توقّعات معیارِ عبادت
مورخہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۴ء کو نشر ہونے والے This Week with Huzoor میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مربیان سلسلہ جماعت احمدیہ کینیڈا کی ملاقات دکھائی گئی۔ حضورانور نے اس ملاقات میں عبادت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے چند باتوں کی طرف توجہ دلائی جن سے انسانی اور روحانی زندگی کو بہتر سے بہترین بنایا جا سکتا ہے۔آپ نے فرمایا کہ ہر مشنری اپنے آپ کو ایک سپاہی سمجھے اور اس لحاظ سے دیکھے کہ میرے کیا فرائض ہیں، میری کیا ذمہ داریاں ہیں کس طرح میں نے ان کو ادا کرنا ہے اور نہ ادا کرنے کی صورت میں ان لوگوں میں شامل تو نہیں ہو رہا جو اپنے عہد کوپورا کرنے والے نہیں۔ اصل چیز تو یہ ہے۔ باقی تو باتیں ہیں۔جتنی مرضی باتیں کرتے چلے جائیں۔ اپنی اصلاح کریں۔ یہ دیکھیں کہ عبادت کے کیا معیار ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو باقاعدہ تہجد پڑھنے والے ہیں اور حقیقت میں تہجد کا حق ادا کرتے ہوئے تہجد پڑھنے والے ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو نمازوں کو سنوار کر پڑھنے والے ہیں اور خشوع و خضوع پیدا کرنے والے ہیں۔ کتنے ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور سمجھ کر کرتے ہیں۔ کتنے ہیں جو اس کی تفسیر پڑھ رہے ہیں اور اس کو سمجھ رہے ہیں۔ کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ رہے ہیں اس سے علم حاصل کر رہے ہیں۔ علم کلام تو ہمیں اسی سے ملتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں پانچ امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے (۱)نماز تہجد (۲)نمازوں کو سنوار کر ادا کرنا (۳)قرآن کریم کی تلاوت سمجھ کر کرنا (۴)تفسیر کو پڑھنا (۵)کتب حضرت مسیح موعودؑ کا مطالعہ۔ یہ تمام امور ہر احمدی کے لیے بھی ایک لائحہ عمل ہیں۔ ان میں سب سے پہلے تہجد آتی ہے۔
تہجد
اگر لغت کی بحث میں جائیں تو تہجد کا لفظ تین حروف کا مجموعہ ہے یعنی ہ،ج،د۔اس کے لفظی معنی سو کر اٹھنا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ سورۃ بنی اسرائیل میں استعمال ہوا ہے کہ وَمِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا(بنی اسرائیل:۸۰)اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجّد پڑھا کر۔ یہ تیرے لیے نفل کے طور پر ہوگا۔ قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کردے۔
قرآن کریم کے اس حکم کی رسول اللہ ﷺ پیروی فرماتے اور اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تاکید فرماتے۔ چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ اس حدیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کو نماز تہجد کے لیے بیدار ہوا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلی اقوام میں سے صالحین کا طریق ہے۔ رات کا قیام اللہ تعالیٰ کی قربت عطا کرتا ہے۔ اور گناہوں سے روکتا ہے اور برائیوں کو مٹاتا ہے اور جسمانی تکالیف سے محفوظ کرتا ہے۔(ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبی ﷺ۳۵۴۹)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے مہینے کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل (تہجد) ہے۔(نسائی كتاب قيام الليل وتطوع النهار بَابُ: فَضْلِ صَلَاةِ اللَّيْلِ)
حضرت مسیح موعودؑ اپنی جماعت کو تہجد کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو۔ اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اورسوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے۔(ملفوظات جلد۳صفحہ ۲۴۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
حضرت مسیح موعودؑ کی اس تعلیم کا اثر حضورؑ کے صحابہ کی زندگیوں میں واضح تبدیلی کی صورت میںنظر آنا شروع ہوا۔ حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ اور حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ پر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا کیا اثر ہوا۔ اس بارے میں ایک روایت ہے بلکہ وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے والد صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ جب میرے یہ دونوں لڑکے۱۸۹۲ء اور ۱۸۹۳ء کے موسم گرما کی تعطیلات میں میرے پاس بمقام ککرہٹہ ضلع ملتان میں آئے تو مَیں نے ان کی حالت میں ایک عظیم تبدیلی دیکھی جس سے مَیں حیران رہ گیا اور مَیں حیرت میں کہتاتھا کہ اے خدا !