امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ کینیڈا کی نیشنل عاملہ و ریجنل ناظمین اطفال کی ملاقات
مورخہ۹؍جون ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ کینیڈا کی نیشنل عاملہ اور ریجنل ناظمین کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی، جنہوں نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےکینیڈا سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔
السلام علیکم کہنے کے بعد حضور انور نے دعا کروائی جس کے ساتھ ملاقات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔یہ معلوم ہونے پر کہ کچھ ممبرانِ عاملہ Covid-19 کی بیماری کی وجہ سے ملاقات میں شامل ہونے سے قاصر رہے ہیں، حضورانور نے از راہِ شفقت ان جملہ ممبران کی خیریت دریافت کی نیز انہیں ہومیو پیتھک ادویات فراہم کرنے کی ہدایت فرمائی۔
سب سے پہلے مہتمم اطفال کوحضور انور کی خدمت میں اپنی مساعی کی رپورٹ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ کینیڈا میں اطفال کی کُل تعداددو ہزار ۴۹۱؍ہے۔حضور انورکی جانب سے مجالس کی کارکردگی کی بابت کیے گئے استفسار پر موصوف نے عرض کیا کہ تمام مجالس میں سے تقریباً پچاس سے ساٹھ فیصد مجالس فعّال ہیں۔
بعد ازاں تمام شاملینِ مجلس کو اپنا اپنا تعارف کروانے اور اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کے حوالے سے حضور انور سےشرفِ گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔
سیکرٹری تربیت سے حضور انور نےاطفال کی پنج وقتہ نماز کی ادائیگی اور تلاوت قرآنِ کریم کے حوالے سے دریافت فرمایا تو موصوف نے اس ضمن میں بروئے کار لائی جانے والی مساعی کا تذکرہ کرتے ہوئے عرض کیاکہ کُل اطفال میں سے ایک تہائی روزانہ باقاعدگی سے پنج وقتہ نماز ادا کرتےہیں۔ یہ سماعت فرماکر حضور انور نے تلقین فرمائی کہ باقی بچوں کو بھی اس کی جانب راغب کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔
سیکرٹری تعلیم نے حضورانور کی خدمت میں عرض کیا کہ ان کے شعبہ کی جانب سے اطفال کے لیے مختلف کلاسز کا باقاعدگی سےاہتمام کیا جا رہا ہے۔
سیکرٹری تجنید سے حضورانور نے استفسار فرمایا کہ کیا تجنید کا ریکارڈ مکمل اور درست ہے؟ تو موصوف نے عرض کیا کہ تقریباً چھیانوے فیصد ریکارڈ درست ہے جبکہ باقی ماندہ چار فیصد ریکارڈ کی تصدیق کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
سیکرٹری مال سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے بجٹ کے مختلف امور پر گفتگو فرمائی نیز تربیت کے کاموں میں محنت کرنے کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ موصوف نے عرض کیا کہ تراسی فیصد بچوں نے گذشتہ برس مالی قربانی میں حصہ لیا تھا اور کوشش یہ ہے کہ اس کو سَو فیصد پر لے کر جایا جائے۔ یہ سماعت فرما کرحضور انور نے ہدایت فرمائی کہ شعبہ تربیت کو کوشش کرنی چاہیے کہ سَو فیصد اطفال روزانہ باقاعدگی سے نماز پڑھیں، جب سَو فیصدنماز پڑھیں گے تو چندہ آپ ہی سَو فیصد آجائے گا۔
سیکرٹری صحتِ جسمانی سے حضور انور نے ایسے بچوں کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایاجو کہ روزانہ کوئی کھیل کھیلتے ہیں؟ موصوف نے عرض کیا کہ ۴۹۰؍ بچے ایسے ہیں جو اوسطاً ہر مہینے کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس تعداد میں مزید بہتری پیدا کرنے کی غرض سے حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ بچوں کو بجائے indoor games اور انٹرنیٹ پر بیٹھنے کے زیادہ باہر کھیلنا چاہیے۔ باہر جا کر کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ کھیلا کریں جو کہ صحت کے لیے بھی اچھا ہے، دماغی تفریح کے لیے بھی اچھا ہے اور دماغی تربیت کے لیے بھی اچھا ہے۔
