فلسطین میں بنی اسرائیل کے دوبارہ آباد ہونے کے بارے میں قرآنی پیشگوئی
اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے:وَ قُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًا۔ (بنی اسرائیل آیت ۱۰۵)ترجمہ: اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موعودہ سرزمین میں سکونت اختیار کرو۔پس جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم پھر تمہیں اکٹھا کر کے لے آئیں گے۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ اس میں فلسطین کی سرزمین میں بنی اسرائیل یا یہود کے دوبارہ آباد ہونے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔اس مضمون میں ہم بالفور اعلامیہ تک کے حالات کا مختصر جائزہ لیں گے جب یہود یوں کو فلسطین میں آباد ہو نے کی اجازت دی گئی۔ اور یہ جائزہ لیں گے کہ کس طرح یہ پیشگوئی ایک عظیم نشان کی صورت میں پوری ہوئی۔
حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر
حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ دوسرے وعدے کے وقت پھر بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں لایا جائے گا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسرا وعدہ کوئی اَور ہے اور اس دوسرے وعدے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس دوسرے وعدے کے ساتھ کوئی پہلا وعدہ بھی ہے۔ اب ہم غور کرتے ہیں تو ان دو وعدوں کا ذکر قرآن کریم میں صرف اس طرح ملتا ہے کہ محمد ﷺ کو مثیل موسیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اور سورۃ فاتحہ میں مسلمانوں کے ایک حصہ کے متعلق یہ خبر دی ہے کہ وہ اہل کتاب کے نقش پر چلیں گے۔پس ان دونوں باتوں کو ملا کر ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی طرح دو عذاب کے وعدے مسلمانوں کے لئے بھی کئے گئے ہیں اور اس جگہ وَعْدُالْاٰخِرَۃسے مراد مسلمانوں کے دوسرے عذاب کا وعدہ ہے۔اور بتایا یہ ہے کہ مسلمانوں پر جب یہ عذاب آئے گاکہ دوسری مرتبہ ارض مقدس کچھ عرصہ کے لئے ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی تو اس وقت اللہ تعالیٰ پھر تم کو اس ملک میں واپس لے آئے گا۔چنانچہ دیکھ لو اسی طرح واقعہ ہوا ہے۔جس طرح بخت نصر کے وقت میں پہلی دفعہ ارض مقدس یہود کے ہاتھ سے نکلی(دی نیو انسائیکلو پیڈیا زیر لفظ Crusade)۔
پھر جس طرح موسیٰ سے تیرہ سو سال بعد حضرت مسیح ؑکے صلیب کے واقعہ کے بعد جبکہ وہ بظاہر اس ملک کے لوگوں کے لئے مر گئے تھے۔بنی اسرائیل کو ارض مقدس سے دوبارہ بے دخل کر دیا گیا۔اسی طرح اس زمانہ میں جب رسول کریمﷺ کی وفات پر اتنا ہی عرصہ گذرا ہے مسلمانوں کی حکومت پھر ارض مقدس سے جاتی رہی ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا تھا مسلمانوں کا یہ دوسرا عذاب یہود کے لئے ارض مقدس میں واپس آنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔
تفسیر فتح البیان کے مصنف اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وَعْدُالْاٰخِرَۃ سے اس جگہ مسیح موعود کا نزول مراد ہے۔ان علماء کا یہ قول میری تفسیر کی تائید کرتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۴۴۲تا ۴۴۳۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء)
یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ تفسیر کبیر کا یہ حصہ پہلی مرتبہ سورۃ یونس کے ساتھ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تھا۔ جیسا کہ اس حوالے میں ذکر ہے۔ اس وقت اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے آثار نظر آنے تو شروع ہوچکے تھے لیکن اب کی طرح نہ تو فلسطین میں یہود کی حکومت قائم ہوئی تھی اور اس وقت بھی وہ فلسطین میں مسلمانوں کی نسبت قلیل تعداد میں تھے۔اس وقت اس سرزمین پر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی۔
دیگر مفسرین کی تشریح
جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلان ماموریت سے فوری پہلے کے علماء بھی یہ لکھ رہے تھے کہ یہ وعدہ مسیح علیہ السلام کی دوسری بعثت کے وقت پورا ہوگا۔ چنانچہ تفسیر فتح البیان اہل حدیث کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب کی لکھی ہوئی ہے۔ اور اس آیت کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں :’’ جب دوسرا وعدہ آئے گا یعنی قیامت یا دوسری گھڑی کا۔دوسری گھڑی سے مراد دوسری دفعہ کا نفخ صور ہے جس کا وعدہ ہے۔اور یہ بھی کہا گیا کہ وعدہ آخر سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہے۔‘‘