تُو نے کون سے اسباب ان کے لئے میسر کردئے جن سے ان کے دلوں میں ایسی تبدیلی ہوئی کہ یہ نُوْرٌ عَلٰی نُوْر ہو گئے۔یہ ساری نمازیں پڑھتے ہیں اور ٹھیک وقت پر نہایت ہی شوق اور عشق اور سوزوگداز کے ساتھ اور نہایت رقّت کے ساتھ کہ ان کی چیخیں بھی نکل جاتیں۔ اکثر ان کے چہروں کو آنسوئوں سے تر دیکھتا اورخشیت الٰہی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر تھے۔اس وقت ان دونوں بچوں کی بالکل چھوٹی عمرتھی۔داڑھی کاآغاز تھا۔ مَیں ان کی اس عمر میں یہ حالت دیکھ کر سجدات شکر بجا لاتا نہ تھکتا تھا اور پہلے جو اُن کی روحانی کمزور ی کا بوجھ میرے دل پرتھا وہ اتر گیا۔ والد صاحب نے اس دوست سے کہا کہ ان کی اس غایت درجہ کی تبدیلی کا عقدہ مجھ پر نہ کھلا کہ اس چھوٹی سی عمرمیں ان کو یہ فیض اور روحانی برکت کہاںسے ملی۔ کچھ مدت کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہ رُشد اِنہیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت سے حاصل ہوئی ہے اور والد صاحب کو حضرت صاحب کی بیعت میں شامل کرنے کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہماری تبدیلی تھی۔ (یعنی بچوں کی تبدیلی سے والد احمدی ہوئے) جس نے ان کو حضرت اقدس کی طہار ت اور انفاس طیبہ کی نسبت اندازہ لگانے کا اچھا موقع دیا‘‘۔(اصحاب احمد، جلد ۱، صفحہ ۱۸۶۔ مطبوعہ ۱۹۹۷ء)
۱۹۳۸ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے لخت جگر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو حصول تعلیم کے لیے مصر روانہ فرمایا تو اپنی قلم سے انہیں نصائح کرتے ہوئے فرمایا:’’تہجد غیر ضروری نماز نہیں۔ نہایت ضروری نماز ہے۔ جب میری صحت اچھی تھی اور جس عمر کے تم اب ہو اس سے کئی سال پہلے سے خدا تعالیٰ کے فضل سے گھنٹوں تہجد ادا کرتا تھا۔ تین تین چار چار گھنٹہ تک اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو اکثر مد نظر رکھتا تھا کہ آپؐ کے پاؤں کھڑے کھڑے سُوج جاتے تھے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۷صفحہ ۴۸۶)
خطاب برموقع تقریب تقسیم اسناد جامعہ احمدیہ برطانیہ ۲۰۲۳ءحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ایک مربی اور مبلغ سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ باقاعدہ تہجد پڑھنے والا ہو۔ جیسا بھی وقت ہے، جیسے بھی حالات ہیںسوائے اشد مجبوری کے کوشش یہ ہو کہ عام طور پر تہجد پڑھیں۔ نوافل کی طرف توجہ ہو۔ نماز باجماعت کی انتہائی پابندی ہو۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۴؍نومبر۲۰۲۳ء)
تہجد کی نماز اور ایک اختلافی مسئلہ
عبد العزیز صاحب سیالکوٹی نے لائل پور میں یہ مسئلہ بیان کیاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تہجد کی نماز اس طرح سے جیساکہ اب تعامل اہل اسلام ہے بجا نہ لاتے بلکہ آپؐ صرف اُٹھ کر قرآن پڑھ لیا کرتے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ یہی مذہب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہے۔…حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں بوساطت منشی نبی بخش صاحبؓ اور مولوی نورالدین صاحبؓ یہ امر تحقیق کے لیے پیش کیا گیا جس پر حضرت امام الزمان علیہ السلام نے مفصلہ ذیل فتویٰ دیا۔
میرا یہ مذہب ہر گز نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اُٹھ کر فقط قرآن شریف پڑھ لیا کرتے تھے اور بس۔ مَیں نے ایک دفعہ یہ بیان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اَور ایسی وجہ ہو کہ وہ تہجد کے نوافل ادا نہ کر سکے تو وہ اُٹھ کر استغفار، درود شریف اور الحمد شریف ہی پڑھ لیا کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ نوافل ادا کرتے۔ آپؐ کثرت سے گیارہ(۱۱) رکعت پڑھتے، آٹھ نفل اور تین وتر۔ آپؐ کبھی ایک ہی وقت میں ان کو پڑھ لیتے اور کبھی اس طرح سے ادا کرتے کہ دو رکعت پڑھ لیتے اور پھر سو جاتے اور پھر اُٹھتے اور دو رکعت پڑھ لیتے اور سو جاتے۔ غرض سو کر اور اُٹھ کر نوافل اسی طرح ادا کرتے جیساکہ اب تعامل ہےاور جس کو اب چودھویں صدی گذر رہی ہے۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۶۱۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آن لائن ملاقات میں نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’کتنے ایسے ہیں جو نمازوں کو سنوار کر پڑھنے والے ہیں اور خشوع و خضوع پیدا کرنے والےہیں‘‘۔
