غزوہ بنو نضیر کے حالات و واقعات کا بیان نیز پاکستانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍جون ۲۰۲۴ء
٭…غزوہ بنو نضير ربيع الاوّل ۴؍ہجري ميں پيش آيا
٭… بنو نضير نے آپؐ کي طرف پيغام بھيجا کہ آپ اپنے تيس ساتھيوں کے ساتھ ہماري طرف آئيں اور ہمارے بھي تيس علما ءآئيں گے
٭… آنحضورﷺ کو اس سازش کا علم ہوا تو آپؐ اپنے ساتھيوں کے ہمراہ يہود کے قلعوں کي طرف روانہ ہوئے اور ان کا محاصرہ کرليا
٭…پاکستانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
٭… مکرم غلام سرور صاحب شہيد ابن مکرم بشير احمد صاحب آف سعداللہ پور منڈي بہاؤالدين ،مکرم راحت احمد باجوہ صاحب شہيد ابن مکرم مشتاق احمد باجوہ صاحب آف سعداللہ پور منڈي بہاؤالدين اورمکرم ملک مظفر خان جوئيہ صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍جون ۲۰۲۴ء بمطابق۱۴؍احسان ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۴؍جون۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج غزوہ بنو نضیر کا کچھ ذکر کروں گا۔
قبیلہ بنو نضیر مدینے کے یہود کا ایک خاندان تھا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ بنو نضیر خیبر کے یہود کا ایک قبیلہ تھا۔ رسول اللہﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اُس وقت بنو نضیر کا سردار حیی بن اخطب تھا، ام المومنین حضرت صفیہؓ اسی کی بیٹی تھیں۔ لکھا ہے کہ حیی بن اخطب کا سلسلہ نسب حضرت موسیٰؑ کے بھائی حضرت ہارونؑ سے جاملتا ہے۔اسی طرح حیی بن اخطب کے خاندان میں بہت سے اشخاص نبوت کے شرف سے سرفراز ہوئے اور اس بات کا اُسے بڑا گھمنڈ تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اللہ ہم پر دنیا میں بھی بڑا مہربان ہے اور آخرت میں بھی وہ ہم پر مہربان رہے گا وہ ہمیں گناہوں کی وجہ سے چند دن سزا دے گا اور بالآخر جنّت ہی ہمارا ٹھکانہ ہوگا۔ اسی نسبی تفاخر کے باعث حیی نے رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے روگردانی کی تھی۔ قبیلہ بنو نضیر محلِ وقوع کے اعتبار سے مسجد قبا سے آدھا میل دُور تھا۔
غزوہ بنو نضیر ربیع الاوّل ۴؍ہجری میں پیش آیا۔ایک قول یہ ہے کہ یہ غزوہ احد سے پہلے کا واقعہ ہے۔
غزوہ بنو نضیر کے اسباب کے متعلق بیان ہوا ہے کہ قریشِ مکّہ نے غزوہ بدر سے پہلے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اوس اور خزرج کے بت پرستوں کو لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی یعنی محمد رسول اللہﷺ کو پناہ دی ہے۔ ہم قَسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو ان کے ساتھ قتال کرو، یا انہیں اپنے شہر سے نکال دو یا پھر ہم تمام عرب کے ساتھ تم پر حملہ آور ہوں گے۔ ابی بن سلول اور دیگر بت پرستوں کو جب یہ خط ملا تو انہوں نے ایک دوسرے کی طرف پیغام بھیجا اور رسول اللہﷺ سے قتال کا پختہ ارادہ کرلیا۔ جب آنحضرتﷺ کو اطلاع ملی تو
آپؐ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ان سے ملے اور ان سے فرمایا کہ قریش نے تمہیں سخت دھمکی آمیز خط لکھا ہے۔ یہ خط تمہیں کسی فریب میں مبتلا نہ کردے کہ تم مکروفریب میں مبتلا ہوکر اپنے ہی بھائی بیٹوں سے لڑنے لگو۔
