حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دلچسپ واقعات و حکایات کی روشنی میں عید الاضحیہ۔ قربانی کا عظیم مقصد اور حقیقت (قسط دوم۔ آخری)
جمعہ اور عید
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپؐ نے فرمایا جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کر لیں۔مگر فرمایا۔ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتویٰ آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے توقربانیوں میں ہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ ہی بھجوا دی تھیں۔میں نے ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔مَیں نے انہیں کہا۔مَیں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو شخص چاہے آج جمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لے۔مگر جو ظہر پڑھنا چاہتا ہے وہ مجھے کیوں مجبور کرتا ہے کہ مَیں بھی جمعہ نہ پڑھوں۔میں تو وہی کہوں گا جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ہم جمعہ ہی پڑھیں گے۔
ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے کہیں حدیث میں دیکھا کہ گوہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستر خوان پر کھائی گئی تھی۔چونکہ وہ احمدیت سے پہلے اہل حدیث میں شامل تھے اس لئے ان کے دل میں یہ جوش رہتا تھا کہ ہر حدیث پر عمل کیا جائے۔چنانچہ انہوں نے لوگوں پر زور دینا شروع کر دیا کہ گوہ کھانی چاہیئے۔ اور انہوں نے اس پر اتنا زور دیا کہ اچھی خاصی تبلیغ ہو گئی۔مجھے بھی ایک دفعہ انہوں نے پندرہ بیس منٹ تک خوب تبلیغ کی اور پھر ہماری نانی جان صاحبہ مرحومہ سے گھر میں گوہ پکوائی تو مجھے بھی کہا کہ کھاؤ۔مَیں نے اس وقت ان کے اصرار پر ارادہ کیا کہ گوہ کا گوشت کھا کر دیکھوں مگر اسے دیکھ کر مجھے سخت کراہت آئی اور میں واپس لوٹ آیا۔ ان دنوں کچھ دن تک وہ حدیث کی کتاب ناناصاحب مرحوم اپنے ساتھ رکھتے تھے اور جو بھی ملتا اسے دکھاتے اور پھر پوچھتے کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستر خوان پر یہ کھائی گئی ہے تو تم کیوں نہیں کھاتے۔ایک دفعہ انہوں نے مجھے وہ حدیث کی کتاب دی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور کہا کہ جب اس حدیث سے ثابت ہے کہ گوہ کا گوشت کھانا جائز ہے۔ تو آپ کو اس کے کھانے پر کوئی اعتراض تو نہیں یہ وہی حدیث تھی جس کے ایک حصّہ میں یہ آتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے جب وہ پیش کی گئی تو آپؐ نے فرمایا ہمارے مُلک میں چونکہ اس کے کھانے کا رواج نہیں اس لئے مَیں نہیں کھاتا اور اگر کوئی کھانا چاہے تو بے شک کھا لے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب مَیں یہ حدیث لے کر گیا اور میر صاحب کی بات کا آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا۔مَیں اس حصے پر عمل کرتا ہوں میر صاحب دوسرے حصہ پر عمل کر لیں۔
یہی میں نے بھی انہیں جواب دیا کہ میں اس حصے پر عمل کرتا ہوں جس میں آتاہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہم جمعہ ہی پڑھیں گے اور اگر کوئی دوسرے حصے پر عمل کرنا چاہتاہے تو وہ اس حصے پر عمل کر لے۔ مگر وہ مجھے کیوں مجبور کرنا چاہتا ہے کہ میں بھی اس دوسرے حصے پر عمل کروں تو آج دو عیدیں جمع ہیں ہمارے ملک کی ایک پنجابی مثل ہےکہ دو دو تے چوپڑیاں چونکہ خدا تعالیٰ کی دین کا بندہ قیاس بھی نہیں کرسکتا اور وہ اپنے بخل کو دوسرے کی طرف منسوب کر دیتاہے۔ اس لئے ہمارے ملک میں یہ مثل ہے کہ دو دو تے چوپڑیاں یعنی ایک تو دو دو روٹیوں کی خواہش رکھنا اور پھر یہ بھی کہنا کہ ان پر گھی بھی لگا ہوا ہو حالانکہ گھی والی تو ایک روٹی ہی کافی ہوا کرتی ہے۔ مگردیکھو ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دو دو دیں اور پھر چپڑی ہوئی دیں۔ یعنی جمعہ بھی آیا اور عید الاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عیدیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جمع کر دیں۔ اب جس کو دو دو چپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو رد کیوں کرے گا، وہ تو دونوں لے گا سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آجائے۔ اور اسی لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہیئے کہ اس پر طعن کرے اور اگر بعض لوگ ایسے ہوں جنہیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہیئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا۔پس اللہ تعالےٰ کے فضل سے آج ہمارے لئے دو عیدیں جمع ہیں۔(خطبات محمود، جلد ۲، صفحہ ۲۰۸ تا ۲۱۰۔ خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ۱۱؍ فروری ۱۹۳۸ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل ۱۵؍ مارچ ۱۹۳۸ء)
صفا ومروہ پر دوڑتے وقت مومن کے جذبات کی کیفیت
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے بچے تھے تو ایک دفعہ ہماری ہمشیرہ مبارکہ کو لڑکیوں نے کھیلتے ہوئے ایک طاقچہ میں بند کر دیا اور خود ادھر کھیل میں مشغول ہو گئیں۔ اپنے آپ کو ایک طاقچہ میں بند دیکھ کر وہ رونے لگیں اور کافی دیر تک روتی رہیں مگر وہ لڑکیاں چلی گئی تھیں اس لئے کسی نے دروازہ نہ کھولا۔کچھ وقت گذرنے کے بعد اتقاقاً وہاں سے ایک شخص گذرا اور اسے جب معلوم ہؤا کہ اندر کوئی لڑکی رو رہی ہے تو اس نے دروازہ کھولا اور یہ باہر نکل آئیں۔ مجھے یاد ہے اس واقعہ کا سالہا سال تک ہماری والدہ صاحبہ کے دل پر اثر رہا۔بلکہ ایک دفعہ دس بارہ سال کے بعد میں نے والدہ سے سُناکہ وہ کہہ رہی تھیں میرا دل گھٹ رہا ہے۔ اور جب میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے تو فرمانے لگیں مجھے اس واقعہ کا خیال آگیا ہے جب لڑکیوں نے مبارکہ کو طاقچہ میں بند کر دیا تھا۔ اب ہماری ہمشیرہ زندہ سلامت بھی نکل آئیں۔مگر دس بارہ سال کے بعد بھی جب ہماری والدہ صاحبہ کو اس کا خیال آیا تو ان کا دل گھٹ گیا۔اور فرمانے لگیں کہ مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ اس وقت وہ اپنے دل میں کیا کہتی ہو گی کہ مَیں اندر ہی مر جاؤں گی اور مجھے کوئی نکالنے والا نہیں آئے گا۔
تو ہمارا بچہ اگر ایک معمولی مصیبت میں بھی گرفتار ہوتا ہے تو کئی سالوں کے بعد جب ہمیں اس کی یاد آتی ہے تو ہمارا دل گھٹ جاتا ہے۔مگرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیلؑ کو ایک ایسے جنگل میں چھوڑا جس کے گرد منزلوں تک کوئی پانی نہیں تھا۔جس کے گرد منزلوں تک کوئی کھیتی نہیں تھی۔جس کے گرد منزلوں تک کوئی قافلہ نہیں گزرتا تھا۔ اور جس کے گرد منزلوں تک کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا، وہاں حضرت ابراہیمؑ حضرت ہاجرہ ؑکو اور اپنے اکلوتے بیٹے کو جو بڑے چاؤ کے بعد بڑھاپے کی عمر میں پیدا ہؤا تھا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اس بچے کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ تیری آئندہ نسل کی برکت اور عظمت اس کے ذریعہ قائم ہو گی۔پھر ان کے پاس کوئی کھانے کا ذخیرہ نہیں کوئی پانی کا ذخیرہ نہیں۔ایک مشکیزہ پانی کا تھا جو چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں چل سکتا تھا اور ایک تھیلی کھجوروں کی حضرت ہاجرہؑ کے لئے تھی۔جو دو تین دن سے زیادہ کے لئے کافی نہیں ہو سکتی تھیں۔