خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۱۴؍ جولائی ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:جنگِ بدر کے حوالے سے آنحضرتﷺ کی سیرت اور واقعات کے بارے میں ذکر ہو رہاتھا۔ جنگِ بدر ختم ہوئی اور کفار کو اللہ تعالیٰ نے ان کے بدانجام تک پہنچایا۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ستر کفار مارے گئے جن میں سےبہت سے رؤسا اور سردار بھی تھے۔ ان رؤسائے قریش کی تدفین کے بارے میں اس طرح ذکر ملتا ہے۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رؤسائےقریش کی نسبت آنحضرتﷺکی دعااوران کےبدانجام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔یہ پرانا واقعہ ہے،پچھلے سارے حالات بیان کیے جا رہے ہیں کہ پہلے کیا حالات ہوتے تھے۔ آنحضرتﷺ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ قریش کے چند افراد کے کہنے پر ان میں سے سب سے بدبخت نے نبی کریمﷺ کے کندھوں کے درمیان جانور کی بچہ دانی رکھ دی جبکہ آپؐ سجدے میں تھے۔ نبیﷺ سجدے کی حالت میں ہی رہے اور وہ لوگ ہنستے رہے۔ حضرت فاطمہ ؓکو کسی نے بتایا۔ وہ چھوٹی لڑکی تھیں، دوڑتی ہوئی آئیں اور نبیﷺ سجدہ کی حالت میں رہے یہاں تک کہ انہوں نے اس کو آپؐ کے اوپر سے ہٹا دیا یعنی وہ بھاری بچہ دانی جو تھی اس کو حضرت فاطمہؓ نے ہٹایا۔ حضرت فاطمہؓ نے ان لوگوں کو برا بھلا کہا۔ جب رسول اللہﷺنماز پڑھ چکے تو آپؐ نے دعا کی۔ اے اللہ! تُو قریش کی گرفت کر۔ اے اللہ!تُو قریش کی گرفت کر۔ اے اللہ!تُو قریش کی گرفت کر۔پھرآپؐ نے نام لیے، اے اللہ! عمرو بن ہشام اور عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ اور امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید پر گرفت کر۔ حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں نے خود ان کو بدر کے دن گرے ہوئے دیکھا یعنی ان لوگوں کو جن کے نام آنحضرتﷺ نے لیے تھے۔ پھر ان کو بدرکے گڑھے میں گھسیٹ کر پھینکاگیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گڑھے والے لعنت کے نیچے ہیں۔
سوال نمبر۳:آنحضرتﷺنےجنگ بدرمیں قتل ہونے والے رؤسا کی قبرپرکھڑےہوکر کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نےفرمایا:سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ’’واپسی سے قبل آپؐ اس گڑھے کے پاس تشریف لے گئے جس میں رؤسائے قریش دفن کئے گئے تھے اور پھر ان میں سے ایک ایک کا نام لے کر پکارا اور فرمایا ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَاوَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًّا فَاِنِّی وَجَدْتُّ مَاوَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا۔یعنی کیا تم نے اس وعدہ کو حق پایاجو خدا نے میرے ذریعہ تم سے کیا تھا۔تحقیق میں نے اس وعدے کو حق پالیا ہے جو خدا نے مجھ سے کیا تھا۔ نیز فرمایا۔ یَا اَھْلَ الْقَلِیْبِ بِئْسَ عَشِیْرَةِ النَّبِّی کُنْتُمْ لِنَبِیِّکُمْ کَذَّبْتُمُوْنِی وَصَدَقَنِیَ النَّاسُ وَاَخْرَجْتُمُوْنِی وَآوَانِیَ النَّاسُ وَقَاتَلْتُمُوْنِیْ وَنَصَرَنِیَ النَّاسُ یعنی ’’اے گڑھے میں پڑے ہوئے لوگو! تم اپنے نبی کے بہت بُرے رشتہ دار بنے۔ تم نے مجھے جھٹلایا اوردوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی۔ تم نے مجھےمیرے وطن سے نکالا اوردوسروں نے مجھے پناہ دی۔ تم نے میرے خلاف جنگ کی اور دوسروں نے میری مدد کی۔‘‘حضرت عمرؓنے عرض کیا۔یارسول اللہؐ! وہ اب مردہ ہیں وہ کیا سنیں گے۔ آپؐ نے فرمایا۔’’میری یہ بات وہ تم سے بھی بہتر سن رہے ہیں۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ بدرمیں آنحضرتﷺکےمعجزات کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ عُکَاشَہ بن مِحْصن بدر کے دن اپنی تلوار کے ساتھ لڑائی کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی۔ وہ رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ایک لکڑی ان کو عنایت کی اور فرمایا اے عکاشہ! تم اس سے کافروں کے ساتھ جنگ کرو۔ عکاشہ نے اس کو ہاتھ میں لے کر لہرایا تو وہ لکڑی آپؓ کے ہاتھ میں تلوار بن گئی جو کافی لمبی تھی جس کا لوہا بہت سخت تھا اور اس کی رنگت سفید تھی۔ آپؓ اس کے ساتھ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرما دی۔ راوی کہتا ہے اس تلوار کا نام عون تھا۔ بعد کی جنگوں میں بھی وہ اس تلوار کے ساتھ دادِ شجاعت دیتے رہے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ میں انہوں نے شہادت پائی۔پھر ایک معجزے کے رنگ میں لعابِ دہن اور دستِ اقدس کی تاثیر کا ذکربھی ملتا ہے۔ حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ بدر کے روز ان کی آنکھ پر ضرب لگی ان کی آنکھ ان کے رخسار پر بہ نکلی یعنی ڈیلا نکل کے باہر آگیا۔ انہوں نے اسے نیچے پھینک دینے کا ارادہ کیا۔ صحابہؓ نے آنحضورﷺ سے اس سلسلہ میں دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا نہیں ایسا نہیں کرنا اور آپﷺنے حضرت قتادہؓ کو اپنے پاس بلایا اور اپنی ہتھیلی پر ان کی آنکھ رکھی پھر اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا یعنی واپس آنکھ میں ڈیلا ڈال دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں یاد تک نہ رہا کہ ان کی کسی آنکھ کو تکلیف پہنچی تھی۔ پھر آنکھ ایسی جڑی، ٹھیک ہوئی ہے کہ ان کو احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ آنکھ وہ تھی جو نکلی تھی بلکہ یہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاہل مکہ کوجنگ بدرمیں کفار کی شکست کی اطلاع ملنےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ مشرکین نے میدان بدر سے غیر منظم شکل میں بھاگتے ہوئے تتر بتر ہو کر گھبراہٹ کے عالم میں مکے کا رخ کیا۔شرم و ندامت کے سبب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح مکے میں داخل ہوں۔ سب سے پہلے جو شخص مکے میں قریش کی شکست کی خبر لے کر داخل ہوا وہ حیسمان بن ایاس بن عبداللہ تھا۔ یہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ پیچھے کیا خبر ہے؟ اس نے کہا عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوالحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اور امیہ بن خلف اور مزید کچھ سرداروں کے نام لیے یہ قتل ہو گئے ہیں۔ جب اس نے مقتولین میں سے قریش کے سرداروں کو گنانا شروع کیا تو لوگوں کو اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔ صفوان بن امیہ جو حطیم میں بیٹھا تھا اس نے یہ سن کر کہا کہ سمجھ نہیں آتا شاید یہ شخص دیوانہ ہو گیا ہے۔ بطور امتحان اس سے دریافت تو کرو کہ صفوان بن امیہ کہاں ہے۔ اپنے بارے میں اس نے پوچھا۔ لوگوں نے پوچھا صفوان بن امیہ کا کیا ہوا؟ اس نے کہا وہ دیکھو وہ تو حطیم میں بیٹھا ہے۔ میں پاگل نہیں ہوا۔ میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ بخدا! اس کے باپ اور بھائی کو قتل ہوتے ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یعنی اس پر انہیں یقین ہوا کہ یہ شخص سچی خبر دے رہا ہے۔ غرض اس طرح اہل مکہ کو میدانِ بدر کی شکست فاش کی خبر ملی اور ان کی طبیعت پر اس قدر نہایت برا اثر پڑا حتی کہ انہوں نے مقتولین پر نوحہ کرنے کی ممانعت کر دی تھی تا کہ مسلمانوں کو ان کے غم پر خوش ہونےکا موقع نہ ملے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اہل مدینہ کوجنگ بدرمیں مسلمانوں کی فتح کی خوشخبری ملنےکے بارے میں کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اس کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو عوالی مدینہ یعنی بالائی مدینہ کی طرف اور حضرت زید بن حارثہ ؓکو نشیبی مدینہ کی طرف اس بات کی خوشخبری دینے کے لیے بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو عطا فرمائی تھی۔حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں ہمیں یہ خبر اس وقت پہنچی جب ہم نے حضرت عثمان بن عفانؓ کی زوجہ حضرت رُقَیہ بنت رسولﷺ کی قبر پر مٹی برابر کر دی تھی۔ وہ پیچھے وفات پا گئی تھیں۔