حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی غیر معمولی استقامت اور الله تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ (قسط دوم۔آخری)
(تسلسل کے لیے دیکھیے روزنامہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍جون۲۰۲۴ء)
کینیڈا سے واپسی کے بعد ملاقات
اس سال کے شروع میں مجھے مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا کے پیس ولیج میں منعقد ہونے والے جلسۂ خلافت میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔حضورانور نے از راہِ شفقت ان کی درخواست منظور فرماتے ہوئے مجھے جانے کا ارشاد فرمایا، بایں ہمہ یہ ہدایت بھی فرمائی کہ جتنا ممکن ہو سکے دَورہ کو مختصر رکھا جائے۔ میں نے سوچا کہ شاید دنیا بھر میں بدامنی کی وجہ سے حضور نے دَورہ مختصر رکھنا بہتر سمجھا ہو۔ وجہ کچھ بھی ہو، مجھے خوشی تھی کہ حضور انورسے دور رہنے کا وقت کم سے کم ہو جائے گا۔
میری روانگی کی پرواز مورخہ ۲؍فروری کی شام کو تھی اور میری واپسی کی پرواز مورخہ ۴؍ فروری کی شام کو تھی جو پیر۵؍فروری کو علی الصبح لندن پہنچنا طےتھی۔
روانگی سے ایک دن قبل میں نے دورانِ ملاقات حضورانور کی خدمت میں اطلاعاً عرض کیا کہ میں اگلے دن سفر پر روانہ ہونے والا ہوں نیز اس سلسلے میں حضور سے اجازت طلب فرمائی۔اس پر حضور انور نے دریافت فرمایا کہ میری واپسی کب تک ہو گی؟ جس پر میں نے عرض کیا کہ ان شاء اللہ میں پیر کی صبح تک واپس پہنچ جاؤں گا۔اس پر حضور انور نے انتہائی شفقت سے فرمایا: چلو، پھر ان شاءاللہ تم سے Mondayکو ملاقات ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دَورہ اچھا رہا، لیکن قیامِ کینیڈا کے دوران میں گھر واپسی کے لیے بے چین رہا اور دعا کرتا رہا کہ میری واپسی کی پرواز میں تاخیر نہ ہو۔
الحمدللہ! میری بر وقت یو کے واپسی ہوئی اور جب میں اسلام آباد پہنچا تو دوپہر ہو چکی تھی۔ میں ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ مجھے دفترپرائیویٹ سیکرٹری سے پیغام موصول ہوا کہ حضورِانور میری واپسی کی بابت استفسار فرما رہے ہیں، مزید برآں مبارک ظفر صاحب (ایڈیشنل وکیل المال) نے بھی یہ بتایا کہ ان کی صبح کی ملاقات کے دوران بھی حضور نے دریافت فرمایا تھا کہ کیا میری واپسی ہو گئی ہے؟ اس عاجز انسان کے بارے میں حضورِ انور کے فکر رکھنے اور شفقت فرمانے کے احساس نے خاکسار میں شکر کے جذبات پیدا کیے اور میں اس روز شام کو حضور سے ملاقات کاموقع میسر آنےکا بڑی بےصبری سے انتظار کرنے لگا۔
بعد میں جب مجھے حضورِ انور سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا تو حضور نے میرے سفر کے بارے میں دریافت فرمایا۔ حضور کے علم میں تھا کہ کینیڈا پہنچنے کے بعدمیرا کمپیوٹر بیگ جہاز میں ہی رہ گیا تھا، جس میں ایک آئی پیڈ بھی تھا۔شکر ہے کہ ایک فلائٹ اٹینڈنٹ(attendant) نے اسے ڈھونڈ لیا اور بعد میں اسی شام مجھے واپس بھی کر دیا گیا۔
حضورِ انورمسکرائے اور فرمایا کہ تم میں اب بھی جلد بازی میں کام کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور اس لیے شاید تم جتنا جلدی ممکن ہو سکا جہاز سے نکل گئے اور اپنے بیگ وغیرہ کے بارے میں بھی بھول گئے۔
