حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دلچسپ واقعات و حکایات کی روشنی میں عید الاضحیہ۔ قربانی کا عظیم مقصد اور حقیقت (قسط اوّل)
عید الاضحیہ ۔ قربانی کا عظیم مقصد اور حقیقت
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عید ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کے لئے کی ہوئی قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حضرت ہاجرہؑ کو اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو جنگل میں چھوڑنے کے متعلق حدیث سے پتہ لگتا ہے۔اور کچھ بائیبل میں بھی اس کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ان کو لے کر آئے تو انہیں وہاں چھوڑ کر کچھ دیر ٹھہرے رہے۔تا یہ غافل ہوں اور مَیں ان کے پاس سے چلا جاؤں۔ایک تھیلی کھجوروں کی اور ایک مشک پانی کی ان کے پاس رکھ دی۔ اور آپ نظر بچا کر چل پڑے۔ حضرت ہاجرہؑ نے آپ کو جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ حضرت ہاجرہؑ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور کہا۔آپ ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہیں۔یہاں نہ پانی ہے نہ کھانا،نہ کوئی ساتھی ہے اور نہ آبادی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کچھ جواب نہ دیا۔آپ پر اس وقت رقّت طاری تھی اور آپ بول نہ سکتے تھے۔حضرت ہاجرہؑ نے پھر کہا کہ آپ ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہیں اس کا بھی انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر تیسری دفعہ حضرت ہاجرہؑ نے کہا۔ آپ ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہیں۔پھر بھی آپ خاموش رہے۔اس پر حضرت ہاجرہؑ نے کہا۔کیا خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہےحضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے جواب میں صرف اتنا کہہ سکے کہ ہاں۔اس سے زیادہ اَور کچھ جواب نہ دے سکے۔نبیوں کا دل تو پہلے ہی بہت نرم ہوتا ہے۔اور یہ نظارہ ہی ایسا تھا کہ سخت سے سخت دل رکھنے والا بھی پگھل جاتا۔
اس سے دیکھو کہ حضرت ہاجرہؑ کا ایمان کیسا مضبوط اور قوی تھا۔وہ موقع ایسا تھا کہ اگر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چل پڑتیں تو انہوں نے کیا کہنا تھا یا کم از کم ان کو پکڑ کر بیٹھ رہتیں کہ ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہو۔ مَیں آپ کو بھی جانے نہیں دُوں گی۔ یا اگر یہ بھی نہ ہو سکتا تو ان کے پیچھے پیچھے ہی چل پڑتیں۔اور اگر ان کے ساتھ نہ جاتیں تو کسی بستی اور آبادی میں ہی چلی جاتیں اس طرح کچھ حرج بھی نہ تھا۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو حکم ہوا تھا وہ تو انہوں نے پورا کر دیا تھا۔ اور حضرت ہاجرہؑ کو کوئی ایسا حکم نہ دیا گیا تھا کہ وہ ضرور وہاں ہی بیٹھی رہیں۔ کوئی کہے کہ حضرت ہاجرہؑ کو اس دردناک نظارہ کی وجہ سے اتنی ہوش ہی نہ رہی تھی کہ ایسا کرتیں اگر یہ بات مان لی جائے تو کم از کم وہ یہ تو کرتیں کہ روتیں، چخیتیں،چلّاتیں اور شور مچاتیں کہ یہ ہم سے کیا دھوکہ کیا گیا ہے۔ ہمیں جنگل میں لا کر ڈال دیا گیا ہے اور خود چلے گئے ہیں۔ مگر اس قسم کی کوئی ایک بات بھی ان کے مُنہ سے نہیں نکلی بلکہ کہا تو یہی کہا کہ اِذَنْ لَّا یُّضَیِّعُنَا ۔اگر خدا کا یہ حکم ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا۔ نہ وہ روتی ہیں نہ چلّاتی ہیں نہ یہ کہتی ہیں کہ مَیں یہاں نہیں بیٹھوں گی۔ بلکہ خدا کا حکم سُن کر کہتی ہیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔جب پانی ختم ہو گیا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو سخت پیاس لگی اور حضرت ہاجرہؑ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگتی پھریں تو خدا تعالیٰ کے فرشتہ نے اس جگہ ایک چشمہ پھوڑ دیا۔اور پھر اسی چشمہ پر ایک قافلہ لا کر ڈال دیا اور وہیں ایک بستی بسا دی۔اب وہاں ہر ایک نعمت ملتی ہے۔
اس سے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ سمجھا یا ہے کہ دیکھو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کی ہوئی قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے نبی تھے انہوں نے جو کچھ کیا اپنی شان کے مطابق کیا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ابھی بچے تھے۔اگر وہ اس وقت کچھ نہ سمجھتے تھے تو نہ سہی لیکن ہر ایک مومن مرد اور عورت کے لئے حضرت ہاجرہؑ کی مثال موجود ہے کہ وُہ نبی نہ تھی۔ ایک عورت تھی اور کمزور دل عورت تھی لیکن اسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑا جاتا ہے جو بالکل ویران اور غیر آباد ہے۔ پھر اس کے لئے موقع ہے کہ اپنا بچاؤ کر لے۔مگر جب اس نے سُنا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کیا گیا ہے تو کہاکہ ہم یہیں رہیں گے۔خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔
مَیں نے حج کے موقع پر بڑے بڑے جسیم اور موٹے تازے مَردوں کو اس لئے روتے دیکھا ہے کہ ان سے ان کے ساتھی جُدا ہو گئے حالانکہ اگر ساتھی جُدا ہو گئے تو کیا مکّہ ایک شہر ہے کوئی ویران جنگل نہیں۔ رستے بنے ہوئے ہیں، ہر قسم کا انتظام موجود ہے۔ مگر باوجود اس کے مَیں نے ساتھیوں کے جدا ہو جانے کی وجہ سے کئی ایک مَردوں کو روتے اور چلّاتے دیکھا ہے۔ لیکن دیکھو ہاجرہ عورت ہو کر ایک ایسے جنگل میں رہتی ہے جس میں کھیتی تک نہیں ہوتی اور پانی کا ایک قطرہ تک نہیں مل سکتا۔کوئی آبادی نہیں،کوئی خبر گیراں نہیں،کوئی محافظ نہیں لیکن جب اُسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مجھے خدا کے حکم کے ماتحت یہاں چھوڑا گیا ہے تو کہتی ہے کہ خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔یہ کامل ایمان کی علامت ہے۔جب تک کسی میں ایسا ہی ایمان نہ ہو اس وقت تک وہ مومن نہیں کہلا سکتا اور جس میں ایسا ہی ایمان نہ ہو وہ یہ امید کیونکر رکھ سکتا ہے کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔
اِس وقت خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت سے بھی ایسا ہی ایک معاملہ کیا ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی ایک قربانی کرنی پڑتی ہے۔ ان سے عہد لیا جاتا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے لیکن افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہماری بڑی ضروریات ہیں ہم دین کے لئے کہاں سے خرچ کریں۔حالانکہ وہ نہیں دیکھتے کہ حضرت ہاجرہؑ سے زیادہ قربانی تو ان سے نہیں کرائی جاتی۔اس کی قربانی کو دیکھیں اور پھر اپنی قربانی پر نظر کریں اور پھر حضرت ہاجرہؑ کے ایمان کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ ہاجرہ سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔حالانکہ یہ مرد ہیں اور وہ عورت تھی۔پھر عورتیں بھی اس سے بہت پیچھے ہیں۔حالانکہ ہاجرہ بھی انہی کی طرح کی ایک عورت تھی اور اسی آدم کی اولاد تھی۔جس کی ہم سب ہیں مگر جس ایمان کو اس نے ظاہر کیا وہ تمام مَردوں عورتوں کے لئے قابل رشک ہے۔ مگر افسو س ہے کہ کئی لوگ ایسے ہیں کہ جن کو اگر دین کے لئے خرچ کرنے کو کہا جائے تو آگے سے کئی قسم کی مجبوریاں پیش کر دیتے ہیں اور کئی قسم کے عذرات گھڑلیتے ہیں حالانکہ ہر ایک عید انہیں بتاتی ہے کہ خدا کے لئے جو قربانی کی جاتی ہے وہ کبھی ضائع نہیں جاتی۔آدمؑ سے لے کر اس وقت تک کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں پیش کی جا سکتی کہ خدا کے لئے کسی نے کوئی قربانی کی ہو اور اس کا نتیجہ اس کے حق میں عمدہ نہ نکلا ہو۔بلکہ جس کسی نے بھی خدا کےلئےقربانی کی ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ملائکہ مقرر کر دیئے ہیں کہ اس کی مدد اور تائید کریں اور اسے ضائع نہ ہونے دیں۔(خطبات محمود جلد ٢ صفحہ ١٥ تا١٧۔خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ٩؍ اکتوبر ١٩١٦ء بمقام عید گاہ قادیان۔مطبوعہ الفضل ٢٤؍ اکتوبر ١٩١٦ء)
مسلمانوں کی عید درحقیقت فرمانبرداری میں ہے
اس عید کے دن کو یہ خصوصیّت حاصل ہے کہ اس دن قربانی کی جاتی ہے اس کے سوا مسلمانوں کے لئے ایک اَور بھی عید ہے جو عید الفطر کہلاتی ہے اُس میں اور اس عید میں ایک فرق ہے جسے ہر شخص محسوس کرتا ہے۔ پہلی عید فاقہ کی عید تھی وہ ایک مہینہ فاقہ کرنے کے بعد آتی ہے اپنی کسی غرض کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالےٰ کی رضا کے لئے فاقہ سے رہتے ہیں۔مگر آج کی عید کھانے پینے کی عید ہے اور جس طرح اس عید سے پہلے محض خدا کی رضا کے لئے فاقہ کئے اسی طرح خداتعالےٰ کی خاطر آج گوشت کھائیں گے۔تو دونوں میں فرق نمایاں ہے،ایک میں فاقہ دوسری میں کھانا۔
یہ میری منشاء نہیں کہ مسلمان عیدوں پر محض اس لئے خوش ہوتا ہے کہ ایک میں فاقہ کرتا ہے اور دوسری میں گوشت کھاتا ہے۔بلکہ میری منشایہ بتانا ہے کہ مسلمانوں کی عید درحقیقت فرمانبرداری میں ہے جو اس سے یہ سمجھتے ہیں کہ تکلیفوں کے اٹھانے کی وجہ سے خوشی ہے وہ بھی نادان ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ خوشی صرف کھانے پینے میں ہی ہے، وہ بھی نادان ہیں۔خوشی ان میں نہیں بلکہ خوشی اللہ تعالےٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں ہے۔اگر اللہ تعالےٰ کی اطاعت میں فاقہ کرنا پڑے یا کھانا کھانا پڑے تو یہی خوشی ہوتی ہے اور یہی عید ہے۔
ضرب المثل کے طور پر یہ بات مشہور چلی آتی ہے کہ ایک بھیڑیئے اور ایک شیر کے درمیان سردی کے بارے میں اختلاف ہو گیا۔شیر کہے سردی پوہ کے مہینے میں زیادہ ہوتی ہے بھیڑیا کہے ماگھ کے مہینے میں زیادہ ہوتی ہے۔آخر جب جھگڑا بڑھا تو قرار پایا کہ لومڑی سے فیصلہ کر الیا جائے چنانچہ انہوں نے لومڑی سے پوچھا۔اس نے دیکھا اگر میں پوہ کہتی ہوں تو بھیڑیا کھا جاتا ہے اور ماگھ بتاتی ہوں تو شیر بگڑتا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے کہا۔سنو سنگھ سردار بھگیلا رائے جی
پالا پوہ نہ پالا ماگھ جی
پالا مہینہ نہ، پالا وا جی
یعنی پوہ اور ماگھ میں سردی نہیں ہوتی۔سردی سرد ہوا سے ہوتی ہے۔
تو یہ سمجھنا کہ خدا فاقوں سے خوش ہوتا ہےیا گوشت کھانے سے خوش ہوتا ہے، غلط ہے۔
