جماعت احمدیہ پر پابندی لگانے کا مطالبہ (محرکات اور اثرات)
جماعت احمدیہ کے آغاز پر ۱۳۵ سال گزر چکے ہیں اور ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد قائم ہونے والے نظام خلافت کے پانچویں خلیفہ کےمبارک دورسے فیضیاب ہو رہے ہیں جنہوں نے قریباً بیس سال قبل اپنے دورہ قادیان دارالامان ۲۰۰۵ءکے بعد خطبہ جمعہ میں بتایا تھاکہ ’’ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دیکھی، ہر رو زجو جماعت احمدیہ پر طلوع ہوتا ہے اس میں ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے نئی شان سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍جنوری ۲۰۰۶ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وعدوں میں صرف جماعت کی ترقی ہی مذکور نہیں بلکہ سخت مخالفت اور دشمنی کا بھی تذکرہ ہے اور دشمنوں کی بدزبانی، تشدداور احمدیوں کے جان و مال و عزت و آبرو پر حملوں کی بھی پہلے سے خبر موجود ہےاور احمدیوں کے ساتھ اس سلوک کا یہ سلسلہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی شروع ہوگیا تھا، جب صحابہؓ آکر آپ کو بتایا کرتے تھے کہ لوگ ہمیں مارتے ہیں، مساجد سے نکال دیتے ہیں،رشتہ ناطہ کے مسائل ہورہے ہیں وغیرہ۔
ایسا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کے بانی کا اعلان اور دعویٰ ہے کہ مجھے علیٰ منہاج النبوة پر پرکھ لو۔ صحف سماوی بتاتے ہیں کہ ہر نبیُ اللہ کی مخالفت ہوئی لیکن ہمیشہ نبی کی جماعت ہی غالب آئی۔ یقیناً اسلام خدا تعالیٰ کا محبوب ترین دین ہے۔ اسی میں لوگوں نے فوج در فوج داخل ہونا ہے، لیکن اسلام سے دشمنی رکھنے والے یہودو نصاریٰ کا وجود بھی قیامت تک قائم رہے گا۔
اسی ضمن میں جماعت احمدیہ کے متعلق ایک مولوی صاحب کی دھمکی پر نظر گئی جنہوں نے اپنے عزائم کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ چونکہ مولوی صاحبان کی زبان اور انداز کچھ زیادہ تیز اور تلخ ہوا کرتا ہے، اس لیے ان کے الفاظ کا معین ترجمہ کرنا مناسب نہیں، اس دھمکی کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ ‘‘بہت جلد ہم وہ حقائق سامنے لاکر عوام کوبتادیں گے کہ مسلمان ممالک نے جماعت احمدیہ کی تبلیغ پر کیوں پابندیاں لگارکھی ہیں۔ اور اسلام کے نام پراحمدی لوگ جو کررہے ہیں، وہ سب پر فاش ہوجائے گا۔ احمدیت کے خاتمہ کا آخری باب جلد لکھا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ‘‘
اس ایک مولوی سمیت سب مولوی ہر روز کچھ نہ کچھ بولتے اورنیا جھوٹ گھڑتے رہتے ہیں۔چونکہ اس گروہ کا ذکر حدیث پاک میں آچکا ہے، اس لیے ہر ایک کی ہرایک بات کبھی بھی قابل توجہ نہیں ہوتی۔ لیکن اس دفعہ چونکہ جماعت احمدیہ کی تبلیغ اور پیغام سے عوام الناس کو محروم کردینے کا تذکرہ ہے اس لیے کچھ عرض کرنا ضروری محسوس ہوا۔
سو ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ جماعت احمدیہ تو ایک دینی اور روحانی جماعت ہے جو اپنے امام کے پیچھے چلتی ہے۔ جماعت احمدیہ کا مقصد ساری دنیا میں بسنے والوں کو خدا ئے واحد کی طرف بلانا، اسلام کے پیغام کو اکناف عالم تک پہنچانا اور بنی نوع انسان میں ایک پاک انقلاب برپا کرنا ہے۔نیزجماعت احمدیہ اپنے محدود مادی وسائل کے ساتھ حتی الوسع بنی نوع انسان کی علمی، سماجی اور جسمانی فلاح و بہبود کے لیےساری دنیا میں دن رات سرگرم عمل ہے۔الغرض جماعت احمدیہ کاپیغام روز اول سے واضح ہے کہ یہ اسلام کے احیائے نو کا مشن ہے۔ احمدیت کے پیش کردہ پیغام کے بعض نمایاں پہلوؤں پر ایک ایک مثال درج کیے دیتے ہیں، جہاں کسی غیر از جماعت نے ہمارے موقف اور کاوش کو درست تسلیم کیا ہے۔ ذیل میں جماعت احمدیہ کی خدمت قرآن، خدمت انسانیت،وحدت امت،اور اسلام کے لیے بطور نمائندہ جماعت اور ناموس رسالت کی اصل محافظ، وغیرہ کی بعض گواہیاں درج کی جاتی ہیں:
مثلاً ۱۹۴۰ء میں مسلمان لیڈر نواب کمال یار جنگ کی زیر نگرانی قائم ہونے والی مؤقر تعلیمی کمیٹی نے ہندوستان بھر کے صوبوں، ریاستوں،شہروں اورمعروف تعلیمی و تدریسی مقامات و اداروں کی فہرست میں نہ صرف قادیان دارالامان کو شامل کیا بلکہ اپنی مطبوعہ رپورٹ میں صفحہ ۱۹۴ پر لکھا:
The Islamia High School at Qadian is teaching theology all through according to their tenets. Theology teaching is an essential part of the curriculum and is better organized. Beginning from the 5th class, the Holy Quran translation with brief commentary is finished in the 10th class and to a certain extent Hadith is taught. Lectures and discourses are also given from time to time on topics of Islamic interest.