اگر اس مکتبۂ فکر کے لوگوں کا یہی نظریہ تھا تو جب مسیح کی آمد ثانی کی دوسری بہت سی علامات کے ساتھ یہ علامت بھی پوری ہو گئی تو انہیں یہ غور کرنا چاہیے تھا کہ جس موعود مسیح نے آنا تھا وہ کہاں ہے؟ اور یہ استدلال صرف اس تفسیر تک محدود نہیں بلکہ تفسیر ابن عباس جیسی پرانی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’پھر اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اب تم اردن اور فلسطین وغیرہ میں امن سے رہو جب آخرت کا وعدہ قیامت آئے گا تو ہم تم سب کو دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کریں گے یا یہ کہ جب عیسیٰؑ آسمان سے اتریں گے تو تم سب کو اکٹھا کریں گے اور تم ان پر ایمان لائو گے۔‘‘(تفسیر ابن عباس۔اردو ترجمہ از شاہ محمد عبد المقتدر قادری ناشر فرید بک سٹال اگست ۲۰۰۵ء)
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت والے دن تم اور تمہارے دشمن اکٹھے کر کے لائے جائیں گے۔
بالآخر ارض مقدس کا وارث کون ہوگا؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ (الانبیاء:۱۰۶)ترجمہ: اور یقیناََ ہم نے زبور میں ذکر کے بعد یہ لکھ رکھا تھا کہ لازماََ موعود زمین کو میرے صالح بندے ہی ورثہ میں پائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کریمہ کی یہ لطیف تفسیر بیان فرماتے ہیں:’’ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھا ہے کہ جو نیک لوگ ہیں وہی زمین کے وارث ہوں گے یعنی ارض شام کے۔(زبور ۳۷)(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۲۶۱)
’’اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اَلْاَرْضسے مراد جو شام کی سر زمین ہے یہ صالحین کا ورثہ ہے اور جو اب تک مسلمانوں کے قبضہ میں ہے۔خدا تعالیٰ نے یَرِثُھَا فرمایا یَمْلِکُھَا نہیں فرمایا۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وارث اس کے مسلمان ہی رہیں گے اور اگر یہ کسی اور کے قبضہ میں کسی وقت چلی بھی جاوے تو وہ قبضہ اس قسم کا ہوگا جیسے راہن اپنی چیز کا قبضہ مرتہن کو دے دیتا ہے یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی عظمت ہے۔ ارض شام چونکہ انبیاء کی سرزمین ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ غیروں کی میراث ہو۔
یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ فرمایا۔ صالحین کے معنے یہ ہیں کہ کم از کم صلاحیت کی بنیاد پر قدم ہو۔‘‘(الحکم ۱۰؍نومبر ۱۹۰۲ءصفحہ۷)
واضح رہےکہ احادیث اور پرانے لٹریچر میں جب ’شام ‘ کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد آج کے ملک شام کے علاوہ فلسطین ، اردن اور دوسرے علاقے ہوتے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پُر معرفت نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس آیت کریمہ میں ’الارض‘ سے مراد انبیاء کی سرزمین ہے۔ اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ اپنی ذات میں ایک عظیم نشان ہے۔ بہت سے پرانے مفسرین مثال کے طور پر تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں ’الارض‘سے مراد عمومی طور پر زمین پر غلبہ ہی لیا گیا ہے۔اور در منثور جیسی پرانی تفسیر میں ’الارض‘سے مراد جنت کی زمین بیان کی گئی ہے۔تفسیر ابن عباس میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:’’یعنی جنت کے وارثان صرف مسلمان ہوں گے۔یا ارض سے مراد بیت المقدس ہو یعنی بنی اسرائیل اس پر قابو پائیں گے یا یہ کہ مسلمان آخر وقت میں اس کو فتح کر لیں گے۔‘‘(تفسیر ابن عباس۔اردو ترجمہ از شاہ محمد عبد المقتدر قادری ناشر فرید بک سٹال اگست ۲۰۰۵ء)
شیعہ تفسیر نمونہ مصنفہ سید صفدر حسین نجفی میں بھی ’الارض‘ کے وارث ہونے سے مراد زمین پر غلبہ لیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ حضرت امام باقرؒ کا یہ قول بھی درج ہے کہ’’وہ صالح بندے جن کا خدا نے اس آیت میں وارثان زمین کے عنوان میں ذکر کیا ہے وہ آخری زمانہ میں مہدی کے اصحا ب و انصار ہیں۔‘‘
زبور کی ایک عظیم پیشگوئی
اب زبور میں بیان کردہ ان حوالوں کی طرف آتے ہیں جن میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ نیکو کار لوگ ہی موعود زمین کے وارث ہوں گے۔
زبور کے باب ۳۷ میں لکھا ہے:’’بدکرداروں سے پریشان نہ ہو وہ جو بُرا کرتے ہیں ایسے لوگوں سے حسد نہ کر۔ بدکردار لوگ گھاس اور ہرے پودوں کی طرح جلد زرد پڑ جا تے ہیں اور مر جا تے ہیں۔ اگر تُو خداوند پر توکّل رکھے گا اور بھلے کام کرے گا تو زندہ رہے گا۔اور ان چیزوں سے لطف اندوز ہو گا۔ جو زمین دیتی ہے۔ خداوند کی خدمت میں خوشی حاصل کر تا رہ، اور خدا تجھے تیرا من چاہا دے گا۔خداوند کے بھروسے رہ۔ اس پر توکّل کر۔ وہ ویسا کر ے گا جیسے کرنا چاہئے۔ خداوند تیری صداقت اور انصاف کو دوپہر کے سورج کی طرح روشن کرے گا۔ خداوند پر توکّل کر اور اُس کی مدد کا منتظر رہ۔شریر لوگوں کی کامیابی پر پریشان مت ہو۔ شریر لوگوں کے شریر ارادوں کی کامیابی پر پریشان نہ ہو۔ قہر سے باز آ اور تشدّد کو چھوڑ دے۔تو اتنا پریشان نہ ہو کہ تو بھی بُرے کام کرنا شروع کردے۔ کیوںکہ بُرے لوگوں کو نیست و نابود کیا جائے گا۔لیکن وہ لوگ جو خداوند کو مدد کے لئے پکارتے ہیں۔اُس زمین کو پا ئیں گے جسے دینے کا خدا نے عہد کیا تھا۔ کیوں کہ تھوڑی دیر میں شریر لوگ نیست و نابود ہو جا ئیں گے۔ڈھونڈنے سے بھی تم کو کو ئی شریر نہیں ملے گا۔ حلیم لوگ وہ زمین پا ئیں گے جسے خدا نے دینے کا وعدہ کیا تھا۔وہ سلا متی سے شادماں رہیں گے۔‘‘