بعض قوموں میں فاقہ کشی کا بڑا رواج ہے۔ وہ کثرت سے فاقہ کشی کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں خدا تعالےٰ کھانے پینے سے نہیں بلکہ فاقہ کشی سے خوش ہوتا ہے۔سادھو۔رومن کیتھولک اور مسلمان فقراء کا بھی ایک گروہ اسی قسم کا ہے وہ فاقہ پر فاقہ کرتے ہیں۔ اور دوسری قسم کی ریاضتیں بھی کرتے ہیں۔غرض وہ اس قسم کی نفس کُشی سے سمجھتے ہیں کہ خدا تعالےٰ ان سے ہی خوش ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں بعض قومیں ایسی ہیں جو کہتی ہیں کھاؤ پیو، یہی رضاء الٰہی کا ذریعہ ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں خدا تعالےٰ نے ہر چیز ہمارے لئے پیدا کی ہے اس لئے وہ انتہائی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور خوب کھاتے پیتے رہیں۔انہوں نے قربانیوں کے معیار کو ردّ کر دیا، ان کی عید یہی ہوتی ہے کہ خوب کھائیں پئیں۔روزے ان میں اگرچہ ہیں لیکن ان لوگوں کی بہت کم توجہ ادھر ہوتی ہے۔ مثلاً ہندوؤں میں بعض ایسے فرقے ہیں جن کا کھانے پینے پر زور ہوتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا تعالےٰ نے یہ چیزیں پیدا ہی اس لئے کی ہیں کہ انسان انہیں کھائے پیئےپس ایک گروہ اگر ایک طرف جھکا ہے تو دوسرا دوسری طرف اور جس طرف کوئی جھک گیا دوسری طرف اس سے بالکل چُھٹ گئی۔
لیکن اسلام وسطی تعلیم لے کر آیا ہے۔چنانچہ اس نے جو عیدیں مقرر کیں، ان میں سے ایک فاقہ کے ساتھ آئی ہے اور دوسری کھانے پینے کے ساتھ۔ایک میں انسان اگر فاقہ کرتا ہے۔ تو خدا کے حکم کے ماتحت اور دوسری میں اگر کھاتا ہے تو خدا کی منشاء کے مطابق۔اس پر خدا تعالیٰ کہتا ہے تم نے میرے لئے فاقے کئے اور میرے لئے خوشی منائی اس لئے میں بھی خوش ہوں۔پھر ایک اور خوشی بھی انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس موقع پر اپنے رشتہ داروں کو بھی کھلاتا ہے، دوستوں کو بھی کھلاتا ہے، ہمسایوں کو بھی کھلاتا ہے،غرباء اور مساکین کو بھی کھلاتا ہے اس میں بھی اسے ایک خوشی ہوتی ہے۔ لیکن ان سب سے بڑی وہی خوشی ہے جو انسان کو اس لئے ہوتی ہے کہ میں نے خدا کے واسطے خوشی کی اور خدا میرے خوشی کرنے پر خوش ہؤا۔
پس نہ فاقوں سے خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور نہ کھانے سے خوش ہوتا ہے بلکہ اطاعت سے خوش ہوتا ہے۔(خطبات محمود جلد ٢ صفحہ ٩٢-٩٣۔خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ٢٢؍ جون ١٩٢٦ء۔مطبوعہ الفضل ١٣؍ جولائی ١٩٢٦ء)
یہ عید ہمیں اپنی قربانیوں کا، اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کی قربانیوں کا سبق دیتی ہے
یہ عید ہمیں قربانی سکھاتی ہے، ہمیں چاہیے کہ جو کچھ یہ سکھاتی ہے اس پر عمل کریں۔ اگر ہم اپنے آپ کو تو قربان کرتے ہیں اور اپنی عورتوں اور بچوں کو قربان نہیں کرتے تو یہ بھی ہمارے لئے مفید نہیں۔ ہمارے لئے مفید یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھی قربان کر دیں اور بیوی بچوں کو بھی قربان کر دیں اور نہ صرف یہ بلکہ ان میں خود قربان ہونے کی روح پیدا کریں تب جا کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم جیسی قربانی کی۔پس یہ ایک عظیم الشان سبق ہے جو اس قربانی سے ہمیں ملتاہے اور جس کی یاد کے لئے ہر سال یہ عید کا دن آتاہے۔ اگر ہم اس بات کو مدنظر نہ رکھیں کہ یہ دن ہمیں اپنی قربانیوں کا، اپنی عورتوں کی قربانیوں کا اور اپنے بچوں کی قربانیوں کا سبق سکھاتاہے تو یہ دن ہمارے لئےایسا ہی ہو گا جیسے اور دن۔پس ہمیں اس سبق کو جو ان قربانیوں سے ملنا ہے اور جس کی یادکے لئے یہ دن ہر سال ہم پر آتاہے ہر وقت یاد رکھنا چاہیے۔
بعض لوگ خود تو قربانی کرتے ہیں مگر اپنے بیوی بچوں کی قربانیاں نہیں کر سکتے۔ حضرت صاحب کے ایک مرید تھے جو بڑی قربانیاں کرتے رہتے تھے۔لیکن ایک دفعہ ان کی بیوی سے کوئی حرکت سرزد ہوئی، حضرت صاحب اس پر ناراض ہوئے تو اس شخص نے کہا کہ میں تو قادیان چھوڑ دوں گا۔…تو بعض آدمی اپنی تو قربانی کر لیتے ہیں مگر اپنی بیوی اور بچوں کی نہیں کرتے،اس لئے وہ ترقی کرنے سے بھی رہ جاتے ہیں، اسی سے قوموں کی ترقی کا اندازہ لگانا چاہیئے جو قومیں یہ تینوں قسم کی قربانیاں کرتی ہیں۔ وہی ترقی کرتی ہیں۔ (خطبات محمود جلد ٢ صفحہ ١٠٨-١٠٩۔خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ٢٢؍ جون ١٩٢٦ء۔مطبوعہ الفضل ١٣؍ جولائی ١٩٢٦ء)
صحابہؓ غربت اور افلاس کے باوجود عید کے موقع پر قربانی کرتے تھے
تعجب ہے کہ بعض لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور اس کو اسراف قرار دیتے ہیں اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ کیوں نہ یہ روپیہ خدمت دین اور اشاعت اسلام کے لئے خرچ کیا جائے ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ خواہ یہ سوال نیک نیتی سے ہی کیوں نہ کیا جائے پھر بھی یہ وسوسہ شیطانی ہے اور شیطان بعض اوقات دین کے معاملہ میں اچھی صورت سے بھی وسوسے ڈالتاہے۔
ایک جگہ ایک بزرگ کی دعوت تھی۔ جب کھانا چنا گیا تو انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور کھانے سے انکار کر دیا۔جب وجہ دریافت کی گئی تو کہا کہ چونکہ اس کھانے کی طرف بہت زیادہ رغبت ہو رہی ہے اس لئے میں نے اسے کھانا پسند نہیں کیا۔اب گو دعوت قبول کرنا سنت ہے مگر انہوں نے کہا کہ نفس کی اس قدر رغبت شک ڈالتی ہے کہ ضرور اس کھانے میں کوئی نقص ہے۔ میزبان نے کہااس میں کوئی نقص تو نہیں، یہ حلال مال ہے۔ مگر انہوں نے کہا۔ ضرور کوئی نقص ہو گا۔تحقیق کی جائے،غرض قصائی سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرا اونٹ مر گیا تھا میں نے سمجھا بہت نقصان ہو گا۔ اس لئے اسے کاٹ کر بیچ ڈالا۔