میں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ درحقیقت ایسا ہی ہوا تھا۔
اس کے بعد حضور انورنے اپنا قبل از خلافت کاایک واقعہ بیان فرمایا کہ جب وہ بھی جہاز میں ایک چھوٹا سا بیگ بھول گئے تھے جس میں حضور کے اہل خانہ کے پاسپورٹس تھے۔ اس موقع پر بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیگ مل گیا تھا اور حضور انور کو واپس کر دیا گیا تھا۔
میں نے حضورسے ان تقریبات کا بھی ذکر کیا جن میں میں نے کینیڈا میں شرکت کی توفیق پائی تھی اور یہ بھی کہ ایک نشست میں مَیں نے نشاندہی کی تھی کہ میزبانوں کی جانب سے مجھے جو پروٹوکول اور احترام دیا جا رہا ہے، وہ ضرورت سےزیادہ تھا۔یہ ایسی چیز تھی جس کے بارے میں بالکل بھی شرح صدرمحسوس نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی میں اسےمناسب سمجھتا تھا۔الحمد لله! حضور انور نے اس امر پر اظہار پسندیدگی فرمایا کہ میں نے اس نکتہ کو عوامی سطح پر اجاگر کیا۔
ملاقات اختتام پذیر ہوئی تو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اگلے دن مَیں ملاقات کے لیے رپورٹ نہ کروں کیونکہ آپ ایک دن کے لیے اینڈوسکوپی (endoscopy)کے لیے ہسپتال تشریف لے جا رہے ہیں۔
مجھے بہت فکر لاحق ہوئی اور دعا کی کہ حضور کو کوئی تکلیف محسوس نہ ہو اور جو بھی ٹیسٹ کیے جائیں ان کے نتیجے میں مناسب علاج تجویز ہو۔
اینڈو سکوپی کے بعدملاقات
اینڈو اسکوپی کے اگلے دن مَیں نے ملاقات کے لیے رپورٹ کرتے ہوئےسب سے پہلے حضور انور کی خیریت دریافت کی نیز پوچھا کہ اینڈوسکوپی کا عمل کیسا رہا؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ الحمدللہ! مجھے کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ میں نے بے ہوشی کی دوا لینے کی بجائے اس جگہ کو بے حس کرنے کے لیے کچھ اسپرے لیے جہاں اینڈوسکوپی کروانا مقصود تھی۔ اس کے بعد اینڈوسکوپی کا عمل سر انجام دینے والی ڈاکٹر نے کہا کہ اس نے کبھی کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھاجو اس عمل کے دوران حالتِ بیداری میں ایک مرتبہ بھی نہ توبے چین ہوا اَور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف کا کوئی معمولی سا بھی مظاہرہ کیاہو۔
حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جواب میں ڈاکٹر سے کہا کہ یہ آپ کی پیشہ ورانہ مہارت کا ہی نتیجہ ہے کہ جس کی بدولت مجھے کوئی درد محسوس نہیں ہوا! اس پر وہ بہت خوش ہوئی۔ جب میں اسلام آباد واپس آیا تو میں نے عشاء کی نماز تونہیں پڑھائی کیونکہ میرے گلے میں تھوڑاسا درد تھا لیکن معمول کے مطابق شام کو دفترآیا۔اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ بہرحال تمہاری کی دعاؤں نے بھی یقیناً بہت مدد کی ہے۔اب انتظار کریں ،دیکھتے ہیں کہ کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
حضور کے طبی پروسیجر کے بارے میں پتا چلنا
