احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
الہامات کے لیے روزنامچہ نویس
اس زمانے کی ایک اوراہم تاریخی قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے الہامات کے لیے روزنامچہ نویس بھی رکھاہواتھا۔اس ضمن میں دواشخاص کانام ملتاہے۔ایک شام لال اوردوسرا بواداس کالیہ۔حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ ان کے متعلق معلومات دیتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :’’جن ایام میں آپؑ براہین احمدیہ کی تصنیف میں مصروف تھے اور الله تعالیٰ کے مکالمات و مخاطبات سے بھی آپؑ مشرف ہو رہے تھے چونکہ ان میں خدا تعالیٰ بعض غیب کی خبریں آپ پر ظاہر فرماتا تھا آپ کا معمول یہ تھا کہ ایسی خبریں آپؑ علی العموم ان لوگوں کو جو آپؑ کے پاس آتے جاتے تھے سنا دیا کرتے تھے ان میں سے لالہ ملاوامل، شرمپت رائے اور بھائی کشن سنگھ وغیرہ خصوصیت کے ساتھ ہندووٴں میں سے اور میاں جان محمد امام مسجد اور بعض دوسرے مسلمان جو آمد و رفت رکھتے تھے مشہور ہیں مگر بعض اوقات آپؑ کا یہ معمول تھا کہ آپؑ لوگوں کو بلا لیا کرتے تھے اور ان پیشگوئیوں سے آپؑ آگاہ کرتے۔نہ صرف یہ کہ قادیان میں رہنے والوں کو اطلاع دیتے بلکہ بعض اوقات آپؑ خطوط کے ذریعہ اپنے خاص دوستوں کو باہر بھی اطلاع دیتے تھے۔ان میں سے ان ایام میں صرف لالہ بھیم سین وکیل سیالکوٹ مخصوص تھے اور بعض عہدہ داران سرکاری جو آپؑ سے یا آپؑ کے خاندان سے تعلق محبت رکھتے تھے اور اگر موقع ملتا تو ان کو بھی بتا دیتے ان عہدہ داروں میں سے حافظ ہدایت علی صاحب مرحوم جو ضلع میں ڈپٹی تھے مخصوص تھے چنانچہ آپؑ کے مبشرات کی ان کو قبل از وقت اطلاع ملی تھی لیکن جب یہ سلسلہ ترقی کرنے لگا تو آپؑ نے اس مقصد کے لئے ایک ہندو برہمن کو ملازم رکھ لیا اس کا کام یہ تھا کہ وہ آپؑ کے الہامات کا ایک روزنامچہ لکھا کرے اس کا نام پنڈت شام لال تھا چنانچہ ایک خاص پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ لکھتے ہیں کہ ’’ان دنوں میں ایک پنڈت کا بیٹا شام لال نامی جو ناگری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا بطور روزنامہ نویس کے نوکر رکھاہوا تھا اور بعض امور غیبیہ جو ظاہر ہوتے تھے اس کے ہاتھ سے وہ ناگری اور فارسی خط میں قبل از وقوع لکھائے جاتے تھے اور پھر شام لال مذکور کے اس پر دستخط کرائے جاتے تھے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد ١صفحہ٥٦٧)
’’پنڈت شام لال کو میں نے دیکھا ہے وہ چھوٹے بازار میں رہا کرتا تھا حضرت اقدسؑ نے اس کو ایک گلستاں بھی پڑھنے کے لئے عطا فرمائی یہ شخص حضرت اقدسؑ کے پاس عرصہ تک ملازم تھا پنڈت لیکھرام جب قادیان آیا تو اس نے شام لال پر دباوٴ ڈلوا کر اس خدمت سے الگ کرا دیا اور قومی اثر کے ماتحت گو وہ الگ ہو گیا پھر بھی کچھ عرصہ تک مخفی طور پر اپنی ملازمت کے لئے جاتا رہا مگر آخر حضرتؑ نے اسے یہ کہا کہ یا تو تم کھلم کھلا یہ کام کرو ورنہ میں اس طرح پر رکھنا نہیں چاہتا۔ اسے الگ کر دیا۔کچھ عرصہ تک پھر ایک اور برہمن کالیہ بواداس بھی یہ کام کرتا رہا لیکن جب عام لوگوں کا رجوع ہونے لگا اور ان مکالمات ومخاطبات کی شہادت کے لئے میدان وسیع ہو گیا تو پھر یہ التزام نہ رہا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔‘‘(حیات احمد،جلد دوم صفحہ ۸۸)
