خداتعالیٰ بندے کے عمل کرنے کی نیت کا علم رکھتا ہے
خداتعالیٰ نے بار بار قرآن کریم میں فرمایا ہے، مَیں تمہارے نفسوں کو پاک کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کس کے دل میں حقیقی تقویٰ بھرا ہوا ہے اور کس حد تک کسی کا تزکیہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اسے وہ بھی پتہ ہے جو ہم ظاہر کرتے ہیں اور اس کے علم میں وہ بھی ہے جو ہم چھپاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو کبھی بھی اور کسی رنگ میں بھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ خداتعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے وہ بندے کے عمل کرنے کی نیت کا علم رکھتا ہے۔ بظاہر نیکیاں کرنے والے، عبادتیں کرنے والے، روزے رکھنے والے، حتیٰ کہ کئی کئی حج کرنے والے بھی ہیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی نیتوں میں فتور ہے تو اس فتور کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ تمام عبادتیں اور نیکیاں نہ صرف ردّ کر دی جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں جس کا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایاہے۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ جہاں انذار کے ذریعہ سے ہمیں ڈراتا ہے، توجہ دلاتا ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ وہاں اپنی وسیع تر رحمت کا حوالہ دے کر بخشش کی امید بھی دلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ڈرانا ہماری بھلائی اور ہمیں سیدھے راستے پر چلانے کے لئے ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو جیسا کہ مَیں نے کہا دلوں کا حال جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہماری استعدادوں اور صلاحیتوں کی وسعت کا بھی علم ہے۔ اس لئے اُس نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ اگر تم تقویٰ دل میں رکھو، نیتیں صاف رکھو اور اپنے عمل خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بجا لانے کی کوشش کرو تو جو جو کوتاہیاں اور لغزشیں ہوتی ہیں انہیں وہ اپنی وسیع تر مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لیتا ہے۔ جیسا کہ وہ اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے فرماتا ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ اچھے عمل والے وہ لوگ ہیں جو سوائے سرسری لغزش کے بڑے گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں۔ یقیناً تیرا رب وسیع بخشش والا ہے وہ تمہیں سب سے زیادہ جانتا تھا جب اس نے زمین سے تمہاری نشوونما کی اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں محض جنین تھے۔ پس اپنے آپ کو یونہی پاک نہ ٹھہرایا کرو، وہی ہے جو سب سے زیادہ جانتا ہے کہ متقی کون ہے؟
(خطبہ جمعہ ۲۲؍ مئی ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۲؍جون ۲۰۰۹ء)