زبور کی یہ پیشگوئی ملاحظہ ہو
’’ اے خُداوند تیرے خیمہ میں کون رہےگا؟ تیرے کوہِ مقدس پر کون سکونت کریگا؟ وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دِل سے سچ بولتا ہے۔ وہ جو اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا۔ اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ کی بدنامی نہیں سُنتا وہ جس کی نظر میں رذیل آدمی حقیرہے پر جو خُداوند سے ڈرتے ہیں اُن کی عزت کرتا ہے۔ وہ جو قسم کھا کر بدلتا نہیں خواہ نقصان ہی اُٹھائے۔ وہ جو اپنا روپیہ سُود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا۔ ایسے کام کرنے والے کبھی جنبش نہ کھائے گا۔‘‘ (باب ۱۵)
ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی بھی دور حاضر کے یہود کے بارے میں نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اس دور میں سود لینے میں اول نمبر پر ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ اہل کتاب کے بارے میں فرماتا ہے:وَّاَخۡذِہِمُ الرِّبٰوا وَقَدۡ نُہُوۡا عَنۡہُ وَاَکۡلِہِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ ؕ وَاَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا (النساء:۱۶۲)ترجمہ: اور ان کے سود لینے کی وجہ سے حالانکہ وہ اس سے روک دیے گئے تھے۔اور لوگوں کے اموال کو ناجائز طریق پر کھانے کی وجہ سے (ان کو یہ سزا دی )۔ اور ان میں سے جو کافر تھے ان کے لئے ہم نے بہت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اس پیشگوئی کے وقت کے حالات
سورۃ بنی اسرائیل میں آخری زمانے میں ایک بار پھر ارض موعود یعنی فلسطین میں بنی اسرائیل کے دوبارہ جمع ہونے کی پیشگوئی پورا ہونے کے لیے پہلے یہ ضروری تھا کہ وہ دنیا بھر میں منتشر ہوں۔ اگر وہ ارض موعود میں ہی جمع رہتے تو دوبارہ جمع ہونے کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی ؟اور بنی اسرائیل تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف المیوں سے دوچار ہو کر مختلف ممالک میں منتشر ہوتے رہے تھے۔ اس پیشگوئی کی عظمت کے ادراک کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے یہ جائزہ لیا جائے کہ جب اس پیشگوئی کا اعلان کیا گیا تو بنی اسرائیل دنیا کے کن ممالک میں منتشر تھے اور ان کی سیاسی قوت کی کیا کیفیت تھی؟
سورۃ بنی اسرائیل مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔اس لیے ایک اندازہ یہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پیشگوئی ۶۲۳ء سے قبل مشتہر ہو چکی تھی۔ جہاں تک دنیا کے مختلف ممالک میں بنی اسرائیل کے منتشر ہونے کا تعلق ہے تو فلسطین پر رومی غلبے کے بعد یہود ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے علاوہ بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک میں بھی آباد ہونا شروع ہو گئے تھے۔دوسری صدی عیسوی سے ساتویں صدی عیسوی تک بنی اسرائیل شام اور فلسطین اور یورپ کے مذکورہ ممالک کے علاوہ بحیرہ احمر کے ساتھ عرب علاقوں کی پٹی میں، عراق، مصر اور بحیرہ روم کے ساتھ افریقہ کے ممالک میں مراکش تک آباد ہو چکے تھے۔بنی اسرائیل کا یہ diasporaبہت وسیع علاقوں میں تھا لیکن جیسا کہ ہم بعد میں جائزہ پیش کریں گے جب آخری زمانے میں بنی اسرائیل کے جمع ہونے کا وقت آیا تو یہ diaspora مزید وسیع علاقوں میں پھیل چکا تھا۔اس طرح یہ مزید پھیلاؤ اس پیشگوئی کی عظمت کو زیادہ نمایاں کرنے کا باعث بنا۔
اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس پیشگوئی سے کچھ سال قبل فلسطین میں کیا واقعات رونما ہو رہے تھے اور اس علاقہ میں کیا منظر سامنے آ رہا تھا؟ جب ۳۱۲ء میں رومی فرمانروا Constantine (قسطنطین) نے مسیحی مذہب قبول کیا تو فلسطین کا علاقہ بھی رومی سلطنت کا حصہ تھا۔اس کے بعد بہت سے مسیحی باشندوں نے اس علاقے میں آباد ہونا شروع کیا۔ اوراس مقدس زمین پر بہت سے راہب خانے قائم ہو گئے۔اس سے قبل بھی فلسطین میں یہودی آبادی کم ہو رہی تھی۔ اب چونکہ مسیحیت شاہی مذہب تھا اس لیے بہت سے بت پرست اور دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگ مسیحی مذہب میں داخل ہو گئے۔ اس طرح اب یہودی اپنی مقدس زمین میں مسیحی آبادی کی نسبت ایک اقلیت بن چکے تھے۔لیکن ان کے دل میں اپنی مقدس زمین پر غلبہ پانے کی خواہش تڑپ رہی تھی اور ساتویں صدی کے دوران ان میں یہ خیالات پیدا ہو رہے تھے کہ ان کے نجات دہندہ مسیح کی آمد کا وقت قریب ہے۔