حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نیک اعمال بجا لانے کی عادت ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍ جنوری ۲۰۱۴ء)

…یہ بھی واضح کر دوں کہ وہ علماء اور واعظین جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تھے اُن میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام شامل تھے اور صحابہؓ سے تربیت پانے والے بھی شامل تھے، اُن کا تعلق باللہ اور ایمان اور یقین کا معیار بھی یقیناً بہت اعلیٰ تھا۔ اُن کی کمی اِن باتوں میں نہیں تھی۔ کمی اس بات کی تھی جس کی طرف حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توجہ دلائی کہ ترجیحات کو بدلنے کی ضرورت ہے یا اعتقادی مسائل پر جس طرح زور دیا جا رہا ہے اسی طرح عملی اصلاح کی اہمیت پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات اور اپنے ذاتی تعلق باللہ اور اطاعتِ خلافت اور احترامِ نظام کے حوالے سے بھی افرادِ جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے۔ لیکن آجکل ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارا ان باتوں میں وہ معیار نہیں ہے۔ اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ مربیان اور عہدیداران اپنے اوپر لاگو کر کے پھر افرادِ جماعت کو بتائیں تو اس کی خاص اہمیت ہے۔ یعنی اپنے پر لاگو کرنے کے لفظ پر غور کرنے اور عمل کرنے اور اپنا نمونہ قائم کرنے کی بہت ضرورت ہے تبھی اصلاحی باتوں کا اثر بھی حقیقی رنگ میں ہو گا۔

گزشتہ خطبہ میں قوتِ ارادی کے پیدا کرنے اور علمی کمزوری دُور کرنے کا ذکر ہو گیا تھالیکن تیسری بات اس ضمن میں بیان نہیں ہوئی تھی۔ یعنی عملی کمزوری کو دُور کرنے کا طریق یا عملی قوت کو کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں آج کچھ کہوں گا۔ اس کے لئے جیسا کہ پہلے خطبات میں ذکر ہو چکا ہے، بیرونی علاج یا مدد کی ضرورت ہے۔ یا کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اور عملی اصلاح کے لئے یہ سہارا دو قسم کا ہوتا ہے یا دو قسم کے سہاروں، ایک نگرانی کی اور دوسرا جبر کی ضرورت ہے۔

نگرانی یہ ہے کہ مستقل نظر میں رکھا جائے، زیرِ نگرانی رکھا جائے کہ کہیں کوئی بد عمل نہ کر لے۔ اس قسم کی نگرانی دنیاوی معاملات میں بھی ہوتی ہے۔ گھروں میں ماں باپ بچوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ سکولوں میں استاد علاوہ پڑھانے کے نگرانی کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ حکومت کے کارندے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں اور یہ بتا دیتے ہیں کہ ہم نگرانی کریں گے۔ سڑکوں پر ٹریفک کے لئے مستقل کیمرے لگائے ہوتے ہیں اور بورڈ لگے ہوتے ہیں کہ کیمرہ لگا ہوا ہے۔ یہ نگرانی کا ایک عمل ہے۔ جو بچے ماں باپ کی زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہیں اُن کے والدین کو warning دی جاتی ہے کہ ہم نگرانی کریں گے۔ اگر بچوں کوزیادہ تنگ کیا گیا تو پھر بچوں کی بہبود کا جوادارہ ہے وہ کہتا ہے کہ ہم بچے لے جائیں گے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ بہت عام ہے۔ بلکہ میرے خیال میں تو بچوں کے معاملے میں ناجائز حد تک یہ نگرانی ہوتی ہے۔ اور ماں باپ بچوں سے ڈر کر یا اس ادارے سے ڈر کر جائز روک ٹوک بھی بچوں پر نہیں کرتے اور نتیجۃً بسا اوقات بچے بھی بگڑ جاتے ہیں۔ دنیا کے معاملات میں تو یہ نگرانی بعض دفعہ نقصان کا باعث بھی بن رہی ہوتی ہے۔ پھر خاوند بیوی کے تعلقات میں خرابی کی وجہ سے بھی اُن کی نگرانی ہوتی ہے۔ پھر ملزمان کی نگرانی ہوتی ہے۔

بہر حال اس ساری نگرانی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُس کو اُن کاموں سے روکا جائے جن کی وجہ سے فساد پیدا ہو سکتا ہے یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اصلاح ہو۔ بہر حال نگرانی ہر معاشرے کے قانون میں اصلاح کاایک ذریعہ ہے اور عملی اصلاح کرنے کے لئے دین بھی اس کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے۔ اور بہت سے غلط کاموں سے انسان اس وجہ سے بچ رہا ہوتا ہے کہ معاشرہ اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ ماں باپ اپنے دائرے میں نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔ مربیان کا اپنے دائرے میں یہ نگرانی کرنا کام ہے۔ اور باقی نظام کو بھی اپنے اپنے دائرے میں نگران بننا ضروری ہے۔ اور جب اسلام کی یہ تعلیم بھی سامنے ہو کہ ہر نگران نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب الجمعۃ فی القریٰ و المدن حدیث نمبر893) تو نہ صرف اُن کی اصلاح ہو گی جن کی نگرانی کی جارہی ہے بلکہ نگرانوں کی بھی اصلاح ہو رہی ہو گی۔ بہرحال عملی اصلاح کے لئے نگرانی بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے۔

دوسری بات جو اصلاح کے لئے ضروری ہے جبر ہے۔ یہاں کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ ’’دین کے معاملے میں جبر نہیں ہے‘‘ دوسری طرف عملی اصلاح کے لئے جو علاج تجویز کیا جا رہا ہے، وہ جبر ہے۔ پس واضح ہو کہ یہ جبر دین قبول کرنے یا دین چھوڑنے کے معاملے میں نہیں ہے۔ ہر ایک آزاد ہے، جس دین کو چاہے اختیار کرے اور جس دین کو چاہے چھوڑ دے۔ اسلام تو بڑا واضح طور پر یہ اختیار دیتا ہے۔ یہاں جبر یہ ہے کہ دین کی طرف منسوب ہو کر پھر اُس کے قواعد پر عمل نہ کرنا اور اُسے توڑنا، ایک طرف تو اپنے آپ کو نظامِ جماعت کا حصہ کہنا اور پھر نظام کے قواعد کو توڑنا۔ یہ بات اگر ہو رہی ہے تو پھر بہر حال سختی ہو گی اور یہاں جبر سے یہی مراد ہے۔ نظام کا حصہ بن کر رہنا ہے تو پھر تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا۔ ورنہ سزا مل سکتی ہے، جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، بعض قسم کی پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہے۔ اور ان سب باتوں کا مقصد اصلاح کرنا ہے تا کہ قوتِ عملی کی کمزوری کو دُور کیا جا سکے۔ جماعت میں بھی جب نظامِ جماعت سزا دیتا ہے تو اصل مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ کسی کی سبکی یا کسی کو بلا وجہ تکلیف میں ڈالنا نہیں ہوتا۔ یہ جبر حکومتی قوانین میں بھی لاگو ہے۔ سزائیں بھی ملتی ہیں، جیلوں میں بھی ڈالا جاتا ہے، جرمانے بھی ہوتے ہیں، بعض دفعہ مارا بھی جاتا ہے۔ اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں امن رہے اور جودوسرے کو نقصان پہنچانے والے ہیں وہ نقصان پہنچانے کا کام نہ کر سکیں بلکہ بعض دفعہ تو اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے کام پر بھی سزا مل جاتی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button