غزوہ بنو نضیر کے حالات و واقعات کا بیان: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍جون ۲۰۲۴ء
٭… آپؐ وحي الٰہي کے مطابق جلدتشريف لے گئے۔صحابہ کرام ؓکو آپؐ نے اس ليے کچھ نہيں بتايا کہ وہ خطرے کي زد ميں نہيں تھے
٭… ايک يہودي کنانہ بن سويرا يا سوريہ نے کہا کہ تورات کي قسم! بلاشبہ ميں جانتا ہوں کہ محمدؐ کو خبر کر دي گئي ہے جو تم نے اس کے ساتھ دھوکے کا ارادہ کيا۔ اللہ کي قسم! بلا شبہ وہ اللہ کے رسولؐ ہيں
٭… مدينہ کو ايک بڑي خون ريزي سے بچانے اور مدينہ کے دفاع کے ليے ان باغيوں کا سدِّباب کرنا ضروري ہو چکا تھا
٭… حضرت عليؓ اُس شخص کا سَر کاٹ کر لے آئے جس کا نام ازبک تھا اور جس کا تِير رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے خيمے تک پہنچا تھا
٭… کندھے سے کندھا ملا کر باجماعت نماز پڑھنے کے متعلق حضورِانور کا ایک ارشاد
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍جون ۲۰۲۴ء بمطابق۲۱؍احسان ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۱؍جون۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گذشتہ خطبہ میں
یہودی قبیلہ بنو نضیر کی سازش کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ذکر ہو رہا تھا
اس کی تفصیل بیان کروں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کےمنصوبے کو ناکام کیا۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ وحی کے ذریعےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سازش کا علم ہوا اور اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ عمرو بن حجاش چھت کے اوپرپہنچ گیا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی سازش کی بذریعہ وحی خبر ہو گئی۔آپؐ جلدی سے اپنی جگہ سے اُٹھے اوراس طرح روانہ ہو گئے جیسے آپؐ کو کوئی کام ہے اور آپؐ تیزی سے واپس مدینہ تشریف لے گئے۔آپؐ کےصحابہ یہی سمجھے کہ ا ٓپؐ کسی حاجت کےلیے تشریف لے گئے ہیں لیکن جب دیر ہو گئی تو صحابہ ؓکوفکر ہوئی اور وہ آپؐ کی تلاش میں اُٹھے۔مدینے سے آتے ہوئے ایک شخص نے صحابہ ؓکو بتایا کہ میں نےآپؐ کو مدینے میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔صحابہؓ فوراً مدینہ آپؐ کے پاس پہنچے تب آپؐ نے صحابہ کو بتایا کہ بنو نضیر نے کیا سازش کی تھی۔
دوسری طرف یہود آپؐ کو قتل کرنے اور صحابہ ؓکو گرفتار کرنے سے متعلق مشورہ کر رہے تھے کہ مدینے سے آئے ہوئے ایک یہودی نے جب یہ سُنا تو اُس نے کہا کہ میں نے تو آپؐ کومدینہ میں داخل ہو تے دیکھا ہے جس پر یہودی حیران رہ گئے۔ایک اَور سیرت نگار نے اس بارے میں لکھا ہے کہ آپؐ وحی الٰہی کے مطابق جلدتشریف لے گئے۔صحابہ کرام ؓکو آپؐ نے اس لیے کچھ نہیں بتایا کہ وہ خطرے کی زد میں نہیں تھے۔ یہود کا اصل ہدف صرف آپؐ کی ذات تھی۔اس لیے آپؐ مطمئن تھے کہ میرے صحابہ نہ صرف محفوظ رہیں گے بلکہ وہ میری تلاش میں جلدی نکل آئیں گے۔
کہتے ہیں کہ اس وقت یہ آیت بھی نازل ہوئی کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَعَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۔یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو۔ جب ایک قوم نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ تمہاری طرف اپنے (شر کے) ہاتھ لمبے کریں گے مگر اس نے تم سے ان کے ہاتھوں کو روک لیا اور اللہ سے ڈرو اور چاہئے کہ اللہ ہی پر مومن توکّل کریں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ یہود نے بظاہر آپؐ کے تشریف لانے پر خوشی کا اظہار کیالیکن انہوں نے مشورہ کیا کہ یہ بہت ہی اچھا موقع ہے کہ آپؐ کا کام تمام کردیتے ہیں۔یہود میں سے ایک شخص سلام بن مشکم نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ غداری کا فعل ہے اور اس عہدکے خلاف ہے جو ہم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر چکے ہیں مگر اُن لوگوں نے نہ مانا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد یہود اپنےکیے پر بہت شرمندہ تھے۔
