ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (جلد کے متعلق نمبر ۴) (قسط ۷۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
کلکیریا کاربونیکا
Calcarea carbonica
کلکیریا کارب غدودوں، جلد اور ہڈیوں پر اثر انداز ہونے والی اہم دوا ہے۔ایسے مریض کو بہت جلد سردی لگ جاتی ہے، پاؤں کبھی ٹھنڈے ہوتے ہیں اور کبھی گرم۔(صفحہ۱۹۱)
کلکیریا کارب کا مزاج رکھنے والے لوگوں کے چہرے عموماً بے رونق ہوتے ہیں، جلد چکنی اور زردی مائل۔(صفحہ۱۹۱)
یادر ہے کہ کلکیریا کارب کے بعد اگر سلفر دینی ہو تو پہلے لائیکو پوڈیم دینی ہو گی پھر سلفر دی جاسکتی ہے۔ سلفر سے جو اندرونی بیماریاں جلد پر اچھلتی ہیں بسا اوقات نکس وامیکا ان کا توڑ ثابت ہوتا ہے ( مثلاً بواسیر کے مسوں میں ) لیکن بواسیر کے مسوں کے علاج کے لیے کلکیریا کا رب بھی اچھی دوا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی دوائیں کلکیریا کا رب سے مشابہ ہیں۔ مثلاً ایسکولس (Aesculus) میں بھی کلکیریا کی طرح بواسیری مسوں میں خون اور پیپ کی علامات ملتی ہیں۔(صفحہ۱۹۲)
کلکیریا کارب کینسر کے رجحان کو روکنے کے لیے ایک اونچا مقام رکھتی ہے لیکن مریض کا عمومی مزاج اس سے ملنا ضروری ہے ورنہ کام نہیں کرے گی۔ بعض بیماریوں میں زخموں کو چیرا دینا پڑتا ہے۔ کلکیریا کا رب ایسے چیروں کی ضرورت کو ختم کر سکتی ہے۔ گہرے پھوڑے جو بیرونی جلد کی سطح کے نیچے ہوتے ہیں ان میں کلکیریا کارب بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے اور سلیشیا سے بھی بہتر اثر دکھاتی ہے۔ پھوڑایا تو از خود گھل کر غائب ہو جاتا ہے یا پیپ بنتی ہے تو معمولی اور پھوڑا بغیر کسی تکلیف اور تپکن کے گھل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ وقتی دوا کے طور پر فائدہ دے گی۔(صفحہ۱۹۳،۱۹۲)
ناخنوں کےساتھ جلد اکھڑ جاتی ہے جو بہت تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ یہ علامت پٹرولیم میں بھی ہے، جلد خشک ہو کر ناخنوں کو چھوڑ دیتی ہے جیسے خشک ایگزیما۔ (صفحہ۱۹٤،۱۹٥)
مریض کو سر کی چوٹی پر بوجھ کا احساس ہوتا ہے، سر میں درد ہوتو ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ذہنی دباؤ سے سر درد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔سر کی جلد پر خارش ہوتی ہے۔آنکھیں روشنی برداشت نہیں کرسکتیں۔(صفحہ۱۹۷)
کلکیریا فلوریکا
Calcarea fluorica
(Fluoride of Lime)
کیلشیم فلورائیڈ ایک معدنی عنصر ہے جو چمکدار پتھریلی شکل میں دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ صنعتی دنیا میں یہ ایک بہت مفید اور کار آمد شے ہے۔ انسانی جسم میں دانتوں، ہڈیوں کی سطح، جلد کے لچکدار ریشوں، عضلات اور خون کی رگوں کی بیماریوں سے اس کا گہرا تعلق ہے۔(صفحہ۱۹۹)
ہاتھوں، بازوؤں، ٹانگوں اور کمر پر سےمسے اگنے لگتے ہیں۔ کلکیر یا فلور میں مختلف جگہ جلد بہت نمایاں سفید ہو جاتی ہے۔ اپریشن کے بعد سلے ہوئے زخموں کے اردگرد جلد سکڑ جاتی ہے، زخموں میں پیپ بنتی ہے اور کنارے سخت ہو کر ابھر جاتے ہیں۔(صفحہ۲۰۱)
کلکیریا آیوڈائیڈ
Calcarea iodide
(Iodide of Lime)
کلکیریا آیوڈائیڈ کے زخموں میں مزمن ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ کالی آیوڈائیڈ میں یہ رجحان اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔اس میں زخم آکر ٹھہر جاتے ہیں۔ کلکیریا آیوڈائیڈ میں بال گرنے کا مرض بھی ملتا ہے۔ بال گرنے سے روکنے کے لیے کوئی ایسی دوا نہیں ہے جو بالعموم ٹکسالی کے نسخے کے طور پر استعمال کی جاسکے۔(صفحہ۲۰۳)