چند ہفتوں کے بعدمجھے معلوم ہوا کہ نیشنل وقف نَو یوکے اجتماعات جو اپریل کے آخر میں منعقد ہونا تھے حضور انور کی ہدایت پر ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ میں نےسوچاکہ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید اس کا تعلق حضور کی صحت سے ہو اور حضور کوئی علاج کروارہے ہوں۔چنانچہ ماہِ اپریل ۲۰۲۴ءکے آغاز میں ایک دن مَیں نےحضور انورسے ذکر کیا کہ اجتماعات ملتوی ہو گئے ہیں؟ حضور نے اس کی تصدیق فرمائی کہ ایسا اس لیے ہواہے کہ اس وقت آپ کا کچھ علاج ہونا مقصودہے۔
کچھ دنوں بعد دورانِ ملاقات میں نے حضور انور سے آپ کے آئندہ ہونے والے طبی پروسیجر کی تفصیل دریافت کی۔ مجھے معلوم تھا کہ شاید حضور اس کی تفصیلات نہ بتانا چاہتےہوں تاہم ازراہِ شفقت حضور انور نےفرمایا کہ ان کے دل کا والو(valve) تبدیل کیا جائےگا۔
اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہوئی تو مجھے ایک رات ہسپتال میں رہنا پڑے گا۔
یہ سن کر مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں ایک کپکپی سی محسوس ہوئی اور کچھ خلافِ توقع وقوع پذیر ہونے کے خیال سے میں کانپنے لگا۔ تاہم حضور کے چہرے پر تقدیرِ الٰہی کے ماتحت جو آپ کے لیے مقدر کیا گیا تھا اس پر مکمل سکون اور کامل توکّل دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔
اس کے بعد حضور انورنے فرمایا کہ میں اپنی روزانہ کی رپورٹ دینا شروع کر دوں۔چنانچہ اس کے بعدمعمول کی دفتری ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا اور حضور نے حسب ِمعمول معاملات سماعت فرما کر ہدایات سےنوازا۔تاہم میں نے اپنی توجہ کو بٹا ہوا محسوس کیا اور جب میں حضورسے بات کر رہا تھا تو اسی اثنا میں آپ کی حالتِ صحت اور متوقع علاج کے بارے میں بھی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ جیسے ہی ملاقات اختتام کے قریب پہنچی اور میں دروازے کی طرف بڑھا تو حضور انور نے مجھے لمحے بھر کے لیے واپس بلایا اور ہدایت فرمائی کہ اپنے علاج کے بارے میں جو کچھ بھی میں نے تمہیں بتایا ہے اسے اپنے تک ہی رکھنا۔
حضور کی بے پناہ شفقت
مورخہ۲۷؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو اسلام آباد میں میری ایک بھانجی کی شادی ہونی تھی۔ ہمارے گھر والوں کی یہ شدید خواہش تھی کہ حضور اپنی شرکت سے اس شادی کو برکت بخشیں۔بایں ہمہ جہاں میں اپنی بھانجی اور اپنے گھر والوں کی خوشی کے لیے حضور کی شرکت کا متمنی تھا، وہیں میں دل کے پروسیجر کے اتنے قریب حضور کے لیےکسی قسم کی تکلیف یا بوجھ کا باعث بھی نہیں بننا چاہتا تھا۔
اس کے باوجود بھی حضور کی بے پناہ شفقت اور غیر معمولی احسان کی بدولت شادی کی صبح پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے تصدیق کی کہ حضور انور ان شاء اللہ شرکت فرمائیں گے۔
اس دن جب میری حضور سے ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ حضور! ہمارا پورا خاندان خوشی اور شکرگزاری کے جذبات سے لبریز ہے کہ آپ شادی میں تشریف لا کر رونق بخش رہے ہیں۔تاہم میرے خاندان کے باقی افراد کو اس بات کا علم نہیں کہ حضور کا دو دن میں ایک طبی پروسیجر بھی ہونا ہے۔ اس لیے میں اپنے دل میں جس قدر تشکر محسوس کر رہا ہوں اس کا اظہار خارج از بیان ہے۔ جزاک اللہ حضور!
