سریہ بئرمعونہ کے حالات و واقعات کا بیان نیز مظلوم فلسطینیوں، پاکستانی احمدیوں اور دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعا کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍جون ۲۰۲۴ء
٭… اس سریہ میں روانہ ہونے والے سب صحابہؓ نوجوان اور قرآن کے قاری تھے اس وجہ سے اس کو سریۃالقراء کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے
٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر۴؍ہجری میں منذر بن عمروؓکی امارت میں ستّر صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی جس میں قریباً سارے ہی قاری اور قرآن خوان تھے
٭… اسلام نے تلوار کے زور سےفتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ سےفتح پائی ہے جو دلوں میں اُتر جاتی ہے
اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجے کا تغیر پیدا کردیتی تھی
٭… آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کو واقعہ رجيع اور واقعہ بئر معونہ کي اطلاع قريباً ايک وقت ميں ملي۔ اور آپؐ کو اس کا سخت صدمہ تھا۔ايسا صدمہ نہ اس سے پہلے آپؐ کو کبھي ہوا تھا اور نہ بعد ميں کبھي ہوا
٭… مظلوم فلسطینیوں، پاکستانی احمدیوں اور دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۷؍جون ۲۰۲۴ء بمطابق۷؍احسان ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۷؍جون۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج جس سریہ کا ذکر کروں گا
وہ سریہ حضرت منذر بن عمروؓیا سریہ بئرمعونہ کہلاتاہے۔
یہ دردناک حادثہ بھی ۴؍ہجری میں ہوا۔یہ واقعہ دشمن کی بدعہدی اور سفاکی کا بدترین نمونہ ہے۔مکہ سے مدینہ جانے والے راستے پر بنو سلیم کے علاقے میں اس نام کا ایک کنواں تھا اور اسی نام کا علاقہ بھی تھااسی وجہ سے اس کا نام سریہ بئر معونہ مشہور ہوا۔اس سریہ کے امیر حضرت منذر بن عمروؓ تھے۔اس لیے اس کو سریہ منذر بن عمروؓ بھی کہا جاتا ہے۔چونکہ
اس سریہ میں روانہ ہونے والے سب صحابہؓ نوجوان اور قرآن کے قاری تھے اس وجہ سے اس کو سریۃالقراء کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔
اس سریہ کے پس منظر کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ قبائل سُلیم اور غطفان عرب کے وسط میں مرتفع نجد پر آباد تھے اور مسلمانوں کے خلاف قریش مکہ کے ساتھ ساز باز رکھتے تھے۔قبیلہ بنو عامر کا ایک رئیس ابو براء عامری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جسےآپؐ نے بڑی نرمی اور شفقت سے اسلام کی تبلیغ فرمائی۔اس نے بظاہر شوق اور توجہ سے آپؐ کی تقریر کو سُنا مگر مسلمان نہیں ہوا۔البتہ اس نے آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐ میرے ساتھ چند صحابہؓ روانہ فرمائیں جو اہل نجد کو اسلام کی تبلیغ کریں اور مجھے امید ہے کہ وہ آپؐ کی دعوت کو ردّ نہیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے تو اہل نجد پر اعتماد نہیں ہے۔ ابو براءنے حفاظت کی ضمانت دی۔ چونکہ وہ ایک قبیلہ کا رئیس اور صاحب اثر آدمی تھا اس لیے آپؐ نے اُس کا یقین کرلیااور صحابہ ؓکی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرمادی۔بخاری میں آتا ہے کہ قبائل رعل اور ذکوان وغیرہ کے چند لوگ اسلام کا اظہار کرکے اور اپنی قوم میں دشمنانِ اسلام کے خلاف مدد کے لیے آپؐ کی خدمت میں درخواست لے کر آئے تھےجس پر آپؐ نے یہ دستہ روانہ فرمایا تھا۔ہوسکتا ہے کہ ابوبراءبھی ان لوگوں کے ساتھ آیا ہو۔بہرحال
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر ۴؍ہجری میں منذر بن عمروؓکی امارت میں ستّر صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی جس میں قریباً سارے ہی قاری اور قرآن خوان تھے۔
