حمد کے لفظ میں تین سبق (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۳؍ستمبر۱۹۲۶ء بمقام ڈلہوزی)
۱۹۲۶ء میں ارشاد فرمودہ اس خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے لفظ حمد کے معانی بیان کیے ہیں اور ان کی تشریح فرمائی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ قرآن کریم میں مسلمان کی ابتدائی اور انتہائی دونوں حالتوں کو ایک ایسے لفظ سے ظاہر کیا گیا ہے جو اسلامی تعلیم کا نچوڑ ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ کی حمد ہے۔ قرآن کریم کی ابتداء یا بلفظِ دیگر سب سے پہلا سبق جو اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیا ہے وہ بھی اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (فاتحہ:۲)ہے اور مسلمان کی آخری بات بھی یہی بتائی گئی ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے وَاٰخِرُ دَعۡوٰٮہُمۡ اَنِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (یونس:۱۱)۔
حمد کے ہم معنی عربی زبان میں چند اَور الفاظ بھی ہیں جو یہ ہیں مدح، ثناء، شکر۔ لیکن ان میں اور حمد میں ایک فرق ہے جو ان کے حروف کے اختلاف یا ان حروف کی تقدیم و تاخیر سے پیدا ہوتا ہے۔
عربی زبان کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ اس کے الفاظ اپنے معانی کو آپ ظاہر کرتے ہیں۔
پھر ان الفاظ کے حروف کی ترتیب کا بھی دخل ہوتا ہے۔ اور ان حروف کی خاصیات کے مطابق ان سے معانی پیدا ہوتے ہیں۔ اور جن حروف کی خاصیات میں اشتراک پایا جاتا ہو اُن میں سے جو حرف ترتیب حروف تہجی کی رو سے بعد والا ہو وہ اپنے سے پہلے آنے والے اپنے ہم خاصیت حرف کی نسبت زیادہ زور دار ہوتا ہے۔ جیسے کہ لفظ قصم اور قضم جو ہم معنے ہیں ان میں سے مؤخر الذکر لفظ زیادہ زور دار ہے۔ کیونکہ حرف ص کی نسبت حرف ض جو اس کا ہم خاصیت ہے اور حروف تہجی کی ترتیب کی رو سے اس کے بعد آتا ہے زیادہ زور دار ہے۔ اسی طرح حروف کی زیادتی سے بھی معنے میں زیادتی پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ بَعَثَ کے مقابلہ میں بَعْثَرَ اور قَتَلَ سے قَتَّلَ اور عَلَا کی نسبت تَعَالٰی زیادہ زور دار ہے۔ غرض
عربی زبان کے الفاظ میں حروف کی تبدیلی یا تقدیم و تاخیر یا کمی بیشی پیدا ہونے سے ان کے معانی میں بھی ویسی ہی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔
حمد اور مدح کے حروف گو ایک ہیں مگر ترتیب حروف کی تبدیلی سے ان کے معانی میں ایک فرق پیدا ہو گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مدح کا لفظ تو سچی اور جھوٹی دونوں طرح کی تعریف کے لئے بولا جاسکتا ہے۔ مگر
حمد سچی تعریف کے لئے مخصوص ہے۔ جھوٹی تعریف کو حمد نہیں کہہ سکتے۔
اسی طرح حمد میں اور شکر و ثناء میں بھی ان کے حروف کی خاصیات کی بنا پر ایک فرق پایا جاتا ہے۔ اوروہ یہ ہے کہ یہ دونوں مؤخر الذکر لفظ صرف احسان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اور حمد کا لفظ احسان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ خواہ احسان کی قسم کی خوبی اور حُسن ہو یا ایسی خوبی ہو جو احسان کے ماتحت نہ آتی ہو دونوں کا اظہار حمد کے معنے میں داخل ہے۔ پس
لفظِ حمد میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو اس کے قریبُ الْمعنی باقی الفاظ میں نہیں پائی جاتیں۔
اس لفظ میں ہمیں تین تعلیمیں دی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ
جو تعریف کسی کی کریں سچی کریں۔ جھوٹی تعریف کبھی کسی چیز کی نہ کریں۔
مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس کے برعکس جھوٹی تعریفوں پر یہاں تک زور دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعریف میں بھی جھوٹی حدیثیں گھڑ لیں۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ کو جو شان اﷲ نے دی ہے وہ اس قدر اَرفع ہے اور جو تعریفیں آپؐ کی کی ہیں وہ اس قدر اعلیٰ ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے کسی جھوٹی تعریف کی کبھی ضرورت ہی نہیں پیش آسکتی۔ کیونکہ آپ کی سچی تعریفیں ہی غیر متناہی ہیں اور اگر وہ جھوٹی باتیں آپؐ کی شان کو بڑھانے والی ہوتیں تو اﷲ تعالیٰ ضرور وہ باتیں بھی آپ کی ذات میں رکھتا۔ غرض کسی چیز کی کوئی جھوٹی تعریف کبھی نہیں کرنی چاہئے۔
دوسری تعلیم اس میں ہمیں یہ دی گئی ہے کہ ہم جس چیز میں جس حُسن و خوبی کا ادراک کریں اس کا اقرار کریں اور اس سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کریں۔
جس قدر علوم پائے جاتے ہیں اُن کے وضع کئے جانے کی غرض و غایت دراصل یہی ہے کہ جس چیز پر کسی علم میں بحث ہوتی ہے اُس چیز کی خوبیوں کا ادراک وا ظہار اور اکتساب کیا جائے۔ علمِ ہیئت، علمِ حساب، علمِ ہندسہ، علمِ طب اور علمِ قانون۔ غرض ہر ایک علم کی غرض و غایت یہی ہے۔ پس
انسان کی نظر حسن پر ہونی چاہئے اور اس حسن کو اپنے اندر جذب کرنے میں کوشاں رہنا چاہئے۔
تیسری تعلیم اس میں یہ دی گئی ہے کہ
ہم ہرحُسن و خوبی کی قدر کریں اور اسے عظمت کی نظر سے دیکھیں اور ہر احسان کے شکر گذار ہوں۔
جو شخص بھی کوئی اچھا کام کرے اس کی قدر کرنی چاہئے خواہ کوئی ہو۔ دوسرے ممالک کے لوگ ایسے کام کرنے والوں کی قدر کرتے ہیں۔ مگر ہندوستان میں یہ بات نہیں۔ خوبی والی چیز میں نقص اور عیب بھی ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ مگر اس کی وجہ سے اس خوبی کی قدر دانی میں فرق نہیں آنا چاہئے۔
اگر کسی خوبی والی چیز میں بہت سے نقص بھی پائے جاتے ہوں تو بھی اس کی خوبی کی قدر کرنی چاہئے۔
لیکن ہمارے ملک میں اور مسلمانوں میں اس کے خلاف یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر کسی چیز میں ۹۹خوبیاں ہوں اور بالمقابل ایک نقص ہو تو اُسی نقص کو دیکھا جاتا ہے اور اُن خوبیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پس جس کسی میں کوئی خوبی پائی جاتی ہو اُس کی قدر کرنی چاہئے اور اسے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور ان اصول کو ہمیشہ اپنا دستور العمل بنائے رکھنا چاہئے۔ جیسا کہ ابتدائی اور انتہائی تعلیم اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ سے مفہوم ہوتا ہے۔ مسلمان کے کام کی ابتداء بھی حمد سے ہے اور انتہاء بھی حمد پر۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی سچی اور پاک تعلیم پر چلنے کی توفیق دے۔‘‘
(الفضل ۲۱؍ستمبر ۱۹۲۶ء)