چنانچہ جب۶۰۲ء میں فارس کی ساسانی سلطنت کے فرمانروا خسرو ثانی نے رومی بادشاہ ہرقل کی سلطنت میں شامل شام اور فلسطین کے علاقوں پر حملہ کیا تو یہودیوں کو ایک موقع میسر آگیا۔انہوں نے فارس کے بادشاہ کا ساتھ دیا اور یہودی بڑی تعداد میں اس کی فوج کے ساتھ مل کر لڑے۔ ایک روایت کے مطابق ان یہودی فوجیوں کی تعداد چھبیس ہزار تھی۔ اس کے نتیجے میں ۶۱۲ء میں یروشلم پر فارس کے ساسانی بادشاہ کا قبضہ ہو گیا۔ پہلے سے طےشدہ منصوبے کے تحت فارس کے بادشاہ کے تحت یہودیوں نے یروشلم اور فلسطین کے کچھ علاقوں کا انتظام سنبھال لیا۔ لیکن مسیحی آبادی سے یہ برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے دو سال بعد ہی یہودی تسلط کے خلاف بغاوت کر دی۔فارس کی افواج دوبارہ یروشلم میں داخل ہوئیں اور علاقہ پر اپنا تسلط پھر قائم کیا۔ اس موقع پر بعض روایات کے مطابق چوبیس سے پینتالیس ہزار مسیحی لوگوں کا قتل کیا گیا اور ہزاروں کو ملک بدر کرکے عراق کے علاقے میں بھجوا دیا گیا۔بہت سے چرچ تباہ کر دیے گئے۔
یہود فارس کے بادشاہ سے درخواست کر رہے تھے کہ وہ ان کی خدمات کے عوض فلسطین کا علاقہ ان کو عطا کر دے لیکن ۶۱۷ء میں فارس کے بادشاہ نے مسیحی آبادی سے نرم سلوک شروع کیا اور فلسطین میں یہود کی دوبارہ آبادکاری روک دی گئی۔ اور یہود نے جو نئے صوامع اور یروشلم میں جو نئی قربان گاہ بنائی تھی وہ منہدم کر دیے گئے۔اس کے بعد ویسے ہی ۶۳۰ء میں مسیحی رومی فرمانروا ہرقل نے دوبارہ یروشلم پر قبضہ کر لیا اور اس بات پر پابندی لگا دی گئی کہ یہود یروشلم یا اس کے ارد گردتین میل کے علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے۔اور فلسطین کے علاقے میں یہود کی قتل و غارت کی گئی۔ اس کے نتیجے میں ارض مقدس میں ان کی تعداد بہت کم ہو گئی۔یہ تمام واقعات رسول اللہ ﷺ کی مبارک زندگی میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس قرآنی پیشگوئی کے چند سالوں بعد اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا کہ یہود دوبارہ ارض مقدس پر تسلط حاصل کریں گے۔لیکن یہ قرآنی پیشگوئی اس وقت سے اعلان کر رہی تھی کہ جب ’وَعْدُالْاٰخِرَۃ‘ کا وقت آئے گا تو پوری دنیا سے یہود ارض مقدس میں جمع ہوں گے۔
(https://unamsanctamcatholicam.com/2022/11/07/jews-and-the-sassanid-capture-of-jerusalem/. Accessed on 12th May 2024)
(Decoding a source based dilemma: The occupation of Jerusalem by Sasanids in 614 by Osman Yuksel Ozdemir)
انیسویں صدی میں یہودیوں کی حالت اور استثناء کی پیشگوئی
اب اس انیسویں صدی کے آخر کا ذکر کرتے ہیں جب یہود میں پھر سے یہ نظریہ رائج ہونا شروع ہوا کہ وہ دوبارہ فلسطین کے علاقے میں آباد ہوں۔ اس دور میں بھی یورپ کے بہت سے ممالک میں یہود کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔یوں تو بہت سے یورپی ممالک میں یہود آباد تھے لیکن خاص طور پر روس کے زار کی سلطنت میں ان کی بڑی تعداد آباد تھی اور وہ بھی دوسرے یورپی ممالک کی طرح مظالم کا نشانہ بن رہے تھے۔اس وقت یہودی بڑی تعداد میں ان ممالک سے خاص طور پر امریکہ اور بعض دوسرے ممالک کی طرف منتقل ہو رہے تھے۔عالمی سطح پر اس وقت یہود کی حالت بائبل کی کتاب استثناء کی اس پیشگوئی کے مطابق تھی۔اس پیشگوئی میں خدا بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہتا ہے:’’ اور چونکہ تُو خداوند اپنے خدا کی بات نہیں سُنے گا اِس لیے کہاں تو تم کثرت میں آسمان کے تاروں کی مانند ہو اور کہاں شمار میں تھوڑے ہی رہ جاؤگے۔ تب یہ ہو گا کہ جیسے تمہارے ساتھ بھلائی کرنے اور تم کو بڑھانے سے خداوند خوشنود ہوا ایسے ہی تم کو فنا کرانے اور ہلاک کر ڈالنے سے خداوند خوشنود ہو گا اور تم اُس ملک سے اُکھاڑ دئے جاؤ گے جہاں تُو اُس پر قبضہ کرنے کو جا رہا ہے۔ اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرےتک تمام قوموں میں پراگندہ کرے گا۔ وہاں تُو لکڑی اور پتھر کے اور معبودوں کی جن کو تُو یاتیرے باپ دادا جانتے بھی نہیں پرستش کرے گا۔ اُن قوموں کے بیچ تجھ کو چین نصیب نہ ہوگا اور نہ تیرے پاؤں کے تلوے کو آرام ملےگا بلکہ خداوند تجھ کو وہاں دل لرزان اور آنکھوں کی دھند لاہٹ اور جی کی کُڑھن دے گا۔ اور تیری جان دبدھے میں اٹکی رہے گی اور تُو رات دن ڈرتا رہے گا اور تیری زندگی کا کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔ اور تُو اپنے دلی خوف کے اور اُن نظاروں کے سبب سے جن کو تُو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا صبح کو کہے گا کہ اے کاش !کہ شام ہوتی اور شام کو کہے گا اے کاش کہ صبح ہوتی۔ اور خداوند تجھ کو کشتیوں میں چڑھا کر اُس راستہ سے مصر میں لوٹا لے جائے گا جس کی بابت میں نے تجھ سے کہا تُو اُسے پھر کبھی نہ دیکھنا اور وہاں تُم اپنے دشمنوں کے غلام اور لونڈی ہونے کے لیے اپنے بیچو گے پر کوئی خریدار نہ ہو گا۔‘‘ (استثناء باب ۲۸آیت ۲۶تا ۶۸)