یہ دو چیزیں انہوں نے حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیل کے پاس چھوڑ یں اور انہیں اس بےآب وگیاہ جنگل میں چھوڑ کر واپس لوٹے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے صابر تھے۔ انہوں نے صبر کیا۔اور اپنے جذبات کو دبایا۔مگر پھر بھی حضرت ہا جرہ ؑکو ان کی بعض حرکات سے پتہ لگ گیا کہ یہ اب ہمیشہ کے لئے ہمیں یہاں چھوڑ کر چلے ہیں۔ دراصل انہوں نے حضرت ہاجرہ ؑکو بتایا نہیں تھا کہ میں تمہیں یہاں چھوڑ کر چلا ہوں تا انہیں صدمہ نہ ہو۔ جب وہ انہیں وہاں بٹھا کر جا رہے تھے تو حضرت ہاجرہ ؑکو شبہ پیدا ہؤا اور وہ ان کے پیچھے آئیں اور کہا۔ ابراہیمؑ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا تم اب جا ہی رہے ہو،اور تمہارا واپس آنے کا ارادہ نہیں۔حضرت ابراہیمؑ نے جذبات کی شدت کی وجہ سے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔کیونکہ جب کسی نے اپنے جذبات کو دبایا ہؤا ہو اور وہ بات کرے تو اسے رونا آ جاتا ہے۔حضرت ہاجرہؑ نے جب دیکھا کہ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔تو انہوں نے پھر کہا۔ابراہیمؑ! تم تو کہیں جا رہے ہو۔حضرت ابراہیمؑ نے پھر جواب نہیں دیا۔انہیں اس پر اور زیادہ شُبہ پیدا ہؤا۔اور وہ زیادہ اصرار سے پوچھنے لگیں۔ابراہیم تم ہمیں کہاں چھوڑ کرجارہے ہو۔مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا۔چونکہ ابھی تک حضرت ہاجرہ ؑکو یہ معلوم نہ تھاکہ انہیں خدا کے حکم کے ماتحت یہاں چھوڑ اگیا ہے یا دوسری سوت کی ناراضگی کی وجہ سے۔اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کےجذبات رحم کو اپیل کرتے ہوئے کہا۔کہ ابراہیمؑ !بغیر کھانے اور پینے کے کسی سامان کے تم اس جنگل میں چھوڑ کر ہمیں کہاں جا رہے ہو۔مگر انہوں نے پھر بھی جواب نہیں دیا۔ اس پر حضرت ہاجرہ کو خیال پَیدا ہؤا کہ کہیں ابراہیمؑ کا یہ فعل خدائی حکم کے ماتحت نہ ہو اس لئے انہوں نے پوچھا اے ابراہیم! کیا تم خدا کے حکم کے ماتحت ہمیں یہاں چھوڑے جارہے ہو۔حضرت ابراہیمؑ پھر بھی اپنے جذبات کی شدّت میں اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔مگر انہوں نے آسمان کی طرف اپنا سراُٹھا کر اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں خدا کے حکم کے ماتحت میں تمہیں یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ تب حضرت ہاجرہ اسی وقت لوٹ آئیں اور کہنے لگیں اِذَنْ لَّا یُضَیِّعُنَا۔اگر خدا نے یہ حکم دیا ہے تو پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاجرہ اور اسمٰعیلؑ کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔تو ان کے جذبات جوش میں آگئے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور ہاتھ اُٹھا کر عرض کیا کہ اے میرے خدا! مَیں اپنی بیوی اور بچے کو تیرے سپرد کر چلا ہوں۔اب تو خود ان کی حفاظت فرما۔
ادھر کچھ دنوں کے بعد وہ پانی جو ایک مشکیزہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام دے گئے تھے۔ختم ہو گیا،کھجوریں ختم ہو ئیں یا نہیں اس کے متعلق اس وقت تاریخی شہادت یاد نہیں۔جب پانی ختم ہؤا تو بچے نے پیاس کی شدّت میں رونا اور بلبلا نا شروع کر دیا۔ہاجرہ دوڑتی ہوئی کبھی ادھر جاتیں اور کبھی اُدھر۔اور نظر دوڑاتیں کہ شاید کوئی شخص ایسا نظر آجائے جس کے پاس پانی ہو مگر وہاں تو میلوں میل تک کوئی پانی نہ تھا۔اور پانی کا خیال کرنا بھی ایک وہم تھا۔حضرت ہاجرہؑ لوٹ کر آتیں تو اپنے بچے کو روتا تڑپتا دیکھ کر پھر اِدھر اُدھر بھاگتیں کہ شاید پانی مل جائے۔مگر کہیں سے پانی دستیاب نہ ہؤا۔