ترجمہ :اسلامیہ ہائی سکول قادیان میں ان کے عقائد کے مطابق دینیات کی تعلیم باقاعدگی سے جاری ہے۔ دینیات کی تعلیم نصاب کا ایک لازمی حصہ ہے اور نصاب بہت عمدہ طریق پر مرتب کیا گیا ہے۔پانچویں جماعت سے شروع کرکے دسویں جماعت تک مختصر تفسیر کے ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ ختم کیا جاتا ہے اور طلبہ کو ایک حد تک حدیث کا سبق بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً لیکچرز اور تقریریں بھی کروائی جاتی ہیں۔
دفاع اسلام
’’(براہین احمدیہ) کا مؤلف بھی اسلام کی مالی، جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے۔‘‘ (رسالہ اشاعت السنة، جلد ۷ نمبر ۶ صفحہ ۱۶۹)
پادری والٹر ایم اے سیکرٹری وائی ایم سی اے لاہور نے لکھا ہے کہ ‘‘میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جاکر حالانکہ اس وقت احمدؑ کی وفات کو ۸ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ایک ایسی جماعت دیکھی۔ جس میں مذہب کے لیے وہ سچا اور زبردست جوش تھا۔ جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آج کل بالکل مفقود ہے…’’(احمدیہ موومنٹ۔ از مسٹر والٹر صفحہ۱۳۹)
چونکہ مذکورہ بالا مولوی صاحب نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں جماعت احمدیہ کے متعلق بعض نہایت نامناسب الفاظ لکھے ہیں۔ اس لیے ہم بتاتے ہیں کہ ڈچ کاؤنسل مسٹر سی، انڈریاسا، ہالینڈ نے ۱۹۳۰ء میں قادیان کا دورہ کیا، اورواپس جاکر اپنے خط میں لکھا کہ ’’ہم نے قادیان میں سوائے نیکی کے اور کچھ نہیں پایا۔‘‘ (تاثرات قادیان، صفحہ ۱۹۵)
پادری زویمر نے قادیان کا دورہ کرنے اور جماعت کے حالات اور معاملات کا بغور مطالعہ کرنےکے بعد لکھا کہ ’’جدیداسلام‘‘ جماعت احمدیہ کے ذریعے سے یورپ و امریکہ میں مضبوط ہورہا ہے۔ اور(احمدیت)ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے تیار کیاگیاہے اور ایک زبردست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلادیتاہے۔‘‘ (Across the World of Islam by S. M. Zwemer page 317 Fleming H. & Revell Company New York 1929)
آج حق کے بیری اور صداقت کے دشمن، حضرت مسیح موعودؑ، آپ کے خلفائے کرام اور جماعت احمدیہ کو جو مرضی کہیں اور عوام کالانعام کو بھی یہی باور کروائیں۔مگر مذکورہ بالا چند گواہیاں پڑھ کر امید ہے کہ سعید فطرت لوگ آئندہ اس قسم کی خرافات کا ذرہ بھر بھی اثر نہیں لیں گے۔
لیکن اب بھی اگر ان ’’جرائم‘‘ کی بنا پر جماعت احمدیہ پر پابندی لگانی ہے توہم کہتے ہیں کہ خدا را دوبارہ غور کیجیےاور ذرا ان چند ممالک اور معاشروں کا نقشہ دیکھ لیجیے جنہوں نے یہ خاص ’’خدمت اسلام‘‘ سرانجام دی ہے۔ کیونکہ ایسے ممالک اور معاشروں میں جہاں جماعت احمدیہ کی کتب، ویب سائٹس اور دیگر ہر ذریعہ تبلیغ پر مکمل پابندی ہے وہاں پروان چڑھنے والی نوجوان نسلوں کے عقائد اور ذہن سازی کا نقشہ ہی عجیب اور خوفناک ہوچکا ہے۔جماعت احمدیہ کے پیغام اور تبلیغ سے محرومی کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ تاحال قرآن حکیم کی بعض آیات کو ناسخ اور بعض کو منسوخ مانتے ہیں اور ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت ہی ان پر مشتبہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی پیدا کردہ عالمگیر جماعت میں شامل نہ ہونے کا اثر ہے کہ یہ لوگ کلام الٰہی کی حقیقت سے ناآشنا ہیں، قرآن کو ماضی کی ایک چیز سمجھ بیٹھے ہیں جس کے اندر (نعوذ باللہ) مضامین کی تکرار اور ترتیب کا فقدان ہے۔