اس پر حضور انور مسکرائے اور جواب میں کچھ نہ کہا، البتہ مجھے اپنی معمول کی رپورٹ جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی۔
حضور کے ساتھ گزرےقیمتی لمحات
اگلے دن مورخہ ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو حضورِ انور کے پروسیجر سے ایک دن قبل حضور مکمل پُر سکون لگ رہے تھے اور بوقتِ صبح ناروے سے تشریف لائے ہوئے خدام کے ایک وفد سے انتہائی محبت و شفقت سے ملاقات بھی فرمائی۔
شام کو جب خاکسار ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو اس دوران حضور نے میری بھانجی کی شادی کے بارے میں بھی دریافت فرمایا۔
شادی میں میرے بڑے بھائی فرید کو حضور انور کے بائیں جانب بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ بعد میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ رات کے کھانے کے دوران حضورنے ضیافت ٹیم کے کھانا پکانے کے معیار کی تعریف فرمائی تھی۔ میں نے اس کا ذکر حضور انور سے کیا تو جواب میں فرمایا کہ ہاں ! تمہارے بھائی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ضیافت ٹیم میں باورچیوں کو کس نے تربیت دی ہے؟ مَیں نے اسے بتایا تھاکہ انہیں میں نے ذاتی طور پر تربیت دی ہے۔ مثال کے طورپر شروع میں گرم مصالحوں کا استعما ل ان کا عام معمول تھا جو کہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔اس لیے میں نے انہیں ہدایت کی تھی کہ یہ تازہ مصالحے استعمال کیا کریں اور دکانوں سے پراسیس شدہ مصالحے خریدنے کی بجائے گھر میں پیس لیا کریں۔
اگرچہ حضور کا مزاج اُس روز بہت خوشگوار تھا، لیکن میں طبی پروسیجر کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔چنانچہ ایک موقع پر اچانک میں نے حضور انور سے دریافت کیا کہ مَیں کل آپ کی کیاخدمت کر سکتا ہوں ؟
اس پر حضور انور مسکرائے۔مجھے لگتا ہے کہ حضور نے میرے جذبات کی قدر کی مگر ساتھ ہی مجھے پریکٹیکل ہونے اور اپنی حدود کو سمجھنے کی ضرورت کی بھی یاددہانی فرمائی کہ تم دعا کرتے رہنا، یہ تمہاری خدمت ہو گی اَور کیا کر سکتے ہو، تم ڈاکٹر تو نہیں ہو؟
اس کے بعد چند بہت ہی قیمتی لمحات میں، جو خاکسار کے لیے عمر بھر کا سرمایہ ہیں، حضور نے بہت ہی پیار سے اس خاکسار کو نصیب اس لازوال نعمت کا ذکر فرمایاجو مجھے کئی سالوں سےآپ کی صحبتِ صالحہ سے استفادہ کی صورت میں عطا ہوئی۔
فرمایاکہ عابد تم نے میرے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہے بہ نسبت اس کے کہ جتنا وقت تم نےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ الله کے ساتھ گزارا، اَور اس سے بھی زیادہ وقت جو تم نے اپنے والدین کے ساتھ گزارا ہے۔اس لیے اگرچہ تمہارے والد نےتمہاری اچھی تربیت کی، لیکن میں ہی ہوں، جو تمہاری ٹریننگ اور تربیت دوسروں سے زیادہ بڑھ کر کر سکا ہوں۔
حضور کے دل کے پروسیجر کے بارے میں سوچ سوچ کرمیں پہلے ہی جذباتی تھا لیکن جیسے ہی حضور نے یہ الفاظ فرمائے تو میں نے خود پر قابو پانے کی بہت جدوجہد کی، کہنے کو تو بہت کچھ تھا اور پھر بھی میں جانتا تھا کہ جو بھی عرض کروں گا وہ حضور کی شفقتوں اور محبتوں کے سامنے ناکافی ہو گا۔
میں اس کے جواب میں بس یہ عرض کر سکا کہ حضور! میں تو بہت کمزور ہوں اور بار بار بہت سی غلطیاں کرتا ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ حضور کی تربیت سے ہی میری شخصیت میں کچھ مثبت تبدیلیاں آئی ہیں جو مجھے محسوس ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب میں نوجوان تھا تو جو کچھ بھی دیکھتا اور سنتا وہ بلا تامل دوسروں کے ساتھ شیئر کر دیا کرتا تھا۔ تاہم میں نے حضور سے سیکھا کہ امانت کی حفاظت اور رازداری کو برقرار رکھنا کتنی اہمیت کا حامل اور ضروری امرہے۔
حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں! کچھ لوگ دوسروں کو باتیں بتاتے ہیں کیونکہ انہیں گمان ہوتا ہے کہ یہ طرزِ عمل انہیں مقبول بنائے گا، شہرت دے گا یا ان کی اہمیت کوواضح کرے گا۔ مگر یہ بالکل بھی صحیح طریقۂ کار نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی حضور نے اپنی میزسے چاکلیٹ کا ایک ڈبہ نکالا اور مجھے اور میرے گھر والوں کو تحفے میں عنایت فرمایا اور مجھے رخصت ہونے کا ارشاد فرمایا۔