تو شیطان بعض اوقات کسی کام کی زیادہ رغبت دلا کر بھی وسوسہ پیدا کرتا ہے۔بظاہر تو دین کے رستے میں مال خرچ کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب رسول کریمﷺ کے زمانہ میں دین زیادہ غریب تھا صحابہ کئی کئی وقت تک بھوک کی وجہ سے پیٹوں پر پتھر باندھ رکھتے مگر باوجود اس غربت و افلاس کے وہ قربانی کرتے تھے تو اب اسلام کی خدمت کے خیال سے قربانی چھوڑنا کیونکر جائز ہو سکتاہے۔ (خطبات محمود جلد٢ صفحہ ١٢٤۔خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ٣٠؍ مئی ١٩٢٨ء بمقام باغ حضرت مسیح موعودؑ قادیان۔مطبوعہ الفضل ١٥؍ جون ١٩٢٨ء)
عید کے موقع پر کی جانے والی قربانیاں مشق کے طور پر ہیں
بہت سے لوگ کہتے ہیں قربانی کی کیا ضرورت ہے۔ جان ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟ حالانکہ قربانی کرنا بھی مشق چاہتا ہے کوئی کام بغیر مشق کے نہیں ہو سکتا۔ مجھے خوب یاد ہے بچپن میں نجّار ہمارے گھر کام پر لگے ہوئے تھے۔ جب ہم سکول سے پڑھ کر آتے تو وہ اپنے اوزاروں کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ایک دن ایک نجّار اپنے اوزار یوں ہی چھوڑ کر چلا گیا،اس لئے مجھے موقع مل گیا۔مَیں اور دوسرے ساتھ کھیلنے والے لڑکے بہت خوش ہوئے۔مَیں نے تیشہ پکڑکر ایک ہی ضرب لگائی کہ وہ میرے ہاتھ کے انگوٹھے پر لگی جس کا اب بھی نشان ہے۔
تو بغیر مشق معمولی ضرب بھی نہیں لگائی جا سکتی۔حالانکہ ہم انہیں تیشہ چلاتے دیکھ کر سمجھا کرتے ان سے اچھا ہم چلالیں گے۔ چونکہ انسان کو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خدا کی یاد میں جان کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہے۔ اور جب تک ظاہری قربانی نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا۔جب تک خون بہانے کی مشق نہ ہو جان دینے کے لئے انسان تیار نہیں ہو سکتا۔ (خطبات محمود جلد ٢ صفحہ ١٣٠۔خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ٢٠؍ مئی ١٩٢٩ء بمقام باغ حضرت مسیح موعودؑ قادیان۔مطبوعہ الفضل ٢٨؍ مئی ١٩٢٩ء)
یہ عید ہمیں لغو قربانیوں سے پرہیز کرنے اورمفید قربانی کرنے کا سبق دیتی ہے
یہ عید درحقیقت اس بات کا نشان ہے کہ ہمیں اپنی قربانیاں کسی مقصد کو مدِّ نظر رکھ کر کرنی چاہئیں۔اور پھر جب کوئی خاص مقصد سامنے ہو توکسی قربانی سے دریغ نہ کرنا چاہیئے۔دوسری چیزوں کی طرح اسلام نے قربانی میں بھی اصلاح کی ہے۔باقی مذاہب کی بعض قربانیاں بظاہر بہت خوبصورت نظر آئیں گی لیکن وہ درحقیقت بالکل لغو اور بے فائدہ ہوں گی عبادت کے متعلق بعض قوموں میں ایسی قربانیاں پائی جاتی ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔مثلاً بعض لوگ اُلٹے لٹکے رہتے ہیں۔
میں نے خود ایک شخص کو دیکھا جس کے متعلق کہا جاتا تھا،کہ وہ گیارہ سال سے مسلسل چھت سے ٹانگیں باندھ کر لٹکا ہؤا ہے رات کے وقت وہ ہاتھ زمین پر ٹیک لیتا تھا۔ اور یہی اس کا سونا تھا۔ میں نے خود تو نہیں دیکھا لیکن کہتے تھے وہ اسی طرح آٹا گوندھتا اور روٹی پکاتا ہے۔جب ہم گئے اس وقت وہ آٹا گوندھنے کی تیاری کر رہا تھا۔لوگ دُور دور سے اس کی زیارت کو آتے تھے اور وہ بہت بزرگ سمجھا جاتاتھا۔
بظاہر تو یہ بہت بڑی قربانی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا۔اسی طرح بعض لوگ سورج کی طرف دیکھنا شروع کرتے ہیں اور برابر دیکھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ غائب ہو جائے۔پھر بعض سردیوں کے موسم میں سرد پانی میں کھڑے رہتے ہیں اور بعض گرمیوں میں اردگرد آگ جلا کر بیٹھے رہتے ہیں۔یہ سب کچھ کرتب اورتماشا تو بے شک ہے لیکن دنیا کو یا ایسی مشقّت اٹھانے والے کی ذات کو اس سے کیا فائدہ ہؤا۔اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ قر بانی وہ ہےجس کا نفع تمہاری ذات کو یا دنیا کو پہنچے۔ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ قربانی وہ ہے جس سے خدا کو نفع پہنچے اور اسی خیال کے ماتحت لوگ ایسی ایسی تکالیف اُٹھاتے اور سمجھتے تھے کہ اس طرح خدا کو مزا آتا ہے۔ وہ خدا کے مزے کو بھی ایسا ہی سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ایک امیر زادہ کا قصہ سُنایا کرتے تھے کہ باپ کے مرنے کے بعد جب اسے تین لاکھ روپیہ ملا تو وہ دوستوں میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگا کہ اسے کس طرح خرچ کیا جائے۔وہ بازار میں گیا اور بزازکو کپڑاپھاڑتے دیکھا۔اس کے کان میں چِرچِر کی آواز جو آئی تو اسے بہت بھلی معلوم ہوئی۔اور اس نے دوستوں سے آکر کہا مجھے روپیہ خرچ کرنے کا بہت اچھا مصرف معلوم ہو گیا ہے اور نوکروں کو حکم دے دیا کہ کپڑوں کے تھان لالا کر اُنہیں پھاڑتے رہو۔اور اس طرح ایک دن میں دو چار پانچ سو کا کپڑا دھجیاں کر کر کے ضائع کر دیتا۔ ایسی تکالیف اُٹھانے والوں نے خدا تعالیٰ کو بھی اس امیر زادہ کی طرح سمجھ رکھا تھا کہ انسان اگر اپنی دھجیاں اُڑائے تو اُسے مزا آتا ہے۔ لیکن اسلام نے آکر بتایا کہ قربانی بندہ کے اپنے نفع کے لئے ہے۔فنا دراصل بقاء کی کڑیوں میں سے ایک کڑی ہے تم اس لئے فنا نہیں ہوتے کہ خدا کو مزا آئے بلکہ اس لئے کہ خود تمہارے اندر ایک نئی چیز پیدا ہو۔اور اگر یہ نہیں ہوتی تو تم اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہو۔بلکہ خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتے ہو۔اسے تمہیں ترقی دینا مقصود ہے نہ کہ دُکھ دینا۔
اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ انسان ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جائے جس کے لئے وہ پید ا کیا گیا ہے۔ یہ عید دراصل اس بات کی یاد ہے کہ ہمیں لغو قربانیوں سے پرہیز کرنے کے ساتھ مفید قربانی سے کبھی بھی پہلو تہی نہ کرنی چاہیے۔ ایک طرف یہ ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہر ذرہ جو ضائع ہوتاہے وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتاہے اور دوسری طرف یہ بتاتی ہے کہ اگر کسی مقصد کے لئے تمہیں اپنی قیمتی جان بھی دینی پڑے تو بلا تامل دے دے گویا ایک طرف یہ عید ہمیں اپنے ذرہ ذرہ کو بچانے کا سبق دیتی ہے اور دوسری طرف بڑی سے بڑی چیز کی قربانی سکھاتی ہے۔ (خطبات محمود جلد ٢ صفحہ ١٤٤-١٤٥۔خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ١٧؍ اپریل ١٩٣٢ء بمقام باغ حضرت مسیح موعودؑ قادیان۔مطبوعہ الفضل ٢٦؍ اپریل ١٩٣٢ء)
عید کا دن ہمیں دو سبق دیتا ہے ایک عدم قربانی کا اور دُوسرا قربانی کا
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر اور اس کی والدہ کو ایک بے آب وگیاہ صحراء میں چھوڑ آئے اور اس غرض سے چھوڑ آئے کہ خدا تعالےٰ کا گھر آباد ہو اور لوگ اس کا ذکر کریں۔تلوار سے اگر وہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کر دیتے تو یہ اتنی بڑی قربانی نہ تھی اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے کو ذبح کرتے وقت اتنا تولحاظ کرتے کہ تیز چھری سے یہ کام کرتے۔اور یہ کام ایک منٹ میں ہو جاتا لیکن اسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آنا جہاں سو سو میل تک کھانا پانی نہ مل سکتا ہو اور جہاں حدِّ نظر تک نہ کوئی قافلہ ہو اور نہ آبادی۔گویا اسے ایسی موت میں مبتلا کرنا تھاجو چھری سے ذبح کر دینے کے مقابلہ میں بہت زیادہ تکلیف دہ تھی جس کے ساتھ بھوک اور پیاس بھی وابستہ تھی۔ اور اللہ تعالےٰ نے اس قربانی سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہیں روکا۔ وہی خدا جس نے تیز چھری سے ذبح کرنے کے وقت کہا تھا یہ لغو ہے،فضول ہے، اس کی ضرورت نہیں۔اس سے زیادہ خطر ناک قربانی کرتے ہوئے دیکھ کر نہ صرف یہ کہ منع نہیں کرتا۔بلکہ فرماتا ہے ہمارا منشا یہی ہے۔ وہ رحیم و کریم و شفیق ہستی ہے جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے سے روک دیا اس نے اسے مکّہ میں چھوڑنے سے نہ روکا۔بلکہ خود اس کا حکم دیا۔اس کی یہی وجہ ہے کہ چھری سے ذبح کر دینے کے کوئی معنے نہ تھے اور اس کا کوئی فائدہ نہ تھا۔لیکن غیر ذی زرع جنگل میں چھوڑ آنے کے معنے تھے،اس سے خدا تعالےٰ کی عبادت کو قائم کرنا مقصود تھا۔اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو چھری سے ذبح کر دیتے تو اس کا کیا فائدہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ ایماندار لوگ مزے لے لے کر یہ حکایت بیان کرتے۔اور جوکمزور ایمان والے ہوتے،وہ زیادہ سے زیادہ اسی نقطۂ نگاہ سے اسے دیکھتے جس سے فری تھنکر سو سائٹی کے بانی نے دیکھا۔
فرانس کا ایک لڑکا جو بعد میں دہریت کا بانی ہؤا۔وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔دس بارہ سال کی عمر میں وہ اپنے باپ کے ساتھ پہلی دفعہ گرجا میں گیا۔وہ کہتا ہے خوش قسمتی سے (لیکن ہم تو اسے بدقسمتی ہی کہیں گے)پادری صاحب نے اس وقت اسحاقؑ کی قربانی پر وعظ کیا۔ (عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت اسحٰقؑ کی قربانی کی گئی تھی نہ کہ حضرت اسمٰعیلؑ کی)اور بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دیا۔جوں جوں پادری صاحب یہ بیان کرتے مجھے خیال ہوتا کہ مَیں بھی اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں۔اگرمیرا باپ بھی مجھےذبح کر کے خدا کو خوش کرنا چاہے تو کیا ہو۔ اس خیال کا مجھ پر اس قدر غلبہ ہؤا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ میرا باپ مجھے ضرور ذبح کر ڈالے گا۔ جونہی وعظ ختم ہؤا، مَیں دوسرے دروازہ سے بھاگ گیا اور سمندر کے کنارے پہنچا۔ امریکہ کو ایک جہاز جا رہا تھا اس میں سوار ہو گیا۔ماں باپ کے لئے میرے دل میں کوئی محبت نہ رہی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ظالم ہوتے ہیں۔ساتھ ہی مجھے خدا سے بھی نفرت ہو گئی اور مَیں نے دوسروں کو بھی اپنا ہم خیال بنانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ دہریوں کی ایک بڑی جماعت بن گئی۔یہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں اخبار اور رسالے شائع کر رہے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ دنیا خدا کا انکار کردے۔
تو ممکن تھا کہ اگر حضرت ابراہیمؑ حضرت اسمٰعیلؑ کو ذبح کر دیتے تو اور بھی کئی لوگ کہہ اُٹھتے کہ ہم ایسی ظالمانہ تعلیم اور ایسے خدا کو نہیں مانتے۔لیکن جس قربانی کا خدا نے حکم دیا وہ کتنی زبردست ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تک خدا تعالیٰ کی عبادت اس گھر سے وابستہ ہے جس کا قیام حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ذریعہ ہؤا۔مکّہ کی آبادی اور اس بات کا علم کہ اللہ تعالےٰ کی توحید کا مرکز اور سرچشمہ مکّہ ہے، یہ تمام باتیں حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی سے ہی وابستہ ہیں۔