آخر جب بچے کی حالت بہت ہی خراب ہو گئی اور انہوں نے سمجھا کہ اب یہ شدّت پیاس سے دم توڑ رہا ہے تو وہ دو پہاڑیاں جن کے پاس انہوں نے اپنا ڈیرہ لگایا تھا اور جن کا نام صفا اور مروہ تھاان میں سے ایک پہاڑی پر دوڑ کر چڑھ گئیں کہ شاید کوئی دور سے قافلہ نظر آئے تو وہ اس سے پانی مانگ سکیں مگر انہیں کوئی قافلہ نظر نہ آیا۔پھر وہ اس پہاڑی سے اتر کر دوسری پہاڑی پر دوڑتی ہوئی چڑھیں کہ شاید دوسری طرف سے کوئی قافلہ جاتا ہوا نظر آئے مگر اس پہاڑی سے بھی انہیں کوئی قافلہ دکھائی نہ دیا۔اور چونکہ وہ صفا سے جب نیچے اترتی تھیں تو انہیں اپنا بچہ نظر نہیں آتا تھا،اس لئے دوڑ کر مروہ پر چڑھتیں تاکہ بچہ ان کی نظروں کے سامنے رہے ایسا نہ ہو کہ اسے کوئی بھیڑیا کھا جائے۔پھر جب مروہ سے اترتیں تو اسی طرح دوڑ کر صفا پر چڑھ جاتیں تا دیکھیں کہ کوئی پانی والا تو وہاں نہیں۔اس طرح انہوں نے صفا اور مروہ پر سات چکر لگائے مگر کہیں پانی میسر نہ آیا تب جب کہ ان کی تکلیف اپنی انتہاء کو پہنچ گئی اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک فرشتے سے کہا کہ جا اور ہاجرہ کو کہہ کہ تیرے لئے پانی خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے۔چنانچہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے آواز دی۔حضرت ہاجرہؑ نے اپنے جذبات کے زور میں پہلی دفعہ اس آواز کو پوری طرح نہیں سمجھا، اور انہوں نے کہا۔اے خدا کے بندے تیرے پاس کچھ پانی ہے۔ تب اس فرشتہ نے دوبارہ کہا کہ اے ہاجرہ! جا اور دیکھ کہ خدا تعالیٰ نے تیرے بیٹے کے لئے چشمہ پھوڑ دیا ہے۔چنانچہ وہ واپس آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت اسمٰعیلؑ جہاں شدّت پیاس سےتڑپ رہے تھے وہاں پانی کا ایک چشمہ پھوٹ رہا ہے۔یہ چشمہ دراصل عرصہ سے وہاں تھا مگر اس کا دہانہ مٹی سے بند ہو چکا تھا۔حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے جب پیاس کی شدّت میں ایڑیاں رگڑیں۔تو اس کے دہانہ سے مٹی ہٹ گئی اور چشمہ پھوٹ پڑا۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے جلدی جلدی ہاتھوں سے اس کے دہانہ پر مٹی اُٹھائی اور اس کا مونہہ کھول کر چلّوؤں سے پانی نکالا۔اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کوپلایا۔گویا وہی ایڑیاں جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی موت کے قرب پر دلالت کر رہی تھیں اس کی حیات کا باعث ہو گئیں۔اور اُنہیں سے وہ چشمہ پھوٹا جس نے ان کو زندہ کر دیا۔جب وہاں چشمہ پھوٹ پڑا تو قافلے والوں نے وہاں آنا شروع کر دیا۔اور انہوں نے حضرت ہاجرہؑ سے وہاں رہنے کی اجازت طلب کی اور کہا کہ ہم ٹیکس گذار ہو جائیں گے چنانچہ حضرت ہاجرہ نے انہیں اجازت دےدی اور وہ وہاں رہنے لگ گئے۔اس طرح رفتہ رفتہ مکّہ ایک بہت بڑا شہر بن گیا۔لیکن ہاجرہ کی عمر خواہ کتنی بھی لمبی ہوئی ہو اس عرصہ میں انہیں جب بھی وہ وقت یاد آ جاتا ہو گا جب ان کا بچہ شدّت پیاس سے تڑپ رہا تھا اور وہ پانی کی تلاش میں دیوانہ وار صفا اور مردہ کے چکر کاٹ رہی تھیں تو ان کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہو گا۔