حضور انور اپنے ایک خطبہ میں احباب جماعت کو خشوع خضوع والی نمازکی بابت فرماتے ہیں:قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ (المؤمنون: ۲۔ ۳)یقیناً مومن کامیاب ہو گئے۔ وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ ان آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کہہ کر مومنوں کی کامیابی کی یقینی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ لیکن کون سے مومن؟ ان کی بہت سی شرائط اگلی آیتوں میں بیان فرمائی ہیں کہ ان شرائط کے ساتھ زندگی گزارنے والے مومن ہی فلاح پانے والے ہیں اور ان شرائط میں سے یا اُن اوصاف میں سے جن سے ایک مومن کو متصف ہونا چاہئے، پہلی خصوصیت یا حالت یہ ہے کہ وہ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔ اپنی نمازوں میں خشوع دکھانے والے ہیں۔ ’’خاشع‘‘کے عام معنی یہی کیے جاتے ہیں کہ نماز میں گریہ و زاری کرنے والے۔ لیکن اس کے اَور بھی معنی ہیں اور جب تک سب معنی پورے نہ ہوں ایک مومن کی حقیقی معیار کی حالت پیدا نہیں ہوتی۔ اور لغات کے مطابق خشوع کے یہ معنی ہیں کہ انتہائی عاجزی اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو بہت نیچے کرنا۔ اپنے نفس کو مٹا دینا۔ تذلل اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو کمتر بنانے کے لئے کوشش کرنا۔ نظریں نیچی رکھنا۔ آواز کو دھیما اور نیچا رکھنا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ اپریل ۲۰۱۵ء)
ہر احمدی دوسرے احمدی کو نماز کی طرف توجہ دلاتا رہے
حضورانور نے فرمایا:ایک مومن کی ایک یہ شان ہے کہ نہ صرف خود نمازوں کا اہتمام کرے بلکہ دوسروں کو بھی تلقین کرتا رہے۔ جماعتی نظام بھی ایک خاندان کی طرح ہے۔ اس میں ہر ایک کو اپنے ساتھ اپنے بھائی کی بھی فکر کرنی چاہئے۔ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے، اپنے عزیزوں کے لیے بھی پسند کرنی چاہئے۔ یہ ثواب کمانے اور نیکی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ لیکن پیار سے توجہ دلانی چاہئے۔ جس کو توجہ دلائی جارہی ہو اس کوبھی بُرا نہیں منانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْعَلَیْھَا (سورۃ طٰہٰ :۱۳۳) اور تُو اپنے اہل کو نماز کی تلقین کرتا رہ اور خود بھی نماز پر قائم رہ۔ پس جہاں ماں باپ، بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کو نماز کی تلقین کرنی چاہئے وہاں پر ہر احمدی کو دوسرے احمدی کو بھی پیار سے اور نظام جماعت جو اس کام پرمامور ہے ان کو بھی دوسروں کو نمازوں کی طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے۔ یہی چیز ہے جو مومنین کی جماعت کو مضبوطی عطاکرتی ہے۔ یہی چیز ہے جس سے بندے اور خدا کے درمیان ایک تعلق قائم ہوتا ہے جو بندے کو خدا کے قریب کرتا ہے اور یہ تعلق اس لئے نہیں کہ دنیاوی مقاصد حاصل کرنے ہیں بلکہ اصل مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور خدا کا قُرب پانا ہے۔ پس جب اس مقصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو توجہ دلارہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو سمیٹنے والے بن رہے ہوں گے اور جماعتی مضبوطی بھی پیدا ہورہی ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے شرط وہی لگائی کہ خود بھی نمازوں کی طرف توجہ کرو۔ اپنے عمل کی شرط ضروری ہے۔(خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۲۰۰۷ء)
قرآن کریم کی تلاوت سمجھ کر کرنا
حضور انور نے روحانی مدارج کو طے کرنے کے لیےقرآن کریم کی تلاوت کو سمجھ کرکرنے کی طرف مزید توجہ دلائی۔ حضرت مسیح موعودؑ اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۸۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء) کچھ لوگ قرآن شریف پر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ ایک مشکل کتاب ہے جو ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ(القمر: ۲۱)اور یقیناً ہم نے اس قرآن کو نصیحت کےلیے آسان بنایا ہے۔ پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔
چونکہ قرآن کا نزول اور حضورﷺکی بعثت کَآفَّۃً لِّلنَّاسِیعنی تمام انسانوں کےلیے ہوئی ہےاس لیے یہ ضروری تھا کہ قرآن کریم کی بنیادی تعلیمات عام فہم اور آسان ہوں تاکہ ان کو ہر قابلیت کا انسان سمجھ سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:’’یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اگر علم قرآن مخصوص بندوں سے خاص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیوں کر مواخذہ ہوگا۔ کیوں کہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے جس کو ایک کافر بھی سمجھ سکتا ہے اور ایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکےاور اگر وہ عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا‘‘۔ (کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷صفحہ ۵۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے ہدایت کے راستے تلاش کرنا چاہتا ہے، وہ نیک نیت ہوکر، پاک دل ہو کر اس کو پڑھے اور اپنی عقل کے مطابق اس پر غور کرے، اپنی زندگی کو اس کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ کوشش تو بہر حال شرط ہے وہ تو کرنی پڑتی ہے۔ دنیاوی چیزوں کےلئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍ ستمبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء)
حضور انور نے مزید فرمایا کہ ’’کتنے ایسےہیں جو قرآن کریم کی تفسیر پڑھتے ہیں ۔‘‘ قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے معارف کیا ہیں اور قرآن کریم کی آیات پر غور کرنے کی عادت پڑتی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی اہلیہ سید ہ مریم صدیقہ صاحبہ ایک موقع پر آپؓ کے قرآن کریم کی آیات کے متعلق غور و خوض کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں : ’’قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہ تھا جب بھی وقت ملا تلاوت کرلی۔ یہ نہیں کہ دن میں صرف ایک بار یا دو بار۔ عموماً یہ ہوتاتھا کہ صبح اُٹھ کر ناشتہ سے فارغ ہوکر ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی۔آپ انتظار میں ٹہل رہے ہیں قرآن مجید ہاتھ میں ہے لوگ ملنے آگئے قرآن مجید رکھ دیا۔ مل کر چلے گئے۔ پڑھنا شروع کردیا۔ تین تین چار چار دن میں عموماًمیں نے ختم کرتے دیکھا ہے۔ہاں جب کام زیادہ ہوتا تھا تو زیادہ دن میں بھی لیکن ایسا بھی ہوتاتھا کہ صبح سے قرآن مجید ہاتھ میں ہے ٹہل رہے ہیں اور ایک ورق بھی نہیں اُلٹا۔ دوسرے دن دیکھا تو پھروہی صفحہ میں نے کہنا کہ آپ کے ہاتھ میں قرآن مجید ہے لیکن آپ پڑھ نہیں رہے تو فرماتے ایک آیت پر اٹک گیا ہوں جب تک اس کے مطالب حل نہیں ہوتے آگے کس طرح چلوں۔‘‘مزید فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ یونہی خدا جانےمجھے کیا خیال آیا۔میں نے پوچھا کہ آپ نےکبھی موٹربھی چلانی سیکھی ؟ کہنے لگے ہاں ایک دفعہ کوشش کی تھی مگر اس خیال سے ارادہ ترک کردیاکہ ٹکر نہ ماردوں۔ ہاتھ پہیہ پر تھے اور دماغ قرآنِ مجید کی کسی آیت کی تفسیر میں الجھا ہوا تھا موٹر کیسے چلاتا۔‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مقدس زندگی کی چند جھلکیاں مطبوعہ الفضل ۲۵؍مارچ۱۹۶۶ءصفحہ۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:’’پھر تفسیر صغیر ہے یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی،کی ہوئی قرآن کریم کی تفسیر ہے جو علوم کا سر چشمہ اور تمام انوار کا سورج ہے مجھ پر یہ اثر ہے کہ بہت سے نوجوان اس تفسیر کی یا اس ترجمہ کی جس کے ساتھ تفسیری نوٹ ہیں… اہمیت نہیں سمجھتے۔…جماعت کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئےاگرہم قرآنِ کریم کے علوم صحیح طور پر سیکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ خصوصاً ہمارے بچے اور نوجوان اس سے محبت کرنےلگیں اور ان کے دل کا شدید تعلق قرآنِ کریم کے نور سے ہو جائے تو ہر نوجوان بچے کے باپ یا گارڈین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ میں تفسیر صغیر کودیکھے اور اگر نہ دیکھے تو اس کا انتظام کرے۔‘‘(دوسرے روز کا خطاب بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ فرمودہ۱۲؍جنوری۱۹۶۸ءمطبوعہ خطابات ناصر جلداوّل صفحہ۱۸۸)
کتب حضرت مسیح موعودؑ کی طرف توجہ
حضور انور نے عبادات کے معیار کو بہتر کر نے کے لیے جو مزید ایک پہلو پر توجہ دلائی وہ کتب حضرت مسیح موعودؑ کو پڑھنے کی تلقین ہے کہ ہر وقت حضرت مسیح موعودؑ کی ایک نہ ایک کتاب زیر مطالعہ ہونی چاہیے۔
