سبق قربانیوں کا دینے پھر، عیدُالبقر آئی
مسرت کی گھٹا برسی، بہت لے کر ثمر آئی
سبق قربانیوں کا دینے پھر عیدُ البقَر آئی
خلیل اللہ نے سب کو دیا ہے درسِ وحدت بھی
ابوءِ انبیاء ہیں، اِس لیے ہیں پدرِ خِلقت بھی
دُعاؤں سے اُنہی کی ہے ملی عالَم کی رحمت بھی
درود اُن پر ہزاروں اور لاکھوں لاکھ برکت بھی
اُنہی کے فیض کا ثمرہ ہے جو بادِ سحر آئی
سبق قربانیوں کا دینے پھر عیدُ البقَر آئی
خوشا وہ ہیں جو حجِ کعبہ کی توفیق پاتے ہیں
اِنابت سے خدا کی حمد کے نغمات گاتے ہیں
صفا مروہ کی وادی میں بھی جو چکر لگاتے ہیں
رمی کرکے وہ پھر شیطان سے دامن چھڑاتے ہیں
بہت یہ محترم منزل، مِٹا گَردِ سفر آئی
سبق قربانیوں کا دینے پھر عیدُ البقَر آئی
مبارک!! جو درِ مولیٰ پہ جا دھونی رماتے ہیں
انَا المَوجود اور لبیک کے بس گیت گاتے ہیں
قلندر کی طرح عشقِ خدا میں کھوئے جاتے ہیں
فنا فی اللہ ہو کر ہی سکونِ قلب پاتے ہیں
نویدِ کامرانی ہم کو از خیرُ البشر ﷺ آئی
سبق قربانیوں کا دینے پھر عیدُ البقَر آئی
چلو ہم بھی کریں دِیں پر نچھاور جان کو اپنی
نہ آڑے آنے دیں ہم شان اور پہچان کو اپنی
کہ آخر جاں بھی سرورؔ دینی ہے رحمان کو اپنی
ہمیشہ فکرِ اُخریٰ ہی رہے انسان کو اپنی
سعادت مند ہے، تُربت بھی جس کی یوں سنور آئی
سبق قربانیوں کا دینے پھر عیدُ البقَر آئی
(محمد ابراہیم سرورؔ،قادیان)