حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ میں سے خادموں کے ساتھ حسن سلوک کے واقعات
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے صحابہ اور خادموں کے ساتھ کمال حسن سلوک سے پیش آتے۔ آپؑ کادل در حقیقت ایسے عظیم جذبات سے پُر تھا جن سے آپ کی اپنے خادموں کے ساتھ بے نظیر محبت اور دلداری عیاں ہوتی ہے۔ آپ کی سیرت کے اس پہلو کی چند جھلکیاں پیش ہیں۔
ہمیں اس سے بہتر عطا فرماوے
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت صاحب تبلیغ (یعنی آئینہ کمالات کا حصہ عربی) لکھا کرتے تھے۔ مولوی نورالدین صاحبؓ تشریف لائے۔ حضرت صاحب نے ایک بڑا دو ورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت و بلاغت خداداد پر حضرت صاحب کو ناز تھا اور وہ فارسی ترجمہ کے لئے مجھے دینا تھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اورباہر سیر کو چل دیئے۔ مولوی صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی۔ واپسی پر کہ ہنوز راستہ ہی میں تھے مولوی صاحب کے ہاتھ میں کاغذ دیدیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں۔ مولوی صاحب کے ہاتھ سے وہ مضمون گرگیا۔ واپس ڈیرہ میں آئے اور بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب معمولاً اندر چلے گئے۔ میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت صاحب نے مضمون نہیں بھیجا اور کا تب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے۔ مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہو رہا ہے۔ حضرت صاحب کو خبر ہوئی تومعمولی ہشاش بشاش چہرہ،تبسم زیرِلب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر تکاپو یعنی تگ ودو، کوشش کیوں کیا گیا۔ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سےبہتر عطا فر ما ویگا۔ (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۲۶۰ –۲۶۱ )
حددرجہ نرمی کا مظاہرہ
حضور علیہ السلام کی ناراضگی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی۔ عام دنیاوی معاملات میں آپ حد درجہ حلم اور نرمی سے کام لیتے تھے۔حضرت محمد اکبر خان سنوریؓ حضور علیہ السلام کے بھی خادم تھے اور ان کی بیوی اور بیٹی حضور علیہ السلام کے گھر میں خدمت کرتی تھیں۔ حضور علیہ السلام کے گھر میں رات کو روشنی کے لیے موم بتیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ ایک دفعہ محمد اکبر خان صاحبؓ سنوری کی بیٹی حضور کے کمرے میں موم بتی جلا کر رکھ آئیں۔ کمرے میں حضور کے مسودات رکھے ہوئے تھے۔ موم بتی گری اور کاغذات نے آگ پکڑلی۔ تمام مسودات جل گئے اور کچھ اور چیزوں کا بھی نقصان ہوگیا۔ چونکہ حضور علیہ السلام اپنے مسودات نہایت احتیاط اور حفاظت سے رکھا کرتے تھے اس لیے اکبر خان صاحب، ان کی بیوی اور بیٹی کو سخت فکر اور پریشانی ہوئی کہ نہ جانے اب کیا ہوگا اور حضور علیہ السلام کس طرح پیش آئیں گے۔ مگر حضور علیہ السلام نے یہ کہہ کر معاملہ ختم کر دیا کہ شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔(سیرت مسیح موعود ؑاز حضرت یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ ۱۰۴،۱۰۳)
آپؑ کی شفقت اور محبت کا اثر
حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن دو پہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ کسی نے اس کھڑکی کو کھٹکھٹایا جو کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی۔ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تشریف لائے ہیں۔ آپؑ کے ہاتھ میں ایک طشتری ہے جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے۔ وہ حضور علیہ السلام نے مجھے دی اور حضور علیہ السلام خود واپس اندر تشریف لے گئے اور ہم سب نے بہت خوشی سے اسے کھایا۔ اس شفقت اور محبت کا اثر اب تک میرے دل میں ہے اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میرا دل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے۔( سیرت المہدی جلد دوم صفحہ ۵۷-۵۸)
الغرض یہ کوئی رسمی باتیں یا لفظی واقعات نہیں بلکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے وہ حسین عملی نمونے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ہم باہم محبت اور پیار کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین