اعمال نیت پر موقوف ہیں
خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدقِ دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں وہ ان پر ہدایت و معرفت کی راہیں کھول دیتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔ ہم میں ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بنا پر خدا جوئی اپنا مقصد رکھ کر۔ لیکن اگر کوئی استہزا اور ٹھٹھے کے طریق پر آزمائش کرتا ہے وہ بدنصیب محروم رہ جاتا ہے۔ پس اسی پاک اصول کی بنا پر اگر تم سچے دل سے کوشش کرو اور دعا کرتے رہو تو وہ غفور الرحیم ہے۔ لیکن اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی پروا نہیں کرتا وہ بے نیاز ہے۔
(ملفوظات جلد۶ صفحہ۱۵۴، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
بخاری کی پہلی حدیث یہ ہے اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ اعمال نیت ہی پر منحصر ہیں صحت نیت کے ساتھ کوئی جرم بھی جرم نہیں رہتا۔قانون کو دیکھو اس میں بھی نیت کو ضروری سمجھا ہے۔مثلاً ایک باپ اگر اپنے بچے کو تنبیہہ کرتا ہو کہ تو مدرسہ جا کر پڑھ اور اتفاق سے کسی ایسی جگہ چوٹ لگ جاوے کہ بچہ مرجاوے تو دیکھا جاوے گا کہ یہ قتلِ عمد مستلزم سزا نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اس کی نیت بچے کو قتل کرنے کی نہ تھی تو ہر ایک کام میں نیت پر بہت بڑا انحصار ہے اسلام میں یہ مسئلہ بہت سے امور کو حل کر دیتا ہے۔ پس اگر نیک نیتی کے ساتھ محض خدا کے لئے کوئی کام کیا جاوے اور دنیا داروں کی نظر میں وہ کچھ ہی ہو تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔
(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۸۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
ایک شخص نے عرض کیا کہ کیا جائز ہے کہ حضورؑ کی نظمیں فونوگراف میں بند کرکے لوگوں کو سنائی جائیں؟ فرمایا:اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ تبلیغ کی خاطر اس طرح سے نظم فونوگراف میں سنانا جائز ہے ۔کیونکہ اشعار سے بسا اوقات لوگوں کے دلوں کو نرمی اور رقّت حاصل ہوتی ہے۔
(ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۴۴۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)