پس یہ عید کا دن ہمیں دو سبق دیتا ہے۔ایک عدم قربانی کا اور دُوسرا قربانی کا۔ایک تو یہ کہ کوئی ایسی قربانی نہ کرو جس کا کوئی نتیجہ نہ ہو۔اور دوسرے یہ کہ جب نتیجہ نکلنے والاہوتو عزیز سے عزیز چیز کی قربانی سے بھی دریغ نہ کرو۔(خطبات محمود، جلد ۲، صفحہ ۱۴۵ تا ۱۴۷۔ خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۳۲ء بمقام باغ حضرت مسیح موعودؑ قادیان۔ مطبوعہ الفضل ۲۶؍ اپریل ۱۹۳۲ء)
سچی عید اس کی ہے جس نے اپنےجذبات پر تصرف حاصل کر لیا
یہ عید کیا ہے؟ یہ قربانی کی عید ہے یہ عید یہ بتلانے کے لئے آئی ہے کہ مومن کو اللہ تعالےٰ کے دین کے لئے اگر اپنی اولاد کو قربان کرنا پڑے تو وہ اس سے دریغ نہ کرے اگر اپنی عزّت کو خطرہ میں ڈالنا چاہے تو وہ اس سے دریغ نہ کرے۔اگر اپنی جان کی قربانی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے اگر وجاہت کی قربانی کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے غرض ہر چیز خدا کے لئے قربان کرے۔مگر جتنی بڑی یہ قربانی نظر آتی ہے انعام کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وادیٔ غیر ذی زرع میں اپنے بیوی اور بچہ کو رکھا تو بے شک کہنے والے کہتے ہوں گے کہ یہ شخص کتنا پاگل ہے۔ایک بے آب و گیاہ جنگل میں اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کو ہلاک کر رہا ہے۔ لیکن اگر ان کو وہ ترقی نظر آ جاتی جو آج حضرت ابراہیمؑ کی اولاد کو حاصل ہے۔اگر انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کا وہ پھیلاؤ نظر آ جاتا جو آج نظر آ رہا ہے۔ اور اگر انہیں حضرت ابراہیمؑ کی وہ عظمت دکھائی دیتی وہ نبوت کا سلسلہ انہیں نظر آجاتا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں چلا۔ پھر دنیوی فتوحات اور حکومتیں بھی دکھائی دیتیں تو میں سمجھتا ہوں ہر شخص ترلے کرتا اور کہتا مجھے بھی اجازت دیجئے کہ مَیں اپنی اولاد کو یہاں چھوڑ جاؤں۔وہ نمرود جو اپنی بادشاہی پر گھمنڈ رکھتا تھا جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیا۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اسے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ عظمت نظر آ جاتی تو وہ اپنی ساری عمر سجدے میں گذار دیتا اور دعا کر تا رہتا کہ میری اولاد کویہاں رہنے کی اجازت مل جائے۔مگر اس وقت ہر شخص دوست ہو یا دشمن کہتا ہو گا بڈھا سٹھیا گیا،اس کی عقل میں فتور واقع ہو گیا۔یہ اپنے بیٹے اور پلوٹھے بیٹے کو جو بڑھاپے میں اسے نصیب ہؤا،ایسی جگہ پر چھوڑ رہا ہے جہاں نہ پانی ہے نہ آدمی۔اور جو اس وقت کی کیفیت تھی وہ رسول کریم ﷺ کی زبان سے معلوم ہوتی ہے بائبل میں بھی واقعات مذکور ہیں مگر اشارے کے طور پر کیونکہ بائبل والوں کو بنو اسمٰعیل سے دشمنی تھی رسول کریم ﷺ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے ہاجرہ کو اس بیابان میں چھوڑا تو اس وقت ان کے پاس صرف ایک تھیلی کھجوروں کی اور ایک مشکیزہ پانی کا رکھ دیا اور کہا میں ذرا ادھر جاتاہوں کیونکہ نبی اور جھوٹ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے وہ جھوٹ تو بول نہیں سکتے تھے اور سچ بولنے سے حضرت ہاجرہؑ کو جو صدمہ ہوتا تھا وہ بھی سامنے تھا اس لئے انہوں نے صرف اس قدر کہا کہ میں فی الحال جاتاہوں کیونکہ الہام کے ذریعہ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ پھر دوبارہ انہیں اس وادی میں آنا ہو گا۔ اس وقت قدرتی طور پر بیوی اور بچے کی محبت نے اثر دکھایا انہوں نے اس وادی کو چاروں طرف دیکھا مگر انہیں جھاڑی تک دکھائی نہ دی۔ پانی کا قطرہ تک نظر نہ آیا کھانے کی ایک چیز تک معلوم نہ ہوئی انہوں نے سوچا کہ ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور ایک دو دن سے زیادہ کہاں کام دے سکتی ہے۔ پھر سوائے ریت کے ذروں اور آفتاب کی چمک کے اور کوئی چیز میری بیوی اور بچے کے لئے نہیں ہو گی یہ سوچتے ہی ان پر رقت طاری ہو گئی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ان کی آنکھوں کی نمی اور ہونٹوں کی پھڑپھڑاہٹ سے حضرت ہاجرہؑ سمجھ گئیں کہ بات کچھ زیادہ ہے وہ حضرت ابراہیمؑ کے پیچھے پیچھے چلیں اور کہا ابراہیمؑ کیا بات ہے، مگر حضرت ابراہیمؑ رقّت کی وجہ سے جواب نہ دے سکے۔حضرت ہاجرہؑ کے دل میں اس سے اور بھی شبہ پیدا ہؤا۔ اور انہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔ابراہیم !تم ہمیں کہاں چھوڑے جاتے ہو یہاں تو پینے کے لئے پانی نہیں اور کھانے کے لئے غذا نہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دینا چاہا کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کر رہا ہوں مگر رقت کی وجہ سے آواز نہ نکل سکی تب انہوں نے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اٹھادیئے جس کے معنے یہ تھے کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کر رہا ہوں۔تب حضرت ہاجرہؑ یقین اور ایمان سے پُر ہاجرہ جو اپنی جوانی کی عمر میں تھی اور جس کا ایک ہی بیٹا تھا جو اُس وقت موت کی نذر ہو رہا تھا۔فوراً حضرت ابراہیمؑ کا پیچھا کرنے سے رُک گئی اور کہنے لگی اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔
آخر پانی ختم ہؤا،غذا ختم ہوئی اور باوجود اس کے کہ اس علاقہ میں کوئی چیز نہ آتی تھی حضرت ہاجرہؑ اپنے بچہ کی تکلیف کو دیکھ کر جو پیاس سے تڑپ رہا تھا ایک ٹیلے پر چڑھ گئیں کہ شاید کوئی آدمی نظر آئے اور اس سے پانی مانگ لیں یا کوئی آبادی دکھائی دے۔انہوں نے ایک ٹیلے پر چڑھ کر جس حد تک انسانی نظر کام کر سکتی تھی دیکھا اور خوب دیکھا مگر انہیں کہیں پانی کا نشان تک نظر نہ آیا۔تب وہ اسی گھبراہٹ میں اُتریں اور دوڑتی ہوئی دوسرے ٹیلے پر چڑھ گئیں وہاں سے بھی دیکھا مگر پانی کے کوئی آثار نظر نہ آئے چونکہ ٹیلے کی چوٹی سے انہیں اپنا بچہ تڑپتا ہؤا دکھائی دیتا تھا اس لئے جب وہ ٹیلے سے نیچے اُتر تیں تو اس خیال سے کہ نہ معلوم بچے کا کیا حال ہو جائے دوڑ کر اُترتیں۔ آج تک حضرت ہاجرہؑ کے اس واقعہ کی یادگار کے طور پر حج کے ایام میں صفا اور مَروہ پر دوڑ کر چلا جاتا ہے اور یہ دوڑ کر چلنا اسی رسم کو قائم رکھنے کے لئے ہے۔ جب حضرت ہاجرہؑ نے اس کرب واضطراب میں سات چکر کاٹے اور انہیں کوئی چیز نظر نہ آئی اور ان کا دل بیٹھنے لگا تو خدا تعالےٰ کا الہام نازل ہؤا کہ اےہاجرہ! خدا نے تیرے بچہ کے لئے سامان کر دیا جا اور اپنے بچے کو دیکھ۔حضرت ہاجرہؑ واپس آئیں تو انہوں نے دیکھا جہاں بچہ پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا وہاں ایک پُرانا چشمہ ابل رہا ہے۔جو لوگ پہاڑی مقامات کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ بعض دفعہ بہت پرانے چشمے مٹی وغیرہ سے اٹ جاتے ہیں۔اور کسی کو یاد تک نہیں رہتا کہ اس سطح زمین کے نیچے چشمہ ہے۔ کشمیر میں بھی ایسے چشمے دیکھنے میں آتے ہیں حدیثوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ چشمہ پہلے سے تھا۔بچے نے جب ایڑیاں رگڑیں تو وہ چشمہ پھوٹ پڑا۔پانی کا تو اللہ تعالےٰ نے اس طرح انتظام کردیا۔
اب غذا کی فکر تھی۔اتفاقاً ایک قافلہ راستہ بھول گیا اور وہ اسی جگہ آپہنچا جہاں حضرت ہاجرہؑ بیٹھی تھیں۔قافلہ والوں کو پانی کی سخت ضرورت تھی جب انہوں نے وہاں چشمہ دیکھا تو انہوں نے حضرت ہاجرہؑ کو بڑی بڑی رقوم دیں اور کہا کہ ہم آپ کی رعایا ہو کر یہاں رہیں گے۔ہمیں اس جگہ بسنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت ہاجرہؑ نے انہیں اجازت دے دی پس وہ حضرت ہاجرہؑ اور اسمٰعیلؑ کی رعایا ہو کر وہاں رہنے لگے اور پیشتر اس کے کہ حضرت اسمٰعیلؑ جوان ہو، خدا نے اسے بادشاہ بنا دیا۔
آج تک حج کے ایام میں حضرت ہاجرہؑ کے واقعہ کو یاد دلا یا جا تا ہے جبکہ انہوں نے اپنے بیٹے کو داویٔ غیر ذی زرع میں چھوڑا۔آج ہم میں سے جن کو اللہ تعالےٰ توفیق دیتا ہے جاتے ہیں اور اسی جگہ انہی پہاڑیوں کا طواف کرتے ہیں وہ وہاں اپنے بچے کو چھوڑ کر نہیں آتے حضرت ابراہیمؑ والی قربانی کا ان سے مطالبہ نہیں کیا جاتا۔صرف ان سے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ اگر تمہیں خدا کے لئے اپنے بچوں کی قربانی کرنی پڑے تو تم بشاشت کے ساتھ یہ قربانی کرو گے صرف اقرار لیا جاتا ہے کہ اگر تم کو خدا کے لئے کسی وقت اپنے عزیزوں کو چھوڑنا پڑے تو تم انہیں چھوڑ دو گے۔آج ہر وہ شخص جو صفا و مَروہ کا طواف کرتا ہے وہ اسی عورت کے نقش قدم کا اتباع کرتا ہے جسے نَاقِصُ العَقْلِ وَالدِّ یْنِ کہا جاتا ہے۔ اس طواف کے ذریعہ ہر مومن سے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ کم از کم تمہیں ایک عورت سے اپنے ایمان میں زیادہ ہونا چاہیئے۔ہم اس کے بعد عید کرتے ہیں،اس لئے کہ ہم نے اس عہد کو پورا کر دیا جو خدا نے ہم سے لیا اور یہ عید اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے اس عہد کو نباہا۔ مگر کیا تم اپنے نفسوں کو ٹٹول کر اور سینوں پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہو کہ تم نے اس عہد کو پورا کیا؟کیا تمہارا ایمان صرف تمہاری زبانوں تک محدود نہیں۔کیا واقعی وہ ایمان تمہارے قلوب پر حاوی ہو گیا۔کیا واقعہ میں اس نے تمہارے جذبات پر تصرف حاصل کر لیا۔اگر کر لیاتو پھر تمہاری سچی عید ہے۔ اور اگر نہیں بلکہ تمہارا ایمان صرف تمہارے دماغ اور فکر اور زبان تک محدود ہے تو پھر یہ عید تمہارے لئے عید نہیں بلکہ ایک ماتم کا دن ہے۔ (خطبات محمود، جلد ۲، صفحہ ۱۵۴ تا ۱۵۷۔ خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ۶؍ اپریل ۱۹۳۳ء بمقام باغ حضرت مسیح موعودؑ قادیان۔ مطبوعہ الفضل ۱۶؍ اپریل ۱۹۳۳ء)
قربانی وہی قابل قبول ہو تی ہے جو سمجھ کر کی جائے
