قومی ترقی کے لیے نئی نسل کی تعلیم و تربیت انتہائی ضروری ہے
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو یہ دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ۔(سورۃ الفرقان:۷۵)
اے ہمارے رب! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔
ایک مومن کو یہ بات ذہن میں رکھ کر دعا کرنی چاہیے کہ اے ہمارے ربّ! جب ہم اپنی اولادوں کو اس دنیا میں چھوڑ کر تیرے حضور حاضر ہوں تو ہماری اولادیں تقویٰ پر قائم ہوں اور اپنے آباء کی نیکیوں پر عمل کرتے ہوئے ان کی نیکیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے والی ہوں۔آمین
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:’’قومی نیکیوں کے تسلسل کے قیام کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس قوم کے بچوں کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے رنگ میں ہو کہ وہ ان اَغراض اور مقاصد کو پورا کرنےکے اہل ثابت ہوں جن اَغراض اور مقاصد کو لے کر وہ قوم کھڑی ہوئی ہو‘‘۔(خطبہ جمعہ ۱۵ اپریل ۱۹۳۸ء، خطبات محمود جلد ۱۹ صفحہ۲۳۵)
کسی بھی قوم یا جماعت کی ترقی کا انحصار اس کی اگلی نسل پر ہوتا ہے اگر نئی نسل کی تربیت کا انتظام احسن رنگ میں ہو تو وہ نسل مستقبل میں اپنے پہلوں کے کام کو جاری رکھنے والی ہوگی۔ اور اس کے کاموں کو ترقیات کے راستہ پر گامزن کرنے والی ہوگی۔
ہمارے پیارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تربیت کے لیے بچپن کازمانہ بہترین قرار دیاہے۔ بچپن سے ہی نئی نسل کے دماغوں میں یہ نقوش قائم کردیے جائیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اورحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم اور اسلام احمدیت کی تعلیم اور نمونوں کو دنیا میں رائج کرنا ہے اور خلافت کی عظمت کو لوگوں کے دلوں میں قائم کرنا ہے تو وہ زندگی کے کسی حصے میں اپنے مقصد کو نہیں بھولیں گے۔غرض بچپن کی عمر میں سیکھی ہوئی باتیں اور اعمال آئندہ بھی پختہ طور پرزندگی کا حصہ رہتے ہیں۔
جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مَثَلُ الَّذِیْ یَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ فِیْ صِغْرِہٖ کَالنَّقْشِ عَلَی الْحَجَرِ۔ بچپن میں سیکھی ہوئی بات پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہے جو مٹ نہیں سکتی اور اس کا نقش دیر تک قائم رہتا ہے۔(مجمع الزوائد کتاب العلم باب حث الشباب علی طلب العلم )
اس حدیث کی مزید وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اقتباس سے ہوتی ہے۔ فرمایا:’’دینی علوم کی تحصیل کے لیے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے۔ …طفولیت کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے۔ انسانی عمر کے کسی دوسرے حصہ میں ایسا حافظہ کبھی بھی نہیں ہوتا۔مجھے خوب یاد ہے کہ طفولیت کی بعض باتیں تو اب تک یاد ہیں لیکن پندرہ برس پہلے کی اکثر باتیں یاد نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی عمر میں علم کے نقوش ایسے طور پر اپنی جگہ کرلیتے ہیں اور قویٰ کے نشوونما کی عمر ہونے کے باعث ایسے دلنشیں ہوجاتے ہیں کہ پھر ضائع نہیں ہوسکتے۔غرض یہ ایک طویل امر ہے۔ مختصر یہ کہ تعلیمی طریق میں اس امر کا لحاظ اور خاص توجہ چاہیے کہ دینی تعلیم ابتداسے ہی ہو اور میری ابتدا سے یہی خواہش رہی ہے اور اب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے۔…اگر مسلمان پورے طور پر اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہ کریں گے تو میری بات سُن رکھیں کہ ایک وقت ان کے ہاتھ سے بچے بھی جاتے رہیں گے۔‘‘ (ملفوظات، جلد ۱، صفحہ ۴۴-۴۵۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بچوں کی تعلیم و تربیت کی یہ خواہش اس رنگ میں پوری ہوئی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک تنظیم قائم فرمائی اور اس کا نام ’’اطفال الاحمدیہ ‘‘رکھا۔اور بچیوں کی تنظیم ’’ناصرات الاحمدیہ ‘‘کے نام سے قائم فرمائی۔
۲۶؍جولائی ۱۹۴۰ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس خدام الاحمدیہ کو یہ ارشاد فرمایا کہ’’ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں۔ اور اطفال الاحمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لیے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے۔‘‘(الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء)
اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کا ایک مقصد یہ ہے کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو۔اور بچپن سے ہی یہ بات بچوں کے ذہنوں میں پختہ ہوجائے کہ ہماری ہر ضرورت کو اللہ تعالیٰ نے پورا کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لاکھوں بچوں کی اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کے ذریعہ تعلیم و تربیت ہورہی ہے اور یہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کا ایک شاندار کارنامہ ہے جو جماعت احمدیہ پر ایک احسانِ عظیم ہے۔