ہرزل کا منصوبہ
اس پس منظر میں ۱۸۹۶ء میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل (Theodore Herzl)نے ایک کتاب جیوئش سٹیٹ (The Jewish State) شائع کی۔اس کتاب کا دیباچہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ جو نظریہ میں اس کتاب میں پیش کر رہا ہوں وہ ایک بہت پرانا نظریہ ہے یعنی ایک یہودی ریاست کی بحالی۔اس کی ضرورت بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ جہاں بھی یہودی معقول تعداد میں موجود ہیں انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اور انہیں جو قوانین میں برابری دی گئی ہے وہ محض مردہ الفاظ کی صورت میں ہے، جس پر عمل نہیں کیا جاتا۔انہیں درمیانے درجہ کے عہدوں پر بھی فائز نہیں ہونے دیا جاتا اور ان کابائیکاٹ کر کے انہیں کاروبار میں بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ہرزل یورپی ممالک میں یہودیوں پر ہونےو الے مظالم کا ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ پریس ہو یا اجتماعات ہوں، یا پارلیمنٹ ہو یا منبر ہو ہر جگہ انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کا حل یہی ہے کہ یہودیوں کو ایک خطہ زمین پر خود مختاری حاصل ہو۔جو ممالک یہودیوں پر ظلم کرنے میں پیش پیش ہیں، ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ یہودی ان کے ممالک سے نکل کر اپنے آبائی ملک منتقل ہو جائیں۔اس ریاست کے قیام کے لیے ایک سوسائٹی قائم کی جائے جو کہ یہودیوں کے لیے ایک نئے موسیٰ کا کام دے۔ اس غرض کے لیے دو ممالک کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ایک ملک ارجنٹائن تھا لیکن وہاں پر یہ مشکل پیش آگئی کہ جب وہاں پر یہودی آباد ہونا شروع ہو گئے تو مقامی آبادی میں ان کی مخالفت بڑھ گئی۔ اور دوسرا ملک جہاں یہودی اپنی ریاست قائم کرسکتے ہیں ان کا آبائی وطن فلسطین ہو سکتا تھا۔اور اس زمین سے پوری قوم کی جذباتی وابستگی بھی تھی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہرزل بیان کرتے تھے کہ جب وہ بارہ سال کے تھے تو انہوں نے ۱۸۷۲ءمیں خواب دیکھا تھا کہ ایک آنے والا مسیح ایک بزرگ ہستی کی صورت میں ان کے پاس آیا ہے اور ہرزل کو اپنے بازوئوں میں پکڑ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس لے گیا ہے۔اور کہا ہے کہ میں نے اسی بچہ کے لیے دعا کی تھی اور پھر اس ہستی نے ہرزل کو کہا کہ جائو اور یہودیوں کو بتا دو کہ میں جلد ظاہر ہوں گا اور اپنے لوگوں کے لیے اور دنیا کے لیے عظیم نشانات دکھائوں گا۔ہر کوئی اپنے ذوق اور خیالات کے مطابق اس خواب کی تعبیر کرے گا یا اسے ایک نفسیاتی خیال قرار دے گا لیکن ایک پہلو قابل غور ہے کہ یہ خواب ۱۸۷۲ء کی ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پبلک زندگی کا آغاز ہونے والا تھا۔لیکن خود ہرزل بیان کرتے تھے کہ اس خواب کے کچھ عرصہ بعد ہی میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ مسیح کی آمد سے مراد کسی شخص کی آمد نہ ہو بلکہ کوئی عظیم انقلابی واقعہ یا سائنسی دریافت ہی ہو، جس کے نتیجے میں نسل انسانی کو نجات ملے۔
(Bein Alex. Theodore Herz, A Biography.The Jewish Publication of America, 1940. P 14)
پہلی صیہونی کانگرس
بہر کیف اس کتاب کی اشاعت کے ایک سال بعد پوری دنیا کے یہودی راہنما سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں جمع ہوئے تا کہ یہودیوں کے حالات بہتر کرنے اور انہیں خاص طور پر یورپی ممالک کے مظالم سے نجات دلوانے کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جائے اور منصوبے بنائے جائیں۔اس طرح ۱۸۹۷ء میں پہلی صیہونی کانگرس (First Zionist Congress)کے موقع پر صیہونی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی۔اس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے دو سو سے زائد مندوبین شامل ہوئے۔
جب ۲۹؍گست ۱۸۹۷ء کو پہلی صیہونی کانگرس شروع ہوئی تو اس کی افتتاحی تقریر مشہور یہودی ماہر تعلیم Dr. K. Lippeکی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس کانگرس کے ساتھ فلسطین میں یہودیوں کی تیسری واپسی کا سفر شروع ہو رہا ہے لیکن اس ز مین کی طرف جس کا ان کے آباءو اجداد سے وعدہ کیا گیا تھا یہ سفر پُر امن طریق پر طے ہوگا اور ہم ترکی کے سلطان کی رضامندی سے وہاں آباد ہوں گے۔(اس وقت فلسطین ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔) اگر ترکی کے سلطان اس پر رضامند ہوجائیں تو ہم انہیں اپنا مسیحا سمجھیں گے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کانگرس میں ترکی کے سلطان کے ایک نمائندہ بھی شامل تھے۔اور اس کانگرس کے آغاز پر اس بات پر ترکی کے سلطان کے لیے قرارداد تشکر منظور کی گئی کہ ان کی سلطنت کے تحت یہودیوں سے بہت اچھا سلوک کیا جا رہا ہے۔
