نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے
سب صاحبوں کو معلوم ہو کہ ایک مدت سے خدا جانے قریباًچھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے۔میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے، ایک نو وارد یا نو مرید کو (جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے) یہ شبہ گذرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے۔ جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہوا یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذربھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں اور نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتا ً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے۔ اگرچہ شیعوں نے اور غیر مقلدوں نے اس پربڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں۔ وہ صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں۔ سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں اورمشکل کوموضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں۔ ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہی رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہیے۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۶۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سَو سَو حجاب
ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اِک تیغِ تیز
جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اَغیار کا
(سرمہ چشم آریہ صفحہ ۴ ۔مطبوعہ ۱۸۸۶ء)