لینے والا ہاتھ نہیں بلکہ دینے والا ہاتھ بنیں
حقیقی منافع وہی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے اور اس بات کی اتنی اہمیت آپؐ نے بیان فرمائی کہ جب صحابہؓ نے پوچھا کہ اگر صدقے کی توفیق نہ ہو تو کیا کریں؟ تو فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرو اور کماؤ۔ جس سے تمہیں بھی فائدہ ہو، قوم کو بھی فائدہ ہو۔ قوم پر بوجھ نہ بنو۔ تم اگر کماؤ گے تو ایک تو قوم پر بوجھ نہیں بنو گے۔ دوسرے تم لینے والا ہاتھ نہیں بنو گے بلکہ دینے والا ہاتھ بنو گے جو خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔ یہاں مغربی ممالک میں جو حکومت سے سوشل الاؤنس لیتے ہیں انہیں بھی اس بات پر سوچنا چاہئے کہ جس حد تک کام کرکے چاہے کسی بھی قسم کا کام ہو (بعض دفعہ اپنی تعلیم کے مطابق کام نہیں ملتا توجو بھی کام ملے وہ کام کرکے) کوئی جتنا بھی کما سکتا ہو اس کو کمانا چاہئے اور حکومت کے اخراجات کے بوجھ کو کم کرنا چاہئے۔ اور ایک احمدی کے لئے تو یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کی غلط بیانی سے حکومت سے کسی بھی قسم کا الاؤنس وصول کرے۔ اس قسم کی رقم کا حاصل کرنا نفع کا سودا نہیں ہے بلکہ سراسر نقصان کا سودا ہے۔ اسی طرح پاکستان، ہندوستان اور دوسرے غریب ممالک ہیں ان میں بھی ایک احمدی کو حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہئے کہ لینے والا ہاتھ نہ بنے بلکہ دینے والا ہاتھ بنے۔
پھر صحابہؓ نے جب پوچھا کہ اگر ایسی کوئی صورت ہی نہ بنتی ہو جس سے کوئی کمائی کر سکیں۔ کسی بھی قسم کا کام نہیں ملتا اور اگر کچھ ملا تو مشکل سے اپنا گزارا ہوا اور صدقہ دینے کا تو سوال ہی نہیں تو پھر ایسی صورت میں کیا کریں؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ دوسروں کی مدد کے مختلف ذرائع ہیں وہ اختیار کرو ان ذرائع کو استعمال کرو اور کسی حاجتمند کی، ضرورت مند کی کسی بھی طرح مدد کردو، کوئی خدمت کردو۔
اس طرح کی مدد کی بھی ایک اعلیٰ ترین مثال آنحضرتﷺ نے قائم فرمائی۔ ایک بڑھیا جسے آپؐ کے خلاف خوب بھڑکایا گیا تھا جب نئی نئی شہر میں آئی تھی تو اس کا سامان اٹھا کر اسے منزل مقصود تک آپؐ نے پہنچایا۔ وہ آپ کو جانتی نہیں تھی کہ آپ کون ہیں؟ اس نے انجانے میں آپ کو بہت کچھ کہا۔ آپؐ سنتے رہے لیکن آپؐ نے اظہار نہیں کیا۔ اور منزل پر پہنچ کر جب بتایا کہ وہ مَیں ہی ہوں جس سے بچنے کا تمہیں مشورہ دیا گیا تھا کہ اس جادوگر سے بچ کے رہنا تو بے اختیار اس بڑھیا کے منہ سے نکلا کہ پھر مجھ پر تو تمہارا جادو چل گیا۔ تو کسی بھی رنگ میں، کسی کی تکلیف دور کرکے اسے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا یہ بھی صدقہ جتنا ہی ثواب دیتا ہے اور پھر جب صحابہ نے کہا کہ اگر یہ بھی نہ ہو سکے، کوئی بالکل ہی معذور ہو تو فرمایا کہ بے شمار نیکیاں ہیں جن کا خدا تعالیٰ نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے انہیں بجا لاؤ، ان پر عمل کرو۔ یہی تمہارے لئے نفع رساں ہے۔ اور پھر جو برائیاں ہیں ان سے بچو تو یہ تو ہر غریب سے غریب شخص بھی کر سکتا ہے کہ نیکیوں کو بجا لائے اور برائیوں سے بچے۔ اس کے لئے تو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے لئے تو جسمانی طاقت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(خطبہ جمعہ ۲۴؍اپریل ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۵؍مئی ۲۰۰۹ء)