سیکرٹری صنعت و تجارت نے حضور انور کی خدمت میں اپنے شعبہ کے حوالے سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ معیارِ کبیر کے اطفال کو مختلف عَملی ہنر سکھائے جا رہے ہیں، مثال کے طور پر امسال ابتدائی طبّی امداد کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
بعدازاں خدام کو حضور انورسے مختلف امور کے حوالے سے سوال کرکے راہنمائی حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔
سب سے پہلا سوال ایک خادم نے یہ کیا کہ قائدینِ مجالس خدام الاحمدیہ دوسرے شعبہ جات میں مصروفیات کے باعث اطفال الاحمدیہ کی تنظیم پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتے اور ناظمینِ اطفال جو کہ عموماً کم عمر ہیں وہ اپنی ذمہ داری کا صحیح سے حق ادا نہیں کرپاتے۔ پیارے آقا اس حوالے سے کیا راہنمائی فرمائیںگے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ناظمین کی ایک چھوٹی سی عاملہ بنانی چاہیےتا کہ وہ کام کریں۔جو قائد کا خدام الاحمدیہ میں کام ہے وہی اطفال الاحمدیہ میں ناظمین کا کام ہے۔ توactiveقسم کے لوگوں کو ناظم بنانا چاہیے۔ وہ کوئی منتخب تو نہیں ہوتے۔ یہ تو صدر صاحب کا کام ہے کہ ایسے اچھے فعّال لوگوں کی selectionکریں جو کام کریںتو وہ آپ ہی تیز ہو جائیں گے۔ دوسرے اپنی ٹیمیں بنائیں۔ مختلف categoriesکے اطفال کے حوالے سے ان کو بتائیں کہ کون ہیں جن کو مذہبی دلچسپی ہے، کون دلچسپی نہیں لیتے، کون فعّال ہیں اور کون فعّال نہیں ہیں۔ہر ایک کا پتا ہونا چاہیے۔ تو ناظمین اپنے ساتھ نائبین لگائیں۔ٹیم بنائیں تو پھر کام ٹھیک ہو جائے گا۔
ایک خادم نے دریافت کیا کہ دنیا کے حالات کے پیش نظر کیا آئندہ خلافت کی دوبارہ ہجرت کا امکان ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ پہلے کون سی کوئی پلاننگ کر کے ہجرت ہوئی تھی؟ اگر ایک جگہ کےحالات خراب ہوتے ہیں، ظاہر ہے ہونے ہی ہیں، ایک وقت آنا ہے جب یورپ اور مغربی ممالک نے بھی جماعت کی مخالفت کرنی ہے۔پھر اس وقت کا خلیفہ اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے کہ کہاں جانا ہے یا کیا کرنا ہے۔ جہاں بہتر ہے اللہ تعالیٰ وہاںلے جائے گا۔ جہاں پلاننگ ہو کہ جماعت کی ترقی ہو سکے۔ تو بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔ پلاننگ کر کے تو ہجرتیں نہیں ہوتی رہیں۔ یہ تو اتفاق سے ہی ہوتی رہی ہیں۔
اگلا سوال یہ تھا کہ بچوں میں بیک وقت اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت کیسے بٹھایا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ تو صرف زیادہ ڈراتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کی باتیں کیا کریں تو اللہ میاں سے محبت پیدا ہو۔اب بچے ماں با پ کی بہت ساری باتیں جو مانتے ہیں وہ خوف کی وجہ سے تو نہیں مانتے۔اس لیے مانتے ہیں کہ خطرہ ہوتا ہے کہ ماں باپ ہمارےسے ناراض نہ ہو جائیں۔ بچوں میں یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں۔پس اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی خوف پیدا ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں کہتا ہے کہ اتنی محبت ہو کہ میرے ساتھ والدین سے زیادہ محبت ہونی چاہیے۔یہ محبت پیدا ہو جائےگی تو خوف بھی آپ ہی پیدا ہو جائے گا۔ آپ صرف ڈراتے ہیں کہ اللہ میاں سزا دے گا۔ آپ سزا کی باتیں کریں گے تو بچوں کے ذہنوں میں بیٹھ جائے گا کہ اللہ میاں صرف سزا دینے کے لیے بیٹھا ہوا ہے۔ بچوں سے کہو کہ اللہ میاں نے تمہارے پر اتنے انعامات کیے ہیں، تمہارے لیے اتنی نعمتیں اتاری ہوئی ہیں، تمہارے لیے اتنے سامان پیدا کر دیے، تمہیں یہاں ان ملکوں میں رکھا ہے، تم کھاتے پیتے ہو اور پڑھائی کرتے ہو، آسانیاں پیدا کی ہوئی ہیں، سہولتیں پیدا کی ہوئی ہیں، پڑھائی کے مواقع پیدا کیے ہوئے ہیں، بہت سارے لوگ ہیں جن کو یہ مواقع ہی نہیں ملتے۔تو یہ چیزیں تقاضا کرتی ہیں کہ اللہ میاں سے پیار کیا جائے تا کہ وہ تمہیں اَور انعام دے اور ہم سے ناراض نہ ہو۔ تو جو خوف ہے وہ اس لیے نہیں کہ اللہ میاں سزا دے گا، خوف یہ ہو کہ کہیں اللہ میاں ہم سے ناراض نہ ہو جائے اور وہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اللہ سے پیار اور محبت کا تعلق ہو۔اس لیے پہلے دل میں اللہ میاں کی محبت پیدا کریں تو خوف آپ ہی پیدا ہو جاتا ہے۔
ہمارے لوگ زیادہ تر ڈرانے کی طرف مائل ہیں۔ مولویوں کی عادت ہے کہ ڈرا دو کہ جہنم میں جاؤ گے۔یہ کہو کہ اللہ میاں ہمیں بہت ساری چیزیں دیتا ہے، ہمیں انعاموں سے نوازتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ میاں کی باتیں مانیں اور اس سے زیادہ پیار کریں۔ جب کسی سے پیار پیدا ہو گا تو آپ ہی اس کا خوف بھی پیدا ہو جائے گا۔ جس طرح ماں باپ سے پیار کرنے والے بچے اس خوف میں رہتے ہیں کہ کہیں وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائیں۔
ایک سائل نے دریافت کیا کہ کیا خلیفۂ وقت کبھی خانہ کعبہ میں نماز پڑھائے گا ؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر موقع میسر آئے گا اور اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا فرما دے گا تو خلیفۂ وقت خانہ کعبہ میں بھی نماز پڑھائے گا۔ بہرحال اس کا فیصلہ وقت کا خلیفہ ہی کرے گا۔
ایک سوال کیا گیا کہ جب جماعت احمدیہ کا دنیا پر غلبہ ہو جائے گا تب سود کا نظام کس طرح تبدیل کیا جائے گا؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب اسلامی نظام رائج ہو جائے گا تو سود آپ ہی ختم ہو جائے گا۔حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ کی کتاب ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘پڑھو،اس میں سے پتا لگ جاتا ہے۔ قرآن شریف میں تو واضح فرما دیا ہے کہ سود غلط ہے۔ پہلے جو اسلامی حکومتیں تھیں وہاں سودی نظام تو نہیں چلتا تھا لیکن تجارتیں بھی ہوتی تھیں، لوگ کماتے بھی تھے، صحابہؓ میں بھی millionaire، billionaireتھے، کیا وہ سود لے کے کماتے تھے؟ تجارتیں کرتے تھے اور دوسرے فائدہ مند کام کرتے تھے۔ اس سے سارا نظام چل رہا تھا۔ وہی نظام اب چلے گا۔
جب ہر جگہ اسلامی نظام رائج ہو جائے گا۔ہر حکومت اسلامی نظام رائج کرے گی تو سود آپ ہی آپ ختم ہو جائے گا۔ تم پہلے ایک ملک میں اسلامی حکومت تو قائم کرو !
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ گیمبیا کے بارے میں فرمایا تھااور پھر بعض کیریبین (Caribbean)جزائر کے بارے میں بھی فرمایا ہوا ہے، ساؤتھ امریکہ کے بھی چھوٹے جزیروں کے بارے میں بھی کہ یہاں اگر ہماری حکومتیں قائم ہو جائیں تو ہم ایک نمونہ بنا کے دکھا سکتے ہیں کہ کس طرح حکومت چلائی جاتی ہے اور کس طرح نظام چلایا جاتا ہے۔پھر اقتصادی نظام بھی وہاں فائدہ مند ہو گا، لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جس میں بہرحال ابھی تھوڑی سی تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس لیےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہوا ہے کہ ہمارا آجکل کا جو بینکنگ نظام ہے اور جو پرانا سودی نظام ہے،یہ آپس میں اس طرح خلط ملط ہو گئے ہیں کہ ان میں تھوڑا فرق ڈالنا ذراسامشکل ہے۔ تو اس میں مزید تحقیق کی ضرور ت ہے۔ اس کے لیے ہم نے بھی کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جو غور کر رہی ہیں تا کہ جب وقت آئے تو ہمارے پاس بھی اس کا کوئی حل ہو۔
پھریہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس موجودہ نظام سے کون سی چیز سود میں شامل ہے اور کون سی نہیں۔مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اگر کسی چیز کی ایک قیمت ہے، تم فوری طور پر قیمت دے رہے ہو،تو وہ ایک چیز کی کم قیمت ہے۔مثلاً ایک اخبار دو روپے میں بکتا ہے۔ اگر تم کہو گے کہ میں اس کی قیمت چھ مہینے یا ایک سال بعد دوں گا تو پھر جو بیچنے والا ہے اس کو حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ میں اس وقت اس کی قیمت اڑھائی یا تین روپے لوں گا۔ تو یہ سود نہیں ہے۔ وہ اس کی قیمت ہے، کیونکہ delayed paymentہے۔اس کے اوپر اس کی محنت لگی ہے۔تو اس میں بہت ساری چھوٹی چھوٹی چیزیں شامل ہیں جو حل ہونے والی ہیں، وہ ساری چیزیں دیکھنی ہوں گی اور ان شاء اللہ وہ نظام جب قائم ہو گا توخود بھی جائزہ لے لیں گے کہ کون سی چیز جائز ہے، کون سی ناجائز ہے، کون سی سود کے زمرے میں آتی ہے اور کون سی نہیں آتی۔کیونکہ موجودہ نظام میں بھی بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو سود میں نہیں آتیں لیکن کیونکہ سودی نظام ہے اس لیے اس کو ہم اکٹھا کر دیتے ہیں۔ اس لیے اس کو differentiate کرنا پڑے گا، بڑاsubtle difference ہے۔
ایک خادم نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ آجکل سکولوں میں اسرائیل کی ہمدردی کا ماحول پید اکیا جا رہا ہے اور یہودیوں کے مزید ایونٹسcelebrateکیےجارہے ہیں لیکن فلسطینی بچوں سے ہمدردی کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ نیز موصوف نےراہنمائی طلب کی کہ اس صورتحال میں احمدی بچے اپناکردار کیسے اداکر سکتے ہیں اور کیااحتجاج کر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ احتجاج کرنے کی ضرور ت نہیں ہے۔احمدیوں کو صرف یہ چاہیے کہ وہ اپنی انتظامیہ کو کہیں کہ ٹھیک ہے اسرائیلیوں پر جو ظلم ہو ااس کے بھی ہم خلاف ہیں، ظلم نہیں ہونا چاہیے، لیکن جو فلسطینی بچوں پر ظلم ہو رہا ہے اس کے لیے بھی ہمیں کچھ بولنا چاہیے کہ ان کو ہم کس طرح محفوظ کر سکتے ہیں؟ تو طریقے سے انتظامیہ کو بھی بتایا جا سکتا ہے۔
اگر انتظامیہ ایونٹس کر رہی ہے تو protestکر کے ہم جلوس تو نہیں نکال سکتے، نہ توڑپھوڑ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی اجازت ہے۔ان کو بتایا جا سکتا ہے۔بچوں کے دلوں میں ڈالیں کہ ہمیں اسرائیل کےان بچوں سے بھی ہمدردی ہے جو مرے اور ہمیں ان بچوں سے بھی بہت زیادہ ہمدردی ہے جو فلسطین کے مر رہے ہیں۔ اس کے لیےبھی ہمیں کچھ کرنا چاہیے تا کہ دنیا میں ایک balance اور انصاف قائم ہو۔
تو یہ کوشش ہے جو بچوں کے ذریعہ سے کی جا سکتی ہے۔ ماں باپ گھروں میں بچوں کو بتائیں کہ تم لوگ اس طرح کہو اور انتظامیہ کو بھی لکھ کے بھیجیں کہ آپ لوگ ایونٹس کرتے ہیں، بڑی اچھی بات ہے، کریں۔ اسرائیل کے حق میں جو بولنا ہے، بولیں، لیکن جو معصوم بچے فلسطین میں یا دنیامیں کہیں بھی مر رہے ہیں، ان کے لیے بھی ہمیں آواز اٹھانی چاہیے اور ان کو بھی ان کا حق دلانا چاہیے۔ سکولوں میں والدین بھی لکھیں کہ بچوں میں ہمیں یہ روح پیدا کرنی چاہیےکہ ہر معصوم کےلیے ہم نے ہمدردی رکھنی ہے چاہے وہ کوئی ہو۔ تو اس میں والدین کو بھی کردار ادا کرنا پڑے گا۔
ایک سائل نے ایک پیش آمدہ مشکل کا ذکر کیا کہ ریفریشر کورس کے باوجود اکثر ناظمینِ اطفال اپنی کم عمر کی وجہ سے والدین سے رابطہ کرنے میں قاصر رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں والدین کا تعاون حاصل نہیں۔موصوف نےاس بابت حضور انور سے راہنمائی طلب کی۔