ان کے بعد تھیوڈر ہرزل نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ اس وقت بھی یہودی کاشتکار فلسطین میں آباد ہو رہے ہیں لیکن اگر ہر سال دس ہزار یہودی بھی فلسطین جا کر آباد ہوتے رہیں تو بھی کئی صدیوں بعد یہودیوں کی خاطر خواہ تعداد فلسطین میں جمع نہیں ہو سکے گی۔ اور ترکی کے سلطان اتنی تعداد میں نئے یہودی آبادکاروں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔اس کے بعد تھیوڈر ہرزل کو اس تنظیم کا صدر منتخب کر لیا گیا۔
ایک اَور تقریر اس وقت کے نمایاں یہودی لیڈر Max Nordauکی تھی۔ یہ اس تنظیم کے تین نائب صدور میں سے ایک تھے۔ ان کا تعلق ہنگری سے تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور اپنے وقت کے نمایاں مصنف تھے۔انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں پہلے خاص طور پر روس اور مشرقی یورپ کے ممالک میں یہودیوں سے ہونے والے امتیازی سلوک کا ذکر کیا اور پھر اس بات کا ذکر کرنے کے بعدکہا کہ گو مغربی یورپ میں یہودیوں کے بارے میں امتیازی قوانین ختم کر دیے گئے ہیں لیکن ان کے عوام کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس لیے یہودی جہاں جاتے ہیں انہیں دروازے پر لکھا ہوا ملتا ہے کہ ’یہاں یہودیوں کا داخلہ منع ہے۔‘اور یہی حال مراکش کے یہودیوں کا ہے۔
اس صورت حال سے تنگ آکر کئی یہودی اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر مسیحی مذہب اختیار کر رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کی حالت تبدیل نہیں ہوتی۔اس کے بعد انہوں نے اس وقت کے یہودیوں کی حالت کا نقشہ اس جملے میں بیان کیا: ’’اگر ایک جملے میں خلاصہ بیان کیا جائے تو اس وقت یہودیوں کی اکثریت ایک ملعون بھکاریوں کی قوم بن چکی ہے۔‘‘ اور اس کس مپرسی کا ایک نتیجہ یہ بیان کیا کہ ’’اب وہ کسی مسیح کی آمد کا انتظار نہیں کر رہے جو کسی دن انہیں عظمت کی بلندیوں پر لے جائے گا۔‘‘(The Jewish Chronicle. 3rd September 1897)
اس کے بعد مختلف ممالک میں یہود کے حالات کے بارے میں رپورٹیں پڑھی گئیں۔اور عمومی طور پر یہی اتفاق رائے پایا جا رہا تھا کہ یہودیوں کو فلسطین میں ہی آباد کرکے وہاں یہودی ریاست قائم کرنی چاہیے۔اور یہ پروگرام مرتب کیا گیا کہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قانونی وطن قائم کیا جائے۔ وہاں پر یہودی کاشتکاروںاور کاریگروں کو آباد کیا جائے اور ان اغراض کے لیے ایک بینک قائم کیا جائے۔ پوری دنیا کے یہودیوں کو ایک تنظیم کے تحت منظم کیا جائے۔اور مختلف حکومتوں سے ان اغراض کے لیے منظوریاں لی جائیں۔اور ان اغراض کے لیے ایک فنڈ بھی قائم کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کانگرس میں اس بات کا بھی ذکر آیا کہ ہزاروں سال سے یہودی ایک مسیح کا انتظار کر رہے ہیں جو انہیں دوبارہ ماضی کی عظمت دلوائے گا۔ لیکن اب کئی یہودی اس خیال کو ترک کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی دعائوں کی کتاب سے مسیح کا ذکر بھی نکال دیا ہے۔
(The Jewish Chronicle. 3rd September 1897)
ابتدائی کوششیں
بہر حال اس سمت میں کام شروع کیا گیا۔ اس وقت مختلف ممالک میں یہودیوں کے بہت سے امیر کاروباری خاندان آباد تھے مثال کے طور پر روتھس چائلڈ (Rothschild) کا گھرانہ دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔لیکن خلاف توقع شروع میں ان امیر گھرانوں نے اس منصوبے کے لیے کسی خاص گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور غریب یہودی زیادہ سرگرمی سے اس کی تائید کر رہے تھے۔خود صیہونی تنظیم میں نظریاتی اختلافات تھے۔ جن ممبران کا تعلق روس سے تھا ان میں سے بہت سے سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھے۔ اور وہ اس تنظیم کو اس سمت میں لے جانا چاہتے تھے۔ اور تھیوڈر ہرزل اور ان کے ساتھی ان نظریات کے مخالف تھے۔ بلکہ ہرزل اپنی کتاب ’جیوئش سٹیٹ ‘میں لکھ چکے تھے کہ آئینی بادشاہت ہی بہتر نظام ہے۔وہ لکھتے ہیں :
I am a staunch supporter of monarchical institutions, because these allow of a consistent policy, and represent the interests of a historically famous family born and educated to rule, whose desires are bound up with the preservation of the State.
A democracy without a sovereign’s useful counterpoise is extreme in appreciation and condemnation, tends to idle discussion in Parliaments, and produces that objectionable class of men, professional politicians. Nations are also really not fit for unlimited democracy at present, and will become less and less fitted for it in the future.