خطبہ جمعہ بتاریخ ۱۱؍جون ۲۰۰۴ءمیں حضور انور تلقین فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کے لئے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردو میں ہیں۔
پس شیطان سے بچنے کےلئے …ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے۔ اپنی روحانیت کو بڑھانے کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے اور اس زمانے میں جو صحیح طریقے ہمیں دین کو سمجھنے کے لئے بتائے وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی بتائے ہیں۔ اس لئے آپؑ کی کتب پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے۔ یہ بات بھی صحبت صادقین کے زمرے میں آتی ہے کہ آپؑ کے علم کلام سے فائدہ اٹھایا جائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ’’اس کے بعد اللہ تعالیٰ …فرماتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے گندے جلیسوں کی و جہ سے تباہی کے گڑھے میں گرا کرتا ہے۔ وہ پہلے تواپنے دوستوں کی مصاحبت پر فخر کرتا ہے مگر جب اسے کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ لَیْتَنِیْ لَمْ اَ تَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًاکہ اے کاش میں فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا اس نے تو مجھے گمراہ کردیا۔ اسی و جہ سے قرآن کریم نے مومنوں کو خاص طور پر نصیحت فرمائی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(توبہ:119)یعنی اے مومنو! تم ہمیشہ صادقوں کی معیت اختیار کیا کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گردوپیش کی اشیاء سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر وہ اپنی دوستی اور ہم نشینی کے لئے ان لوگوں کا انتخاب کرے گا جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوں گے اور جن کا مطمح نظر بلند ہو گا تو لازماً وہ بھی اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور رفتہ رفتہ اس کی یہ کوشش اس کے قدم کو اخلاقی بلندیوں کی طرف بڑھانے والی ثابت ہوگی۔ لیکن اگر وہ برے ساتھیوں کا انتخاب کرے گا تو وہ اسے کبھی راہ راست کی طرف نہیں لے جائیں گے۔ بلکہ اسے اخلاقی پستی میں دھکیلنے والے ثابت ہوں گے۔…‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍ جون ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍ جون ۲۰۰۴ء صفحہ ۵)
جہاں یہ سب نیکیاں جمع ہوں گی تو حضور انور نے فرمایا کہ وہاں تکبر سے پاک زندگی ہو گی کہ
بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے نبی ﷺسےروایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی تکبرہے۔ ایک آدمی نے کہا انسان پسند کرتا ہے کہ اس کالباس اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو۔
آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے۔ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔تکبر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے حق کا انکار کرناہے اور لوگوںکو حقیر جاننا ہے۔(صحيح مسلم كِتَاب الْإِيمَانِ، باب تَحْرِيمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ)
امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ جمعہ ۲۹؍اگست ۲۰۰۳ء میں فرمایا:’’ہر احمدی کو ادنیٰ سے تکبر سے بھی بچنا چاہئےکیونکہ یہ پھر پھیلتے پھیلتے پوری طرح انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ مگر تم شاید نہیں سمجھوگے کہ تکبر کیا چیز ہے۔ پس مجھ سے سمجھ لو کہ مَیں خدا کی روح سے بولتا ہوں۔
ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنرمند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سرچشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے۔ کیا خدا قادر نہیں کہ اُس کو دیوانہ کردے اور اس کے اُس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے…. ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کرکے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو… ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے مامور اور مُرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہوجاؤ تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہوجاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن، جلد ۱۸، صفحہ ۴۰۲-۴۰۳)
خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت خلیفۃالمسیح کی خواہش کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