کلکیریا فاس
Calcarea phosphorica
کلکیریا فاس میں سردرد بہت شدید ہوتا ہے۔ سر گرم محسوس ہوتا ہے اور بالوں کی جڑوں میں درد ہوتاہے۔ (صفحہ۲۰۷)
کلکیریا سلف
Calcarea suphurica
(Sulphate of Lime –Plaster of Paris)
کلکیر یا سلف کی ایک خاص علامت گہرے Abscess یعنی پھوڑے پیدا ہونے کا رجحان ہے۔ اس لحاظ سے یہ سلفر اور کلکیریا کارب دونوں سے ملتی ہے اور پائیروجینم سے بھی اس کی مشابہت ہے۔ پائیر و جینم (Pyrogenium)متعفن پھوڑوں میں اس صورت میں کام آتی ہے جب خون میں تعفن پھیل جائے۔ سلیشیا کے پھوڑوں میں بھی تعفن ہوتا ہے لیکن اس میں عموماً خون میں تعفن نہیں ہوتا، جب ہو تو بہت سخت ہوتا ہے۔ گندے خون کے نتیجہ میں جو پھوڑے نکلتے ہیں ان میں پائیرو جینم کے علاوہ کلکیر یا سلف مفید ہے۔ اسی طرح کینسر کا رجحان رکھنے والے پھوڑوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچاتی ہے۔ وہ کینسر کے زخم جو جلد پر ظاہر ہو کر نا سور بن جاتے ہیں اور رسنے لگتے ہیں ان میں بھی مفیدہے۔(صفحہ۲۰۹)
کلکیر یا سلف میں خارش بھی ہوتی ہے، زخموں سے پیپ نکلتی ہے اور یہ زخم جلد مندمل نہیں ہوتے۔ پیلے رنگ کے کھرنڈ بن جاتے ہیں۔ بالوں کی جڑوں میں سخت سے دانے بنتے ہیں جن میں خارش ہوتی ہے اور جلد خون نکل آتا ہے۔ بچوں کے خشک ایگزیما میں بھی کلکیر یا سلف کی یہی علامت ہے۔(صفحہ۲۱۳)
کیلنڈولا
Calendula officinalis
(Marigold)
کیلنڈولا کے لوشن کو عام طور پر زخموں کے علاج کے لیے بیرونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر اندرونی طور پر بھی یہ دوا ہو میو پیتھک پوٹینسی میں کھلانے سے زخموں کے بھرنے میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ پرانے زخم جو مندمل ہونے کا نام نہ لیں ان میں اند مال کا رجحان پیدا کرنے میں کیلنڈولا ۲۰۰ طاقت میں بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ جن زخموں میں بیرونی طور پر لوشن کے استعمال سے فائدہ نہیں ہوتا، یہ ان کو بھی خشک کر دیتی ہے۔ کیلنڈولا اور ہیپر سلف یا سلیشیا میں یہ بنیادی فرق ہے کہ کیلنڈ ولا اندرونی جسمانی کمزوری کو دور کر کے شکست وریخت کے کام کی مرمت کے لیے جسمانی صلاحیت کو بیدار کرتی ہے جبکہ ہیپر سلف اور سلیشیا انفیکشن کا مقابلہ کرتی ہیں۔ ایسے مریض جن کے اپریشن ہوئے ہوں اور ان کے زخم مندمل نہ ہوتے ہوں ان کے لیے کیلنڈ ولا بہت مفید ہے بشرطیکہ ریڈی ایشن (Radiation)کے ذریعہ زخم کے اردگرد کے خلیوں کو ضائع نہ کر دیا گیا ہو۔ مقامی طور پر زخموں پر خالص شہد لگانے سے بھی فائدہ ہوتا ہے اور شہد میں بھی بعض دفعہ کیلنڈ ولا سے بھی بڑھ کر شفا کا اثر ملتا ہے۔ ہر قسم کے بیڈ سورز (Bed Sores)کے لیے عموماً آرنیکا اور ہائی پیریکم (Hypericum)استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اگر یہ دونوں دوائیں کام نہ کریں تو کیلنڈ ولا دو سو طاقت میں دینے سے کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ مکمل شفا بھی ہو سکتی ہے۔ (صفحہ۲۱٥)
کیمفر
Camphora (Camphor)
چہرہ زرد اور کھنچا ہوا اور زندگی کے احساسات سے عاری معلوم ہوتا ہے۔ ٹھنڈا پسینہ بھی آتا ہے جو کینسر کا خاصہ ہے۔(صفحہ۲۲۱)
کینیبس انڈیکا
Cannabis indica