(Bein Alex. Theodore Herz, A Biography.The Jewish Publication of America, 1940. P 37)
(مفہوماً ترجمہ)میں بادشاہتوں کی روایت کا انتہائی حامی ہوں۔کیونکہ اس سے پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے اور اس سے ایسے طاقتور اور تعلیم یافتہ خاندانوں کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں جن کی تربیت ہی اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ حکمرانی کریں۔ان کی خواہشات ریاست کی بقا سے جڑی ہوتی ہیں…بادشاہت کے توازن کے بغیر جمہوریت ایک مبالغہ آمیز تعریف یا مذمت کا روپ دھار لیتی ہے اور اس کے نتیجے میں پارلیمانی اداروں میں بیکار بحثوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور پیشہ ورانہ سیاستدانوں جیسی قابل مذمت جنس پیدا ہوتی ہے۔اقوام ابھی غیر محدود جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہیں اور وقت کے ساتھ یہ مسئلہ بڑھتا ہی جائے گا۔
اب صیہونی تنظیم اور خاص طور پر ہرزل نے اس زمانے کی بڑی طاقتوں سے روابط شروع کیے۔ پہلے جرمنی کے بادشاہ سے بھی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ اس سلسلے میں یہودیوں کی مدد کریں گے۔ اور انہوں نے اس دور میں یروشلم کا دورہ بھی کیا تھا۔ لیکن آخر کار انہوں نے صرف ایک ہمدردانہ بیان داغنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔اور ترکی کےسلطان کو تیار کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ فلسطین کا علاقہ اس وقت ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا۔ ہرزل نے ترکی کے سلطان عبد الحمید سے ملاقات کرنے کے لیے کافی کوششیں کیں اور اس غرض کی ان کے بہت سے درباریوں کو نذرانے بھی دینے پڑے۔
ترکی کے سلطان سے درخواست
کافی تگ و دو کے بعد جون ۱۹۰۱ء میں اور اس کے بعد ۱۹۰۲ء میں ہرزل کی سلطان عبد الحمید ثانی اور سلطنت عثمانیہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ سلطان عبد الحمید نے ہرزل کو یقین دلایا کہ وہ یہودیوں کے دوست ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت سلطنت عثمانیہ بری طرح مقروض تھی۔اور ہرزل سلطان کو یقین دلا رہے تھے کہ صیہونی تنظیم ان قرضوں کی ادائیگی میں ان کی سلطنت کی مدد کرے گی۔ اور اگر صنعت کار یہودی ان کی سلطنت میں آباد ہوئے تو اس سے اس سلطنت کی اقتصادی حالت بہتر ہو گی۔سلطان عبد الحمید یہودیوں کو اپنی سلطنت میں آباد ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار تھے لیکن ایک جگہ جمع ہو کر نہیں اور نہ ہی اکٹھے فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے رہے تھے بلکہ ان کی مرضی یہ تھی کہ یہ یہودی مختلف مقامات پر منتشر ہو کر آباد ہوں اور باقاعدہ ان کی سلطنت کی شہریت اختیار کریں۔ سلطان کے بعض عمائدین نے ہرزل کو یہ مشورہ دیا کہ فی الحال بیروت کے ارد گرد زمینیں خرید کر آباد ہونا شروع کرو اور پھیلتے جائو اور جب ترکی کے حالات خراب ہوں تو پھر فلسطین کا مطالبہ کر لینا۔بہرحال کافی لمبی گفت و شنید کے بعد ۱۹۰۲ء میں یہ مذاکرات ختم ہوگئے اور اب صیہونی تنظیم کی امیدوں کا مرکز سلطنت برطانیہ تھی۔اس کے علاوہ طاعون کا ٹیکہ ایجاد کرنے والے یہودی سائنسدان ہیفکائن نے سر آغا خان سوم کو بھی آمادہ کیا کہ وہ سلطان ترکی سے مل کر انہیں آمادہ کریں مگر سرآغا خان سوم بھی کامیاب نہیں ہوئے۔
(Walter Laqueur. A History of Zionism. MFJ Books New york 1972, p 112-120)
حکومت برطانیہ سے روابط اور بالفور اعلامیہ
ہرزل کا انتقال ۱۹۰۴ء میں ہوا۔ اس وقت ابھی ایک یہودی ریاست قائم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔سلطنت برطانیہ کے نمایاں عہدیداروں میں سے کچھ صیہونی تنظیم سے ہمدردی رکھتے تھے۔ ایک مرحلے پر یہ پیشکش کی گئی کہ مشرقی افریقہ میں یوگنڈا کے ملک میں یہود کو اکٹھے آباد ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔لیکن اسے اس تنظیم کے قائدین کی طرف سے منظور نہیں کیا گیا۔ کچھ دیر کے لیے سائپریس کا جزیرہ بھی زیر غور آیا۔۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور دنیا کی بڑی طاقتیں دو گروہوں میں منقسم ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگئیں۔ ایک طرف جرمنی اور سلطنت عثمانیہ اور ان کے ساتھی تھے۔ اور دوسری طرف اتحادیوں کا گروہ تھا جن میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ شامل تھے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ صیہونی تنظیم کی طرف سے دونوں گروہوں سے روابط قائم کیے جا رہے تھے کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے کی حمایت کریں۔جرمنی میں وہاں پر آباد یہودیوں کا ایک گروہ بہت فعال تھا اور جرمنی کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ حکومت یہ اعلان کرے کہ ہم فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی حمایت کرتے ہیں۔ بعض مرتبہ کامیابی کے آثار نظر بھی آنے شروع ہوئے لیکن یہ کامیابی بر طانیہ میں موجود یہودیوں کے حصہ میں آنی تھی۔
یہاں پر یہودی لیڈر اور سائنسدان ویزمین (Weizmann) مستقل مزاجی سے اپنی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور انہیں یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ برطانیہ کا امیر اور با اثر گھرانہ روتھس چائلڈ (Rothschild)بھی ان کی مدد کر رہا تھا۔ویز مین برطانیہ کی لبرل پارٹی کے نمایاں سیاستدان لائڈ جارج سے رابطے میں تھے اور لائڈ جارج کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران لائڈ جارج برطانیہ کے وزیر اعظم بن گئے۔ویزمین کو یقین تھا کہ اس جنگ میں برطانیہ اور اس کے اتحادی فاتح بن کر سامنے آئیں گے اور جب محکوم ممالک کی بندر بانٹ ہوگی تو فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے زیر انتظام ہو جائے گا۔ اور یہ دونوں خیال درست ثابت ہوئے۔ اور دوسری طرف لائڈ جارج محض ہمدردی کی بنا پر ایک یہودی ریاست کی حمایت نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کا نظریہ تھا کہ جنگ کے بعد اس خطے میں نہر سویز کے قریب ایک یہودی ریاست برطانیہ کے مفادات میں ہو گی۔قصہ مختصر کہ ان رابطوں اور کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ ۲؍نومبر ۱۹۱۷ءکو برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ بالفور نے لارڈ روتھس چائلڈ کے نام ایک خط میں ان الفاظ میں اپنی حکومت کے اس ارادے کا اظہار کیا:
His Majesty’s Government view with favor the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavors to facilitate the achievement of this object.
