پُرمعارف ارشادات بابت تربیتِ اولاد
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ہدایت اور تر بیتِ حقیقی خدا کا فعل ہے۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گذار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹو کنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں۔ اور ہم اُس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے۔اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے… ہم تو اپنے بچوں کے لیے دُعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آدابِ تعلیم کی پا بندی کرا تے ہیں۔بس اس سے زیادہ نہیں۔ اور پھر اپنا پُورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہو گا۔وقت پر سر سبز ہوجا ئے گا۔‘‘( ملفو ظات جلد اوّل صفحہ ۳۰۹۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نےمدرسہ کے چھو ٹے بچوں کو مخاطب کرکے فرمایا: تم جانتے ہو کہ برسات میں جب آم کی گٹھلیاں زمین میں اُگ آ تی ہیں تو بچے اکھیڑ کر ان کی پیپیاں بناتے ہیں لیکن اگر آم کی گٹھلی پر پانچ چھ برس گزر جاویں تو باوجود یہ کہ یہ لڑکا بھی پانچ چھ برس گزرنے پر جوان اور مضبوط ہو جا ئے گالیکن پھر اس کا اکھیڑنا دشوار ہو گا پس معلوم ہوا کہ جب تک جڑ زمین میں مضبوطی کے ساتھ نہ گڑ جائے۔ اس وقت تک اس کا اکھیڑنا آسان ہے۔ اور جڑ مضبوط ہونے کے بعد دشوار۔عادات و عقا ئد بھی درخت کی طرح ہو تے ہیں بری عادات کا اب اکھیڑنا آسان ہے۔لیکن جڑ پکڑ جانے کے بعد ان کا ترک کرنا یعنی اکھیڑنا غیر ممکن ہو گا۔‘‘ (خطاباتِ نور، تقریر فرمودہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۳۴۵)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’خواہ ماں باپ کتنی بھی کوشش کریں کہ اُن کا بچہ بد اخلاقیوں کے بداثرات سے محفوظ رہے جب تک بچے کی صحبت اور مجلس نیک نہ ہوگی اُس وقت تک ماں باپ کی کوشش بچوں کے اخلاق درست کرنے میں کارگر اور مفید ثابت نہیں ہو سکتی۔بے شک ایک حد تک اُن کی اچھی تر بیت سے بچوں میں نیک خیا لات پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر بچے کی عمدہ تر بیت کے ساتھ اُس کی صحبت بھی اچھی نہ ہو تو بد صحبت کا اثر تربیت کے اثرکو اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ اس تر بیت کا ہونا نہ ہونا قریباً مساوی ہوجاتا ہے۔بچپن کی بد صحبت ایسی بدعادات بچے کے اندر پیدا کر دیتی ہے کہ آ ئندہ عمر میں اُن کا ازالہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے آدمی کے قلب میں دو متضاد کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ایک طرف تو ما ں باپ کی نیک تربیت اس کو نیکی کی طرف کھینچتی ہے اور دوسری طرف بدصحبت بدی کا میلان اُس کے اندر پیدا کرتی ہے اوروہ ہمیشہ اسی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے اور نفس لوامہ کے اثر سے اس کو کبھی آزادی حا صل نہیں ہو تی۔ ماں باپ کی تربیت اگر خشیۃ اللہ اُس کے اندر پیدا کرتی ہے تو بد صحبت اُس کے مقابلہ میں اُس کی ہمت اور حو صلے کو پست کر دیتی ہے۔پس کامل تر بیت اُسی وقت ہوسکتی ہے جب اچھی تر بیت کے ساتھ صحبت بھی اچھی ہو۔‘‘(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد اوّل صفحہ۱۶۰-۱۶۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بچوں کی تربیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’پس یہ زمانہ ایسا نہیں جس میں ہم ذرا بھی غفلت برتیں اور سستی سے کام لیں۔اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سنبھال لیں ،ان کی بہترین رنگ میں تربیت کریں تا کہ جب ان کے کام کرنے کا وقت آ ئے تو وہ بھی اسلام کی اس جنگ میں شیطان کے خلاف ڈٹ جائیں اوراپنی صفوں میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہو نے دیں۔ کیو نکہ جس طرح دنیوی جنگوں میں لوگ شہید ہو جا تے ہیں اسی طرح اس روحا نی جنگ میں بھی شہید ہو جا تے ہیں۔دراصل شہید صرف وہی شخص نہیں ہوتا جس نے خدا کی راہ میں تلوار سے اپنی گردن کٹوادی ہو۔شہید وہ بھی ہوتا ہے اور زیادہ بڑا شہید ہوتا ہے جس نے خدا کی راہ میں زندگی وقف کردی ہو اوراس کی زندگی کا ہر لمحہ خدا کی راہ میں قربان ہوتا رہا ہو…جماعت احمدیہ کی حرکت میں تیزی پیدا ہو رہی ہے۔یہ حرکت متوازی نہیں ہے بلکہ ہرقدم وسعت پیدا کررہا ہے…ہمیں ہرلمحہ خدا کی راہ میں فدا ہونے والوں کی ضرورت ہے جو اسلام اور شیطان کی اس آخری جنگ میں کامیابی سے اور فا تحا نہ رنگ میں حصہ لے سکیں۔ اس لئے ہمارے بچوں کی (جو تعداد میں بہر حال ہم سے زیادہ ہیں ) تر بیت ہو نی چا ہئےتا کہ ہماری صفوں میں کسی وقت بھی رخنہ رونما نہ ہو۔‘‘( مشعلِ راہ جلد دوم ،فرمودہ ۱۹۷۳ء صفحہ ۴۰۵-۴۰۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الربع رحمہ اللہ تعالیٰ احمدی ماؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے بچوں کی تربیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’پس آپ پر ایک عظیم ذمہ داری ہے وہ احمدی ما ئیں جو خدا ترس ہوں اور خدا رسیدہ ہوں ان کی اولاد کبھی ضا ئع نہیں ہوتی۔لیکن ایسے باپ میں نے دیکھے ہیں جو بہت خدا ترس اور بزرگ انسان تھے مگر ان کی اولادیں ضا ئع ہو گئیں۔کیونکہ ماؤں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔اس معاملے میں مَیں نے ماؤں کو ہمیشہ جیتتے دیکھا ہے۔جو مائیں گہرے طور پر خدا سے محبت کرنے والی ہوں اور خدا سے ذاتی تعلق قائم کر چکی ہوں ان کی اولادیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں۔ اسی لئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا کہ جنت تمہارے باپوں کے قدموں کے نیچے ہے۔فرمایا جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔پس جنت آپ کی تحت اقدام رکھی گئی ہے آپ کے قدموں کے نیچے رکھی گئی ہے آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آئندہ نسلوں کو آپ نے جنت عطاکرنی ہے یا جہنم میں پھینکنا ہے۔کیو نکہ اگر جنت آپ کے پاؤں کے نیچے ہو اور پھر آپ کی نسلیں جہنمی بن جائیں تو اس کی دوہری ذمہ داری آپ پرہو گی۔‘‘(اوڑ ھنی والیوں کے لئے پھول جلد دوم، خطاب ۲۷؍جولائی ۱۹۹۱ء صفحہ ۲۱۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز نے والدین کو نصیحت کرتے ہو ئے فرمایا :’’ہر مرد عورت کی جب شادی ہو تی ہے تو اس کی خواہش ہو تی ہے کہ ان کے اولاد ہو۔اگر شادی کو کچھ عرصہ گزر جائے اور اولاد نہ ہو تو بڑی پریشانی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے… ایک احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اولاد کی خواہش ہمیشہ اس دعا کے ساتھ کرنی چاہیے کہ نیک صا لح اولاد ہو جو دین کی خدمت کرنے والی ہو اور اعمال صا لحہ بجا لانے والی ہو۔ اس کے لئے سب سے ضروری بات والدین کے لئے یہ ہے کہ وہ خود بھی اولاد کے لئے دعا کریں اور اپنی حالت پر بھی غور کریں۔بعض ایسے ہیں جب دعا کے لئے کہیں اور ان سے سوال کرو کہ کیا نمازوں کی طرف تمہاری توجہ ہو ئی ہے ،دعا ئیں کرتے ہو؟ تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح تو جہ ہو نی چا ہئے اس طرح نہیں ہے۔مَیں اس طرف بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ اولاد کی خواہش سے پہلے اور اگر اولاد ہے تو اس کی تر بیت کے لئے اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ جب اولاد سے نوازے یا جو اولاد موجود ہے وہ نیکیوں پر قدم مارنے والی ہواور قرۃالعین ہو۔‘‘ (اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد سوم حصہ دوم صفحہ ۶۰،فرمودہ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۰۶ء بیت الفتوح لندن)