حدیث ہے کہ بچہ سات برس کا ہوجائے تو اُس کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو، جب دس سال کا ہوجائے اور نماز سے بے رغبتی دکھائے تو ہلکی پھلکی سزا بھی دو۔(ابو داؤد باب متی یؤمرالغلام بالصلوٰۃ ) کیونکہ جو بچہ خدا سے جُڑ جائے گا وہ دنیا میں کبھی ناکام نہیں ہوگا۔
چنانچہ اطفال الاحمدیہ میں تین عادتوں کا ہونا ضروری ہے۔
’’اگر یہ تین عادتیں ان میں پیدا کردی جائیں تویقیناً جوانی میں ایسے بچے بہت کارآمد اور مفیدثابت ہوسکتے ہیں پس بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے،سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائےاورنمازوں کی باقاعدگی کی عادت پیدا کی جائے۔ نماز کے بغیر دین کوئی چیز نہیں اگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں اسلامی روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے اسی طرح سچ کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے۔ جس قوم میں سچ نہیں اس قوم میں اخلاق فاضلہ بھی نہیں۔ اور محنت کی عادت کے بغیر سیاست اور تمدن بھی نہیں۔ گویا یہ تین معیار ہیں، جن کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی….. اگر یہ تین عادتیں ان میں پیدا کر دی جائیں تو یقیناً جوانی میں ایسے بچے بہت کارآمد اور مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ پس بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے۔ سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے اور نمازوں کی باقاعدگی کی عادت پیدا کی جائے۔ نماز کے بغیر اسلام کوئی چیز نہیں۔ اگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ آئندہ نسلوں میں اسلامی روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے۔‘‘(مشعل راہ جلد چہارم صفحہ۶۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کواورخصوصًا اطفال کو پانچ بنیادی اَخلاق اپنانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:’’آج کی جماعت احمدیہ اگر ان پانچ اخلاق پر قائم ہو جائے اور مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے اور ان کی اولادوں کے متعلق بھی یہ یقین ہو جائے کہ یہ بھی آئندہ انہی اخلاق کی نگران اور محافظ بنی رہیں گی اور ان اخلاق کی روشنی دوسروں تک پھیلاتی رہیں گی اور پہنچاتی رہیں گی تو پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم امن کی حالت میں اپنی جان دے سکتے ہیں۔ سکون کے ساتھ اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرسکتے ہیں۔ اور یقین رکھ سکتے ہیں کہ جو عظیم الشان کام ہمارے سپرد کیے تھے ہم نے جہاں تک ہمیں توفیق ملی ان کو سر انجام دیا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍نومبر۱۹۸۹ء)
پانچ بنیادی اخلاق یہ ہیں
۱: سچائی۔۲: نرم اور پاک زبان کا استعمال۔۳: وسعتِ حوصلہ۔۴: دوسروں کی تکلیف کا احساس اور اسے دور کرنا۔۵: مضبوط عزم و ہمت
بچپن سے ہی بچے اپنے وعدہ اطفال پر عمل کرنا شروع کردیں تو وہ خلافت کے سچے سپاہی بن کر ابھریں گے۔ ہرملک ہر شہر ہر گھرانے میں اللہ تعالیٰ خلافت کو ایسے سپاہی عطا کرتا رہے گا جن کے ذریعے آئندہ زمانہ میں ترقی کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ تشہد کے بعد درج ذیل الفاظ میں وعدہ دہرایا جاتا ہے :’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ دینِ اسلام اور احمدیت،قوم اور وطن کی خدمت کے لیے ہر دم تیار رہوں گا، ہمیشہ سچ بولوں گا، کسی کو گالی نہیں دوں گا اور حضرت خلیفۃ المسیح کی تمام نصیحتوں پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔‘‘(لائحہ عمل مجلس اطفال الاحمدیہ)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک طفل کے سوال کے جواب میں فرمایا:تم پانچ نمازیں پڑھ رہے ہو، اللہ میاں سے دعا کر رہے ہو۔ اللہ میاں سے یہ دعا کر رہے ہوکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اچھا بچہ بنائے، اچھا طفل بنائے ،اچھا انسان بنائے۔پھر اگرتم پڑھائی میں اچھے ہو، اپنے سکول میں اچھی پڑھائی کر رہے ہو، ماں باپ کا کہنا ماننے والے ہو، دوسرے بچوں سے لڑائی نہیں کر رہے،ان سے اچھے اخلاق سے پیش آتے ہو، اچھی زبان استعمال کرتے ہو، اچھےmoralہیں تو تم اچھے بچے ہو،اچھے طفل ہو۔ یہی اچھے طفل کی خصوصیات ہیں۔(الفضل انٹرنیشنل، ۰۲؍ دسمبر ۲۰۲۲ء، صفحہ ۱۹)
اللہ تعالیٰ کرے کہ اطفال الاحمدیہ پیارے امام کے اس ارشاد کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں۔ آمین ثم آمین