ترجمہ: عزت مآب کی حکومت فلسطین میں یہودیوں کا ایک وطن قائم کرنے کے نظریہ کی حمایت کرتی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انتہائی درجہ کی کوششیں کی جائیں گی۔
اور اس اعلامیہ کی دیر تھی کہ ۱۹۱۸ء میں جنوبی فلسطین، یافا اور یروشلم پر برطانوی تسلط ہو چکا تھا اور صاف نظر آ رہا تھا کہ تمام فلسطین اب برطانیہ کے زیر نگیں ہو گا۔ اور اس کے ساتھ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری تیزہو گئی۔
امریکہ کی حمایت
پہلی جنگ عظیم کے ساتھ ہی امریکہ ایک عالمی طاقت بن کر سامنے آیا تھا۔ یہ ضروری تھا کہ ان کی حمایت بھی حاصل کی جائے۔ شروع میں صدر ولسن ان عزائم سے ہمدردی تو ظاہر کر رہے تھے لیکن کھلم کھلا حمایت پر آمادہ نہیں تھے لیکن پہلے ایک یہودی قانون دان Louis Brandeisکو، جو کہ صدر ولسن کے دوست تھے اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ فلسطین میں یہودی ریاست کی حمایت کریں اور پھر ان کی مدد سے صدر ولسن کو آمادہ کر لیا گیا۔
یہ امور قابل توجہ ہیں کہ اس وقت بھی تمام یہودی اس نظریہ کی حمایت نہیں کر رہے تھے۔ ان میں اختلافات موجود تھے۔ اس غرض کے لیے جو کوششیں کی گئیں وہ کسی ایک طاقت تک محدود نہیں تھیں بلکہ تمام بڑی طاقتوں مثال کے طور پر سلطنت عثمانیہ، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ کو رام کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں تا کہ جنگ میں جو بھی کامیاب ہو اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کرے۔ آخر کسی نے تو کامیاب ہونا تھا۔
(Walter Laqueur. A History of Zionism. MFJ Books Newyork 1972, p 172-190)
جیسا کہ پہلےعرض کی گئی تھی کہ اس مضمون میں ہم اس مرحلے تک تاریخی واقعات کا جائزہ لیں گے جب فلسطین پر قابض حکمران طاقت نے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی تھی۔ اس مضمون کے آخر میں ہم نہایت مختصر طور پر یہ جائزہ لیں گے کہ اس کے بعد اسرائیل کے قیام تک فلسطین کے علاقے میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب کس طرح بڑھتا رہا؟ ۱۸۷۸ء میںسلطنت عثمانیہ کی کرائی گئی مردم شماری کے مطابق فلسطین میں یہودیوں کی آبادی پانچ فیصد سے تھوڑی زائد تھی۔بالفور اعلامیہ سے قبل بھی آہستہ رفتار سے یہودی فلسطین میں منتقل ہو رہے تھے۔اس اعلامیہ کے بعد ۱۹۲۲ء میں فلسطین میں یہودی کل آبادی کا گیارہ فیصد تھے۔ اس کے بعد برطانوی حکومت نے سالانہ محدود تعداد میں دنیا کے مختلف ممالک سے یہودیوں کے فلسطین منتقل ہونے کی اجازت دی۔ اس کے نتیجے میں ۱۹۳۱ء میں یہودی آبادی سترہ فیصد کے قریب ہو چکی تھی۔۱۹۴۰ء میں یہ تناسب ۳۰ فیصد تک ہو چکا تھا۔ جب ۱۹۴۸ء میں فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ ختم ہوا تو ایک تہائی کے قریب آبادی یہودی تھی۔ چنانچہ فلسطین کی تقسیم کے ذریعے یہودی اکثریت کے علاقوں کو علیحدہ کر کے اسرائیل کا قیام ہوا اور اس کے بعد جنگ میں جس طرح عر ب آبادی کو گھروں سے نکلنا پڑا، اس کے نتیجے میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی پچاس فیصد سے اوپر کر دی گئی۔
اس طرح ان تاریخی مراحل سے گزر کر بنی اسرائیل ایک مرتبہ پھر ارض موعود میں آباد ہوئے اور قرآن مجید کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ اس کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی موجود ہے کہ دائمی طور پر اس مقدس سرزمین پر تسلط صالحین کا ہوگا۔ اور پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد درج کر دیا گیا ہے کہ اس پیشگوئی کا مصداق بننے کے لیے کم از کم صلاحیت کا معیار درکار ہے۔