جب میں جا رہا تھا تو میں نے حضور کے متوقع علاج کے بارے میں لاحق اپنی فکر پر قابو پایا اور سوچا کہ میں کب دوبارہ حضور سے مل سکوں گا؟چنانچہ میں نے حضور سے پوچھا کہ میں پھرآپ سے کب ملوں گا؟
اس پر حضور نے فرمایا کہ کل (بروز پیر) پروسیجر ہے۔ لہٰذا تم بدھ کو ملاقات کے بارے میں پتا کر سکتے ہو۔
مجھے حیرت ہوئی کہ حضور اس پروسیجر کے صرف دو دن بعد ہی دفتر آنے کا ارادہ فرما رہے تھے اور احمدیت کی خدمت کے لیے آپ میں موجود وقف کی روح پر میں ایک بار پھر ششدر رہ گیا۔ میں نے یہ گمان کیا تھا کہ حضور کو کم از کم ایک ہفتہ آرام کی ضرورت ہو گی۔ مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ حضور انور نے تو دو دن بھی آرام کرنا پسند نہ فرمایا۔
الحمدللہ! میں بخیریت ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ مستقبل میں سب ٹھیک رہے
دل کے پروسیجر کے دن مورخہ ۲۹؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو میں نے دیکھا کہ حضور انور نے معمول کے مطابق فجر کی نماز پڑھائی اور پھر دوپہر کے وقت پروسیجر کے لیے لندن تشریف لے گئے۔
دن بھر مَیں حضور کی صحت کے لیے مسلسل دعائیں کرتا رہا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ پروسیجر کب ہونا تھا یا یہ کہ کب تک جاری رہنا تھا۔چنانچہ میں شام تک کئی گھنٹے منتظر رہا یہاں تک کہ میں نے حضور کےبیٹے صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کو فون کر کے حضور کی خیریت دریافت کی۔میری تسلی کے لیے انہوں نے بتایا کہ پروسیجر مکمل ہو چکا ہے اور حضور ٹھیک ہیں۔الحمدللہ!
میں نے کچھ دیر بعد حضور انور کو میسج بھیجا اور آپ کی خیریت دریافت کی۔ مجھے کسی جواب کی امید تونہیں تھی لیکن خلافِ توقع حضور نے نہایت ہی شفقت سے جواب عطا فرمایا کہ الحمدللہ! میں بخیریت ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ مستقبل میں سب ٹھیک رہے۔
اگلے دن مَیں حضور کی اسلام آباد واپسی کا بڑی بےصبری سے منتظر تھا اور امید تھی کہ جلد ہی حضور سے ملاقات کا موقع میسر آئے گا۔
حضور کی واپسی کے بعد ملاقات
بفضلہ تعالیٰ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۲۰۲۴ء بروز منگل دوپہر بارہ بج کر پینتالیس منٹ کے قریب حضور انور بخیر و عافیت اسلام آباد واپس تشریف لائے۔
چند منٹ بعد ہی مجھے حضورِانور کی طرف سے ہدایت ملی کہ میں شام کو ملاقات کے لیے حاضر ہو جاؤں۔
جہاں مجھے اس بات پر بے حد خوشی محسوس ہوئی کہ حضور کی طبیعت بہتری کی جانب مائل ہے کیونکہ آپ اسی دن دفتر واپس تشریف لانے کا ارادہ فرما رہے ہیں، وہیں میری دلی خواہش یہ بھی تھی کہ آپ کم از کم ایک مکمل دن آرام فرما لیں۔ اس تمام عرصے میں پروسیجر کا دن وہ واحددن تھا جب حضور دفتر تشریف نہیں لائے تھے۔
عصر کی نماز کے بعد میں نے ملاقات کے لیے رپورٹ کی تو حضورکو اپنی کرسی پر تشریف فرما دیکھ کر مجھے انتہائی سکون اور بے حد خوشی محسوس ہوئی۔حضور کے دل کے پروسیجرسے گزرنے کی واحد علامت شاید یہ تھی کہ آپ کا چہرہ تھوڑا سا سرخی مائل تھا اور اس پر معمولی سی سوجن موجود تھی۔ میرے مشاہدے کے مطابق مجھے حضور پہلے سے بہتر اور خوبصورت لگ رہے تھے۔ یقیناً اس بات کا کوئی شائبہ تک بھی نہیں تھا کہ حضور کس کیفیت سے گزرے ہیں۔ میں حیران رہ گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اتنی ہمت اور طاقت خلیفۂ وقت کو محض اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہے۔
میں نے حضور سےدریافت کیا کہ حضور کیسے ہیں؟ تو حضور نے ایک اردو جملہ ارشاد فرمایا جس کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ مجھے بے تاثر دیکھ کر حضور نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے اعمال اور اخلاق اچھے ہیں تو وہ اچھے ہیں۔
میں نےعرض کیا کہ اس تعریف کے اعتبار سے تو یقیناً حضور ہم سب سے بہتر بلکہ بہت ہی بہتر ہیں!
