ۲۲؍اپریل ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍مئی ۲۰۱۶ء)