ہر حالت میں خدا تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اپنی عبادات کے معیار بلند کرتے چلے جائیں (خلاصہ خطبہ عید الاضحیٰ)
٭…ہمیشہ یادرکھیں کہ جماعت کی ایک سَو پینتیس سال کی زندگی میں ان مخالفتوں نے جماعت کے قدم کو آگے ہی بڑھایا ہے اور اب بھی یہ قدم آگے ہی بڑھیں گے ان شاء اللہ
ہماری جان، مال وقت اور عزت کی جو قربانیاں ہیں وہ ہمیشہ پھل لاتی رہی ہیں اور ان شاء اللہ لاتی رہیں گی
٭…پاکستان میں مخالفانہ حالات کےتناظر میں ولولہ انگیز خطبہ عید الاضحی
٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتدا میں تقریباً تین ہزار احباب جماعت نے نماز عید ادا کی
(اسلام آباد، ٹلفورڈ،۱۷؍جون۲۰۲۴ء،نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج ۱۰؍ ذو الحجہ ۱۴۴۵ھ بروز سوموارعید الاضحی کا مبارک دن ہے۔ اس موقع پرتقریباً تین ہزار عشاق احمدیت نے اسلام آباد ٹلفورڈ کا رخ کیا جہاں امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مبارک میں نمازِعید پڑھائی اور پُرمعارف خطبہ عید الاضحی ارشاد فرمایا۔
انتظامیہ نے کچھ دن قبل ہی اس حوالے سے تیاریاں شروع کر دی تھیں تاکہ آنے والے مخلصین کے لیے ہر قسم کی سہولت بہم پہنچائی جا سکے۔ ڈیوٹی پر موجود خدام نے آنے والے مہمانوں کی گاڑیاں پارک کروانے میں مدد کی۔ پارکنگ کے لیےاسلام آباد کے میدان کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے مغربی جانب ملحقہ ایک میدان کو بھی استعمال کیا گیا۔ مسجد کے مین ہال میں جگہ حاصل کر نے کے لیے first come first servedکے اصول کے تحت انتظامیہ کی جانب سے تین صد سے زائد ٹکٹس جاری کی گئیں۔ اسی طرح انتظامیہ کی جانب سے نمازِ عید کے طریق نیز تکبیرات کا ورد کرنے کے حوالے سے احباب جماعت کو یاددہانی کروائی جاتی رہی۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ دس بج کر۳۱ منٹ پر مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نمازِعید کی امامت کروائی۔ سنت نبویﷺ کی پیروی میں حضورِ انور نے پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ جبکہ دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرمائی۔ اسی طرح نماز عید کے اختتام پر تین مرتبہ بلند آواز میں تکبیرات کا ورد کیا۔
دس بج کر ۴۴ منٹ پر حضورِانور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ایم ٹی اے کے توسط سے دنیا بھر کے تمام احمدیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور خطبہ عید ارشاد فرمایا۔
خلاصہ خطبہ عید الاضحی
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے اکثر حصّوں میں عید الاضحی منائی جارہی ہے۔ اس عید کے موقعے پر سنّتِ ابراہیمی کی پیروی میں بےشمار جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ حج پر جاتے ہیں وہ مکّے میں حج کے موقعے پر لاکھوں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ قربانی ایک ایسا فعل ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی کامل وفا اور اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی اور اپنے بیٹے کی جان قربان کرنے کےلیے تیار ہونے کی یاد میں کیا جاتا ہے۔ جب باپ بیٹا حقیقت میں، ایک خواب کی بِنا پر گردن پر چھری پھیرنے اور پھروانے پر تیار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے اپنی وفا اور قربانی کا عہد پورا کرکے دکھا دیا۔ اب اس کی یادمیں تم ایک مینڈھا لے کر اسےذبح کردو تاکہ مذہب کی تاریخ میں تاقیامت اس قربانی کی یاد تازہ رہے۔ اسی لیے مسلمان حج کے موقعے پر لاکھوں جانوروں کی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ یہ قربانیاں تب حقیقی قربانیاں سمجھی جاتی ہیں جب اس کے پیچھے باپ بیٹے کی وفا کی روح کارفرما ہو، اگر یہ نہیں تو ظاہری قربانی کوئی چیز نہیں۔ اگر آج ہم جائزہ لیں تو ان قربانیوں میں جو لاکھوں لوگ کرتے ہیں ہمیں وفا، نیکی اور تقویٰ کی کمی نظر آتی ہے۔ اکثر جگہوں پر قربانی کی روح دکھاوے کی چادر کے پیچھے چُھپ جاتی ہے۔ یہ دنیا دار طبقے کا حال ہے کہ قربانی کی روح سے ان کا دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور جہاں تک نام نہاد علماء کا تعلق ہے انہوں نے تو مذہب کے نام پر لوگوں کے ذہنوں کو زہر آلود کردیا ہے۔