اس بارے میں ایک مصنف لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرآن ہر گھڑی یہی تمنا دامن گیر رہتی تھی کہ اللہ کا دین ساری دنیا میں غالب ہوجائے۔سب لوگ اسلام کے سایۂ عاطفت میں آجائیں اور ایک اللہ کی بندگی اختیار کر لیں تاکہ وہ دنیا اورآخرت میں کامیاب ہو جائیں۔اسی لیے آپؐ دین کی دعوت و تبلیغ کے فرض کو بے حد اہمیت دیتے تھے اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے اور بڑی سے بڑی قربانی سےبھی دریغ نہیں فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نجدکے اوباش باشندوں سے خطرہ لاحق ہونے کے باوجود آپؐ نے اللہ پر توکل کیا اور ابو براء کی یقین دہانی پر صحابہؓ کی ایک عظیم جماعت ان کی طرف روانہ فرما دی۔
اتنا بڑا اقدام آپؐ نے محض دعوت و تبلیغ کا فرض پورا کرنے اور اسلام کی نشر و اشاعت کا مقدس کام آگے بڑھانے کے لیے کیا۔
اس سریہ کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مکتوب کا بھی ذکر ملتا ہے جو آپؐ نے عامر بن طفیل کے نام لکھا تھا۔عامر بن طفیل بنو عامر سرداروں میں سے ایک متکبر اور مغرور سردار تھا۔یہ
اپنے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا معترف تھا اوراچھی طرح سمجھ چکا تھاکہ عنقریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے جزیرہ نماعرب پر غلبہ اوراقتدار حاصل ہو جائے گا
اس لیے اپنی شیطانی سوچ کے تحت اس نے آپؐ سے شہر کے رہنے والوں پر اپنی حکومت یاآپؐ کی جانشینی کی جاہلانہ پیشکش کی جسے آپؐ نے مسترد فرمادیالیکن سریہ بئر معونہ کی مناسبت سے آپؐ نے اسے دعوت اسلام دی۔
حضرت حرام بن ملحانؓ اپنے دو ساتھیوں حضرت زید بن کعبؓ اور حضرت منذر بن محمدؓ کے ساتھ آپؐ کا مکتوب لے کر عامر بن طفیل کے پاس گئے۔
انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر آؤبھگت کی لیکن جب حضرت حرام بن ملحانؓ نے تبلیغ اسلام شروع کی تو وہاں موجود لوگوں نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا اور اس بے گناہ ایلچی کو پیچھے کی طرف سے نیزہ کا وار کرکے ڈھیر کردیا۔ اُس وقت حضرت حرام بن ملحانؓ کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔ اَللّٰہُ اَکْبَر فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی اللہ اکبر کعبہ کے ربّ کی قسم ! میں تو اپنی مُراد کو پہنچ گیا۔عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد قبیلہ بنو عامر کے لوگوں کو اُکسایاکہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر بھی حملہ آور ہو جائے مگر انہوں نےانکار کیا۔اس پرعامرنے قبیلہ سُلیم میں سے بنو رعل،ذکوان اورعصیہ وغیرہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی اس قلیل اور بے بس جماعت پر حملہ کردیا۔ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں سے کہا کہ
ہمیں تم سے کوئی تعارض نہیں ہے۔ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تم سے لڑنے نہیں بلکہ ایک کام کےلیے آئے ہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور سب کو تلوار کے گھاٹ اُتار دیا۔
اس سریہ میں حضرت عامر بن فہیرہؓ کی شہادت کا ذکر یوں ملتا ہے۔ یہ حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام تھےاور ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ہجرت مدینہ میں شامل تھے۔ یہ بھی بئر معونہ کے وقت میں شہید ہوئے تھے۔ان کے بارے میں عامر بن طفیل نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ عامر بن فہیرہ ؓقتل کیے جانے کے بعد آسمان کی طرف اُٹھائے گئے یہاں تک کہ آسمان اُن کے اور زمین کے درمیان ہے پھر وہ زمین پر اُتارے گئے۔یہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اور اُس نے یہ نظارہ دیکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خبر پہنچی اور آپؐ نے ان کے قتل کیے جانے کی خبر صحابہ ؓکودی اورفرمایا تمہارے ساتھی شہید ہو گئے ہیں اور
انہوں نے اپنے ربّ سے دعا کی ہے کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے متعلق ہمارے بھائیوں کو بتا کہ ہم تجھ سے خوش ہو گئے اور تُو ہم سے خوش ہو گیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق بتا دیا۔حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ
اسلام نے تلوار کے زور سےفتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ سےفتح پائی ہے جو دلوں میں اُتر جاتی ہے اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجے کا تغیر پیدا کردیتی تھی۔
حضرت عامر بن فہیرہؓ کو شہید کرنے والے جبار بن سلمی جو کہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے بیان کرتے ہیں کہ جس چیز نے مجھے اسلام کی طرف کھینچا وہ یہ ہے کہ جب میں نے عامر بن فہیرہؓ کو شہید کیا تو اُن کے منہ سے بے اختیار نکلا فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ یعنی کعبہ کے ربّ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔یہ الفاظ میرے دل میں اُتر گئے۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر ان الفاظ کا کیا مطلب ہوگا؟میں نے بعد میں لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی تو مجھے معلوم ہوا کہ
مسلمان لوگ خدا کے راستے میں جان دینے کو سب سے بڑی کامیابی خیال کرتے ہیں اور اس بات کا میری طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ میں مسلمان ہوگیا۔
بئر معونہ کےشہداء کے بارے میں اہل مغازی کا اتفاق ہے اور لکھا ہے کہ اس سریہ میں حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ اورحضرت کعب بن زیدؓ کے علاوہ باقی سارے صحابہ کرام کو شہید کر دیا گیا تھا۔
اس سریہ میں شامل ہونے والے تمام صحا بہ کرامؓ کے اسماء سیرت و تاریخ کی کتب میں درج نہیں ہیںتاہم۲۹؍ کے قریب شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کے اسماءدرج کیے ہیں۔بہرحال زندہ بچ جانے والے صحابہؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ سریہ میں شامل ہونے والے صحابہؓ میں سے دو افراد حضرت عمر وبن امیہ ضمریؓ اور منذر بن محمدؓتھے۔ منذر لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے جبکہ عامر بن طفیل نے اپنی ماں کی طرف سے ایک غلام کو آزاد کرنے کی مانی ہوئی منت کی وجہ سے حضرت عمروؓ کے قبیلہ مضر سے تعلق رکھنے کی بنا پر عرب دستور کے مطابق اُن کے ماتھے کے چند بال کاٹ کرآزاد چھوڑدیا تھا۔یہاں سے روانہ ہونے کے بعد حضرت عمروبن امیہؓ نےایک جگہ بنو عامر یا بنو سلیم کے دو آدمیوں کو قتل کردیاجبکہ ان دونوں قبیلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاہدے کے تحت امان دے رکھی تھی جس کا حضرت عمرؓو کو علم نہیں تھا۔چنانچہ آپؐ نے ان کی دیت ادافرمائی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کو واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ کی اطلاع قریباً ایک وقت میں ملی۔ اور آپؐ کو اس کا سخت صدمہ تھا۔ایسا صدمہ نہ اس سے پہلے آپؐ کو کبھی ہوا تھا اور نہ بعد میں کبھی ہوا۔
قریباً۸۰؍ صحابیوں کا اس طرح دھوکے کے ساتھ اچانک مارا جانا اور صحابی بھی وہ جو اکثر حفاظ قرآن میں سے تھے۔
خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو یہ خبر گویا۸۰؍ بیٹوں کی وفات کی خبر کے مترادف تھی۔مگر اسلام میں بہرصورت صبر کا حکم ہے۔آپؐ نے خبر سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور پھر یہ الفاظ فرماتے ہوئے خاموش ہو گئے کہ یہ ابوبراء کے کام ہیں ورنہ میں تو ان لوگوں کے بھجوانے کو پسند نہیں کرتا تھا۔
واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ کے بعد آپؐ نے ایک ماہ تک ہر روز صبح کی نماز کے قیام میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ قبائل رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنو لحیان کے نام لے کر خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی کہ اے میرے آقا تُو ہماری حالت پر رحم فرما اور دشمنان اسلام کے ہاتھ کو روک جو تیرے دین کو مٹانے کے لیے اس بے رحمی اور سنگدلی کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔
بعد ازاں حضور انور نےفلسطین کے مظلومین ، پاکستان کے احمدیوں اور دنیا کے عمومی حالات کے لیےدعا کی تحریک فرمائی ۔تفصیل درج ذیل لنک پر موجود ہے۔
٭…٭…٭