جہاں جماعت احمدیہ پر تبلیغ کی پابندیاں ہیں وہاں بسنے والے لوگ صفات باری تعالیٰ میں ایسی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوتےہیں کہ شرک و ضلالت میں جاگرے ہیں۔
یہ لوگ حضرت مریم ؑ کے بیٹے حضرت عیسیٰ ؑکو گذشتہ دو ہزار سال سے زندہ اور آسمان پر موجود سمجھ رہے ہیں۔ اورکفارہ، تثلیث اور الوہیت مسیح کا پرچار کرنے والوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
عصمت انبیاء کے اساسی مسئلہ سے ناآشنائی کا یہ عالم ہے کہ بعض انبیاء کی طرف جھوٹ بولنا منسوب کرتے ہیں اور بعض کی طرف کوئی اور غیر اخلاقی امر۔
جماعت احمدیہ کے پیدا کردہ علمی اثاثہ سے فائدہ اٹھائے بغیر یہ افراد، معاشرے اور ان کے علماء و مشائخ غیر مذاہب کے ہر حملے کے سامنے بالکل ننگے اور شکست فاش کھا چکے ہیں۔
الہام الٰہی، ملائکۃاللہ، معجزات کی حقیقت اور انسانی اعمال کی حقیقت سے لاعلم یہ نسلیں آگے چل کر جو کرنے والی ہیں، اس کا اندازہ پاکستان کے معاشرے،اخلاقیات، سیاست اور معیشت کو دیکھ کر بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
نوجوان نسل کو اس حد تک گمراہ کردیا گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک نامی گرامی پیر صاحب کا قلم تفسیر نویسی کے مقابلے میں از خود غیب کی تحریک سے ہی حرکت کرتا رہا، اور ایسی تفسیر القرآن نکلی کہ وہ جیت گئے۔ لیکن اس قلم کی موجودگی تو کسی جگہ بتاتے ہیں لیکن وہ عجوبہ روزگار تفسیر نہ تو کسی فرد واحد کو دکھاتےہیں،اور نہ ہی اسے شائع عام کرتے ہیں۔
ایک ایسے خونی مہدی و مسیح کے منتظر ہیں جو آسمان سے اترے گا اور ہر طرف کشت و خون کا بازار گرم کردے گا۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ کی آواز کو دبانے والوں کی اخلاقی شکست فاش کا ایک ستم ظریفانہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس ملک کے نوجوان اپنے معاشی اور معاشرتی تنزل اور دیوالیہ پن میں اس درجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کا عنان حکومت ملنے پر دنیا کے غیر مسلم ممالک کو خط لکھ کر جزیہ طلب کرنے کا مطالبہ نجی محفلوں سے نکل کر سوشل میڈیا پر آچکاہے اوراسی ملک کی نئی نسل مغربی دنیا کی طرف سے بطورقرض دی گئی رقم کی واپسی کے مطالبہ پرپاکستان کی طرف سے میزائل داغنے کی مضحکہ خیز اور غیر ذمہ دارانہ گفتگو پر سبحان اللہ سبحان اللہ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔
پس اگر ایک طرف جماعت احمدیہ کی ترقیات، عالمگیر پھیلاؤ اور کامیابیوں کی تاریخ ہے تو دوسری طرف ہمارے مخالفین کی بھی تو ایک صدی سے زیادہ لمبی تاریخ اور پہچان اور مثالیں موجودہیں۔ سو ہم عرض کرتے ہیں کہ اگرابتدائی دور کے ایک مولوی جو برصغیر پاک وہند میں خود کو اہل حدیث کے ایڈووکیٹ کہلاتے تھے، ان کی احمدیوں کو قادیان جانے اور قبول حق سے روکتے روکتے جوتیاں چٹخ گئی تھیں تو اب بلاناغہ سوشل میڈیا پر گھنٹوں آن لائن بیٹھ کر صریح جھوٹ پھیلانے اور نفرت کا پرچار کرنے والوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہوگا۔
٭…٭…٭