آنحضورﷺ مجھے بھی حضرت عثمانؓ کے ساتھ حضرت رقیہؓ کی خبرگیری کے لیے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ میں اپنے والد حضرت زید بن حارثہؓ کی طرف اس وقت آیا جب لوگ آپؓ کو گھیرے ہوئے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، زَمْعَہ بن اسود، ابوالبختری، عاص بن ہشام، امیہ بن خلف اور حجاج کے دونوں بیٹے نُبَیہ اور مُنَبِّہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیاہے…اہل مدینہ یہ اطلاع ملتے ہی فتحیاب نبویؐ قافلے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے امڈ آئے، اکٹھے ہوگئے۔ مسلمان اس فتح پر شاداں و فرحاں تھے۔ انہیں آنحضرتﷺ کی واپسی کا شدت سے انتظار تھا۔ اس غزوے میں تمام مسلمان شامل نہ ہوئے تھے کیونکہ مدینے سے روانہ ہوتے ہوئے جنگ کا خیال ہی نہ تھا۔ آپﷺ کی آمد کا سن کر کچھ مسلمان استقبال کے لیے مدینہ سے باہر چلے گئے۔ مقام روحاءپر ان کی آپﷺ سے ملاقات ہوئی۔ ان کی خوشی قابل دید تھی۔ یہ آپﷺ کو کفار پر فتح کی مبارکباد دینے لگے۔ پھر رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے وہاں موجود تمام مسلمانوں نے آپﷺ کا استقبال کیا۔
سوال نمبر۷: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ بدرمیں ملنےوالےمال غنیمت اوراس کی تقسیم کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:اس فتح سے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے ایک سو پچاس اونٹ اور دس گھوڑے ملے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کا سامان،ہتھیار،کپڑے اور بےشمار کھالیں، رنگا ہوا چمڑا اور اُون وغیرہ تھی جو مشرک اپنے ساتھ تجارت کے لیے لے کر آئے تھے۔رسول کریمﷺ نے اپنا حصہ بھی صحابہؓ کے حصے کے برابر رکھا تھا۔ اس جنگ میں ایک تلوار صحابہؓ نے آنحضورﷺ کے لیے رکھ لی اور اونٹوں میں سے ایک اونٹ ابوجہل کی ملکیت میں سے آنحضورﷺ کو ملا تھا جس کی ناک میں چاندی کا حلقہ تھا۔اس تلوار اور اونٹ کو بھی کتبِ سیرت میں خاص اہمیت دی گئی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جس تلوار کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کا نام ذوالفقار تھا اور اس کا مالک ایک مشرک عاص بن مُنبِّہ یا مُنَبِّہ بن حَجَّاج تھا جو بدر میں مارا گیا تھا۔بعض روایات کے مطابق یہ تلوار ابوجہل کی تھی۔ رسول اللہﷺاس تلوار کا نام ذوالفقار برقرار رکھا۔ ذوالفقار کی وجہ تسمیہ میں کہا گیا ہے کہ اس تلوار میں دندانے یا کھدی ہوئی لکیریں تھیں۔اس تلوار کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ تلوار بعد میں نبی کریمﷺ سے جدا نہیں ہوئی۔ آنحضرتﷺ نے غزوات میں اس تلوار کو اپنے پاس رکھا۔ نبی کریمﷺ کے بعد یہ تلوار عباسی خلفاء کے پاس رہی۔ اسی طرح ابوجہل کا جو اونٹ نبی کریمﷺ کو غزوۂ بدر میں بطور مال غنیمت ملا تھا وہ نبی کریمﷺ کے پاس رہا یہاں تک کہ صلح حدیبیہ کے موقعےپر رسول اللہﷺ اسے قربانی کے طور پر لے کر گئے۔ اس کے بارے میں ایک قصہ بھی ملتا ہے کہ یہ اونٹ حدیبیہ میں چَر رہا تھا کہ وہ بھاگ نکلا یہاں تک کہ مکہ ابوجہل کے گھر جا پہنچا۔ حضرت عمرو بن عَنَمَہ انصاریؓ اس کے پیچھے نکلے تاہم مکہ کے کچھ تیز طبیعت والوں نے اسے واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ سہیل بن عمرو جو معاہدہ حدیبیہ کے وقت قریش کا نمائندہ تھا اس نے ان لوگوں کو وہ اونٹ واپس کرنے کا حکم دیا تو واپس کیا گیا۔ اس نے ان لوگوں سے یہ کہا کہ تم اس کے بدلے میں سو اونٹ دینے کی پیشکش کر دو۔ اگر مسلمان اس کو قبول کرلیں تو یہ اونٹ روک لینا وگرنہ اونٹ واپس کرنا ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر ہم نے اس کو قربانی کے جانوروں میں شمار نہ کیا ہوتا تو ہم اس کو واپس کر دیتے لیکن یہ پہلے سے قربانی کے لیے مختص ہو چکا ہے اس لیے اب نہیں۔ چنانچہ آپؐ نے مسلمانوں کی جانب سے اسے ذبح کر دیا۔ اموالِ غنیمت کی تقسیم میں آپﷺ نے جنگِ بدر میں شہید ہونے والوں کے ورثاء کو ان شہداء کا حصہ دیا اور اسی طرح جو نائبین مدینہ میں مقرر فرمائے یا کچھ اصحابؓ جن کے سپرد مختلف ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں اور وہ اس وجہ سے جنگِ بدر میں شامل نہ ہو سکے تھے ان کو بھی حصہ دیا گیا۔