آنحضورﷺ کی یہ بات ان سرداروں کو سمجھ آگئی اور انہوں نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا۔ پھر قریش نے غزوہ ٔبدر کے بعد یہود کی طرف ایک خط لکھا کہ تمہارے پاس اسلحہ ہے اور تم قلعوں کے مالک ہو۔ اس لیے یا تو تم ہمارے ساتھی کے ساتھ قتال کرو ورنہ ہم تم پر چڑھائی کریں گے۔ جب یہ خط یہود تک پہنچا تو بنو نضیر نے آنحضورﷺ کے ساتھ دھوکہ کرنے پر اتفاق کرلیا۔
بنو نضیر نے آپؐ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ اپنے تیس ساتھیوں کے ساتھ ہماری طرف آئیں اور ہمارے بھی تیس علما ءآئیں گے۔ اگر ہمارے علما ءنے آپ کی تصدیق کردی اور آپ پر ایمان لے آئے تو ہم بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
اگلے روز آپؐ ان کی طرف تیس ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور تیس یہودی علما ءبھی آپ کے پاس آگئے۔ جب یہود ایک کھلےمیدان میں نکلے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ تم ان پر کیسے حملہ آور ہوگے، جبکہ ان کے ساتھ تیس ساتھی ہیں۔ چنانچہ یہود نے باہم مشورہ کیا اور پھر آنحضورﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپؐ تین علما ءکے ساتھ آئیں ہمارے بھی تین ہی عالم ہوں گے۔ اس پر آنحضورﷺ تین علما ءکے ساتھ روانہ ہوئے۔ یہود کے تینوں علما ءکے پاس خنجر تھے، مگر
یہود کی ایک خیرخواہ عورت نے ایک انصاری صحابی کو یہود کی ساری منصوبہ بندی کی خبر کردی۔
آنحضورﷺ کو اس سازش کا علم ہوا تو آپؐ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ یہود کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے اور ان کا محاصرہ کرلیا اور پیغام بھیجا کہ جو حالات ظاہر ہوئے ہیں ان کے ہوتے ہوئے مَیں تمہیں مدینے میں نہیں رہنے دے سکتا جب تک کہ تم میرے ساتھ ازسرِ نَو معاہدہ کرکے مجھے یقین نہ دلاؤ کہ آئندہ تم بدعہدی اور غداری نہیں کرو گے۔ لیکن یہود نے معاہدہ کرنے سے صاف انکار کردیا اور اس طرح جنگ کی ابتدا ہو گئی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس غزوے کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمرو بن امیہ ضمری جنہیں کفار نے قید کرکےچھوڑ دیا تھا، وہ جب واپس آرہے تھے تو راستے میں انہیں بنو عامر کے دو آدمی ملے جو آپؐ کے ساتھ معاہدہ کرچکے تھے۔ کیونکہ عمرو کو اس معاہدے کا علم نہیں تھا اس لیے انہوں نے موقع پاکر بئرمعونہ کے شہداءکے بدلے قتل کردیا۔
جب آنحضورﷺ کو اس معاملے کی اطلاع ہوئی تو آپؐ بہت ناراض ہوئے اور ان مقتولین کا خون بہا ان کے لواحقین کو بھجوا دیا۔
چونکہ بنو عامر کے لوگ بنو نضیر کے حلیف تھے اور بنو نضیر مسلمانوں کے حلیف تھے اس لیے معاہدے کی رو سے اس خون بہا کا بار حصہ رسدی بنو نضیر پر بھی پڑتا تھا۔ اس وجہ سے آنحضورﷺ اپنے بعض ساتھیوں کےساتھ بنو نضیر کی آبادیوں میں پہنچے اور خون بہا کا حصہ طلب فرمایا۔ جب آنحضورﷺ خون بہا کے مطالبے کے لیے بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے،اُس روز ہفتے کا دن تھا، آپؐ کے ساتھ صحابہ ؓکی ایک جماعت تھی جن کی تعداد دس سے کم بیان کی جاتی ہے۔ آنحضورﷺ نے جب یہود سے خون بہا کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہاں ! ابولقاسم! آپ پہلے کھانا کھا لیجیے پھر آپ کی بات کی طرف آتے ہیں۔ بظاہر یہود نے بڑی خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا مگر درپردہ سازش کی اور آپس میں آنحضورﷺ کے قتل کا مشورہ کرنے لگے۔