ایک یہودی کنانہ بن سویرا یا سوریہ نے کہا کہ تورات کی قسم! بلاشبہ میں جانتا ہوں کہ محمدؐ کو خبر کر دی گئی ہے جو تم نے اس کے ساتھ دھوکے کا ارادہ کیا۔ اللہ کی قسم!بلا شبہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں۔
اُنہیں بذریعہ وحی بتا دیا گیا ہے کہ تم دھوکا دہی سے کام لینا چاہتے تھے۔یقیناً وہ آخری نبی ہیں۔ تم چاہتے تھے کہ آخری پیغمبر ہارون کی نسل سے آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاں سے چاہا اُنہیں مبعوث فرمایا۔
بلا شبہ ہماری کتابیں جنہیں ہم تورات میں پڑھتے ہیں اُن میں لکھا ہوا ہے کہ اس نبی کی پیدائش مکہ میں ہوگی اور وہ یثرب یعنی مدینہ میں ہجرت کرے گا۔
اس کی جو صفات ہماری کتاب تورات میں بیان کی گئی ہیں صرف اور صرف ان پر صادق آتی ہیں۔میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں خون خرابے کے سوا کچھ نہیں ملےگا۔ تم اپنے اموال، جائیدادیں اور بچے روتے بلکتے چھوڑ جاؤ گے۔اگر تم میری دو باتیں مان لو تو اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ پہلی یہ کہ تم اسلام قبول کرکے محمدؐ کے ساتھی بن جاؤگےتو تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محفوظ رہے گی اور تم لوگ اُن کے اونچے مقام والے ساتھیوں میں سے بن جاؤگے۔دوسری بات یہ کہ انتظار کرو عنقریب وہ تمہیں حکم دے گا کہ تم میرے شہر سے نکل جاؤ۔ اس پر تم کہنا کہ ہاں۔ اس پر وہ تمہارے خون اور مال اپنے لیے حلال نہیں بنائے گا اور تمہارے مال اور جائیدادیں تمہارے لیے چھوڑ دے گا۔اس پر انہوں نےکہا کہ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔
مدینے پہنچ کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی جلا وطنی کا حکم فرمایا لیکن انہوں نے اس سے انکار کیااور مقابلے کی ٹھانی۔
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓلکھتے ہیں کہ آپؐ نے قبیلہ اوس کے ایک رئیس محمد بن مسلمہؓ کو بلا کر فرمایا کہ تم بنو نضیر کے پاس جاؤ اوراُن کے ساتھ اس معاملے کے متعلق بات چیت کرو اور اُن سے کہو کہ چونکہ وہ اپنی شرارتوں میں بہت بڑھ گئے ہیں اور اُن کی غداری انتہا کو پہنچ گئی ہے اس لیے اب اُن کا مدینہ میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ وہ مدینہ کو چھوڑ کر کہیں اَور جا کر آباد ہو جائیں۔آپؐ نے ان کے لیے دس دن کی میعاد مقرر فرمائی۔
محمد بن مسلمہؓ جب اُن کے پاس گئے تو وہ سامنے سے بڑے تمرّد سے پیش آئے اور کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہہ دو کہ ہم مدینہ سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تم نے جو کرنا ہو کر لو۔ جب اُن کا یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا تو آپؐ نے بے ساختہ فرمایا۔
اللہ اکبر!یہود تو جنگ کےلیے تیار بیٹھے ہیں۔
اس کے بعد آپؐ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا اور صحابہ ؓکی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو نضیر کے خلاف میدان میں نکل آئے۔اس دوران رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول نے ایک چال چلی۔اُس نے یہود کو پیغام بھیجا کہ اپنے گھروں سے نہ نکلو، اپنے اموال نہ چھوڑو،اپنے قلعوں میں ٹھہرے رہو۔میرے پاس اپنی قوم اور دیگر اہل عرب کے دو ہزارجوان موجود ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعوں میں داخل ہو جائیں گے ان کا آخری شخص مَر جائے گا لیکن مسلمانوں کو تم تک نہ پہنچنے دیں گے۔ بنو قریظہ بھی تمہاری مدد کریں گے اور اگر تم یہاں سے نکلنےپر مجبور ہو گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔ بنو قریظہ نےکھلم کھلا مدد سے انکار کردیاجس کی وجہ سے بنو نضیرکھلے میدان میں مسلمانوں کے خلاف نہیں نکلے اور قلعہ بند ہوکر بیٹھ گئے۔اس موقع پر سلام بن مشکم نے کہا کہ ہم بھی جانتے ہیں کہ ا ٓپؐ اللہ تعالیٰ کے سچے رسولؐ ہیں۔ اُن کے اوصاف ہمارے ہاں موجود ہیں۔ اگر ہم اُن کی اتباع نہ کریں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُن سے حسد کرتے ہیں کیونکہ نبوت بنو ہارون سے نکل چکی ہے۔آؤ ہم اُن کے عطا کر دہ امن کو قبول کر لیں اوراُن کے شہر سے نکل جائیں ورنہ بصورت دیگر ہم اپنی سرزمین سے جلا وطن ہو جائیں گے۔ ہمارے اموال اور شرف ختم ہو جائے گا۔ ہمارے بچے قیدی بن جائیں گے اور ہمارے جنگجو قتل کر دیے جائیں گےلیکن سلام بن مشکمکی ان باتوں کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔
ریاست کے ان سرکش باغیوں کی سرکوبی کے لیے جو سربراہ ریاست کو قتل کرنے کے منصوبے بنا چکے تھے کیونکہ اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سربراہِ ریاست تھے اور اب بجائے ندامت کے ہتھیار بند ہو کر اعلان جنگ کر چکے تھے
مدینہ کو ایک بڑی خون ریزی سے بچانے اور مدینہ کے دفاع کے لیے ان باغیوں کا سدِّباب کرنا ضروری ہو چکا تھا۔اس لیے مجبوراً آپؐ کو بھی ان کے خلاف میدان میں نکلنا پڑا۔
آپؐ نے اپنے پیچھے ابن مکتوم کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایااور مدینہ سے نکل کربنو نضیر کی بستی کا محاصرہ کرلیا۔آپؐ نے لشکر کا امیر حضرت علیؓ کو اور ایک قول ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو امیرمقرر فرمایا۔بہرحال مسلمانوں نے رات اس حالت میں گزاری کہ وہ یہود کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور بار بار تکبیر کے نعرے بلند کرتے رہے۔ یہاں تک کہ صبح کا اجالا ہونے لگا تو حضرت بلالؓ نے فجر کی اذان دی۔اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس صحابہؓ کے ساتھ واپس لشکر گاہ میں تشریف لے آئے جوآپؐ کے ساتھ تھے۔آپؐ نے فجر کی نماز پڑھائی۔یہود میں سے ایک شخص کا نام ازبک تھا۔یہ شخص بڑا ماہر تیر انداز تھا اور اس کا پھینکا ہوا تیر بہت دُور تک جاتا تھا۔ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا نشانہ لے کر تیر مارا۔وہ تیر خیمے پر لگا۔آپؐ نے خیمے کو وہاں سے ہٹا کر تیر اندازوں سے دُور نصب کرنے کا حکم دیا۔ پھر رات ہو گئی۔نہ عبداللہ بن ابی بنو نضیر کے پاس آیا اور نہ ہی اُس کا کوئی حلیف اُن کے پاس آیا۔ وہ اپنے گھرمیں بیٹھا رہا۔بنو نضیر اُس کی مدد سے مایوس ہو چکے تھے۔ سلام بن مشکم اور کنانہ بن سویراحی سے کہنے لگے کہ ابن ابی کی مدد کہاں گئی جو تُو گمان کرتا تھا۔اُس نے کہا اب میں کیا کروں؟یہ ہلاکت ہے جو ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ اسی دوران ایک رات عشاء کے قریب حضرت علیؓ لشکر میں سےغائب پائے گئے تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! علیؓ کہیں نظر نہیں آرہے۔آپؐ نے فرمایا اُن کی فکر نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے ہی ایک کام سے گئے ہیں۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ
حضرت علیؓ اُس شخص کا سَر کاٹ کر لے آئے جس کا نام ازبک تھا اور جس کا تِیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے تک پہنچا تھا۔
حضرت علیؓ اُسی وقت اُس کی گھات میں بیٹھ گئے تھے جب وہ مسلمانوں کے کسی بڑے سردار کو مارنے کےلیے چلا تھا۔اُس کے ساتھ ایک جماعت بھی تھی۔ حضرت علیؓ نے اُس پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا۔اُس کے ساتھ جو دوسرے لوگ تھے وہ سب فرار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے ساتھ دس آدمیوں کی ایک جماعت روانہ فرمائی جس میں حضرت ابو دجانہ ؓ اور حضرت سہل بن حُنیفؓ بھی تھے۔ ان لوگوں نے اس جماعت کو جا پکڑا جو ازبک کے ساتھی تھے اور حضرت علیؓ کو دیکھ کر بھاگ گئے تھے۔ صحابہ کی جماعت نے ان سب کو قتل کر دیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس جماعت میں دس آدمی تھے۔ صحابہ اُن کو قتل کر کے اُن کے سَر لے کر آئے جنہیں بعد میں مختلف کنووں میں ڈال دیا گیا۔ ایک قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے سَروں کو بنوختمہ کے کنووں میں پھینکنے کا حکم دیا تھا۔باقی تفصیل انشاءاللہ آئندہ بیان کروں گا۔
خطبہ ثانیہ کے بعد مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے متعلق فرمایاکہ
مجھے کسی نے بتایا ہے کہ جب آپ صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں تو کندھے سے کندھا نہیں ملایا ہوتا۔ اب جو کووڈ کا دور تھا وہ گزر گیا۔ صف بناتے ہوئے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑا ہونا چاہیے۔
٭…٭…٭