اس پر حضورانور نے ناظمین کے تقرر کی بابت اپنی فرمودہ ہدایت کا اعادہ فرمایا کہ بڑی عمر کے ناظمین بنا دو، یہ تو صدر صاحب نے بنانا ہے، چھوٹی عمر کے نہ بنائیں۔ ان کے نائبین چھوٹی عمر کے ہوں۔ دوسرا یہ ہےکہ جو ناظمین چھوٹی عمر کے بھی ہیں ان کی تربیت کریں، ان کا ریفریشر کورس کریں اور ان کو سمجھائیں کہ تم نے والدین کو کس طرح approachکرنا ہے۔ مہتمم اطفال ان والدین کی فہرست لے کے جو ناظمین سے تعاون نہیں کرتے، براہ راست ان کو لکھے۔
ایک سوال کیا گیا کہ ہماری بھی دعا قبول ہوتی ہے لیکن جن کا اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہو ان کی دعاؤں اور ہماری دعاؤں میں کیا فرق ہے؟
اس کے جواب میں حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ان کی زیادہ دعائیں قبول ہوتی ہیں اور عام آدمی کی کم قبول ہوتی ہیں۔اس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے۔
حضورانور نے مزید وضاحت فرمائی کہ اگران کی سَو میں سے اسّی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو آپ کی سَو میں سے پچاس، ساٹھ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ فرق تو یہ ہے اور یہی واضح فرق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی لکھا ہے کہ جوایک دہریہ ہے، نہ ماننے والے،وہ بھی دریا یا سمندر میں پھنس جائیں تو دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نجات دے دے تو مَیں تیری عبادت کروں گا یاتیری بات مانوں گا تواللہ تعالیٰ بھی ان کواس طوفان میں سے نکال دیتا ہے اور وہ سمندر میں سے خشکی میں آ جاتے ہیں اور ان کو نجات مل جاتی ہے۔تو دعا تو ان کی بھی قبول ہوگئی حالانکہ وہ خدا کو نہیں ماننے والے تھے یا بہت زیادہ نافرمانی کرنے والے تھے یا اس کی باتوں پرجتنا عمل کرنا چاہیے اتنی نہ کرنے والے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی بھی دعا سن لی اور ان کو نجات دے دی۔پھر اللہ کہتا ہے کہ جب وہ خشکی پر آ جاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہو گئے اور پھر اپنی بات سے مکر جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ طاقت رکھتا ہے کہ ان کواس خشکی میں بھی سزا دے سکتا ہے۔
تو دعائیں تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کی قبول کر لیتا ہے۔ بعض دفعہ ایک مذہب کو نہ ماننے والا بھی ہے تو جب وہ ایک دَم اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پکار سن لیتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں طوفانوں سے نکال دیتا ہوں۔ تو فرق تو یہی ہے کہ جو نیک لوگ ہیں وہ دعائیں کرتے ہیں اوران کی کثرت سے دعائیں سنی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے۔دوسرے لوگوں کی بھی دعائیں سن لیتا ہے لیکن اس کی شرح وہ نہیں ہوتی۔
ایک سائل نے عرض کیا کہ مرکز میں مربی اطفال مہتمم اطفال کی عاملہ کا ممبر ہےجبکہ لوکل میں قائد مجلس کی عاملہ کا ممبر ہوتا ہے۔ موصوف نے راہنمائی طلب کی کہ ان دونوں کی co-ordinationکوکس طرح سےبہتر بنایا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ناظم اطفال بھی قائد مجلس کی عاملہ کا ممبر ہوتا ہے تو وہاں مربی اطفال بھی بیٹھا ہوتا ہے۔ وہ اپنی باتیں بتا دےتو co-ordinateآپ ہی ہو جاتا ہے۔ جب ایک ہی مجلس کے ممبر وہاں بیٹھے ہوئے ہیںاورعاملہ میں میٹنگ ہو رہی ہے،تودونوں اپنی اپنی باتیں بتا سکتے ہیں۔co-ordinateکرنے میں کیا ہرج ہے؟ پلاننگ تو ناظم اطفال نے دینی ہے۔ مربی اطفال نے تو اس کوimplementکروانا ہے۔ مربی اطفال نے اپنی کوئی پلاننگ نہیں کرنی۔
