حضرت ہود علیہ السلام
رات کو سب کہانی سننے کے لیے بستر پر لیٹے تو احمد کو صبح کا ایک سوال یاد آگیا: دادی جان آج فجر پر درس میں مربی صاحب نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سورت ہود نے انہیں بوڑھا کر دیا۔ سورت سے بھلا کیسے کوئی بوڑھا ہو سکتا ہے؟
دادی جان: آنحضرت ﷺ نے سورت ہود کے ذکر میں فرمایا تھا کہ مجھے تو سورت ہود نے بوڑھا کردیا کیونکہ اس سورت میں ان قوموں کا ذکر ہے جو انکار کی وجہ سے ہلاک کی گئیں۔ اور ان لوگوں کے غم کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کو بہت دکھ پہنچا۔
محمود: دادی جان ہود کس قوم کی کہانی ہے؟
دادی جان: ہود قوم کا نام نہیں۔ سورت ہود حضرت ہودؑ کے نام پر ہے۔ حضرت ہودؑ قوم عاد کے نبی تھے۔
عاد کا کیا مطلب ہے؟ محمود نے فوری پوچھا
عربی میں ویسے تو عاد کہتےہیں حد سے بڑھنے والے کو لیکن عاد حضرت ہودؑ کے دادا کے دادا کا نام تھا جو حضرت نوحؑ کے بیٹے سام کی نسل سے تھے۔ یمن کے ایک حاکم کا نام Adramatai ملتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہی عادِ اِرَم تھے۔ قرآن کریم میں سورت ہود، احقاف اور فجر میں ان کا تفصیلی ذکر ہے۔ ویسے قرآن کریم کی سترہ سورتوں میں ان کا ذکر آتا ہے۔ قومِ عاد حضرت نوحؑ کے بعد ان سے براہ راست تعلق رکھنے والی قوم تھی جنہوں نے عرب میں غلبہ حاصل کیا تھا۔ عاد قبائل کے مجموعے کا نام ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے لحاظ سے قوم عاد بہت طاقتور لوگ تھے۔ عرب کےجنوب میں عمان کے قریب یہ احقاف میں رہتے تھے۔ احقاف ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں جو اونچے نیچے خم کھاتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ سورة الاحقاف کا نام بھی اسی قوم کے متعلق ہے۔ حضرت ہود قوم عاد کی شاخ اِرَم کی طرف آئے جس کا سورة الفجر میں ذکرہے۔
احمد:تو یہ بھی حضرت صالحؑ کی طرح عرب کے نبی تھے؟
دادی جان: جی بیٹا۔ حضرت نوحؑ اور حضرت ابراہیمؑ عراقی تھے اور عربی النسل تھے۔ اسی طرح عرب میں حضرت ہودؑ ان کے بعد حضرت صالحؑ اور پھر حضرت اسماعیلؑ اور رسول اللہ ﷺ عرب کے انبیاء تھے۔ حضرت ہودؑ کے بعد حضرت صالح ؑ ثمود کی طرف آئے تھے ناں۔ قوم عاد کو قرآن کریم نے عادِ اولیٰ فرمایا ہے۔ اور حضرت صالح ؑکی قوم بھی عاد کی شاخ کہلاتی ہے۔ اسی لیے ان دونوں کا اکٹھا ذکر آتا ہے۔ اور دونوں کے کام یعنی پیشے بھی ایک جیسے تھے۔
محمود: دادی جان یہ کیا کام کرتے تھے؟
دادی جان:قرآن کریم سے اس قوم کی جو تاریخ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس قوم کے لوگ بڑے بڑے ستونوں والی عمارتیں اور اونچے مقامات پر یادگاریں بناتے تھے جن کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ان کو اس زمانہ میں ایسی طاقت حاصل تھی جو عرب کی کسی قوم کے پاس نہیں تھی۔ اس وجہ سے یہ لوگ تکبر میں مبتلا ہو گئے تھے۔ باقیوں کی طرح اس قوم میں بھی شرک کا مرض کثرت سے تھا۔ یعنی وہ بتوں کی پوجا کرتےتھے۔
گڑیا: تو اسی سبب سےحضرت ہودؑ کو مبعوث کیا گیا؟
دادی جان: جی جب یہ لوگ حضرت نوحؑ کی تعلیم سےدُور ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہودؑ کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا۔ حضرت ہودؑ نےان کو خدائے واحد کی طرف بلایا۔ لیکن وہ منہ پھیر جاتے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو بارہا توجہ دلائی کہ تم بڑے بڑے ٹیلوں پر بلند و بالا عمارتیں بناتے ہو اور یہ جھوٹی شان و شوکت تمہارے کسی کام نہیں آئے گی۔ انہوں نے بتوں کے متعلق کوئی بات بھی سننے سے انکار کر دیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ہودؑ کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد پر انتہائی سخت قسم کی آندھی آئی جو متواتر سات دن تک چلتی رہی اور بڑے بڑے شہر اس آندھی کی زد میں آکر ریت کے تودوں میں دب گئے اور اس طرح اس قوم کا زور ٹوٹ گیا۔
احمد: دادی جان اس قوم کی تصویریں میں انٹرنیٹ پر تلاش کر سکتا ہوں؟
دادی جان:کیوں نہیں بیٹا۔ لیکن میں ایک اور بات بتاؤں۔ اس قوم کا قرآن کریم کے علاوہ کسی تاریخ میں ذکر نہیں ملتا۔ اس لیے بعض یورپین نے اعتراض کیا کہ ایسی قوم ہی نہیں تھی جس کا قرآن کریم نے ذکر کر دیا ۔ حضرت مصلح موعودؓ نے سورة الفجر کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی عمارات مٹی تلے دبی ہوں۔ کیونکہ یہ مٹی کے ٹیلوں والی جگہ تھی۔ دوسرا یہ کہ قرآن کریم نے اس متکبر قوم کے بارے سورة الاحقاف میں فرمایا ہے کہ ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور صرف ان کی بڑی بڑی عمارات رہ گئیں۔ یہ بھی کیسی زبردست پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ آثارِ قدیمہ کی تلاش و جستجو کے بعد ان کی ٹوٹی پھوٹی عمارتیں تو مل جائیں لیکن ان کا نام نہیں ملے گا۔ بعض ماہرین کو عمان اور یمن کے قریب کچھ ستونوں کی باقیات ملی ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی قریباً اسی جگہ پر اس قوم کا تعیّن کیا ہے۔
گڑیا: دادی جان اللہ تعالیٰ عذاب سے پہلے ڈھیل کیوں دیتا ہے؟ اس دوران تو مظلوم پر بہت ظلم ہوجاتا ہے۔ جیسے آجکل اسرائیل کر رہا ہے۔
دادی جان: یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ کسی کو بھی مہلت دیے بغیر عذاب نہیں دیتا تاکہ وہ توبہ کر لیں۔ جیسے پچھلی کہانی میں بتایا تھا کہ حضرت یونسؑ کی قوم نے اس ڈھیل سے فائدہ بھی تو اُٹھایا تھا اور معافی مانگ لی تھی۔
گڑیا: اور جیسے سکول میں استاد ایک حد تک نظر انداز کرتا ہے اور پھر سزا دیتا ہے۔
دادی جان: جی بالکل۔ چلیں اب وقت ہو چلا سونے کا۔ شب بخیر اور اللہ حافظ۔
(درثمین احمد۔ جرمنی)