آج اسی کی یاد میں (آج سے میری مراد خاص آج کا دن نہیں بلکہ آجکل کے ایام مراد ہیں)خدا تعالیٰ کے بندے مکّہ میں جمع ہو کر صفا اور مروہ پر دوڑتے ہیں ان کا دوڑنا کتنا مصنوعی ہوتا ہے۔ان میں سے بہتوں کا دوڑنا کتنا پُر تکلّف یا بطور تماشہ اور ناٹک کے ہوتا ہے۔ وہ صفا پر چڑھتے ہیں،وہ مروہ پر چڑھتے ہیں۔وہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتے بھی ہیں۔مگر ان کے دل جذبات سے کلیۃً خالی ہوتے ہیں انہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ آج سے ۳۸ سو سال پہلے اسی مقام پر ایک ماں دوڑ رہی تھی۔ایسے شدید جذبات کے ساتھ کہ دنیا میں شاید ہی کسی اور ماں کے ایسے شدید جذبات ہوں ایسی شدید تکلیف کی حالت میں کہ دنیا میں شاید ہی کسی ماں کو ایسی شدید تکلیف پہنچی ہو۔ وہ اور اس کا اکلوتا بچہ ایک بے آب وگیاہ جنگل میں جس میں منزلوں تک پانی کا کوئی نشان نہ تھا،پڑے تھے اور اس کا وہ اکلوتا بچہّ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی جان دے رہا تھا سونے کے لئے نہیں۔چاندی کے لئے نہیں،ہیروں اور جواہرات کے لئے نہیں بلکہ پانی کے ایک چُلو کے لئے جو ایک چوہڑے کو بھی مل جاتا ہے،کون ہے جو اِن جذبات کو سمجھے، کون ہے جو اس حقیقت پر نگاہ ڈالے،دوڑنے والے دوڑتے ہیں حج کرنے والے حج کرتے ہیں۔مگر وہ تہی دل ہوتے ہیں اور اسی لئے تہی دست واپس آجاتے ہیں۔اگر کسی شخص کے دل میں صفا اور مروہ پر دوڑتے وقت وہی جذبات پیدا ہوں جو ہاجرہ کے دل میں پیدا ہوئے تھے تو اگر وہ یہاں سے مٹی ہو کر بھی گیا تھا تو سونا بن کر واپس آئے گا اور اگر تانبا ہو کر گیا تھا تو اکسیربن کر واپس آئے گا کیونکہ صفا اور مروہ انسان کو پاک نہیں کرتے اور نہ صفا اور مروہ کی وجہ سے فرشتہ نازل ہواتھا بلکہ ہاجرہ کے دل کی تکلیف کی وجہ سے جو اس نے خدا کے لئے برداشت کی فرشتہ نازل ہؤا تھا۔ حضرت ہاجرہ نے موت کو سامنے کھڑے ہوئے دیکھا اور پھر بھی خدا تعالیٰ پر اعتبار کیا اور حضرت ابراہیمؑ سے کہہ دیا کہ اگر خدا تعالیٰ نے ہمیں اس جگہ چھوڑ دینے کو کہا ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ پس خدا تعالیٰ نے بھی نہ چاہا کہ ان کے اعتماد کو ضائع کرے اگر وہی دل لے کر آج بھی کوئی صفا اور مروہ پر دوڑے تو وہ ہاجرہ کی صفات اپنے اندر لے لے گا وہ اسماعیلی صفت انسان بن جائے گا۔ وہ حضرت ابراہیمؑ کی صفات کا مظہر ہو جائے گا۔(خطبات محمود، جلد ۲، صفحہ ۲۱۹ تا ۲۲۲۔ خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ۱۱؍ فروری ۱۹۳۸ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل ۱۵؍ مارچ ۱۹۳۸ء)
عید کی خوشی میں شامل ہونے کا اسی کو حق ہے جو حضرت ابراہیمؑ جیسی قربانی کرتا ہے
عیدکے موقع پر خوشی منانے کے لئے تو بعض لوگ سب سے آگے آجاتے ہیں۔لیکن اگر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح خدا تعالےٰ کے دین کے لئے اپنی اولاد کی قربانی نہیں کرتے اور اسے اسلام کی خدمت کے لئے وقف نہیں کر دیتے تو ان کا کیا حق ہے کہ وہ اس خوشی میں شامل ہوں جبکہ وہ وہ کام نہیں کرتے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خوشی میں شامل ہونے کا اسی کو حق ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی قربانی بھی کرتا ہے۔بےشک یہ خوشی منانے کا ابوبکرؓ کو حق حاصل تھا جس نے خدا کے لئے ہر قسم کی قربانی میں حصہ لیا۔بے شک یہ خوشی منانے کا عمرؓ،عثمانؓ اور علیؓ کو حق حاصل تھا جنہوں نے ہر قسم کی قربانی میں حصہ لیا۔اور بیشک یہ خوشی منانے کا طلحہؓ،زبیرؓ،عبدالرحمٰن بن عوفؓ،حمزہؓ،عباسؓ اور عثمانؓ بن مظعونؓ کو حق حاصل تھا جنہوں نے اپنی جانوں،اپنے مالوں،اپنی اولادوں، اپنے رشتہ داروں اور اپنی عزیز سے عزیز چیزوں کو خدا کے لئے قربان کر دیا۔مگر دوسروں کا کیا حق ہے کہ وہ اس خوشی میں شریک ہوں۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں نظام الدین صاحب اولیاء جن کی طرف خواجہ حسن نظامی صاحب بھی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ایک دفعہ اپنے مریدوں کے ساتھ بازار میں سے گذر رہے تھے کہ انہیں ایک خوبصورت لڑکا نظر آیا جسے آگے بڑھ کر انہوں نے چوم لیا۔