تربیت کا ایک پلان ہے، قائد بناتا ہے یا مہتمم اطفال بناکر مجلسوں میں بھیجتا ہے، پھر قائد اس کو ناظمین اطفال کے ذریعے implementکرواتا ہے یا ناظمین اطفال کو مہتمم اطفال براہ راست بھیج دیتا ہے۔ تو مربی اطفال کا یہ کام ہے کہ جو پلاننگ آ گئی ہے اس پر اس کی مدد کرے۔زیادہ تر مربی اطفال کا مقصد یہی ہے کہ تربیت کرے۔ مربی کا مطلب ہی تربیت کرنے والاہےتو تربیت کی طرف زیادہ توجہ دیں۔مربیان بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں۔باقی انتظامی معاملات میں ان کودخل نہیں دینا چاہیے۔ co-ordination آپ ہی ہو جائے گی۔ وہاں آپس میں riftتو تب پیدا ہوتی ہے جب وہ بھی کہتا ہے میرے بھی یہ یہ اختیار ہیں۔
مربی کے اختیار تو صرف تربیت کے بارے میں ہیں اور اسی میں اس کو تعاون کرنا چاہیے۔ ناظم اطفال سے تربیت کا پلان لے کے اس کو implementکروانا اور اس کے لیے ناظم اطفال کی بھرپور مدد کرنا۔
باقی انتظامی پلاننگ جو ناظم اطفال کرتا ہے یا مہتمم اطفال کی طرف سے اس کو ملتی ہے اس میں مربی کو دخل نہیں دینا چاہیے۔ ہاں! اگر کبھی ناظم اطفال کہے کہ اس معاملے میں ہماری مدد کریں تو وہ مدد کر دیں۔ مربی اطفال تو mature ہوتا ہے، انصار اللہ میں سے ہوتا ہے۔اس کو تو چاہیے کہ تربیت کے نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ناظم اطفال چھوٹے بھی ہیں تو پھر بھی ان میں انتظامی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں تا کہ ان کو پتا لگے کہ اصل چیز تعاون ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو۔
ایک سوال کیا گیا کہ آجکل چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو سکول میں سیکس ایجوکیشن کی تعلیم دی جاتی ہے۔اطفال الاحمدیہ کس طرح سے بچوں کو اس ماحول سے محفوظ رکھ سکتی ہے؟
اس پر حضور انور نے راہنمائی فرمائی کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ والدین کا یہ کام ہے کہ گھروں میں جب بچےایسی چیزیںدیکھ کر آتے ہیں توان کو بتائیں کہ سکول میں تمہیں پڑھا تو دیا ہیںلیکن یہ چیزیںاور باتیں ابھی تمہیں سمجھ نہیں آسکتیں۔
اب یہاں تو یہ آواز اٹھنی شروع ہو گئی ہے کہ تیرہ، چودہ سال سے پہلے بچوں کے ساتھ سیکس ایجوکیشن کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اَور جگہوں پر بھی آہستہ آہستہ آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی۔بعض جگہوں پر احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔
دوسرا یہ ہےکہ اس سے اطفال کے ذہنوں میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو بجائے سختی سے اس کو رد کرنے کے ان کو پھر طریقے سے سمجھاؤ کہ یہ تمہاری عمر نہیں، تم اس کے بارے میں سمجھ نہیں سکتے، یہ ایک علم ہے اور اس کا علم تمہیں تب ہو گا جب تم اس عمر کو پہنچو گے۔ اس لیے گو تمہیں سکول نے بتا بھی دیا ہے تب بھی ابھی تمہیں اس کی صحیح طرح سےسمجھ نہیں آ سکتی۔
پہلا کام تو اطفال سے زیادہ والدین کا ہے۔ والدین کو educateکریں۔ مہتمم اطفال ان کو لکھ کے بھیجیں کہ آپ نے اپنے بچوں کو گھروں میں کس طرح ایجوکیٹ کرنا ہے۔
اب آپ کی یہ ساری جتنی activitiesہیں، جو مہتممین ہیں، ناظمین ہیں، ان کی جو رپورٹیں آئی ہیں اس میں سے ایک تہائی سے زیادہ اطفال تو کہیں کسی بھی سرگرمی میں involveنہیں۔نمازوں میں بھی نہیں۔ سوائے چندے میں آپ کہتے ہیں کہ ستّر، اسّی فیصد involveہیں۔ باقی تو ایکٹویٹیز میں involveہیں ہی نہیں۔ اگر آپ کچھ کر بھی لیں گےتو اطفال الاحمدیہ کے تحت تو ایک تہائی کو کر سکتے ہیں۔ اس میں سے بھی کچھpercentageآپ کی بات مانے گی۔
اس لیے بہترین طریقہ یہی ہے کہ مہتمم اطفال اس بارے میں ایک گائیڈ لائن بنا کے والدین کو دے جو والدین اَن پڑھ ہیں یا کم پڑھے لکھے ہیں یا اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے تو وہ اپنے بچوں سے بات کریں۔ ان کو میں پہلے کئی دفعہ خطبوں، تقریروں اور باتوں میں بھی کہہ چکا ہوں کہ بچوں کو دوست بنانا چاہیے اور پھر دوستانہ رنگ میں ان سے بات کریں تا کہ وہ ان کو سمجھائیں۔پھر بچوں کو گھروں سے اصل تربیت یہ مل سکتی ہے۔
اطفال الاحمدیہ میں تو آپ تھوڑی سی بات کر سکتے ہیں اور جہاں موقع ملے گا وہاں اتنا بتا دیں کہ یہ باتیں ایسی ہیں جو تمہیں ابھی سمجھ نہیں آ سکتیں اور بعض بچے پریشان بھی ہو جاتے ہیں۔ بہت سارے بچے یہ کہتے ہیں کہ کیا پڑھایا جا رہا ہے ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آ رہی یہ کیا کہتے ہیں؟ جن کو ان باتوں کی ہوش ہی نہیں ہےتو جب ان کو بتائیں گے کہ ہاں!نہیں آ رہی تو بچے سمجھ بھی جاتے ہیں۔اِلّا ماشاء اللہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بعض دفعہ پھر زیادہ سوچوں میں پڑ جاتے ہیں، بالکل ہی اپنے رستے سے اکھڑ جاتے ہیں اور سوچنے لگ جاتے ہیں۔پھر بچوں پر نفسیاتی اثر بھی پڑ جاتا ہے اور وہ اس سے بیمار بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن بہرحال عمومی طور پر اگر کوشش کرنی ہے تو والدین کو involveکرنا پڑے گا اور ایک پلان بنا کے گائیڈ لائن بنا کے دینی پڑے گی تا کہ سَو فیصد بچوں تک آپ پہنچ سکیں۔ یہاں تو زیادہ سے زیادہ آپ پچیس سےتیس فیصد تک پہنچ سکتے ہیں۔ ۷۵؍فیصد سے باقی بچوں کا interactionہوتا ہے، وہ ان کو اَور باتیں بتائیں گے، آپ کچھ اَور بتائیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ پورے ماحول کو ٹھیک کرنے کے لیے گھروں سے ہی شروع کیا جائے۔
اگلا سوال یہ تھا کہ نیشنل عہدیدار اپنی مرکزی مصروفیت کی وجہ سے اکثر مقامی مجلس اور جماعت کے پروگرامز میں شامل نہیں ہو پاتے، اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اوّل تو یہ ہے کہ اگر کوئی بہت زیادہ مصروفیت ہے اور نہیں شامل ہوتے توexcuseہو جاتی ہے۔اگر فارغ ہیں تو ضرورشامل ہونا چاہیے۔ صرف یہ کہ میں قائد ہوں یا میں صدر ہوں یا میں نائب صدر ہوں یا میں معتمد ہوں یا مہتمم ہوں اس لیے میں مجالس کے اجلاسوں میں شامل نہیں ہوتا،یہ غلط ہے۔
ہم تو مہتمم بھی رہے ہیں، اگر فارغ ہوتے تھے تو مقامی محلے کی مجلس کے اجلاس میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔ جماعتی نظام ہی ایسا ہے کہ یہاں ہر ایک کا چیک ہے۔ ایک جگہ ایک بندہ افسر ہےتو دوسری جگہ دوسرے کا ماتحت بھی ہے۔ اگر زعیم یا قائد کا ایک مہتمم یا نائب صدر افسر ہے تو دوسری جگہ اپنے محلے میں وہ اس کا ماتحت ہے۔وہ اس مجلس کا ممبر ہے اور اس کی سکیموں سے تعاون کرنا چاہیے۔ہاں، اگر مرکزی کوئی ایسی ذمہ داری آ گئی ہے جس کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتا تو وہ بتا دے کہ میری یہ ذمہ داری ہے میں جارہا ہوں۔یہ تو آپس میں تعاون سےہو گا۔اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی بجائے عاجزی پیدا کریں اور اگر فارغ ہیں تو ضرور شامل ہوں۔ اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ ہم تو مہتمم ہو کے بھی شامل ہوتے رہے ہیں۔ کبھی نہیں محسوس ہوا کہ کیوں محلے کے اجلاس میں عام آدمیوں کے ساتھ بیٹھوں۔یہ تو سوچ کی بات ہے۔
حضورانور سے اس امر پر راہنمائی طلب کی گئی کہ اطفال الاحمدیہ کے پروگراموں میں شامل ہونے کے بارے میں اکثر والدین یہ کہہ کے معذرت کر لیتے ہیں کہ ہم انہیں لے کر نہیں آ سکتے، اگر آپ سواری کا انتظام کر سکتے ہیں تو لے جائیں۔