آنحضورﷺ ان یہود کےمکانات میں سے ایک کے سائے میں تشریف فرما تھے، یہود نے یہ مشورہ کیا کہ اوپر چھت پر سے ایک بھاری پتھر آنحضورﷺپر گِرا دیا جائے۔
بقیہ تفصیل آئندہ بیان کرنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےپاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ
پاکستان کے احمدیوں پر آج کل پھر سختیاں وارد کی جارہی ہیں۔اللہ تعالیٰ جلد ان ظالموں سے نجات دلائے اور وہاں بھی ہمارے حالات بہتر ہوں۔ذرا ذرا سی بات پر مقدمے اور تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حضورِانور نے نمازِ جمعہ کے بعد درج ذیل مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا اوران کا ذکرِ خیر فرمایا:
۱۔مکرم غلام سرور صاحب شہید ابن مکرم بشیر احمد صاحب آف سعداللہ پور منڈی بہاؤالدین۔ آپ کو ایک معاندِ احمدیت نے ۸؍ جون کو شہید کردیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون ۔مرحوم نظامِ وصیت میں شامل، پنجوقتہ نماز، نفلی روزوں اور تلاوتِ قرآن کریم کے عادی، درود شریف کثرت سے پڑھنے والے، جماعتی کتب کا مطالعہ کرنے، روزانہ کی بنیاد پر صدقہ دینے، بڑی خاموشی کے ساتھ مستحقین کی مدد کرنے والے تھے۔ مرحوم کو دعوت الیٰ اللہ کا بہت شوق تھا۔ بہت سی سعید روحیں آپ کے توسط سے احمدیت میں داخل ہوئیں۔ ماضی میں کلمہ مہم کے دوران دیگر احباب کے ساتھ تین چار دن کے لیے اسیرِ راہِ مولیٰ ہونے کی بھی توفیق ملی۔ مرحوم میں اطاعت کا جذبہ کمال کا تھا۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔
۲۔مکرم راحت احمد باجوہ صاحب شہید ابن مکرم مشتاق احمد باجوہ صاحب آف سعداللہ پور منڈی بہاؤالدین۔ آپ کو بھی اسی معاندِ احمدیت نے ۸؍جون کو شہید کردیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کو خلافت سے والہانہ عشق تھا۔ آپ مہمان نواز، ہنس مکھ، ہر کسی سے محبت سے پیش آنے والے، جماعتی کاموں میں پیش پیش رہنے والے، دعاگو شخصیت کے مالک تھے۔ مرحوم نے پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ اور دو بیٹیاں عمر چار سال اور ڈیڑھ سال یادگار چھوڑی ہیں۔
۳۔مکرم ملک مظفر خان جوئیہ صاحب۔ آپ گذشتہ دنوں وفات پاگئے تھے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کے بیٹے مکرم محمد مطیع اللہ جوئیہ صاحب مربی سلسلہ آج کل ہوائی میں خدمات بجا لارہے ہیں جو والد صاحب کی وفات اور تدفین میں شامل نہیں ہوسکے۔ مرحوم نیک، متقی،غریب پرور، تہجد گزار، پنجوقتہ نمازوں کے پابند، جماعتی عہدےداروں کا احترام کرنے والے، باترجمہ تلاوت قرآن کرنے والے نہایت مخلص انسان تھے۔۲۰۰۵ء میں وصیت کی تحریک کے وقت چونکہ آپ پہلے ہی موصی تھے اس لیے اپنی وصیت ۱۰/۱ سے بڑھا کر ۳/۱ کردی کہ اس طرح مَیں اس تحریک پرلبیک کہوں۔ اپنے بچوں کو نصیحت کیا کرتے کہ مالی قربانی وہی ہے جو انسان پہلے ادا کرے اور سیکرٹری مال کو یاددہانی کا موقع نہ دیا جائے۔ حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