یہ دیکھ کر ان کے تمام مرید ایک ایک کر کے آگے بڑھے اور انہوں نے اس بچے کو چومنا شروع کر دیا۔مگر ان کے ایک مرید جو بعد میں ان کے خلیفہ بھی ہوئے۔خاموش کھڑے رہے اور انہوں نے اس بچےکو نہ چُوما۔یہ دیکھ کر باقی سب نے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کر دیں اور کہا کہ پیر صاحب نے اس بچہ کو چُوما مگر اس نے نہیں چُوما۔معلوم ہوتا ہے اس کے اخلاص میں کوئی نقص ہے حالانکہ اسے چاہیئے تھا یہ پیر صاحب کی نقل کرتا۔اور جس طرح پیر صاحب نے اسے چوما تھا اسی طرح یہ بھی چُومتا اس نے ان باتوں کو سنا مگر کوئی جواب نہ دیا اور حضرت نظام الدین صاحب اولیاء پھر آگے چل پڑے۔ چلتے چلتے انہوں نے ایک بھٹیاری کو دیکھا کہ وہ دانے بھون رہی ہے اور بھٹی میں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں حضرت نظام الدین صاحب اولیاء آگے بڑھے اور انہوں نے آگ کے ان شعلوں کو چوم لیا یہ دیکھ کر تو کسی مرید نے آگے بڑھ کر ہمت نہ کی مگر وہی مرید جس نے بچے کو نہیں چوما تھا آگے بڑھا اور اس نے بھی شعلے کو چوم لیا۔ اس نے باقیوں سے کہا کہ اب شعلے کو کیوں نہیں چومتے؟ ہمت ہے تو آگے بڑھو اور اسے چومو مگر سب پیچھے ہٹ گئے اور کسی نے ان شعلوں کو چومنے کی جر أت نہ کی۔ان کو تو خدا نے محفوظ رکھا اور باوجود شعلوں کو بوسہ دینے کے نہ ان کے سر کے بال جلے اور نہ داڑھی کا کوئی بال جلا۔ لیکن اگر دوسرے بھی چُومتے تو انہیں خطرہ تھا کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال جل جائیں گے اور وہ لُنڈمُنڈ ہو کر گھر پہنچیں گے۔غرض جب کوئی بھی آگے نہ بڑھا تو وہ مرید جس نے شعلوں کو چُوما تھاکہنے لگا۔میں نے تمہارے اعتراض کو سُن لیا تھا مگر بات یہ ہے کہ تم حقیقت تک نہیں پہنچے تھے تم نے سمجھا کہ پیر صاحب نے اس لڑکے کوچُوما ہے حالانکہ پیر صاحب نے اس لڑکے کو نہیں چُوما۔اس کے اندر انہیں کوئی روحانی قابلیت نظر آئی ہوگی۔جس نے کسی آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونا ہو گا اور اسی وجہ سے انہوں نے اسے چُوما۔مگر مجھے اس میں وہ الٰہی جلوہ نظر نہ آیا اس لئے میں نے پیر صاحب کی نقل نہ کی اور اس لڑکے کو نہ چوما پھر انہیں وہی جلوہ آگ میں نظر آیا اور مجھے بھی اس آگ میں خدا تعالیٰ کا جلوہ نظرآ گیا۔پس انہوں نے آگ کو چُوما اور میں نے بھی آگ کو چُوما لیکن میرا چومنا ایک حقیقت پر مبنی ہے اور تم نے جو اس بچہ کو چُوما تو یہ محض ایک نقل تھی۔
تو درحقیقت خوشی میں شامل ہونا اسی کو نصیب ہوتا ہے۔جوآگ کے شعلوں کو چومنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور اسی کا حق ہے کہ وہ عید منائے کیونکہ جب تک کوئی شخص آگ کے شعلوں میں سے نہیں گذرتا اس وقت تک وہ حقیقی خوشی بھی نہیں دیکھ سکتا۔
پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح جس نے اپنے بیٹے کی قربانی کر دی۔خواہ تعلیم و تربیت کے رنگ میں، خواہ وقف زندگی کی صورت میں اسے حق ہے کہ وہ اس عید کی خوشی میں شریک ہو۔اور اگر وہ اپنی اولاد کو خدمت دین کے لئے وقف نہیں کرتا اور نہ ان کی اس رنگ میں تربیت کرتاہے جس رنگ میں اسلام اس سے مطالبہ کرتاہے تو یقیناً اس کا اس عید میں شامل ہونے کا کوئی حق نہیں۔(خطبات محمود، جلد ۲، صفحہ ۲۵۳-۲۵۴۔ خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ۲۰؍ فروری ۱۹۴۰ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل ۹؍ مئی ۱۹۴۰ءعید الاضحیہ)
اصل قربانی وہ ہے جو سارے خاندان کی قربانی ہو