طباعت کے لیے مالی اعانت کی دعا اور کوششیں اورمعاونین
[مالی اعانت کرنے والے،خریدار،کتب کی فروخت کے ذریعہ اعانت]
حضرت اقدس علیہ السلام نے جب براہین احمدیہ لکھی تو اب دوسرامرحلہ اس کی طباعت تھی جو کہ ایک کٹھن مرحلہ تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام قادیان کی جائیداد کے ایک بڑے حصہ کے مالک تھے جس کا تخمینہ دس ہزارروپے سے کہیں زیادہ تھا۔لیکن یہ ملکیت قانونی ملکیت تھی کیونکہ حضرت اقدس علیہ السلام کے والد ماجد رحمہ اللہ کی وفات کے بعد عملاً سارا انتظام وانصرام بڑے بھائی صاحب کے سپرد ہی تھا اوروہی ساری آمدن اورجائداد کے سیاہ وسفید کے مالک تھے۔آپؑ نے جائیداد کی تقسیم کا کوئی مطالبہ بھی نہ کیا اورایک قانع وصابر عبدشکور کی مانند ہی زندگی بسرکرتے رہے۔ اور درویشی کے جس صبرآزما دورمیں سے آپؑ اس وقت گزررہے تھے اس وقت میں براہین احمدیہ کی طباعت پر اٹھنے والے اتنے بھاری اخراجات کا جو کہ تخمیناً دس ہزارروپے کے قریب تھے میسر ہونا ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔دوسری طرف قادیان سمیت آپؑ کی ذات گمنامی کے ایسے پردہ میں مستور تھی کہ کسی بیرونی امداد کے امکانات بھی کالمعدوم ہی تھے۔اورتیسراایک اورامربھی کہ اس دینی کام کے لیے اپنا مال خرچ کرنے والے بھی کوئی زیادہ نہ تھے۔ گوکہ ہندوستان کی وسیع ریاست میں ایسے ایسے مالداررئیس اور نواب تھے کہ لاکھوں کروڑوں روپے کے مالک تھے لیکن خداکی راہ میں ایک کوڑی خرچ کرنابھی ان کے لیے جان نکالنے کے مترادف تھا۔ان حالات میں صرف خداکی ذات ہی تھی جس پر آپؑ کو پوراتوکل اوربھروسہ تھا اوراسی توکل کے سہارے براہین احمدیہ کی طباعت کا ایسا یقین تھا کہ اس عزمِ صمیم کے ساتھ آپؑ براہین احمدیہ کی طباعت کی کوشش میں مصروف رہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی ہمت نہیں ہاری۔
اسی امیدوبیم کے حالات کا ذکر،جو خود ایک نشان ٹھہرے،حضرت اقدس علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں مختصر طور پر فرمایاہے۔آپؑ بیان فرماتے ہیں :’’……یہ الہام اکثر ان صورتوں میں نازل ہوتا ہے کہ جب خداوند کریم و رحیم اپنی عین حکمت اور مصلحت سے کسی خاص دعا کو منظور کرنا نہیں چاہتا۔ یا کسی عرصہ تک توقّف ڈالنا چاہتا ہے یا کوئی اور خبر پہنچانا چاہتا ہے کہ جو بمقتضائے بشریت انسان کی طبیعت پر گراں گزرتی ہو۔ مثلاً جب انسان جلدی سے کسی امر کا حاصل کرلینا چاہتا ہو اور وہ حاصل ہونا حسب مصلحت ربانی اس کے لئے مُقدّر نہ ہو یا توقّف سے مقّدر ہو۔ اس قسم کے الہام بھی یعنے جو سخت اور گراں صورت کے الفاظ خدا کی طرف سے زبان پر جاری ہوتے ہیں بعض اوقات مجھ کو ہوتے رہے ہیں جس کا بیان کرنا موجب طوالت ہے مگر ایک مختصر فقرہ بطور نمونہ بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ شاید تین سال کے قریب عرصہ گزرا ہوگا کہ میں نے اسی کتاب کے لئے دعا کی کہ لوگ اس کی مدد کی طرف متوجہ ہوں تب یہی الہام شدیدالکلمات جس کی میں نے ابھی تعریف کی ہے ان لفظوں میں ہوا(بالفعل نہیں) اور یہ الہام جب اس خاکسار کو ہوا تو قریب دس یا پندرہ ہندو اور مسلمان لوگوں کے ہوں گے کہ جو قادیان میں اب تک موجود ہیں جن کو اسی وقت اس الہام سے خبر دی گئی اور پھر اسی کے مطابق جیسے لوگوں کی طرف سے عدم توجہی رہی۔ وہ حال بھی ان تمام صاحبوں کو بخوبی معلوم ہے۔
……جب پہلے الہام کے بعد جس کو میں ابھی ذکر کرچکا ہوں ایک عرصہ گزر گیا اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح کی دقتیں پیش آئیں اور مشکل حد سے بڑھ گئی تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند کریم نے یہ الہام کیا۔ وَهُزِّ إِلَيْکَ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكَ رُطَبًا جَنِيًّا سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہوگا۔ اور اس کی خبر بھی بدستور کئی ہندو اور مسلمانوں کو دی گئی اور اتفاقاً اسی روز یا دوسرے روز حافظ ہدایت علی خان صاحب کہ جو ان دنوں اس ضلع میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھے قادیان میں آگئے۔ ان کو بھی اس الہام سے اطلاع دی گئی۔ اور مجھے بخوبی یاد ہے کہ اسی ہفتہ میں میں نے آپؑ کے دوست مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو بھی اس الہام سے اطلاع دی تھی۔ اب خلاصہ کلام یہ کہ اس الہام کے بعد میں نے حسب الارشاد حضرت احدیّت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کرنے کے بعد لاہور۔ پشاور۔ راولپنڈی۔ کوٹلہ مالیر اور چند دوسرے مقاموں سے جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا مدد پہنچ گئی۔ والحمدللہ علی ذالک۔‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ٢٤٨تا ٢٥١ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر١)
اس نشان کا ذکر اپنی ایک دوسری تصنیف ’’حقیقةالوحی‘‘ میں بیان کرتے ہوئےآپؑ فرماتے ہیں :’’151: نشان: جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اُس کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا مجھے کسی سے تعارف نہ تھا تب میں نے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو یہ الہام ہوا هُزِّ إِلَيْکَ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكَ رُطَبًا جَنِيًّا دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۲۶ (روحانی خزائن جلداول صفحہ۲۵۰ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر۱) کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجوریں گریں گی۔ چنانچہ میں نے اِس حکم پر عمل کرنے کے لئے سب سے اول خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی طرف خط لکھا پس خدا نے جیسا کہ اُس نے وعدہ کیا تھا اُن کو میری طرف مائل کر دیا اور انہوں نے بلاتوقف اڈھائی سو روپیہ بھیج دیا اور پھر دوسری دفعہ اڈھائی سو روپیہ دیا اور چند اور آدمیوں نے روپیہ کی مدد کی اور اس طرح پر وہ کتاب باوجود نو میدی کے چھپ گئی اور وہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ یہ واقعات ایسے ہیں کہ صرف ایک دو آدمی ان کے گواہ نہیں بلکہ ایک جماعت کثیر گواہ ہے جس میں ہندو بھی ہیں…… پس اس پیشگوئی کے مطابق سرمایہ کتاب اکٹھا ہو گیا اور پیشگوئی پوری ہو گئی اور اس روپیہ کا آنا بالکل غیرمتوقع تھا کیونکہ میں گمنام تھا اور یہ میری پہلی تالیف تھی۔‘‘ (حقیقةالوحی،روحانی خزائن جلد٢٢ صفحہ٣٥۰،٣٥۱)