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اگر تو ان کی جائز وجہ ہے تو پھر آپ لوگ دیکھ لیں۔اپنے بجٹ میں کوئی ایسی گنجائش رکھیں۔ اور اگر جائز وجہ نہیں ہے تو پھر ان کو توجہ دلاتے رہیں، اور کیا ہو سکتا ہے؟
اوّل تو یہ کہ اتنے زیادہ frequent اجلاسات وغیرہ کریں ہی نہ جہاں روزانہ لوگوں کو خرچہ کر کے آنا پڑے۔ کوئی ایسی پلاننگ ہو جائے کہ جماعتی نظام، لجنہ، خدام اور انصار کےاگر ایک ہی وقت میں کوئی events ہو رہے ہیں تو اس میں سارے شامل ہو جائیں۔ جب مرکزی جماعتی ایونٹس ہوتے ہیں اس میں تو سارے شامل ہو جاتے ہیں۔
اطفال الاحمدیہ کی علیحدہ کلاسیں ہیں تو ان میں یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ بعض دفعہ بعض قریبی لوگ جو لانے والے ہیں ان کو کہہ دیا کہ تم اپنے بچوں کو لے کے آ رہے ہو تو تمہارےرستے میں فلاں فلاں گھر آ رہے ہیں، ان کے بچوں کو بھی اپنے ساتھ لیتے آؤ۔ ایک کار والا دو چار دوسرے بچوں کو بھی لے کے آ جائے گا یا اس کے علاوہ اگر کوئی مجبوری ہے تو کہیں اگر خدام الاحمدیہ کر سکے تو وہ انتظام بھی کر سکتی ہے۔ عام طور پر کوشش یہ ہونی چاہیے کہ لجنہ اور بچوں کایا خدام اور بچوں کا اکٹھافنکشن ہو جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔آسانی، سہولت ہے۔ اب مہنگائی بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ٹرانسپورٹ پر خرچ بھی ہوتا ہے۔لوگوں کے پاس بعض دفعہ کاریں نہیں ہوتیں یا بعض کے پاس ایک کار ہے تو باپ یا ماں اس کو کہیں اور لے کے چلی گئی ہے تو ان کے بھی جائز عذر ہوتے ہیں۔ اگر جائز عذر ہیں تو مانیں، نہیں تو اگر خدام ہیں تو خدام الاحمدیہ کے ذریعہ سے ان کی تربیت کریں تا کہ وہ تعاون کریں۔اگر لجنہ ہے تو لجنہ کے ساتھ کوآرڈی نیٹ کر کے تربیت کریں۔یہ تو سارا ایک نظام ہے۔آپس میں تعاون کرے گا تو ہر ایک نظام چلے گا، independentlyتو کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ نہ لجنہ چل سکتی ہے، نہ خدام، نہ انصار اور نہ اطفال۔
یہ مسئلہ تو ہر جگہ رہتا ہے۔ خدام اور انصار کہتے ہیں کہ ہمارے اجلاس ایک وقت میں ہوتے ہیں اور لجنہ کے نہیں ہوتے، ہمیں آنا پڑتا ہے، ہمارے پٹرول کا خرچہ ہوتا ہے، ہم اتنا afford نہیں کر سکتے۔ لجنہ کہتی ہے کہ ہم آ جاتی ہیں تو ہمارے خاوند خدام الاحمدیہ کے اجتماع یا پروگراموں میں شامل نہیں ہوتے، وہ کہتے ہیں ہم نہیں جا سکتے خرچ ہوتا ہے۔ تو یہ شکایتیں تو ہر جگہ سے ہیں اور ہر طبقے میں ہوں گی، صرف اطفال میں نہیں ہیں۔لیکن اس کا ایک حل جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ بھی ہے کہ اگر علیحدہ علیحدہ اجلاس ہو رہے ہیں تو ایک ایک جو ہے وہ دو دو، چار چار کو لے کے آ سکتا ہے۔
دوسرا اس کے بارے میں یہ بھی دیکھیں کہ اجلاس کتنے فاصلے پر ہو رہے ہیں۔مختلف وقتوں میں اجلاس مختلف جگہوں پرمنعقدہو سکتے ہیں، اگر ایک ہی سنٹر ہے تو اَور بات ہے۔ اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو سکتی ہے کہ مختلف سینٹر بن سکیں تو بعض علاقوں میں جا کے اجلاس کیے جا سکتے ہیں تا کہ کچھ نہ کچھ رابطہ رہے۔
بعدازاں حضورانور نے از راہِ شفقت وفد کے اضافی ممبران کو بھی طلب فرمایا جو اس ملاقات کا باقاعدہ حصہ تو نہیں تھےتاہم حضور انور نےان سے گفتگو فرمائی۔ملاقات کے اختتام پر خدام کو حضورانور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف ملا اورحضور کے دستِ مبارک سے قلم کا تحفہ وصول کرنے کی بھی سعادت ملی۔
آخر پر حضور انورنے تمام شاملین کوالسلام علیکم کا تحفہ عطا فرمایا اور اس طرح یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