اصل قربانی وہ ہے جو انسان اپنی اور اپنے اہل و عیال کی پیش کرے اور یہی وہ سبق ہے جو عید الاضحیہ ہمیں سکھاتی ہے چنانچہ دیکھ لو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمٰعیلؑ اورحضرت ہاجرہ ؓ کو ایک بے آب وگیاہ جنگل میں چھوڑ آئے تو گو وہ خود اس جنگل سے باہر چلے گئے لیکن ان کی قربانی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی بیوی اور اکلوتے بچے کی جدائی کا دکھ اٹھایا اور بیوی کی یہ قربانی تھی کہ اس نے اپنے خاوند کی جدائی کا دکھ اٹھایا اور اپنے بیٹے کا دکھ دیکھا اور بیٹے کی قربانی یہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے ایک ایسے جنگل میں بس گیا جہاں دُور دُور تک انسان نظر نہیں آتا تھا اور اس نے نہ صرف خود پیاس اور بھوک کی تکلیف اٹھائی بلکہ ماں اور باپ کا دکھ بھی دیکھا پس وہ قربانی کسی ایک فرد کی نہیں تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ایک بے آب وگیاہ جنگل میں چھوڑ کر کی بلکہ درحقیقت وہ سارے خاندان کی قربانی تھی میں سمجھتا ہوں اگر فی الواقعہ آج ہر مسلمان ان معنوں میں عید منانے لگ جائے اور وہ دنبوں اور بکروں کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے بیٹوں کی قربانی بھی کرنے لگ جائے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں تباہ نہیں کر سکتی۔
دیکھوسکھوں نے اپنے زمانہ حکومت میں پشاور پر قبضہ کر لیا تو حضرت سیّد احمد صاحب بریلویؒ نے جو تیرھویں صدی کے مجدّد تھے سیّد اسمٰعیل صاحب شہید کو اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے مقرر کیا۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پشارہ کی طرف بڑھے۔ سکّھوں کے پاس تو پیں تھیں اور مسلمانوں کے پاس نہیں تھیں جب مسلمان سامنے کھڑے ہوئے تو لوگ کہنے لگے یہ کیا مقابلہ کریں گے بلکہ بعض نے تو یہانتک کہا کہ یہ لوگ بیوقوف ہیں جو توپوں کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں اس وقت کی جنگ آجکل کی جنگ کی طرح زیادہ خطر ناک نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت توپ کا گولہ اگرچہ کئی کئی من کا ہوتا تھا مگر وہ ایک ہی جگہ پڑتا تھا اور آجکل کے گولوں کی طرح پھیل کر زیادہ نقصان نہیں پہنچاتا تھا۔سید اسمٰعیل صاحب شہید نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر تم متفرق طور پر کھڑے ہوئے تو توپ کا گولہ زیادہ سے زیادہ تم میں سے ایک کو مارے گا۔ اس لئے تم ایک دوسرے سے کندھا لگا کر کھڑے نہ ہو بلکہ آپس میں دس دس گز کا فاصلہ رکھو اور دشمن کی طرف اس طرح بڑھو کہ جوں جوں تم دشمن کے قریب ہوتے جاؤ تمہارا درمیانی فاصلہ کم ہوتا جائے۔اور جب تم دشمن کے بالکل قریب پہنچ جاؤ تو یکدم حملہ کر کے اس کی توپوں پر قبضہ کر لو۔ان لوگوں میں اطاعت کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ انہوں نے سیّد اسمٰعیل صاحب شہید کی ہدایات کے ماتحت آپس میں دس دس گز کا فاصلہ رکھ کر قلعہ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے دشمن کے گولے انہیں زیادہ نقصان نہیں پہنچاتے تھے زیادہ سے زیادہ وہ ایک آدمی کو اپنی زد میں لیتے تھے اور باقی محفوظ رہتے تھے،غرض مسلمان اسی طرح آگے بڑھتے گئے اور جُوں جُوں دشمن کے قریب ہوتے گئے ان کا فاصلہ کم ہوتا گیا۔ جب وہ توپ خانہ کے بالکل قریب پہنچے تو یکدم حملہ کر کے انہوں نے توپچیوں کو توپوں کے دہانے سکھوں کی طرف پھیردینے پر مجبور کر دیا۔اس طرح سکھوں کی توپیں سکھوں پر ہی چلیں اور پشاور پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔اب دیکھو جو کچھ ہؤا قومی قربانی کا ہی نتیجہ تھا، ورنہ مسلمان خالی ہاتھ تھے۔اور دشمن مسلح تھا اور اس کے مقابلہ میں ان کی ظاہری طور پر کوئی حیثیت نہیں تھی۔صرف اتنی بات تھی کہ وہ لوگ مرنا جانتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے فتح حاصل کر لی۔
