بینن میں مسجد بیت الجامع کا افتتاح
محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مورخہ ۲۰؍اپریل ۲۰۲۴ء کو بینن کے ریجن بوہیکوں کی جماعت ہویجا(Hovedja) میں احمدیہ مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک
اس گاؤں میں ۲۰۱۷ء میں تبلیغی کاوشوں کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کا نفوذ ہوا جس کی مختصر تاریخ درج ذیل ہے: ۲۰۱۷ء میں جماعت نے بوہیکوں شہر میں بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا جس دیگر سر کردہ افراد کے علاوہ ہویجا گاؤں کے ایک پادری مسٹر زانوبیں ونو(Mr. Zanou Bienvenu) نے بھی شرکت کی۔ موصوف اس وقت اپنے عیسائی فرقہ Union Renaissance en Christکے پادری تھے اور علاقہ کے بڑے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ موصوف نے جماعت احمدیہ کے عقائد اور کچھ پمفلٹس کے مطالعہ سے کافی متاثر ہوئے اور احمدیہ وفد کو اپنے گاؤں میں تبلیغ کے لیے دعوت دی۔ اس وقت ریجنل مشنری عارف احمد صاحب اپنے لوکل مشنری گودونو یوسف صاحب کے ہمراہ کچھ احباب کو لے کر وہاں پہنچے اور تبلیغ کی۔ بعد ازاں موصوف کے سوالات کے جواب دیے گئے۔ چنانچہ مکرم زانو صاحب نے بیعت کرلی۔ یہ وہاں کے پہلے احمدی تھے۔
اسی طرح وہاں کے ایک سرکردہ شخص مکرم آگوساوی سعید (Agossavi Saeed)صاحب جو کہ اس علاقہ کے مسلمانوں کے نائب امام تھے اور اور اگلے امام کے طور پر بھی منتخب ہو چکے تھے وہ ریڈیو پر اس علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ سنا کرتے تھے اور پہلے سے ہی بہت متاثر تھے۔ چنانچہ گاؤں میں جماعت احمدیہ کی طرف سے منعقد کی گئی متعدد نشستوں میں شامل ہوئے اور بیعت کرکے احمدی ہو گئے۔
ان دونوں احباب کو مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرف سے انتہائی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں ان دونوں کی فیملیز کے کچھ افراد بھی احمدیت میں داخل ہو گئے تھے۔ چنانچہ گاؤں میں اپنے گھروں کے قریب ایک جگہ پر پتوں کی چھت ڈال کر نمازوں کی ادائیگی شروع کی گئی تو گاؤں والوں نے مخالفت میں آکر اس زمین کے مالک کو ان ابتدائی احمدیوں کے خلاف اکسایا اور اس نماز سینٹر کو گرادیا۔ بعد ازاں امام صاحب کے ڈیرے پر جہاں کچھ آم کے درخت تھے وقارِ عمل کرکے صفائی کرائی گئی اور نیا نماز سینٹر بنایا گیا جو کہ مسجد کی تعمیر تک نماز سینٹر رہا۔
اسی دوران ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس سے ان ابتدائی احمدیوں کے ایمان کو بہت تقویت پہنچی۔ چنانچہ مکرم زامو بیانوینو کی پوتی بعمر ڈیڑھ سال کو پاؤں کی ایک بیماری ہوگئی جس سے پاؤں کی انگلیاں گل کر گرنی شروع ہو گئیں۔ ڈاکٹروں نے بچی کے پاؤں کٹوانے کا مشورہ دیا دوسری صورت میں بچی کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کا امکان ظاہر کیا۔ اس پریشانی کی صورت میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خصوصی دعائیہ خط لکھا اور گھر پر روایتی علاج کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ حضور انور کی دعاؤں سے معجزانہ طور پر بچی کے پاؤں ٹھیک ہونا شروع ہو گئے اور بیماری وہیں رک گئی اور مکمل شفاء ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے بھی اس پر حیرانگی کا اظہار کیا اور سب احمدیوں نے برملا اظہار کیا کہ یہ محض حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان ہے۔ الحمد للہ
وقت کے ساتھ ساتھ احباب جماعت کے ایمان، اخلاص و تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور افراد کی تعداد ۳۰ تک پہنچ گئی اور ضرورت محسوس کی گئی کہ وہاں احمدیہ مسجد کی تعمیر عمل میں لائی جائے۔ چنانچہ کچھ عرصہ کی تگ و دو کے بعد ۲۰۲۲ء میں گاؤں کی مین کچی روڈ پر ۲۰x۲۵ میٹر کے رقبہ پر مشتمل دو پلاٹس مناسب قیمت پر مل گئے اور جماعت کے نام پر ان کی منتقلی عمل میں آئی۔ ۲۰۲۴ء کے شروع میں جماعت احمدیہ بینن کی نئی قائم کردہ کمیٹی برائے تعمیرات نے مسجد کی تعمیر کی غرض سے اس جگہ کا دورہ کیا اور تعمیراتی نقشہ فائنل کیا گیا۔ مورخہ ۱۶؍فروری ۲۰۲۴ء کو احباب جماعت کے ہمراہ مبلغ سلسلہ انوار الحق صاحب نے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا اور تعمیراتی کام شروع کیا گیا۔ دو ماہ کی قلیل عرصہ میں مسجد کی تعمیر عمل میں آئی جس میں احباب جماعت نے بصورت وقار عمل پر جوش طریق پر حصہ لیا۔
مسجد کے افتتاح کے لیے مورخہ ۲۰؍اپریل ۲۰۲۴ء کو مکرم محمد لقمان بصیرو صاحب امیر جماعت بینن کے ہمراہ میاں قمر احمد صاحب مشنری انچارج، مکرم آسانی مالکی صاحب جنرل سیکرٹری اور نیشنل عاملہ بینن کے بعض عہدیداران وفد کی صورت میں تشریف لائے جن کا احباب جماعت نے استقبال کیا۔
مکرم سوسوجما صدر جماعت بوہیکوں نے مرکزی وفد و دیگر مہمانان کرام کا تقریب افتتاح میں شمولیت پر شکریہ ادا کیا۔ تلاوت قرآن کریم و قصیدہ کے بعد سرکردہ افراد نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا جن میں پولیس کمشنر، روایتی بادشاہ اور دوسرے افراد شامل ہیں۔ جس کے بعد امیر صاحب بینن نے مسجد کے آداب اور عبادت کی اہمیت پر نصائح کیں اور فیتہ کاٹ کر مسجد کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اس کےبعد نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں اور احباب کی خدمت میں ظہرانہ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ۱۱۸؍افراد نے شمولیت کی۔ مسجد کی افتتاح کے بعد بھی احباب و زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا جو کہ ۳۰۰ بھی تجاوز کر گیا۔ یہ مسجد ۸x۸ مربع میٹر پر تعمیر ہے جس میں ایک سو افراد کے نماز ادا کرنے کی وسعت ہے۔
پیارے آقا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت اس مسجد کو ‘‘بیت الجامع’’ نام مرحمت فریاما۔اور مکرم عبد الراؤف آف ڈنمارک نے اپنے والدین کی طرف سے اس مسجد کے تعمیراتی اخراجات پیش کیے۔ فجزا ھم اللہ تعالیٰ خیراً
(رپورٹ: مرزا فرحان احمد بیگ۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)