میں نے حضور انور سے کی خدمت میں عرض کیا کہ پروسیجر کیسا رہا؟تو جواب میں حضور انورنے فرمایا کہ الحمدللہ! والو(valve) جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی وہ مرحلہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گیا۔ اس سارے عمل کے دوران میں نیم ہوش میں تھا اور مسلسل دعا کر رہا تھا۔سرجن اچھا تھا، لیکن بہرحال یہ سب اللہ تعالیٰ کےفضل و کرم کی بدولت ہی ممکن ہوا۔
حضور انورنے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ فطری طور پر ایک بار جب پروسیجر ختم ہوا تو کچھ تکلیف ہوئی اور میں نے اپنے دل میں ایک حد تک بوجھ محسوس کیا۔ تاہم بھائی (صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مغفور احمد صاحب) نے بتایا کہ یہ معمول کی بات تھی کیونکہ اچانک دل سے خون کا بہاؤ بہت بڑھ جاتا ہے اور اسے سنبھلنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ حضور! اس پروسیجرسے قبل آپ نے ہدایت فرمائی تھی کہ میں بدھ کو ملاقات کے لیے رپورٹ کروں اور میں نے سوچا کہ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ آپ کو زیادہ دیر آرام کرنے کا موقع مل سکے گا۔ پھر بھی چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ہی آپ واپس اپنے دفترتشریف لے آئے ہیں۔
حضور مسکرائے اور فرمایا کہ پرائیویٹ سیکرٹری نے تمہارے آنے سے پہلے مجھے دیکھ کر پوچھا کہ کیا میں آرام نہیں کروں گا؟ تاہم میرے لیے آرام کرنا میرے ڈیسک کے سامنے اپنی دفتری کرسی پر بیٹھنا ہے۔اس طرح میں خود کو آرام میں محسوس کرتا ہوں۔
مجھے کوئی بھی دفتری کام یا کوئی خبر حضور انور کی خدمت میں پیش کرنے میں شرمندگی محسوس ہوئی لیکن حضور نے مجھ سے پوچھا کہ غزہ سے آنے والی خبریں کیا ہیں نیز دیگر معاملات جو پچھلے دو دنوں میں سامنے آئے ہیںاُن کے بارے میں دریافت فرمایا۔
تقریباً بیس منٹ کے بعد حضور نے مجھے رخصت ہونے کی اجازت دی۔ میں باہر نکلا تو میں نے سنا کہ حضور نے منیر جاوید صاحب (پرائیویٹ سیکرٹری) کو فرمایا کہ اب میری ڈاک لے آئیں۔اور اس کے ساتھ ہی حضور انور کا کام دوبارہ شروع ہو گیا۔
جیسا کہ حضور انورنے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ ڈاکٹروں کے مشورے پر حضور نے چند دنوں تک نماز کی امامت نہیں کروائی لیکن اس کے علاوہ آپ کا تمام کام تقریباً معمول کے مطابق جاری رہا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے حالیہ دنوں میں محسوس کیا ہےکہ حضور انور کی صحت میں مسلسل بہتری آئی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماے محبوب اور پیارے آقا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ الله بنصرہ العزیز کو صحت و تندرستی والی لمبی اور فعّال زندگی عطا فرمائےاور دنیا بھر کے تمام احمدی ہمیشہ اپنے پیارے امام کے لیے سکینت اور خوشی کا باعث بنیں۔ آمین!
(ترجمہ: قمر احمد ظفر۔ جرمنی)