اسی طرح پٹھانوں میں بھی بڑی جرأت اور دلیری پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ مرنا جانتے ہیں۔پٹھان لٹر تے تھے تو بعض دفعہ انگریزی فوج پر حملہ کر کے ان کی رائفلیں تک چھین کر لے جاتے تھے۔ جب نادر شاہ نے سرحد پر حملہ کیا تو نادرشاہ کے جتھے آتے اور مرتے جاتے یہانتک کہ وہ علاقہ فتح کر لیتے۔ میں نے ان دنوں ایک خواب دیکھی کہ ایک انگریز میرے پاس آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ سرحد پر پٹھانوں کے حملے ہو رہے ہیں اور وہ بڑی سختی سے حملہ کرتے ہیں کیا اسلام میں یہ بات جائز ہے کہ اگر کوئی دشمن ہمارے کسی آدمی کو مارے اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے تو اس کے مقابلہ میں بھی ان کے ساتھ بھی ایساہی سلوک کیا جائے۔ میں نے کہا ہاں قرآن کریم میں جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا۔یہ مسئلہ تو فقہی طرز کا تھا جو میں نے خواب میں بتایا لیکن خواب کا دوسرا حصہ نہایت اہم تھا۔مجھے خواب میں بتایا گیا کہ اگر انگریزوں نے اس محاذ پر اپنی چوٹی کے افسر نہ بھیجے تو انہیں شکست ہو گی۔اتفاق کی بات ہے کہ میں کچھ عرصہ کے بعد شملہ گیا وہاں گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم سیکرٹری نے مجھے چائے پر بلایا۔اس وقت مسٹر کریرا ہوم سیکرٹری تھے جو وائسرائے ہند کے رشتہ دار تھے اس موقع پر سر ولیم (SIR WILLIAM) بھی آئے ہوئے تھے جو انگریزی فوج کے چیف آف دی جنرل سٹاف تھے، ان کا ایک بھائی اس وقت بادشاہ انگلستان کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا باتوں باتوں میں اس خواب کا ذکر آگیا جو میں نے اوپر بیان کی ہے تو سر ولیم بے اختیار بول اٹھے کہ آپ کی رؤیا بالکل درست ہےاور میں اس کا گواہ ہوں میں ان دنوں اس فوج کا کمانڈر تھا جو پٹھانوں سے لڑ رہی تھی ایک دن پٹھان فوج ہمیں دھکیل کر اتنا پیچھے لے گئی کہ ہماری شکست میں کوئی شبہ باقی نہ رہا اور ہمیں مرکز کی طرف سے یہ احکام موصول ہو گئے کہ فوجیں واپس لے آؤ۔چنانچہ ہم نے اپنا سامان ایک حد تک واپس بھی بھیج دیا تھا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ پٹھان فوج کو ہماری فوجی طاقت کے متعلق غلطی لگ گئی اور وہ آگے نہ بڑھی۔اگر وہ آگے بڑھتی تو افغان فوج ڈیرہ اسماعیل خان تک ہمیں دھکیل کر لے آتی۔ سرولیم نے بتایا کہ پٹھانوں کے جتھے ہمارے مقابلہ پر آتے تو وہ مرتے چلے جاتے اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہتا جب تک کہ وہ اس علاقہ کو فتح نہ کر لیتے۔ آخر ہمیں حکم ہوا کہ اپنی فوجیں پیچھے لے جاؤ۔ نادرشاہ بہت ہوشیار جرنیل تھا اس نے قبائلیوں کو اکٹھا کر کے ان کی تنظیم کر لی تھی۔ یہ لوگ چاروں طرف سے پہاڑوں سے بارش کی طرح اترتے اور انگریزی فوج کےسپاہیوں کو مارتے چلے جاتے اور تھوڑے ہی عرصہ میں انگریزوں کی رائفلیں ان کے پاس ہوتیں جس کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنا انگریزوں کے لئے مشکل ہو گیا۔اب دیکھو یہ قربانی کا ہی نتیجہ تھا کہ ناتجربہ کار لوگ مسلح فوج پر غالب آگئے۔ اسی طرح اگر سب مسلمانوں کے اندر ابراہیمی روح پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ عید الاضحیہ ہمارے اندر اسی قسم کا نمونہ پیدا کرنا چاہتی ہے۔(خطبات محمود، جلد۲ صفحہ ۳۸۸ تا ۳۹۰۔ خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۵۶ء بمقام ربوہ۔ مطبوعہ الفضل ۱۰؍ جون ۱۹۵۹ء)