پاکستان میں تو ان نام نہاد علماء کا مذہب پر اجارہ داری کا تصور اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اس کے لیے یہ ظلم کی کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ مولویوں کے نزدیک احمدیوں کا عید کی نماز پڑھنا اور جانوروں کی قربانی کرنا ایک خطرناک جرم ہے۔ پھر صرف باتیں نہیں بلکہ اس شدت پسندی کا پرچار اس حد تک ہے کہ عامة المسلمین سے کہا جاتا ہے کہ ایسے احمدی جو نماز پڑھیں اور قربانی کریں تم ان سے کوئی بھی سلوک کرو تو وہ جائز ہے اور تمہیں جنّت میں لے جانے والا ہے، چاہو تو انہیں قتل کردو۔ یہی وجہ ہے کہ احمدیوں کو وقتاً فوقتاً شہید بھی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض جگہ ان نام نہاد مولویوں کے زیرِ اثر انتظامیہ نے احمدیوں کو نماز پڑھنے اور قربانی کرنے کے ’جرم‘ میں جیلوں میں بھی ڈال دیا ہے۔ پس
یہ لوگ پورا زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح بھی ہو احمدیوں کو قربانی اور عبادت سے روکا جائے۔ مگر! یہ لوگ نہیں جانتے کہ قربانی قبول کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے۔
بعض جگہوں پر احمدی اپنے جذبات کی قربانی کرتے ہوئے ان قربانیوں سے رُک بھی گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کی دلوں پرنظر ہے وہ جانتا ہے کہ احمدی اس وجہ سے کس تکلیف اور کرب میں مبتلا ہیں وہ ضرور احمدیوں کے اس قربانی کے جذبے کو قبول فرمائے گا۔ پس! ایسے لوگ پہلے سے بڑھ کر اپنے جذبات اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں تاکہ خداتعالیٰ جلد اپنے رحم اور فضل کی نظر ہم پر ڈالے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً مظلوموں کی آہوں کو سنتا ہے وہ یقیناً آپ کی قربانی کی نیّت کو قربانی کا درجہ دے کر اسے قبول کرے گا۔ پس! احمدیوں کو ان سختی کے دنوں کو بھی تقویٰ سے زندگی بسر کرتے ہوئے دعاؤں میں ڈھالنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ بڑا واضح فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تک قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، یہ تقویٰ ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ پس آج احمدی ہیں جو قربانی کی اس روح کو سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے احکامات سے ان مولویوں کا دور کا بھی تعلق نہیں، یہ تو احمدیوں کو تنگ کرنے، حتیٰ کے انہیں قتل کرنے کو بھی اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے مگر یہ کہتے ہیں کہ احمدی دل سے کلمہ نہیں پڑھتے۔ کیا انہوں نے احمدیوں کا دل چِیر کے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ کلمہ پڑھنے والے اور خود کو مومن کہنے والے کو قتل کرنے والا اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا اور جہنم میں جائے گا۔ تو کیا یہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ سکیں گے۔ کاش ! کہ یہ عقل کریں۔
یہ ایک قربانیوں کا دور ہے جو ان شاء اللہ گزر جائے گا۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم ان حالات میں اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکیں، اپنی آہ و فغاں میں اتنے بڑھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جلد سے جلد مظلوموں کی مدد کو آئے اور ظالموں کو پکڑے۔
اللہ تعالیٰ سے مانگیں کہ ہم تو تیرے حکم پر سنّتِ ابراہیمی پر عمل کرنے والے اور محمد رسول اللہﷺ کی کامل پیروی کرتے ہوئے ہر طرح کی قربانی کرنے والے ہیں۔ پس چاہے ہمارے بکرے، گائیاں ذبح ہوں یا نہ ہوں ہم تو ہونے کے لیے تیار ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں اور نیتوں کو قبول کرتے ہوئے یقیناً ہماری قربانیاں قبول فرمائے گا۔ ہاں! شرط تقویٰ ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کےحقوق اور اس کے بندوں کےحقوق ادا کر رہے ہیں تو دنیا میں انقلاب لانے والے ہم ہی ہوں گے۔
ہم ہی وہ جماعت ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضرتﷺ کی پیش گوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آکر دنیا میں انقلاب لانے والے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا مقصد دنیا میں انقلاب لانا تھا، وہ انقلاب جس نے دنیا کی کایا پلٹنی تھی، جو انقلاب آنحضرتﷺ کے ذریعے سے آنا تھا۔
حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں: دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے گوشت اور خون سچی قربانی نہیں۔ جس جگہ عام لوگ جانور کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔
فرمایا خدا تعالیٰ نے شریعتِ اسلام میں بہت سے ضروری کاموں کے لیے نمونے قائم کیے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اس حالت کے لیے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے۔
پس یہ روح ہے جو ہم نے اپنے اندر، اپنی اولاد کے اندر، اپنے گھروالوں کے اندر اور اپنی نسل کے اندر پیدا کرنی ہے۔ جب بحیثیت جماعت ہم سب میں یہ روح پیدا ہوگی تو وہ حقیقی انقلاب آئے کا جس کے پیداکرنے کے لیے اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑکو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔
تقویٰ کے معیار حاصل کرنے کے لیے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑفرماتے ہیں ’’ہماری جماعت کے لیے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسےشخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے… فرمایا: یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے وہ بڑی طاقت والا ہے۔ جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کرو گے تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ ‘‘
فرمایا چاہیے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔
ہمیشہ یادرکھیں کہ جماعت کی ایک سَو پینتیس سال کی زندگی میں ان مخالفتوں نے جماعت کے قدم کو آگے ہی بڑھایا ہے اور اب بھی یہ قدم آگے ہی بڑھیں گے ان شاء اللہ۔ ہماری جان، مال وقت اور عزت کی جو قربانیاں ہیں وہ ہمیشہ پھل لاتی رہی ہیں اور ان شاء اللہ لاتی رہیں گی۔
اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے احمدیوں کے لیے یہ عید ہرطرح مبارک فرمائے اور قربانیوں کے نتیجے میں جلد ایک انقلاب پیدا ہوتا ہوا ہم دیکھیں۔ پاکستان کے احمدیوں کو بھی عید مبارک ہو۔ گذشتہ کئی دنوں سے ان کی طرف بھی توجہ رہی ہے، وہاں کافی حالات خراب رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ اُن کی قربانیاں جلد رنگ لائیں۔
آج عید والے دن بھی، رات کو کوٹلی میں ایک جگہ بلوائیوں نے حملہ کیا اور مسجد میں توڑ پھوڑ کی۔ بعض جگہ عید کی نماز پڑھنے بھی نہیں دی گئی۔
ہمارا سارا انحصار تو اللہ تعالیٰ پر ہے، اسی کے سامنے ہم نے جھکنا ہے۔ اللہ کرے کہ احمدیوں کے درد جلد خوشیوں میں بدل جائیں۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی درد اور قربانی کے دور سے گزر رہے ہیں جلد ان کے لیے آسانی کے سامان پیدا ہوں۔ ایک چیز یاد رکھیں کہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے، اپنی عبادات کے معیار بلند سے بلند کرتے چلے جائیں۔ شہداء کے خاندانوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اسیران کی رہائی، خاص کر یمن کے اسیران میں جو خاتون اسیر ہیں ان کی رہائی کے لیے تو خاص طور پر دعا کریں۔ کسی بھی رنگ میں قربانی کرنے والے احمدیوں کو اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے بےا نتہا نوازے۔ فلسطینیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔ دنیا میں عمومی طور پر بھی امن اور سلامتی قائم ہوجائے۔آمین
گیارہ بج کر ۱۳ منٹ پر حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضورِ انور نے فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ عید مبارک۔
بعد ازاں حضورِ انورایوان مسرور میں خواتین کے لیے مختص کی گئی جگہ پر تشریف لے گئے جہاں خواتین کو شرف زیارت نصیب ہوا۔ اس کے بعد حضورِانور Holy Ground واک پر چلتے ہوئے حلمی الشافعی روڈ پر تشریف لے گئے اور مزار مبارک حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے سامنے نصب کی گئی مارکی کے باہر موجود احباب و خواتین کو شرف زیارت بخشا۔ یہاں پردے کی رعایت سے مردوں اور خواتین کے لیے عید پڑھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ بعد ازاں حضور انور اپنی رہائش گاہ پر بخیرو عافیت تشریف لے گئے۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل کی جانب سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاور تمام احبابِ جماعت احمدیہ عالمگیر کوعید کی مبارکباد پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنے پیارے امام کے ارشادات کی روشنی میں حقیقی عید کرنے کی توفیق پائیں۔ آمین