یہ عید تو اپنے نام سے ہی اپنے مفہوم کو واضح کر دیتی ہے اور اپنی تشریح اور تفسیر کے لئے کسی اور بیان کی محتاج نہیں۔ ہمارے ملک کے لوگوں نے بھی اردو میں اس کا نام عید قربانی رکھ کر اس کے مفہوم کو واضح کر دیا ہے اور واقعہ میں یہ عید ایک ایسی قربانی پر دلالت کرتی ہے جس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ قربانی کی قیمت کو سمجھنے کے لئے یہ بڑا ضروری ہوتاہے کہ معلوم کیا جائے قربانی کرنے والے کا علم اور فہم کس مقام کا ہے۔مثلًاایک جاہل اور بیوقوف انسان جو اپنی قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھتا۔اپنے بچہ کو شاہ دولہ کے نام پروقف کر دیتا ہے اور وہ بچہ ساری عمر کے لئے پاگل ہو جاتا ہے۔ بظاہر یہ اولاد کی قربانی ہے۔ مگر اس کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ وہ شخص خودشاہ دولہ کے چوہوں جیسا دماغ رکھتا ہے۔ اگر اس کے دماغ میں عقل اور سمجھ ہوتی تو وہ ایسی حرکت کبھی نہ کرتا جس سے اُس کا بچہ ہمیشہ کے لئے علم اور عرفان سے محروم ہو جاتا۔ صرف سر چھوٹا ہونے سے عقل چھوٹی نہیں ہوتی اور نہ ہی بڑا سرلازماً زیادہ عقل مندی پر دلالت کرتا ہے۔بعض بڑے سروالے بیوقوف ہوتے ہیں۔اور بعض چھوٹے سروالوں کی عقلیں بہت تیز ہوتی ہیں۔افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والا ایک قبیلہ ہاٹن ٹاٹ (HOTTEN TOT) ہے ان لوگوں کے سر بڑے بڑے ہوتے ہیں۔دماغ کی بناوٹ کے بعض ماہرین نے شروع شروع میں اس امر پر تعجّب کا اظہار کیا کہ ان میں عقل کیوں کم ہے لیکن آخر یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے دماغ کی ہڈیاں موٹی ہیں اور مغزچھوٹا ہے۔
مجھے اپنے بچپن کی بات یاد ہے کہ ہماری والدہ صاحبہ کبھی ناراض ہو کر فرمایا کرتیں کہ اس کا سر بہت چھوٹا ہے تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرمایا کرتے تھے یہ کوئی بات نہیں راٹیکین جو بہت مشہور وکیل تھا اور جس کی قابلیت کی دھوم سارے ملک میں تھی اس کا سر بھی بہت چھوٹا سا تھا۔
تو جو والدین اپنی اولاد کو شاہ دولہ کا چوہا بناتے ہیں ان کے بڑے سر اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ بہت عقلمند ہیں۔ جو شخص اپنی اولاد کو علم اور عرفان سے محروم کرتا ہے اس کا سرا گرچہ بڑا ہی ہو تب بھی وہ بے عقل ہی ہے جس شخص کا اتنا دماغ ہی نہیں کہ سمجھ سکے خدا اور رسول کیا ہے۔ قرآن کیا ہے۔ وہ عرفان کیا حاصل کر سکتا ہے۔ اور جو باپ اپنی اولاد کو اس عرفان سے محروم رکھتا ہے اس کا دماغ یقیناً شاہ دولہ کے چوہوں سے بھی چھوٹا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی قربانی کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ کوئی شخص اگر کہے اس نے اولاد کی قربانی کی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اولاد کی قربانی کی تھی تو ہم کہیں گے کہ یہ وہی بات ہے کہ کسی شخص نے کسی ماہر طبیب سے پوچھا تھا کہ آپ بھی علاج کرتے ہیں اور عطائی فقیر بھی کچھ مریض آپ کے اچھے ہو جاتے ہیں اور کچھ مر جاتے ہیں اور کچھ ان کے اچھے ہو جاتے ہیں اور کچھ مر جاتے ہیں پھر دونوں میں فرق کیا ہے ؟ اس طبیب نے جواب دیا کہ میرے ہاتھ سے جو مرتاہے وہ بھی علم کے ماتحت مرتاہے اور ان کے ہاتھ سے جو بچ جاتا ہے وہ بھی جہالت سے بچ جاتاہے۔نادان طبیب سے جو شخص شفا پالیتاہے وہ علم سے نہیں بلکہ اتفاق سے پاتاہے۔اور ماہر طبیب کے علاج کے بعد جو مر جاتاہے وہ اس لئے مرتاہے کہ سب علاجوں کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے موت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ پس قربانی وہی قابل قبول ہو سکتی ہے جو سمجھ کر کی جائے۔ ایک انسان چلا جارہا ہے کسی اور چیز پر کوئی فائر کر رہا تھا اور یہ اتفاقاً سامنے آجاتا اور اس طرح مر جاتاہے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے قربانی کی ہے۔ قربانی وہی ہے جو علم اور سمجھ کے ماتحت کی جائے۔اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ایسی ہی تھی۔آپ نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کو بیت اللہ کے پاس چھوڑا تو آپ جانتے تھے کہ یہاں کوئی چیز نہیں ہے پھر آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ بچہ مرے گا نہیں بلکہ اس کی اولاد ہوگی۔ آپ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ بستی ہزاروں سال تک دوسری دنیا کی محتاج رہے گی اور اس میں کوئی چیز پیدا نہ ہوگی۔ یہ نہیں کہ آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وہاں رکھ دیا اور سمجھ لیا کہ یہ مر جائے گا۔ یہ نہیں کہ آپ اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے تھے۔آپ نے اس وقت جو دعا کی وہ واضح کرتی ہے کہ آپ جانتے تھے کہ آپ کس غرض سے انہیں وہاں چھوڑ رہے ہیں۔ اور یہ کہ ان کی اور ان کی اولاد کی آئندہ زندگی کیسے دکھوں اور تکلیفوں میں گزرے گی۔ وہ وقتی جوش کے ماتحت یہ کام نہ کر رہے تھے اور نہ ہی اسے کوئی خیالی بات سمجھتے تھے یہ ایک ایسی بات تھی جس کے تمام متعلقات پر انہوں نے اچھی طرح غور کر لیا تھا۔آپ خوب سمجھتے تھے کہ اس کے اغراض کیا ہیں اور یہ کہ یہ خدا کے حکم کے ماتحت کی جارہی ہے اور اسی لئے آپ کی قربانی بہت ممتاز ہے۔ ورنہ کوئی کہہ سکتاہے کہ شاہ دولہ کے لئے بچے کو وقف کرنے والے نے بھی بچے کی قربانی کر دی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کردی حالانکہ دونوں میں عظیم الشان فرق ہے۔ شاہ دولہ کے چوہے کے باپ نے اپنی اولاد کے احساسات کو مار دیا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں بلند کر دیا۔اور حقیقی قربانی یہی ہے کہ انسان یہ سمجھ کر قربانی کرے کہ اس قربانی کے اثرات کیا نکلیں گے اور کتنے لمبے عرصہ تک رہیں گے۔ (خطبات محمود جلد٢ صفحہ ١٧٤-١٧٥۔خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ١٦؍ مارچ ١٩٣٥ء بمقام باغ حضرت مسیح موعودؑ قادیان۔مطبوعہ الفضل ٤؍ اپریل ١٩٣٥ء)
(باقی آئندہ)