کینیبس میں جلد کی حس ختم ہو جاتی ہے۔ مریض خیالات اور نظاروں سے مزے اٹھاتا ہے جبکہ ہائیوسمس اور سٹرامونیم کےنظارے خوفناک ہوتے ہیں جن سے مریض لطف اندوز نہیں ہوتا۔(صفحہ۲۲۳)
کینیبس انڈیکا میں جلد کسی ہوئی اور تنی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ علامت اوپیم میں بھی پائی جاتی ہے۔ (صفحہ۲۲٦)
کینتھرس
Cantharis
ہو میو پیتھی میں اس کے زہر کو جلنے کی تکالیف دور کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے چھالے بہت بڑے نہیں ہوتے۔ بڑے چھالوں میں رسٹاکس کینتھرس سے بہتر کام کرتی ہے۔ رسٹاکس میں بھی بہت جلن ہوتی ہے۔ اگر آگ نے سارے بدن کو متاثر کر دیا ہو تو رسٹاکس ۱۰۰۰ طاقت میں چند بار دینے سے جلنے کی غیر معمولی تکلیف میں بہت جلد کمی آ جاتی ہے۔ کیلنڈولا بھی ان دواؤں میں سے ہے جو ایسے موقعوں پر کام آتی ہیں۔(صفحہ۲۲۹)
اعصابی رگوں کے ساتھ ساتھ جلد پر چھالے اور سوزش پائے جاتے ہیں۔ یہ چھالے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بہت خطرناک اور بہت گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر آنکھوں کے قریب چہرے کے اعصاب پر ہوں تو مریض اندھا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر صرف ایک ہی طرف اثر ہو تو ایک آنکھ ضائع ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کا فوری علاج ضروری ہے۔ عام طور پر آرسنک، لیڈم اور لیکیسس کا نسخہ مفید ہے۔ اگر بے چینی نہ ہو تو آرنیکا، لیکیسس اور لیڈم فوری طور پر دیں۔ اگر ان دونوں نسخوں سے فرق نہ پڑے تو پھر کینتھرس کے استعمال میں تاخیر نہ کریں۔ اگر چھالے بڑے بڑے ہوں تو رسٹاکس بھی اس تکلیف میں بہت مفید ثابت ہو گی۔ رسٹاکس کے مقابل پر کینتھرس کے مریض کو بے چینی بہت زیادہ ہوتی ہے جو آرسنک سے مشابہ ہے۔ کینتھرس کے چھالوں کا رنگ تیزی سے بدلتا ہے اور اردگرد کی ساری جلد سیاہی مائل ہو جاتی ہے اور چہرے پر گینگرین کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اس کیفیت میں بلا تاخیر کینتھرس دینی چاہیے۔ لمس کے ساتھ جلن کا شدید احساس ہوتا ہے۔ (صفحہ۲۳۱،۲۳۰)
کیپسیکم
Capsicum
(Cayenne Pepper)
کیپسیکم سرخ مرچ سے تیار کردہ دوا ہے۔اگر کوئی دبلا پتلا سوکھا ہوا شخص آرام سے نہ بیٹھ سکے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مرچیں لگ رہی ہیں لیکن کیپسیکم کا مریض اس سے بالکل متضاد ہوتا ہے۔خوب موٹا تازہ، عضلات ڈھیلے ہو کر لٹکے ہوئے اور چہرے پر خون کی رگوں کا جالا سا بنا ہوا۔ چہرے کی رنگت اور تمازت کے لحا ظ سے کیپسیکم کا مریض عادی شرابی کے مشابہ دکھائی دیتا ہے۔ شراب کا اثر چہرہ کے باریک ریشوں پر پڑتا ہےاور وہاں سرخ رنگ کے جالے سے بن جاتے ہیں۔ مرچیں کھانے سے بھی خون کا دوران باربار بیرونی سطح یعنی جلد کی طرف ہوتا ہے کیونکہ مرچ خون میں غیرمعمولی تموج پیدا کر دیتی ہے۔(صفحہ۲۳۳)
کیپسیکم کے مریض کے چہرے پر جلد جھریاں پڑجاتی ہیں۔ جلد کی لچک ختم ہو جاتی ہے اور موٹی موٹی لکیریں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ عضلات ڈھیلے اور لٹکے ہوئے ہوں اور دوران خون میں خلل واقع ہو جائے تو کیپسیکم مفید دوا ہے۔(صفحہ۲۳٤)
خسرہ میں چہرہ بہت تمتمایا ہوا ہو اور کوئی دوسری دوا اثر نہ کرے تو اس میں کیپسیکم دی جا سکتی ہے۔(صفحہ۲۳٤)
(نوٹ:ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)